934

سوال_ سوشل میڈیا پر احادیث کو بغیر تحقیق کے شئیر کرنا کیسا ہے؟ اور کیا رمضان یا کسی اور اسلامی مہینے کی مبارک دینے سے جنت واجب ہو جاتی ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر_242”
سوال_ سوشل میڈیا پر احادیث کو بغیر تحقیق کے شئیر کرنا کیسا ہے؟ اور کیا رمضان یا کسی اور اسلامی مہینے کی مبارک دینے سے جنت واجب ہو جاتی ہے؟

Published Date: 3-5-2019

جواب:
الحمدللہ:

*تمام قارئین سے گزارش ہے کہ جب بھی آپ کوئی میسج کوئی پوسٹ یا کوئی عبارت کہیں دیکھیں تو اسکی مکمل تخریج کریں ،اسکا حوالہ چیک کریں، جب یقین ہو جائے تو اس پر عمل کریں اور شئیر بھی کریں یہ آپکے لیے صدقہ جاریہ ہو گا، لیکن اگر کوئی پوسٹ کوئی میسج بغیر ریفرنس کے یا غلط ریفرنس کے ساتھ لکھا پائیں تو اس پر کبھی اعتبار نہ کریں،*

-کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے*

📚فرمان باری ہے:

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَتَبَـيَّـنُوۡا وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَ لۡقٰٓى اِلَيۡكُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا‌ ۚ تَبۡـتَـغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فَعِنۡدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيۡرَةٌ‌ ؕ كَذٰلِكَ كُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ فَتَبَـيَّـنُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم اللہ کے راستے میں سفر کرو تو خوب تحقیق کرلو اور جو تمہیں سلام پیش کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں، اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تو اللہ نے تم پر احسان فرمایا۔ پس خوب تحقیق کرلو، بیشک اللہ ہمیشہ اس سے جو تم کرتے ہو، پورا باخبر ہے۔
(سورہ نساء آئیت نمبر-94)

نیز فرمایا:

📚 يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔
(سورہ الحجرات، آئیت نمبر 6)

*ہمیں دین اسلام میں کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کیا گیا ہے،بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسکی تحقیق کریں اور اگر ہمیں سمجھ نا آئے تو ہم اسے علماء کے سامنے پیش کر کے اس کا حکم معلوم کریں۔*

فرمان باری تعالیٰ ہے:

📚 وَاِذَا جَآءَهُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَـوۡفِ اَذَاعُوۡا بِهٖ‌ ۚ وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ‌ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّيۡطٰنَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
(سورہ نساء آئیت نمبر-83)

📚نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (صحيح مسلم حدیث نمبر_5)
کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘

📚ایک جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ
کہ تمہارے لیے سنی سنائی باتوں کو ناپسند کیا گیا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_5975)

تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسی کسی بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے جب تک کوئی شخص اپنی بات کو قرآن کریم یا صحیح حدیث مبارکہ کے ریفرنس سے ثابت نہ کرے۔اور یہ بات تو سب کو علم ہے کہ ضعیف روایات بھی ہوتی ہیں اور موضوع بھی۔ اور خاص کر آجکل سوشل میڈیا کے دور میں اس طرح کی من گھڑت باتوں کا طوفان برپا ہے،

محدثین کرام اور صحابہ کرام حدیث کے بارے میں بڑی احتیاط کرتے تھے،
امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم میں سب سے پہلے باقاعدہ اس بارے باب باندھا ہے کہ احادیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے،اور ضعیف راویوں سے بچنا چاہیے اور اس میں کچھ روایات بھی لائیں ہیں،

📚حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے فرمایا : بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے ، پھر وہ بکھر جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے ، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا ، وہ حدیث سنا رہا تھا
(صحيح مسلم | الْمُقَدِّمَةُ : | بَابٌ :
النَّهْيُ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ وَالْاحْتِيَاطُ فِي تَحَمُّلِهَا، حدیث نمبر_1)

📚محمد بن ابی عتاب نے کہا :
مجھ سے عفان نے محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے حدیث بیان کی ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا : ہم نے نیک لوگوں( صوفیا) کو حدیث سے بڑھ کر کسی اور چیز میں جھوٹ بولنے والا نہیں پایا ۔ ابن ابی عتاب نے کہا : میں محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے ملا تو اس ( بات کے ) بارے میں پوچھا ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا : تم اہل خیر ( زہد و ورع والوں ) کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں پاؤ گے
(صحیح مسلم،مقدمہ حدیث نمبر-1)

آج بھی یہی حال ہے کہ کچھ علماء ویسے جھوٹ بولنے سے بہت پرہیز کرتے ہیں مگر احادیث بیان کرنے میں خوب تحقیق سے کام نہیں لیتے، من گھڑت ضعیف روایات بیان کرتے چلے جاتے ہیں،

میری رائے میں کسی بھی بات کو وحی یا شریعت سمجھ کر قبول نہیں کرنا چاہئے خواہ اس کے سامنے (قرآن) یا (حدیث) ہی کیوں نہ لکھا ہو، جب تک اصل سورس کا حوالہ نہ دیا جائے اور اگر وہ بات قرآن یا صحیحین کے علاوہ ہے تو جب تک محدثین سے اس کی صحت اور ضعف کا نقل نہ کیا جائے۔تب تک اسکو تسلیم نا کریں اور جب تسلی کر لیں تو اس پر عمل بھی کریں اور شئیر بھی کریں،

*آج کل رمضان کی آمد آمد ہے اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر یہ خبر عام کی جا رہی ہے اور اسے رمضان المبارک کا مبارک میسج سمجھ کر عوام بھی بڑے پیمانے پر شیئرکرتی جارہی ہے*

↩وہ میسج اس طرح سے ہے ۔

(( *مبارک ہو مئی کی فلاں تاریخ کو رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے* ۔
*حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا ! جس نے سب سے پہلے کسی کو رمضان کی مبارک دی اس پر جنت واجب ہو گئی ایک بار درود پاک پڑھ کر آگے شیئرزکریں* ))

یہ 👆 میسیج لوگوں میں اس قدر شیئر کیا گیا کہ عربی بولنے والے بھی اس سے متاثر ہوگئے اور عربی زبان میں بھی اس کا مفہوم بیان ہونے لگا

،وہ اس طرح سے ہے
(( *من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم* ))
یعنی جس نے سب سے پہلے رمضان کی خبر دی اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگئی ۔

👆 اس عربی عبارت کو لوگوں نے حدیث رسول سمجھ لیا جبکہ کسی نے وہی اردو والی بات عربی میں ترجمہ کردیا تھا یا یہ بھی ممکن ہو کہ کسی عربی بولنے والے نےپہلے عربی زبان میں اس بات کو گھڑ کر پھیلایا ہو اور پھر اسے اردو ہندی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہو
بہرکیف!
اتنا تو طے ہے کہ یہ میسج بہت ہی گردش میں ہے تبھی تو کئی زبانوں میں یہ بات مشہور ہوگئ،

اس میسج کے متعلق ہم لوگوں کو چند باتوں کی خبر دینا چاہتے ہیں

*پہلی بات*
یہ میسج جھوٹا ہے اسے کسی بے دین ملحد نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور ہمارے ایمان وعقیدے کو خراب کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان شیئر کررہاہے ۔

یاد رکھئے جو کوئی نبی ﷺ کی طرف جھوٹی بات گھڑ کر منسوب کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے

📚نبی ﷺ کا فرمان ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے،
*مَنْ كَذَبَ عَلَي مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ* جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے
(صحیح البخاري:1291)
(صحیح مسلم:933)

اور جو کوئی کہے کہ جی
مجھے تو پتا نہیں تھا میں نے کونسا جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا،

تو اسکے لیے یہ ہے کہ
جو بلاتحقیق کوئی بات آنکھ بند کرکے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں وہ بھی اس جھوٹے کے جھوٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔

📚نبی ﷺ کا فرمان ہے :​
كفى بالمرءِ كذبًا أن يُحَدِّثَ بكلِّ ما سمِع(صحيح مسلم ،5)
ترجمہ: کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے

اس لئے مسلمانوں کو سوشل میڈیا پہ آئی چیزوں کی پہلے تحقیق کرلینی چاہئے پھر اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہئے کہ آیا یہ خبر سچی یا جھوٹی ؟ تحقیق سے جو بات سچی ثابت ہوجائے اسے ہی شیئر کریں اور جس کے متعلق آپ کو معلوم نہیں یا تحقیق سے جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا تواسے ہرگز ہرگز کسی کو نہ بھیجیں،

*دوسری بات*
دین کے متعلق خوشخبری سنانے والا صرف اور صرف اللہ کے پیغمبر ہیں اور پیغمبر ہی کسی کو ڈراسکتے ہیں ۔

📚اللہ تعالی کا فرمان ہے،
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الاحزاب:45)
ترجمہ: اے نبی ! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے ۔

اس لئے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کوئی بات گھڑ کر اس پر خوشخبری سنائے ۔ بہت سارے میسج میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ میسج بیس لوگوں کو بھیجو تو مالا مال ہو جاؤ گے اور اگر نہیں بھیجا تو فقیر بن جاؤگے ۔ دوسرا فقیر ہو نہ ہو جھوٹا میسج گھڑنے والا نیکی ضائع کرکے خود فقیر و قلاش ہوگیا۔ ایسے فقیروں کا میسج بھیج آپ بھی فقیر نہ بنیں ۔ اور آج سے یہ طے کرلیں کہ بیس آدمی ،تیس آدمی کو بھیجنے والی ہربات جھوٹی ہے،

*تیسری بات* :
جنت وجہنم اللہ کی طرف سے ہے ، نبی ﷺ صرف ہمیں خبر دینے والے تھے جو بذریعہ وحی آپ کے پاس آتی تھی کہ فلاں جنتی ہے ، فلاں کام کرنے پر جنت ہے ، فلاں کام کرنے والا جہنم رسید ہوگا ۔ جب نبی ﷺ کو یہ اختیار نہیں تھا تو جو لوگ جھوٹی بات گھڑ پر جنت کی بشارت یا جہنم کی خبر دیتے ہیں کتنے بڑے مجرم ہیں ؟ آپ ایسے مجرموں کی جھوٹی خبریں شائع کرکے اس کے بدترین جرم میں شمولیت اختیار نہ کریں ۔

*چوتھی بات*
آج کل سوشل میڈیا پہ اسلام کی غلط ترجمانی کی جارہی ہے ، طرح طرح سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں ،قرآن وحدیث کا نام لیکر ہمیں دھوکا دیا جارہاہے ، جھوٹی باتوں کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے پھیلائی جارہی ہیں،اس لئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہے اور اسلام کے خلاف ہو رہی غلط ترجمانیوں کا سد باب کرنا ہے ۔ ہم سدباب کرنے کے بجائے پروپیگنڈے کو مزید ہوا دینے لگ جاتے ہیں۔ نبی ﷺ کی طرف منسوب کوئی خبر یا اسلام اور قرآن وحدیث سے متعلق کوئی بھی بات بغیر تحقیق کے آگے شیئر نہ کریں اور نہ ہی آپ کوئی ایسی بات اپنی طرف سے لکھ کر پھیلائیں جس کے متعلق آپ کو صحیح سے معلوم نہیں ،وہی بات لکھیں جو متحقق طور پر آپ کو معلوم ہے اور ساتھ میں مکمل حوالہ درج کریں تاکہ دوسروں کے لئے اس بات کی تحقیق کرنا آسان رہے،

*پانچویں بات*

آج سوشل میڈیا پر لوگ ہر پیغام اور خبر کو کو بغیر سوچے سمجھے صرف کلک کر کر کے شیئر کرتے رہتے ہیں جو کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا ہی ایک قسم ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنی کلک کی حفاظت کرنی چاہئے کہ کہیں ہم بھی جھوٹوں میں شامل نہ ہوجائیں

اور پھر جھوٹ‘ جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانا مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے،

📚 آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘ ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-10)

لہذا ہر مسلمان کو بذات خود یا حکومتی و مذہبی ذمہ دار افراد یا قابل اعتماد ذرائع ابلاغ وغیرہ کے ذریعے تحقیق و تصدیق کا ٹھوس موقف اپنانا چاہئے اور کسی بھی خبر یا پیغام کو شیئر کرنے میں جلد بازی سے بچنا چاہئے

📚کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
’’ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے ‘‘
(الحجرات : 6)​

📚اور آپ ﷺ نے بھی جلد بازی کے بارے میں فرمایا:
التَّأَنِّي مِنَ اللهِ والعَجَلَةُ مِنَالشيطانِ،
’’ کہ متانت (سوچ سمجھ کر کام کرنا) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔
(الألباني صحيح الترغيب 2677 • حسن)

لہذا کتاب و سنت کی اِن تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بغیر سوچے سمجھے کسی بھی خبر یا پیغام ( خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو) کو کلک کرکے شیئر کرنے کی جلد بازی سے بچنا چاہئے‘ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور سچے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے:

📚’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو ‘‘
(التوبة : 119)​

ہر مسلمان کو ہر وقت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی اس وعید کو یاد رکھنا چاہئے:

اللہ فرماتے ہیں
📚’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے
(الإسراء : 36)​

📚اسی طرح’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4989)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6094)

📚اور یہ بھی فرمانِ باری تعالی ہے:
وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (فرشتہ لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘
(سورہ ق آئیت نمبر : 18)

پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی گناہ کا کام نہ کرے‘کوئی بھی خبر یا پیغام بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے۔

*جھوٹی خبر پھیلانے کا عذاب*

📚نبی رحمت ﷺ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک شخص گدی کے بل چت لیٹا ہوا ہے اور ایک دوسرا شخص لوہے کا آ نکڑا لئے اسکے جبڑے کو ایک طرف چیرتا ہے یہاں تک کہ گدی تک چیر دیتا ہے اور اسکے نتھنے اور آنکھ کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ اسکے چہرے کی دوسری جانب آتا ہے اور وہی عمل کرتا ہے جو اس نے پہلی جانب کیا تھا ، ابھی وہ ایک جانب سے فارغ نہیں ہوتا کہ پہلی جانب پہلے کی طرح صحیح ہو جاتی ہے ، وہ پھر اسکی طرف آتا ہے اور وہی کچھ کرتا ہے جو پہلی مرتبہ میں کیا تھا ۔ جب آپ ﷺ نے اس دردناک سزا کا سبب دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹ بولتا جسے لوگ نقل کرتے اور وہ دنیا کے کنارے تک پہنچ جاتی ، بس اس شخص کے ساتھ قیامت کے دن تک یہ معاملہ کیا جاتا رہے،
( صحیح بخاری حدیث نمبر-7047)

لہذا اس فتنے کے دور مین فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں جیسے فتنوں سے اور ان فتنوں کی وجہ سے پھیلنے والے جھوٹ، فحاشی‘ فسادات‘ بغاوت و دہشتگردی وغیرہ سے اپنے آپ کو‘ اپنے اہل و عیال کو اور ملک و ملت کو بچانے کیلئے کتاب و سنت کی ان جامع تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

*اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں اسلام کی ہر تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنےاور ان پر عمل کرنے کی توفیق دیں،آمین*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں