764

سوال_امام مہدی کون ہیں؟ انکا نام، نسب اور علامات کیا ہیں؟ نیز کیا عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-214″
سوال_امام مہدی کون ہیں؟ انکا نام، نسب اور علامات کیا ہیں؟ نیز کیا عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں؟

Published Date:28-2-2019

جواب:
الحمدللہ:

*امام مہدی کے متعلق دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ آخری زمانے میں پائے جائیں گے اور وہ عدل کرنے والے امام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ہوں گے اور وہ معصوم نہیں جیسا کہ عیسی علیہ السلام ہیں،جن کے متعلق تواتر کے ساتھ احادیث اور نصوص آئی ہیں کہ وہ آخری زمانے میں نزول فرمائیں گے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے*

*تو ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام نبی ہیں اور امام مہدی عادل امام ہیں*

متواتر احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن عبد اللہ ہو گا ، وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے ، قرب ِ قیامت ان کا ظہور ہو گا اور وہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے پھریرے لہرائیں گے،

امام مہدی علیہ السلام کے ظہور پر احادیث صحیحہ موجود ہیں، اور انکا ظہور آخری زمانے میں ہوگا جو کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ایک نشانی ہے،

*اسکے بارے درج ذیل احادیث موجود ہیں*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری امت کے آخر میں مہدی نکلے گا اللہ تعالی اسکی وجہ سے بارش نازل فرمائے گا اور زمین اپنا سبزہ نکالے گی اور صحیح آدمی کو بھی مال دیا جا‏ئے گا اور جانور زیادہ ہونگے اور امت بہت بڑی ہوگی وہ سات یا آٹھ سال زندہ رہےگا)
(مستدرک حاکم 4/ 557-558)
امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اور امام ذہبی نے بھی انکی موافقت کی ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ سند صحیح ہے اور اسکے رجال ثقات ہیں،
( سلسلہ احادیث صحیحہ جلد نمبر 2صفحہ336 حدیث نمبر771۔)

📚علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا اللہ تعالی اسے ایک رات میں صالح بنا دے گا)
(مسند احمد 2/58 حدیث نمبر 645) تحقیق احمد شاکر ان کا کہنا ہے کہ:
اس کی سند صحیح ہے،
(سنن ابن ماجہ ،4085)
(اسے علامہ البانی نے صحیح الجامع الصغیر میں صحیح کہا ہے حدیث نمبر 6735)

📚ابن کثیر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ: یعنی اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرے گا اور اسے توفیق دے گا اور اسے الہام اور رشد وہدایت سے نوازے گا پہلے وہ اس طرح نہ تھا۔
(النہایۃ کتاب الفتن والملاحم 1/29 تحقیق طہ زینی۔)

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مہدی مجھ سے ہوگا اور اس کی پیشانی چوڑی ہوگی (پیشانی کے آگے سے بال جھڑے ہوئے ہونگے) اونچی اور لمبی ناک والا ہو گا (یعنی اس کی ناک لمبی اور پتلی اور درمیان سے اونچی ہوگی) زمین میں عدل وانصاف کو عام کرے گا جس طرح کہ وہ ظلم وزیادتی سے بھری ہوگی سات سال تک بادشاہی کرے گا)۔
(سنن ابوداؤد حدیث نمبر ،4285)
(مستدرک حاکم 4/557)
حاکم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور مسلم کی شرط پر ہے لیکن انہوں نے روایت نہیں کی
اور علامہ البانی نے صحیح کہا ہے
(صحیح الجامع میں حدیث نمبر 6736)

📚ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (مہدی میری نسل (یعنی میرے نسب اور اہل بیت) فاطمہ کی اولاد سے ہوگا)۔
(سنن ابو داوود ،4284)
(سنن ابن ماجہ ،4086)
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے۔ حدیث نمبر 6734۔

📚حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر ( قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ، وہ قیامت کے دن تک ( جس بھی معرکے میں ہو ں گے ) غالب رہیں گے ، کہا : پھر عیسیٰ ابن مریم ‌ علیہما السلام اتریں گے تو اس طائفہ ( گروہ ) کا امیر ( مہدی) کہے گا : آئیں ہمیں نماز پڑھائیں ، اس پر عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ جواب دیں گے : نہیں ، اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔ ‘ ‘
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث نمبر،156)

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز پڑھیں گے وہ ہم میں سے ہوگا،
(علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے دیکھیں صحیح الجامع الصغیر 5/219 حدیث نمبر 5796)

📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تک دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک کہ میرے اہل بیت سے اور میرا ہم نام شخص عرب پر حکمرانی نہیں کرے گا۔
(مسند احمد حدیث نمبر-3571٫3572)

📚 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن بھی باقی ہوا (اور امام مہدی نہ آئے) تو اللہ تعالیٰ اسی دن کو لمبا کر دے گا حتی کہ میری نسل سے یا میرے اہل بیت سے ایک آدمی کو مبعوث کرے گا جس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔
”(مسند الإمام أحمد : ١/٣٧٧، ٤٣٠،)
( سنن أبي داو،د : 4282)
( سنن الترمذي : 2230)
وقال : حسن صحیحٌ، وسندہ، حسنٌ)

📚سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”عنقریب فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میں کندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔ اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت أمت أمت ہو گی ۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجّال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔’
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٥٩٦، ح : ٨٦٥٨، وسندہ، صحیحٌ)
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد” اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے۔

*تو امام مہدی کے ظہور پر حدیثیں معنوی طور پر تواتر اختیار کرچکی ہیں۔ اور اسی طرح بعض آئمہ اور علماء میں سے کچـھ اقوال کا ذکر کرتے ہیں*

1_ امام ابو جعفر محمد بن عمرو بن موسیٰ بن حماد عُقَیْلی رحمہ اللہ (م : ٣٢٢ھ) فرماتے ہیں : وفي المہديّ أحادیث جید ۔ ”امام مہدی کے بارے میں عمدہ احادیث موجود ہیں۔”
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : ٣/٢٥٤)

2_ امام ابوبکراحمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ بیہقی رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٨ھ) فرماتے ہیں : والأحادیث في التنصیص علی خروج المہديّ أصحّ إسنادا ، وفیہا بیان کونہ من عترۃ النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”امام مہدی کے خروج کے بارے میں احادیث صحیح سند والی ہیں۔ ان میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امام مہدی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ہوں گے۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٤٧/٥١٧، تہذیب التہذیب لابن حجر : ٩/١٢٦)

3_ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
(٦٦١۔٧٢٨ھ)فرماتے ہیں :
والأحادیث التي یحتجّ بہا علی خروج المہديّ أحادیث صحیحۃ ۔
”جن احادیث سے امام مہدی کے خروج پر دلیل لی جاتی ہے ، وہ احادیث صحیح ہیں۔”
(منہاج السنۃ لابن تیمیۃ : ٤/٩٥)

4_ شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ(٦٩١۔٧٥١ھ) نے فرمایا:
وہذہ الأحادیث أربعۃ أقسام ؛ صحاح وحسان وغرائب وموضوعۃ ۔
”یہ احادیث چار قسم کی ہیں جن میں سے صحیح بھی ہیں ، حسن بھی ہیں ، غریب بھی ہیں اور موضوع بھی۔
”(المنار المنیف لابن القیم، ص : ١٤٨)

5_ علامہ ابو عبداللہ محمد بن جعفر بن ادریس کتانی رحمہ اللہ (١٢٧٤۔١٣٤٥ھ) اس بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد خلاصہ یوں بیان فرماتے ہیں :
والحاصل أنّ الأحادیث الواردۃ في المہديّ المنتظر متواترۃ ۔
”خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہدی منتظر کے بارے میں وارد احادیث متواتر ہیں۔”
(نظم المتناثر في الحدیث المتواتر للکتاني، ص : ٤٧)

6_ علامہ شمس الدین ابو العون محمدبن احمد بن سالم سفارینی رحمہ اللہ (١١١٤۔١١٨٨ھ) لکھتے ہیں : من أشراط الساعۃ التي وردت بہا الأخبار وتواترت في مضمونہا الآثار ۔ ”امام مہدی کا ظہور قیامت کی ان علامات میں سے ہے جن کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں اور جن کے بارے میں متواتر آثار مروی ہیں۔”
(لوامع الأنوار البہیّۃ للسفاریني : ٢/٧٠)

7_ علامہ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ (١٣٢٥۔١٣٩٣ھ) فرماتے ہیں :
وقد تواترت الأخبار واستفاضت بکثرۃ روایتہا عن المختار صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بمجيء المہديّ ، وأنّہ من أہل بیتہ ۔
”امام مہدی کے آنے اور ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہونے کے بارے میں نبی اکرم سے متواتر و مشہور احادیث مروی ہیں۔”
(الجواب المقنع المحرّر للشینقیطي،ص:٣٠)

8_ مجتہد علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: (وہ احادیث جو کہ مہدی کے خروج کے متعلق ہيں اور تواتر تک پہنچتی ہیں اگر ان سب کو دیکھنا ممکن ہوسکے تو انکی تعداد تقریبا پچاس تک ہے جن میں صحیح اور حسن اور کم ضعیف سب شامل ہیں اور وہ سب بلاشک شبہ متواتر ہیں بلکہ اصول میں جو اصطاحات لکھی گئی ہیں جو کہ اس سے کم درجہ پر ہیں ان سب پر تواتر کا وصف صادق آتا ہے، اور وہ آثار جو کہ مہدی کی صراحت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں بہت زیادہ ہیں ان کا حکم بھی مرفوع کا ہے اگرچہ اس میں اجتہاد کی کوئی مجال نہیں)۔
(دیکھیں کتاب اشراط الساعۃ: تالیف یوسف بن عبداللہ الوابل صفحہ 195-203)

اس بات کا علم بھی ضروری ہے کہ بہت سے جھوٹے لوگوں نے مہدی کے متعلق احادیث وضع کی ہیں ،اور بعض کذابوں نے کئ اشخاص کی تعیین میں بھی احادیث وضع کی ہیں کہ وہ مہدی ہیں یا پھر وہ اہل سنت والجماعت کے علاوہ کسی اور طریقے پر ہے، جس طرح کہ بہت سے دجالوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا تاکہ اللہ کے بندوں کو دھوکہ دے سکیں اور یا پھر دنیا کما سکیں اور اسلام کی اصل شکل وصورت کو بگاڑ کر پیش کریں، اور اسی طرح بہت سی تحریکیں اور انقلاب بھی اٹھے اور بعض غافل اور جاہل قسم کے لوگ ان کے ساتھ ملے لیکن یہ سب ہلاک ہوئے اور ان کا جھوٹ اور دجل اور نفاق اور کھوٹا پن ظاہر ہوا لیکن یہ سب کچھ مہدی کے متعلق اہل سنت کے اعتقادات کو کسی قسم کا نقصان اور ٹھیس نہیں پہنچاسکتا، اور مہدی لازمی اور لامحالہ آئے گا تاکہ زمین پر شریعت اسلامیہ نافذ کرے۔

_______&_________

*مرزائیوں کا یہ نظریہ ہے کہ امام مہدی عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں*

لیکن یہ بات بے دلیل ہونے اور صحیح احادیث و آثار کے خلاف ہونے کی بنا پر مردود و باطل ہے۔

📚 مشہور مفسر علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابو بکر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرما گئے تھے :
وقیل : المہديّ ہو عیسٰی فقط ، وہو غیر صحیح ، لأنّ الأخبار الصحاح قد تواترت علی أنّ المہديّ من عترۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فلا یجوز حملہ علی عیسٰی ۔
”کہا گیا ہے کہ امام مہدی ، عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ صحیح احادیث اس بارے میں تواتر کے درجے تک پہنچ گئی ہیں کہ مہدی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہوں گے، لہٰذا امام مہدی کو عیسیٰ علیہ السلام قرار دینا جائز نہیں۔’
‘(تفسیر القرطبي : ٨/١٢٢)

🚫بعض لوگ اس ضمن میں ایک ”ضعیف” روایت کا بھی سہارا لیتے ہیں کہ
‘مَا المَہْدِيُّ إِلَّا عِیسٰی’ ”عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔”
(سنن ابن ماجہ : ٤٠٣٩، )
حلیۃ الأولیاء لابي نعیم : ٩/١٦١،)
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٤٤١،)
جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البرّ : ١/١٥٥، تاریخ بغداد للخطیب : ٤/٢٢١)

لیکن یہ روایت دو وجہ سے ”ضعیف” ہے :

*پہلی وجہ*

1_ اس کا راوی محمد بن خالد الجندی ”مجہول” ہے۔
تقریب التہذیب لابن حجر، ت : ٥٨٤٩)
اس کو امام حاکم رحمہ اللہ
(تاریخ ابن عساکر : ٤٧/٥١٧)

اور امام بیہقی رحمہ اللہ (بیان خطأ للبیہقی: ٢٩٩)نے ”مجہول” کہا ہے۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے تو یہ بھی لکھا ہے:
لم یعرف بما تثبت بہ عدالتہ ویوجب قبول خبرہ ۔
”اس کی معرفت نہیں ہوئی جس کے ذریعے اس کی عدالت ثابت ہو اور اس کی حدیث کو قبول کرنا واجب ہو۔”

کسی ایک بھی ثقہ امام سے اس کی توثیق ثابت نہیں۔

البتہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اسے ”متروک”ضرور کہا ہے۔
(التمہید لابن عبد البر : ٢٣/٣٩)

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولسنا نقبل روایۃ المجہولین ۔
”ہم مجہول راویوں کی روایات قبول نہیں کرتے۔”(کتاب القراء ت للبیہقي : ١٩٧)

نیز فرماتے ہیں : ولسنا نقبل دین اللّٰہ تعالٰی عمّن لا یعرفہ أہل العلم بالحدیث بالعدالۃ ولا احتجّ بہ أحد من المتقدّمین من علماء أہل الکوفۃ ۔
”ہم اللہ کا دین ان لوگوں سے نہیں لیتے جن کی عدالت کو محدثین کرام نہیں جانتے۔ متقدمین علمائے کوفہ میں سے بھی کسی نے ایسے راویوں سے حجت نہیں پکڑی۔”
(کتاب القراء ت للبیہقي : ص ١٨٠،١٨١، تحت الحدیث : ٣٩٢)

*دوسری وجہ*

اس کی سند میں امام حسن بصری رحمہ اللہ ”مدلس” ہیں۔ انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
اس حدیث کو ائمہ حدیث نے قبول نہیں کیا جیسا کہ :
(ا) علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام نسائیaکا یہ قول ذکر کرتے ہیں : ہذا حدیث منکر ۔”یہ حدیث منکر ہے۔”
(العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : ٢/٨٦٢، ح : ١٤٤٧)
(ب) امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہذا الحدیث إن کان منکرا بہذا الإسناد ، فالحمل فیہ علی محمّد بن خالد الجنديّ ۔
”اگر یہ حدیث اس سند کے ساتھ منکر ہے تو اس کی ذمہ داری محمد بن خالد پر پڑتی ہے۔”(بیان خطأ للبیہقي : ٢٩٩)
(ج) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہو خبر منکر ۔
”یہ حدیث منکر ہے۔”(میزان الاعتدال للذہبي : ٣/٥٣٥)
(د) علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : غیر صحیح ۔ ”یہ حدیث صحیح نہیں۔”[(تفسیر القرطبي : ٨/١٢٢)
(ھ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف ۔
”یہ روایت ضعیف ہے۔”(منہاج السنۃ النبویّۃ لابن تیمیۃ : ٤/٢١١)
(و) علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وأنّہ لا یصحّ ، ولو صحّ لم یکن فیہ حجّۃ ۔ ”یہ حدیث ثابت نہیں ، اگر ثابت بھی ہو تو اس میں کوئی دلیل موجود نہیں۔”[(المنار المنیف لابن القیم : ١٤٨)
علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے اسے ”موضوع”(من گھڑت) قرار دیا ہے۔
(الفوائد المجموعۃ للشوکاني، ص : ٥١٠)

*لہذا کسی بھی صحیح حدیث میں یہ بات موجود نہیں کہ مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی ہیں بلکہ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے دونوں الگ الگ شخصیات کے نام ہیں اور مہدی امام اور عیسیٰ علیہ السلام نبی ہیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)

“کیا عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں؟ اور قرب قیامت دوبارہ نازل ہونگے؟”
(دیکھیں سلسلہ نمبر-2)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں