532

سوال_عیدین کی نماز سنت ہے یا فرض ؟ دلائل سے وضاحت کریں…؟ کیا عید کی نماز چھوڑنے والا گناہگار ہو گا؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-249″
سوال_عیدین کی نماز سنت ہے یا فرض ؟ دلائل سے وضاحت کریں…؟ کیا عید کی نماز چھوڑنے والا گناہگار ہو گا؟

Published Date: 4-6-2019

جواب..!
الحمدللہ..!

*اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے مگر راجح بات یہی ہے کہ عید کی نماز تمام مسلمانوں پر فرض ہے کسی مجبوری کے بنا عید کی نماز چھوڑنا گناہ ہو گا*

نماز عيدين كے حكم ميں علماء كرام كے تين قول ہيں:

پہلا قول:
يہ سنت مؤكدہ ہے، امام مالك اور امام شافعى كا مسلک يہى ہے.

دوسرا قول:
يہ فرض كفايہ ہے، یعنی کچھ لوگ ادا کر لیں تو باقیوں سے حکم ساقط ہو جاتا ہے، امام احمد رحمہ اللہ كا مسلک يہى ہے.

تيسرا قول:
يہ ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا ہر مرد پر واجب ہے، اور بغير كسى عذر كے ترک كرنے پر گنہگار ہو گا، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كا مسلک يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور شوكانى رحمہما اللہ نے اسى قول كو اختيار كيا ہے.اور امام ابن قیم ،امام الصنعانی رحمھما اللہ،
شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ وغیرہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ عید کی نماز واجب ہے،
(ديكھيں: المجموع ( 5 / 5 )
( المغنى ( 3 / 253 )
(الانصاف ( 5 / 316 )
( الاختيارات ( 82 )

*ہمارے علم کے مطابق بھی تيسرے قول والوں یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرھم کا مؤقف درست ہے کہ عید کی نماز واجب ہے اور وہ اس پر کئی ایک دلائل پیش کرتے ہیں جن میں سے چند ایک دلائل درج ذیل ہیں*

*پہلی دلیل*

📚 ارشاد بارى تعالى ہے:
اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو
(سورہ الكوثر – 2 )

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى ” المغنى ” ميں كہتے ہيں:
اس كى تفسير ميں مشہور يہ ہے كہ: اس سے مراد نماز عيد ہے.

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: اس آيت سے مراد عمومى نماز مراد ہے، نہ كہ يہ نماز عيد كے ساتھ خاص ہے،
ديكھيں: تفسير ابن جرير ( 12 / 724 )
اور تفسير ابن كثير ( 8 / 502 )

لیکن ہمارے علم کے مطابق اس آيت ميں نماز عيد كے وجوب پر كوئى خاص دليل نہيں پائى جاتى اور نا ہی یہ آئیت عید کی نماز ساتھ خاص ہے،

*دوسری دلیل*

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ عورتوں كو بھى وہاں جانے كا حكم ديا.

📚ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
کہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-971)

📚امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:
ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے
(یعنی اپنی پڑوسن وغیرہ سے ادھار مانگ لے)
حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔۔؟
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 324 )
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 890 )

العواتق: عاتق كى جمع ہے، اور اس كا معنى وہ لڑكى ہے جو قريب البلوغ ہو يا بالغ ہو چكى ہو، يا پھر شادى كے قابل ہو.
ذوات الخدور: كنوارى لڑكيوں كو كہتے ہيں.

*اس حديث سے نماز عيد كے وجوب كا استدلال قوى ہے کہ جب عورتوں کو نکلنے کا حکم دیا ہے بلکہ جس کے پاس دوپٹہ نہیں وہ اپنی پڑوسن سے مانگ لے مگر عید کے لیے ضرور جائے تو مردوں کے لیے تو بالاولی حکم ہے وہ ہر صورت عید کی نماز کے لیے نکلیں*

*تیسری دلیل*

عید کی نماز پڑھنے والے کو جمعہ کی رخصت اسی وجہ سے دی گئی کہ اس نے عید کی نماز پڑھی ہے، اگر عید سنت نماز ہوتی تو کیا فرضی نماز کا حکم ساقط ہو جاتا؟

📚ایاس بن ابی رملہ شامہ کہتے ہیں،
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: ہاں،
معاویہ نے پوچھا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح کیا؟
انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1070) صحیح
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1310) صحیح

*علماء کے فتاویٰ جات*

📚شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” مجموع الفتاوى” ميں كہتے ہيں:
” ميرے خيال ميں نماز عيد فرض عين ہے، اور مردوں كے ليے اسے ترك كرنا جائز نہيں، بلكہ انہيں نماز عيد كے ليے حاضر ہونا ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قريب البلوغ اور كنوارى لڑكيوں اور باقى عورتوں كو بھى حاضر ہونے كا حكم ديا ہے، بلكہ حيض والى عورتوں كو بھى نماز عيد كے ليے نكلنے كا حكم ديا، ليكن وہ عيد گاہ سے دور رہيں گى، اور يہ اس كى تاكيد پر دلالت كرتا ہے” اھـ
(مجموع الفتاوى لابن عثيمين ( 16 / 214)

📚اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:
” دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں ” اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 )

📚اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے فرض عين ہونے كے متعلق كہتے ہيں:
دلائل ميں يہ قول ظاہر ہے، اور اقرب الى الصواب يہى ہے” اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 13 / 7 )

📚امام ابن تیمیہ نے بھی صلوٰۃ عیدین کو فرض عین ہی قرار دیا ہے۔
(مجموع الفتاویٰ ص ۱۶۱ ج ۲۳)

*ان تمام احادیث اور علمائے کرام کے فتاویٰ جات سے جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز فرض ہے*

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور دس سال پابندی کے ساتھ عیدین کی نماز پڑھتے رہے، آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی عیدین کی نماز کو بڑی پابندی اور اہتمام سے ادا کیا، ایک دفعہ بھی نماز عیدین کا ترک ثابت نہیں۔

2۔ نماز عیدین سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار مقصود ہے، اس بناء پر صلوٰۃ جمعہ کی طرح یہ بھی واجب ہے، جو لوگ بالکل اسے ادا نہ کریں وہ گناہگار ہونگے،

3۔ نماز عید کی ادائیگی اور اس دن اجتماع عظیم میں حاضری عورتوں کیلئے بھی ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن عورتوں کو باہر کھلے میدان میں نکلنے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ جس کے پاس پردے کیلئے اپنی ذاتی چادر نہیں اسے بھی حاضری کا حکم دیا گیا ہے۔

4۔ اگر جمعہ اور عیدین ایک دن جمع ہو جائیں تو جمعہ کے متعلق رخصت ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی، کہ جو عید کی نماز پڑھ لے وہ چاہے تو جمعہ نا پڑھے حالانکہ جمعہ واجب ہے، اگر صلوٰۃ عید فرض نہ ہوتی تو دوسرے فرض کو کیسے ساقط کر سکتی ہے؟
یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ صلوٰۃ عیدین دیگر نماز پنجگانہ کی طرح فرض عین ہے، اور اسکو بلا عذر چھوڑنے والا گناہگار ہے،

*خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز فرائض میں سے ہے اسکو بلا عذر چھوڑنا گناہ ہے*

________&_________

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

📚عید کی نماز کا مسنون طریقہ اور وقت اور کیا عورتیں بھی عیدگاہ میں نماز پڑھیں گی یا گھر۔۔۔؟
دیکھیں سسلسلہ نمبر-124

📚 عیدین کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی شخص عید کی نماز سے لیٹ ہو جائے کہ امام نماز پڑھا چکا ہو یا ایک رکعت پڑھ چکا ہو تو وہ نماز کیسے مکمل کرے گا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-250

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل فیس بک پیج
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں