1,319

سوال- حضرت معاویہ(رض) کب مسلمان ہوئے؟کیا آپکے مناقب و فضائل صحیح احادیث سے ثابت نہیں؟ کیا نبیﷺ نے آپکو بد دعا دی تھی؟ نیز صحابہ و تابعین کی آپکے بارے رائے کیا تھی؟اور آپ نے اسلام کے لیے کیا کارنامے سر انجام دیئے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-208”
سوال- حضرت معاویہ(رض) کب مسلمان ہوئے؟کیا آپکے مناقب و فضائل صحیح احادیث سے ثابت نہیں؟ کیا نبیﷺ نے آپکو بد دعا دی تھی؟ نیز صحابہ و تابعین کی آپکے بارے رائے کیا تھی؟اور آپ نے اسلام کے لیے کیا کارنامے سر انجام دیئے؟

Published Date: 15-2-2019

جواب..!
الحمدللہ:

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر*
*87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166*
*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی، اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟*
*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟
اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟ اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر 205 میں ہم نے پڑھا کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟ اور حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟اور کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟اور کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟اور یہ کہ معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا خلافت صرف حضرت علی(رض) تک قائم رہی؟

آج کے سلسلے میں ہم پڑھیں گے ان شاءاللہ

*کہ معاویہ رض کب مسلمان ہوئے؟*

*کہ آپ کے اہم کارنامہ کون سے تھے؟*

*کیا آپکے فضائل و مناقب صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں؟*

*کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپکو بد دعا دی تھی؟*

*صحابہ کرام کی آپکے بارے کیا رائے تھی؟*

اب تک ہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر کی گئی تنقید کا جائزہ لیا ہے،ان پر کئے گئے تمام اعتراضات کے جواب ہم نے پڑھے، اب ہم آپ کی شخصیت کے ان مثبت پہلوؤں کا ذکر کریں گے جنہیں لوگوں نے آپ کے بغض میں دبا دیا ہے۔

پچھلے دو تین سلسلوں میں ہم نے نہایت تفصیل سے ان اعتراضات کا جائزہ لیا ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھائے گئے ہیں۔ روایات کے تجزیے میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ آپ کے خلاف یہ روایتیں کس نے ایجاد کیں اور کس مقصد کے لیے کیں؟ افسوس کہ ان روایتوں کی وجہ سے آپ کی سیرت کا مثبت پہلو پس منظر میں چلا گیا ہےاور گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی پوری عمر سیاسی جوڑ توڑ، خانہ جنگیوں اور سازشوں ہی میں گزری۔ مناسب ہو گا کہ اگر ہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت سے متعلق روایات بھی پیش کر دیں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ان جلیل القدر صحابی کی اصل شخصیت کیسی تھی اور کیا ان جعلی روایتوں میں بیان کردہ کردار آپ سے منسوب کرنے کا ذرہ برابر بھی امکان باقی رہ جاتا ہے؟

📚حضرت معاویہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں معلوم و معروف ہے کہ آپ قریش کے سردار حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے بیٹے تھے۔ آپ کی پیدائش بعثت نبوی سے پانچ برس پہلے ہوئی۔ ہجرت نبوی کے وقت آپ اٹھارہ برس کے نوجوان تھے۔ آپ کے والد ابوسفیان کے اپنے گھر میں بالکل ابتدائی سالوں ہی میں داخل ہو گیا۔ حضرت معاویہ کی بڑی بہن سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہما بالکل ابتدا ہی میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ میں شامل ہیں۔ آپ کو دو مرتبہ ہجرت کرنے کا شرف حاصل ہے، ایک بار حبشہ اور دوسری مرتبہ مدینہ۔یقینی طور پر سیدہ کے ایمان، دعوت اور قربانی کا اثر ان کے دیگر بہن بھائیوں پر بھی پڑا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جنگ احد اور جنگ خندق میں کفار کی قیادت اگرچہ حضرت ابو سفیان نے کی لیکن حضرت معاویہ اور ان کے بڑے بھائی یزید رضی اللہ عنہما کا اس موقع پر کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی اسلام سے مخالفت کے بارے میں بھی واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ابو جہل اور ابو لہب جیسا کمینہ پن نہیں تھا اور انہوں نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی سطح پر تکلیف نہیں پہنچائی۔ مکی زندگی کے 13 سالوں میں بھی ان کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچی۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بظاہر فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا لیکن آپ صلح حدیبیہ کے وقت ایمان لا چکے تھے۔

📚اس بات کی تائید ابن عساکر کی بیان کردہ اس حدیث سے بھی ہوتی ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن عصر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گیا۔ آپ اس وقت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’انس! فاطمہ کے گھر جائیے۔‘‘ آپ نے مجھے چار کیلے عطا فرمائے اور فرمایا: ’’ایک حسن کے لیے ہے، ایک حسین کے لیے اور دو فاطمہ کے لیے۔ پھر واپس میرے پاس آئیے۔‘‘

جب میں واپس آیا تو ام حبیبہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! آپ عام قریش میں سے اپنے ان صحابہ کو فضیلت دیتے ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے (حدیبیہ کے مقام پر) آپ کی بیعت کی اور میرے بھائی (معاویہ) پر بھی فخر کرتے ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’کسی کو بھی ہرگز ایک دوسرے کے مقابلے میں فخر جتلانا نہیں چاہیے۔ معاویہ نے بھی اسی طرح بیعت کی تھی جیسا کہ دوسروں نے کی۔‘‘

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ آپ مسجد کے دروازے پر بیٹھ گئے۔ ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’ابو بکر!‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’میں حاضر ہوں، یا رسول اللہ۔‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ کو یاد ہے کہ درخت کے نیچے کس شخص نے سب سے پہلے میری بیعت کی تھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’میں نے، یا رسول اللہ! اور پھر عمر اور علی بن ابی طالب نے۔‘‘ عثمان نے اپنا سر اٹھایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکر! عثمان جب غائب تھے، تو میں ہی عثمان (کا قائم مقام) تھا۔ عثمان جب غائب تھے، تو میں ہی عثمان (کا قائم مقام) تھا۔‘‘ ابوبکر ہنس پڑے تو عثمان نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! علی، طلحہ، زبیر، سعد، سعید، عبدالرحمن بن عوف اور ابوعبیدہ بن جراح بھی تو تھے۔‘‘

حضور نے فرمایا: ’’اور کون تھا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’یہی سب لوگ تھے اور ہم تھے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’معاویہ کہاں گئے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’وہ تو ہمارے ساتھ موجود نہیں تھے۔‘‘ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس نے مجھے برحق نبی بنایا، معاویہ بن ابی سفیان نے بھی یقیناً اسی طرح بیعت کی تھی جیسے آپ لوگوں نے کی تھی۔‘‘ ابوبکر نے عرض کیا: ’’اس بات کا ہمیں تو علم نہیں ہے، یا رسول اللہ۔‘‘
فرمایا: ’’اس وقت وہ اللہ کے قبضے میں تھے۔ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، سعید، عبدالرحمن بن عوف، ابو عبیدہ بن جراح اور معاویہ بن ابی سفیان اسی قبضے میں تھے۔ انہوں نے اسی طرح بیعت کی، جیسا کہ آپ لوگوں نے کی اور اسی طرح خیر خواہی کی جیسا کہ آپ لوگوں نے کی۔ اللہ نے انہیں بھی اسی طرح بخش دیا ہے جیسا کہ آپ لوگوں کی مغفرت فرمائی ہے اور آپ ہی کی طرح انہیں بھی جنت کا حق دار بنایا ہے۔
( ابن عساکر۔، 59/105)

*اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت رضوان کے موقع پر حضرت معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی طریقے سے بیعت کی تھی۔ یا تو آپ خفیہ طور پر حاضر ہوئے ہوں گے یا پھر کسی کے ہاتھ پیغام بھیجا ہو گا کہ ان کا دل آپ کے ساتھ ہے یا پھر اللہ تعالی ہی نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اہل مکہ کے بارے میں بتا دیا ہو گا جو دل سے اسلام کے ساتھ تھے*

📚جب سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا شوہر حبشہ میں عیسائی ہو گیا تھا اور وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا اور بادشاہ حبشہ نجاشی رضی اللہ عنہ نے ان کا نکاح کر کے انہیں مدینہ روانہ کیا۔ یہ وہی وقت ہے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں ایمان نے گھر کر لیا۔ اس واقعے سے حضرت ابو سفیان اور ان کی اہلیہ ہندہ رضی اللہ عنہما بھی بہت متاثر ہوئے اور اس شادی کے بعد انہوں نے کبھی اسلام کی مخالفت نہیں کی۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ پورا گھرانہ ایمان لایا۔ اس کے بعد حضرت ابوسفیان اور ان کے بیٹے جنگ حنین میں مسلمانوں کی طرف سے شریک رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نجران کا گورنر مقرر کیا۔ دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مستقل طور پر مدینہ آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا کاتب (سیکرٹری) مقرر کیا۔ آپ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرح مستقلاً حضور کی خدمت میں رہتے تھے اور قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے۔

*صحابی ابن صحابی، کاتب وحی اور امین وحی، مؤمنوں کے ماموں، سیدنا و محبوبنا ابوعبدالرحمٰن، معاویہ بن ابوسفیان بن حرب، قرشی، اموی بے شمار فضائل و مناقب کے حامل ہیں*

📚تبع تابعی ابواسامہ حماد بن اسامہ رحمہ اللہ (م : 201ھ) سے پوچھا گیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ زیادہ فضیلت والے ہیں یا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ
؟ تو انہوں نے فرمایا :
أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقاس بهم أحد .
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے کسی کا بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔“
[الشريعة للآجري : 2011، جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر : 229/2، وسنده صحيح ]

📚ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ما زال بي ما رأيت من أمر الناس فى الفتنة، حتٰي إني لـأتمنٰي أن يزيد الله عز وجل معاوية من عمري فى عمره .
’’فتنے کے دور میں لوگوں کے جو حالات میں دیکھتی رہی، ان میں ہمیشہ میری یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر، معاویہ رضی اللہ عنہ کو لگا دے۔“
[الطبقات لأبي عروبة الحراني، ص : 41، وسنده صحيح]

*سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بہت سے فضائل صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ سب سے بڑی فضیلت و منقبت توشرف صحابیت ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہ ہو تو بھی یہی فضیلت کافی ہے، کیونکہ ہر ہر صحابی کی الگ الگ معین فضیلت ثابت نہیں۔ صحیح احادیث میں معدودے چند صحابہ کرام کی معین فضیلت مذکور ہے۔ ایسا نہیں کہ باقی صحابہ کرام کی کوئی فضیلت تھی ہی نہیں۔ لہٰذا صرف صحابی ہونا ہی فضیلت کے لیے کافی ہے*

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بھی سب سے بڑی فضیلت ان کا صحابی رسول ہونا ہے۔ یہ ایک عمومی فضیلت ہے، اس کے علاوہ صحیح احادیث سے آپ کے کئی خصوصی فضائل بھی ثابت ہیں۔

🚫بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا انکار کرنے کے لیے امام نسائی رحمہ اللہ کی شہادت کے قصے سے دلیل لیتے ہیں، جس میں مذکور ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی نفی کی، لیکن یہ واقعہ باسند صحیح ثابت نہیں۔ اس کی سند میں ’’ مجہول“ اور غیر معتبر راوی موجود ہیں، لہٰذا ایسی بے سروپا روایات کا کوئی اعتبار نہیں۔

🚫اسی طرح امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی طرف یہ قول منسوب ہے :
لا يصح عن النبى صلى الله عليه وسلم فى فضل معاوية بن أبي سفيان شيئ .
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی فضیلت میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“
(تاريخ دمشق لابن عساكر : 105/59)
(سير أعلام النبلاء للذهبي : 132/3 )

لیکن یہ قول ثابت نہیں ہو سکا، کیونکہ اس کی سند میں ابوالعباس اصم کے والد یعقوب بن یوسف بن معقل،، ابوفضل، نیشاپوری کی توثیق نہیں ملی۔
بعض کتب میں اس سند سے ابوالعباس اصم کے والد کا واسطہ گر گیا ہے۔

*آئیے صحیح احادیث کی روشنی میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ملاحظہ فرمائیں*

*سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور کتابت ِ وحی*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ :
ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك؟
’’ کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب مقرر فرمائیں گے ؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جی ہاں۔“
(صحيح مسلم : 304/2، ح : 2501)

📚ایک روایت میں ہے :
وكان يكتب الوحي .
’’ آپ کاتب وحی تھے۔“
(دلائل النبوة للبيهقي : 243/6، وسنده صحيح)

📚تبع تابعی، شیخ الاسلام، معافی بن عمران رحمہ اللہ (م : 186/185 ھ) فرماتے ہیں :معاوية، صاحبه، وصهره، وكاتبه، وأمينه علٰي وحي الله .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، آپ کے سالے، آپ کے کاتب اور، اللہ کی وحی کے سلسلے میں آپ کے امین تھے۔“
[تاريخ بغداد للخطيب : 209/1،)
( تاريخ ابن عساكر : 208/59،)
( البداية والنهاية لابن كثير : 148/8، وسنده صحيح]

📚حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (571-499 ھ) فرماتے ہیں :
وأصح فى فضل معاوية حديث أبي جمرة عن ابن عباس، أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم منذ أسلم .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اصح حدیث ابوجمرہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جب سے اسلام لائے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے۔“
[البداية والنهاية لابن كثير : 128/8 ]

📚امام ابومنصور معمر بن احمد، اصبہانی رحمہ اللہ (م : 428 ھ)۔ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وأن معاوية بن أبي سفيان كاتب وحي الله وأمينه، ورديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخال المؤمنين رضي الله عنه .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی الٰہی کے کاتب و امین ہونے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سواری پر سوار ہونے اور مؤمنوں کے ماموں ہونے کا شرف حاصل ہے۔“
[الحجة فى بيان المحجة للإمام قوام السنة أبي القاسم إسماعيل بن محمد الأصبهاني : 248/1، وسنده صحيح ]

📚علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (م : 620 ھ) مسلمانوں کا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں :
ومعاوية خال المؤمنين، وكاتب وحي الله، وأحد خلفاء المسلمين .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مؤمنوں کے ماموں، کاتب وحی الٰہی اور مسلمانوں کے ایک خلیفہ تھے۔
“ [لمعة الاعتقاد، ص : 33]

*پہلے بحری بیڑے کی کمان اور جہاد فی سبیل اللہ*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے :
أول جيش من أمتي يغزون البحر، قد أوجبوا
’’ میری امت میں سے پہلا گروہ جو سمندری جہاد کرے گا، انہوں نے (مغفرت و جنت کو) واجب کر لیا۔“
[صحيح البخاري : 410/1، ح : 2924 ]

📚شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) فرماتے ہیں :
وقوله : قد أوجبوا، أى فعلوا فعلا، وجبت لهم به الجنة .
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ انہوں نے واجب کر لیا، کی مراد یہ ہے کہ انہوں نے وہ کارِ خیر سرانجام دیا، جس کی بنا پر ان کے لیے جنت واجب ہو گئی۔
“ [فتح الباري : 103/6]

📚سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابنة ملحان، فاتكأ عندها، ثم ضحك، فقالت : لم تضحك يا رسول الله؟ فقال : ناس من أمتي يركبون البحر الـأخضر فى سبيل الله، مثلهم مثل الملوك على الـأسرة .
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن (سیدہ ام حرام ) بنت ِ ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، (اسی حالت میں سو گئے ) پھر آپ (بیدار ہوئے اور ) مسکرائے۔ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں مسکرائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں کچھ لوگ جہاد کے لیے سبز سمندر میں سفر کریں گے۔ وہ تختوں پر براجمان بادشاہوں کی طرح ہوں گے۔“
[ صحيح البخاري : 403/1، ح : 2877، 2878، )
(صحيح مسلم :142-141/2،ح :1912]

صحیح مسلم میں ہے کہ اس سمندری جہاد کی سعادت و قیادت اور فضیلت بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی۔ اس بات پر امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ پہلا لشکر جس نے بحری جہاد کیا، اس کے کمانڈر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث سے آپ رضی اللہ عنہ کی منقبت و فضیلت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ ثابت ہوا کہ یقیناً آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کی سند حاصل ہے۔

📚 امامِ اندلس، علامہ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463-368 ھ) فرماتے ہیں :
وفيه فضل لمعاوية رحمه الله، إذ جعل من غزا تحت رايته من الـأولين، ورؤيا الـأنبياء، صلوات الله عليهم، وحي .
’’ اس حدیث میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بوحی الٰہی) ان کی کمان میں جہاد کرنے والوں کو اولین قرار دیا ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے خواب وحی ہی ہوتے ہیں۔“
[التمهيد لما فى المؤطإ من المعاني والأسانيد : 235/1 ]

*سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں*

📚 سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوعمیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا : اللهم اجعله هاديا مهديا، واهده، واهد به، ولا تعذبه .
’’ اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ بنا۔ ان کو بھی ہدایت دے اور ان کے ذریعے لوگوں کو بھی۔ ان کو عذاب سے بچا۔“
[مسند الإمام أحمد : 216/4،)
(سنن الترمذي : 3842، وقال : حسن غريب، )
(التاريخ الكبير للبخاري : 240/5)
( الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم : 1129،) (الشريعة للآجري : 1914، والسياق له، تاريخ بغداد للخطيب : 208-207/1، وسنده حسن]

📚سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كنت ألعب مع الصبيان، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتواريت خلف باب، قال : فجائ، فحطأني حطأة، وقال : ’اذهب، وادع لي معاوية‘، قال : فجئت، فقلت : هو يأكل، قال : ثم قال لي : ’اذهب، فادع لي معاوية‘، قال : فجئت، فقلت : هو يأكل، فقال : ”لا أشبع الله بطنه “ .
’’ میں بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ) میرے کندھوں کے درمیان تھپکی لگائی اور فرمایا : جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ فرمایا کہ جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں دوبارہ گیا تو وہ ابھی کھانا ہی کھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کے پیٹ کو نہ بھرے۔“
[صحيح مسلم : 325/2، ح : 2604]

*یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتی ہے۔ اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام بطور بددعا نہیں تھا، بلکہ بطور مزاح اور بطور تکیہ کلام تھا۔ کلامِ عرب میں ایسی عبارات کا بطور مزاح یا بطورِ تکیہ کلام استعمال ہونا ایک عام بات ہے۔ عربی لغت و ادب کے ادنیٰ طلبہ بھی اس سے واقف ہیں*

📚 مشہور لغوی، شارحِ مسلم، حافظ یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (676-631 ھ) فرماتے ہیں :
إن ما وقع من سبه ودعائه ونحوه، ليس بمقصود، بل هو مما جرت به عادة العرب فى وصل كلامها بلا نية، كقوله : ”تربت يمينك“، ”وعقرٰي حلقٰي‘، وفي هٰذا الحديث : ”لا كبرت سنك“، وفي حديث معاوية : ”لا أشبع الله بطنه“، ونحو ذٰلك، لا يقصدون بشيئ من ذٰلك حقيقة الدعاء .
’’ بعض احادیث میں (صحابہ کرام کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بددعا وغیرہ منقول ہے، وہ حقیقت میں بددعا نہیں، بلکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جو عرب لوگ بغیر نیت کے بطور تکیہ کلام بول دیتے ہیں۔ (بعض احادیث میں کسی صحابی کو تعلیم دیتے ہوئے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ تربت يمينك (تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو)، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ) عقرى حلقي (تو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو)، اس حدیث میں یہ فرمان کہ لا كبرت سنك (تیری عمر زیادہ نہ ہو) اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ لا اشبع الله بطنه (اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے )، یہ ساری باتیں اسی قبیل سے ہیں۔ ایسی باتوں سے اہل عرب بددعا مراد نہیں لیتے۔“
[شرح صحيح مسلم: 152/16]

📚 مشہورلغوی، ابومنصور، محمد بن احمد، ازہری (م : 370 ھ) ایسے کلمات کے بارے میں : مستند لغوی ابوعبید سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهٰذا علٰي مذهب العرب فى الدعائ على الشيئ من غير إرادة لوقوعه، لا يراد به الوقوع .
’’ ایسی باتیں عربوں کے اس طریقے کے مطابق ہیں، جس میں وہ کسی کے بارے میں بددعا کرتے ہیں لیکن اس کے وقوع کا ارادہ نہیں کرتے، یعنی بددعا کا پورا ہو جانا مراد ہی نہیں ہوتا۔“
[تهذيب اللغة : 145/1]

📚شارحِ صحیح بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م : 449 ھ) اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هي كلمة لا يراد بها الدعائ، وإنما تستعمل فى المدح، كما قالوا للشاعر، إذا أجاد، : قاتله الله، لقد أجاد .
’’ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔ اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قاتله الله ”اللہ تعالیٰ اسے مارے“، اس نے عمدہ شعر کہا ہے۔“
[شرح صحيح البخاري : 329/9]

📚صحیح مسلم کی یہ حدیث اسی معنی و مفہوم کی مؤید ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :‘ .
’’ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کے ہاں ایک لڑکی، تھی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا : یہ تو ہے ؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے۔ تیری عمر بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر وہ لڑکی روتی ہوئی سیدہ ام سلیم کی طرف دوڑی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا : بیٹی ! تجھے کیا ہوا ؟ اس نے عرض کیا : میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرما دی ہے کہ میری عمر نہ بڑھے۔ اب تو میری عمر کبھی نہیں بڑھے گی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی چادر زمین پر گھسیٹتے ہوئے گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام سلیم ! آپ کو کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ نے اس لڑکی کے لیے بددعا فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بات کیا ہے ؟ عرض کیا : لڑکی کہتی ہے کہ آپ نے اس کو یہ بددعا دی ہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ام سلیم ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط منظور کرائی ہے اور دُعا کی ہے کہ میں ایک انسان ہوں، انسانوں کی طرح راضی بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ لہٰذا جس کے لیے بھی میں بددعا کر دوں جس کا وہ مستحق نہ ہو، تو اس بددعا کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور طہارت بنا دے، نیز اس بددعا کو روزِ قیامت اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“
[صحيح مسلم : 2603]

*اب کوئی بتائے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو کسی ناراضی یا غصہ کی بنا پر یہ الفاظ کہے تھے، جو اس لڑکی اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے لیے پریشانی کا سبب بھی بن گئے ؟ اور کیا ان الفاظ سے اس لڑکی کی کوئی تنقیص ثابت ہوتی ہے ؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ یہ الفاظ بطور بددعا نہیں تھے اور ایسے الفاظ یقیناً سننے والے کے لیے بسا اوقات پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر دی کہ اللہ تعالیٰ ایسے الفاظ کو مخاطبیں کے لیے اجر و ثواب اور اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے*

امام مسلم رحمہ اللہ نے اسی حدیث کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ : لا اشبع الله بطنه ’’ اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے۔“
یوں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے باعث تقرب الٰہی اور باعث منقبت و فضیلت ہیں۔ علمائے اہل سنت و اہل حق کا یہی فہم ہے۔

📚اسی لیے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
فركب مسلم من الحديث الـأول، وهٰذا الحديث فضيلة لمعاوية .
’’ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو پہلی حدیث کے متصل بعد ذکر کیا ہے۔ یوں اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔“
[البداية والنهاية : 120-119/8]

📚وکیل صحابہ، شارحِ صحیح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631 ھ) فرماتے ہیں :
وقد فهم مسلم رحمه الله من هٰذا الحديث أن معاوية لم يكن مستحقا للدعائ عليه، فلهٰذا أدخله فى هٰذا الباب، وجعله غيره من مناقب معاوية، لأنه فى الحقيقة يصير دعاء له .
’’ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ فہم لیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بددعا کے مستحق نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا ہے۔ امام مسلم کے علاوہ دیگر اہل علم نے بھی اس حدیث کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں شامل کیا ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ حقیقت میں ان کے لیے دُعا بن گئے تھے۔“
[شرح صحيح مسلم : 156/16]

یہ تو بات تھی ان الفاظ کے بارے میں جو بطور مدح وتکیہ کلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے صادر ہوئے تھے، جبکہ معاملہ اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کرام کے لیے بتقاضائے بشریت حقیقی بددعا کر دی، اللہ تعالیٰ نے اس بددعا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ان کے لیے باعث رحمت بنا دیا،

📚جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے :
اللهم ! إنما أنا بشر، فأيما رجل من المسلمين سببته، أو لعنته، أو جلدته، فاجعلها له زكاة ورحمة
’’ اے اللہ ! میں ایک بشر ہوں، لہٰذا مسلمانوں میں سے جس شخص کو میں برا بھلا کہوں یا اس کے لیے بددعا کروں یا اسے ماروں تو ان چیزوں کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنا دے۔“
[صحيح مسلم : 89/2601]

📚 ایک روایت (صحيح مسلم : 91/2601) میں یہ الفاظ ہیں :
’’ اے اللہ ! بلاشبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بشر ہیں، انہیں انسانوں کی طرح غصہ آ جاتا ہے۔ میں نے تجھ سے ایسا وعدہ لیا ہوا ہے، جس کو تو نہیں توڑے گا۔ وہ یہ ہے کہ جس مؤمن کو میں تکلیف دوں یا اسے برا بھلا کہوں یا اسے ماروں، تو ان چیزوں کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے اور روزِ قیامت دے ان چیزوں کو اس کے لیے اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“

📚سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
’’ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کی میں وہ بات سمجھ نہیں پائی۔ ان کی بات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا۔ آپ نے ان کو برا بھلا کہا اور بددعا دی۔ جب وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اتنی تکلیف بھی کسی کو پہنچی ہو گی جتنی ان کو پہنچی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا مطلب ؟ میں نے عرض کیا : آپ نے انہیں برا بھلا کہا اور بددعا دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ کو وہ شرط معلوم ہے جو میں نے اپنے رب پر رکھی ہے ؟ میں نے اپنے رب سے یہ شرط رکھی ہے کہ اے اللہ ! میں ایک بشر ہوں، لہٰذا جس مسلمان کو میں بددعا دوں یا برا بھلا کہوں، تو اسے اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور اجر کا باعث بنا دے۔
“ [صحيح مسلم : 2600]

ثابت ہوا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے میں کسی صحابی کے لیے حقیقی بددعا بھی کر دی تو وہ بھی اس صحابی کے لیے اجر و ثواب اور مغفرت و تقرب الٰہی کا باعث بن گئی۔ چہ جائیکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کی کوئی دلیل بھی نہیں۔

اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاخیر کی بنا پر غصے میں یہ الفاظ کہے تو بھی ہماری ذکر کردہ احادیث کی روشنی میں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت اور تقربِ الٰہی کی بین دلیل ہیں۔

📚اس حدیث کا سیاق بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت پر دلالت کرتا ہے، مسند طیالسی ( 2869، وسندہ صحیح ) میں اسی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بعث إلٰي معاوية، يكتب له .
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کے لیے وحی کی کتابت کریں۔“

یعنی اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا ثابت ہو رہا ہے، جو کہ باجماعِ امت بہت بڑی فضیلت و منقبت اور شرف ہے۔

📚اسی لیے :
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (571-499 ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
وأصح ما روي فى فضل معاوية .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں مروی سب سے صحیح حدیث یہی ہے۔“
[تاريخ دمشق : 106/59، البداية والنهاية لابن كثير : 131/8]

📚مشہور عالم، علامہ، ناصرالدین، البانی رحمہ اللہ (1420-1332 ھ) فرماتے ہیں :
وقد يستغل بعض الفرق هٰذا الحديث، ليتخذوا منه مطعنا فى معاوية رضي الله عنه، وليس فيه ما يساعدهم علٰي ذٰلك، كيف؟ وفيه أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم؟
’’ بعض گمراہ فرقے اس حدیث کو غلط استعمال کرتے ہوئے اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کی تائید کرتی ہو۔ اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کیسے ثابت ہو گی، اس میں تو یہ ذکر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ِ وحی تھے ؟۔“
[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها : 82]

اتنی تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث کی فضیلت کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت کی دلیل نہ مانے تو اس سے بڑا ظالم اور جاہل کوئی نہیں۔

📚سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا :اللهم ! علمه الكتاب والحساب، وقه العذاب .
’’ اے اللہ ! انہیں قرآنِ کریم کی تفسیر اور حساب سکھا دے اور ان کو عذاب سے بچا لے۔“
(مسند الإمام أحمد : 127/4،)
( الشريعة للآجري : 1973-1970، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1938) اور امام ابن حبان (7210) نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
اس کا راوی حارث بن زیاد شامی جمہور کے نزدیک ’’ حسن الحدیث“ ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
للحديث شاهد قوي . ’’ اس حدیث کا ایک قوی شاہد بھی موجود ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 124/3]

*حضرت معاویہ کے بارے میں ان کے ہم عصروں کی رائے کیا تھی؟*

یہاں ہم وہ چند آراء درج کرر ہے ہیں جن کا اظہار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے معاصرین یا ان کے قریبی لوگوں نے ان کے بارے میں کیا ہے:

📚ایک بار حضرت عمر کے سامنے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی برائی کی گئی تو آ پ نے فرمایا: “قریش کے اس جوان کی برائی مت کیا کریں جس کے سامنے غصہ کیا جائے تو وہ ہنس پڑتا ہے (یعنی انتہا درجے کا حلیم اور بردبار ہے۔) جو کچھ اس کے پاس ہے ، وہ اس سے اس کی مرضی کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر اس کے سر کی چیز حاصل کرنا ہو تو اس سے اس کے قدموں کے نیچے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی نے فرمایا: “آپ لوگ قیصر و کسری اور ان کی سیاست اور حسن انتظام کی تعریف کرتے ہیں حالانکہ خود آپ میں معاویہ موجود ہیں۔
(طبری۔ 4/1-133)

📚حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند مت کرو۔ اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے۔‘
(ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850)
(ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)

📚حضرت قبیصہ بن جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “میں کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو معاویہ سے بڑھ کر حلیم، ان سے بڑھ کر سیادت کا لائق ، ان سے زیادہ باوقار، ان سے زیادہ نرم دل اور نیکی کے معاملے میں ان سے زیادہ کشادہ دل ہو۔”
(ابن عساکر ۔ 59 / 178,191 )

📚حلم و بردباری (سیلف کنٹرول) میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات ضرب المثل بن گئی ہے۔ آپ خود اپنا اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “جہاں میرا کوڑا کام دیتا ہے، وہاں میں تلوار کو کام میں نہیں لاتا۔ جہاں زبان کام دیتی ہے، وہاں کوڑا کام میں نہیں لاتا۔ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان کچے دھاگے جیسا تعلق بھی ہو، تو اسے ٹوٹنے نہیں دیتا۔ جب لوگ کھینچتے ہیں تو میں ڈھیل دیتا ہوں اور جب وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں۔
(ابن عساکر۔59/173)

📚ابن ابوملیکہ تابعی بیان کرتے ہیں :
قيل لابن عباس : هل لك فى أمير المؤمنين معاوية؟ فإنه ما أوتر إلا بواحدة، قال : أصاب، إنه فقيه .
’’ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ انہوں نے صرف ایک رکعت وتر ادا کیا ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : انہوں نے درست کیا ہے، بلاشبہ وہ فقیہ ہیں۔“
[صحيح البخاري : 351/1، ح : 3765]

📚ایک روایت میں یوں ہے :
أوتر معاوية بعد العشاء بركعة، وعنده مولي لابن عباس، فأتي ابن عباس، فقال : دعه، فإنه قد صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نماز عشاءکے بعد ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا غلام ان کے پاس تھا۔ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا (اور یہ بات بتائی ) تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلاشبہ معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔“
[صحيح البخاري : 351/1، ح : 3764]

📚سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما رأيت أحدا بعد عثمان أقضٰي بحق من صاحب هٰذا الباب، يعني معاوية .
’’ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔“
[تاريخ دمشق ابن عساكر : 161/59، وسنده حسن]

📚سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :
ما رأيت أحدا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أسود من معاوية .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر شان و شوکت والا کوئی نہیں دیکھا۔“
[تاريخ دمشق لابن عساكر : 173/59، وسنده حسن]

📚سیدنا ابو درداء رضی اللہ فرماتے ہیں :
ما رأيت أحدا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، أشبه صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم أميركم هٰذا، يعني معاوية .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔“
[الفوائد المنتقاة للسمرقندي : 67، وسنده صحيح ]

📚ربیع بن نافع، ابوتوبہ، حلبی فرماتے ہیں :
معاوية ستر لأصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، فإذا كشف الرجل الستر اجترأ علٰي ما وراءه .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحابِ رسول کے لیے پردہ ہیں۔ جب کوئی شخص پردے کو ہٹا دیتا ہے تو پردے کے پیچھے والی چیزوں پر جسارت کرنے لگتا ہے۔“
[تاريخ بغداد للخطيب : 209/1، تاريخ دمشق لابن عساكر : 209/59، وسنده حسن]

📚امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عمل معاوية بسيرة عمر بن الخطاب سنين، لا يخرم منها شيئا .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالہا سال سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر یوں عمل کیا کہ اس میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں کی۔“
[السنة لأبي بكر الخلال : 683، وسنده صحيح ]

📚 جلیل القدرتابعی ابومسلم خولانی رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
أما بعد ! فلا والله، ما أبغضناك منذ أحببناك، ولا عصيناك منذ أطعناك، ولا فارقناك منذ جامعناك، ولا نكثنا بيعتنا منذ بايعناك، سيوفنا علٰي عواتقنا، إن أمرتنا أطعناك، وإن دعوتنا أجبناك، وإن سبقتنا أدركناك، وإن سبقناك نظرناك .
’’ اللہ کی قسم ! ہم نے جب سے محبت کرنا شروع کی ہے، آپ سے نفرت نہیں کی۔ جب سے آپ کی اطاعت میں آئے ہیں، نافرمانی نہیں کی۔ جب سے ملے ہیں، آپ سے جدا نہیں ہوئے۔ جب سے آپ کی بیعت کی ہے، بیعت نہیں توڑی۔ ہماری تلواریں کندھوں پر ہیں، اگر آپ کا حکم ہوا تو ہم سرموانحراف نہیں کریں گے۔ اگرآپ نے پکارا تو لبیک کہیں گے۔ اگر آپ ہم سے آگے نکل گئے تو ہم آپ کے پیچھے جائیں گے اور اگر ہم آگے نکل گئے تو آپ کا انتظار کریں گے۔“
[مسائل الإمام أحمد برواية ابنه أبي الفضل صالح : 330، وسنده حسن]

📚’ سیدنا مسور بن محرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بیان کیا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بن کر گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا کام کر دیا، پھر انہیں علیحدہ بلا کر فرمایا : مسور ! حکمرانوں پر تمہاری عیب جوئی کا کیا بنا ؟ مسور کہنے لگے : اس بات کو چھوڑیں اور ہمارے موجودہ طرز عمل کی بنا پر ہم سے حسن سلوک روا رکھیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں، اللہ کی قسم ! تمہیں ضرور اپنے دل کی بات کہنا ہو گی اور اپنے خیال کے مطابق میرے عیوب بیان کرنا ہوں گے۔ مسور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دل کی تمام بھڑاس نکال ڈالی۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کوئی انسان (ماسوائے انبیاء) غلطی سے معصوم نہیں۔ اے مسور ! عوام کے معاملے میں جو اصلاحات ہم نے کی ہیں، کیا آپ انہیں کچھ وقعت دیتے ہیں ؟ نیکی تو دس گنا شمار ہوتی ہے۔ کیا آپ غلطیوں کو شمار کرتے ہیں اور نیکیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں ؟ مسور نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم ! ہم تو صرف ان غلطیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جو نظر آتی ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم ہر اس غلطی کا اعتراف کرتے ہیں جو ہم سے ہوئی، لیکن اے مسور ! کیا تم سے اپنے خاص لوگوں کے بارے میں کوئی ایسی غلطی نہیں ہوئی، جس کو اگر اللہ معاف نہ کرے تو تمہیں اپنی ہلاکت کا ڈر ہو ؟ مسور کہتے ہیں : بالکل ہم سے ایسی غلطیاں ہوئی ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر تمہیں اپنے بارے میں مجھ سے بڑھ کر مغفرت کی امید کیوں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سے بڑھ کر اصلاح کی کوشش میں رہتا ہوں اور اگر مجھے اللہ کی فرمانبرداری اور اس کی نافرمانی میں سے انتخاب کا اختیار دیا جائے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کو ترجیح دوں گا۔ ہم ایسے دین کے پیروکار ہیں جس کے مطابق اللہ تعالیٰ عمل کو قبول کرتا ہے، نیکی کی جزا دیتا ہے اور برائی کی سزا دیتا ہے، ہاں جسے چاہے معاف بھی کر دیتا ہے۔ میں نے جو بھی نیکیاں کی ہیں، مجھے ان کے کئی گنا ثواب کی امید ہے اور میں ان امور کو سامنے رکھتا ہوں جنہیں نہ میں شمار کر سکتا ہوں، نہ تم، مثلاً اللہ کی رضا کے لیے مسلمانوں میں نظام صلاۃ کا قیام، اللہ کے راستے میں جہاد، اللہ کے نازل کردہ نظام کا نفاذ اور اسی طرح کے دوسرے امور جن کو میں ذکر بھی کروں تو تم شمار نہیں کر پاؤ گے۔ اس بارے میں غور کرو۔ مسور کہتے ہیں : مجھے معلوم ہو گیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سب کچھ بیان کر کے مجھے (میرے خیالات کو) مات دے دی ہے۔ عروہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب بھی سیدنا مسور رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا، انہوں نے ان کے لیے استغفار فرمایا۔“
[تاريخ بغداد للخطيب : 223/1، وسنده صحيح]

📚ابراہیم بن میسرہ الطائفیؒ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو گالیاں دی تھیں، انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ (تاریخ دمشق ۱۴۵/۶۲ و سندہ صحیح)

*حضرت معاویہ رض کے اہم کارنامے*

📚حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب شام پر لشکر کشی ہوئی تو حضرت ابو سفیان کے دونوں بیٹے یزید اور معاویہ رضی اللہ عنہم اس فوج کے آفیسر تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے وہاں غیر معمولی کارنامے سر انجام دیے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت یزید بن ابی سفیان کو شام کا گورنر مقرر کیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کو ان کا نائب بنایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ان عہدوں پر بحال رکھا۔ 19/640 میں حضرت معاویہ نے رومیوں کی مشہور فوجی چھاؤنی “قیساریہ” کو فتح کر لیا۔ اگلے برس ان کے بھائی یزید نے طاعون کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ حضرت معاویہ کو مقرر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روم، قیصر کے قبضے سے نکل رہا تھا۔ حضرت معاویہ نے رومن ایمپائر کی افواج کو پے در پے شکستیں دے کر پورے شام کو فتح کر لیا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گورنروں سے کم ہی مطمئن ہوتے تھے اور ان کا تبادلہ کرتے رہتے تھے۔ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی پرفارمنس تھی، جس کی وجہ سے حضرت عمر نے اتنے غیر معمولی اور حساس صوبے پر آپ کو گورنر مقرر کیے رکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے عہدے پر بحال رکھا اور ان کے حسن انتظام کی وجہ سے دیگر علاقے بھی انہی کی گورنری میں دے دیے۔ حضرت معاویہ نے حضرت عثمان کے زمانے میں موجودہ ترکی کا تیس فیصد حصہ فتح کر لیا اور ماضی کی عظیم ایسٹرن رومن ایمپائر جو کئی صدیوں سے ایشیا اور افریقہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھے ہوئے تھی، کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کے پے در پے حملوں کے نتیجے میں قیصر روم، جو کبھی تین براعظموں پر حکومت کرتا تھا، اب محض موجودہ ترکی کے تھوڑے سے حصے تک محدود ہو کر رہ گیا۔

📚یہی وجہ ہے کہ مشہور مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے جب تاریخ انسانی کی موثر ترین 200 شخصیات کی فہرست تیار کی، تو مسلمانوں میں سے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر کے بعد تیسرے نمبر پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کو رکھا۔
(Hart, Micheal H. The 100. A Ranking of the Most Influential Persons in History. P. 510. New York: Carol Publishing Group Edition (1993).

حضرت معاویہ نے تاریخ اسلامی کی پہلی بحری فوج تیار کی جس نے بحیرہ روم پر قیصر کے قبضے کو ختم کر دیا۔ آپ نے بحیرہ روم کے ساحلوں پر جہاز سازی کی عظیم صنعت قائم کی جس نے ابتدائی سالوں ہی میں عالم اسلام کو 1700 جنگی جہازوں سے مسلح کر دیا۔ اس سے دنیا کے اہم ترین سمندروں پر مسلمانوں کے غلبے کا جو آغاز ہوا، وہ گیارہ سو برس تک قائم رہا۔ آپ نے جزیرہ قبرص (Cyprus)، روڈس (Rhodes) بعد میں سسلی کو بھی فتح کر لیا جو موجودہ اٹلی کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس طرح یورپ میں مسلمانوں کے قدم پہلی مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے ذریعے پہنچے۔ ان تمام علاقوں کا حسن انتظام ایسا تھا کہ جس کی مثال عالم اسلام کے دیگر مفتوحہ علاقوں میں نہیں ملتی ہے۔ آپ کے علاقوں میں بغاوتیں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں جبکہ اس کے برعکس عراق، ایران، خراسان، مصر وغیرہ میں آئے دن بغاوتیں ہوتی رہی ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ وہ خوبیاں ہیں، جن کا اعتراف مخالف و موافق سبھی کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پچھلے سلسلوں میں بیان کر چکے ہیں کہ حضرت علی رض کے زمانے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما ایک خود مختار حکمران کے طور پر رہے لیکن آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضل اور کمالات کے معترف تھے۔ آپ کا اختلاف صرف یہ تھا کہ باغی تحریک کو قرار واقعی سزا دی جائےیا پھر حضرت علی ، ان کے خلاف کاروائی میں حضرت معاویہ کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ یہ سب تفصیلات آپ گزشتہ سلسلوں۔ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ حضرت علی کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہما ہی تھے جنہوں نے حضرت معاویہ کی بیعت کر کے امت مسلمہ کو متحد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت کے سلسلے میں ہم وہ روایات بیان کر آئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس کی تلقین خود حضرت علی نے کی تھی۔

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے رومن ایمپائر سے جہاد کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ قیصر روم اپنی ترکی کی چھوٹی سی حکومت پر قانع نہ تھا اور ایشیا اور افریقہ میں اپنا اقتدار دوبارہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ وہ کئی مرتبہ شام پر لشکر کشی کر چکا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے مقابلے کے لیے دو افواج تیار کیں جو سردی اور گرمی کی افواج کہلائیں۔ اگر آپ تاریخ طبری میں حضرت معاویہ کے دور کا مطالعہ کریں تو ہر سال کے آغاز میں طبری لکھتے ہیں کہ اس سال فلاں نے سردیوں کا جہاد کیا اور فلاں نے گرمیوں کا۔ حضرت معاویہ کی یلغاریں نہ صرف مغرب بلکہ مشرق میں بھی جاری رہیں۔

*یہاں ہم ٹائم لائن کی صورت میں معاویہ رض کی جنگی مہمات کو بیان کر رہے ہیں:*

27-28ھ/ع648-649
فتح قبرص (Cyprus)

32ھ/ع653
قسطنطنیہ (استنبول)

33ھ/ع653
افطرنطیہ،ملطیہ اور روم کے بعض علاقوں کو فتح

35ھ/ع655
ذی خشب کی مہم

42ھ/ع662
سجستان (موجودہ افغانستان اور پاکستان میں مشترک علاقہ) کی مہم

43ھ/ع663
فتح سوڈان

44ھ/ع664
فتح کابل

45ھ/ع665
لیبیا اور الجزائر کے بعض علاقوں کی فتح

46ھ/ع666
صقلیہ یا سسلی پر پہلا حملہ

50-51ھ/ع670-671
قسطنطنیہ کی پہلی مہم

54ھ/ع674
فتح بخارا

54ھ/ع674
قسطنطنیہ کی دوسری مہم

56ھ/ع676
فتح سمر قند

📚حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صرف جنگی پلاننگ اور کاروائیوں ہی میں ماہر نہ تھے بلکہ آپ انتظامی اور علمی امور میں ایک غیر معمولی دماغ رکھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ڈاک کا نظام قائم کیا تھا، اسے غیر معمولی ترقی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حاصل ہوئی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ اس دور کا ایک مواصلاتی انقلاب(Communication Revolution)تھا ۔ اس نظام کی تفصیل یہ ہے کہ مختلف شہروں کے مابین ڈاک کی چوکیوں کا نیٹ ورک بنا دیا گیا۔ ایک پوسٹ مین تیز رفتار گھوڑے پر ڈاک لے کر دوڑتا۔ گھوڑے پر ایک گھنٹی لگی ہوتی تھی جو اس کے دوڑنے سے بجتی تھی۔ اس کی آواز سن کر لوگ گھوڑے کو راستہ دے دیتے اور اسی آواز کو سن کر اگلی چوکی کا پوسٹ مین تیار رہتا۔ جیسے ہی پہلا پوسٹ مین وہاں پہنچتا، تو اگلا پوسٹ مین اس سے ڈاک لے کر گھوڑے کو دوڑا دیتا۔ یہی سلسلہ تیسری، چوتھی اور اگلی چوکیوں پر جاری رہتا۔ اس طرح بہت کم وقت میں ایک شہر سے ڈاک دوسرے شہر پہنچ جاتی۔ ڈاک ہی سے متعلق ایک اور محکمہ کی ایجاد حضرت معاویہ کا کارنامہ ہے اور وہ تھا خطوط کے لیے مہریں تیار کرنے اور ان پر لگانے کا محکمہ۔ آج کے دور میں یہ بڑا غیر اہم لگتا ہے لیکن اسی کی بدولت نہایت اہم سرکاری خطوط اور دستاویزات میں جعل سازی کا خاتمہ ہوا۔ (طبری۔ 4/1-133)

اس سے یقینی طور پر باغی تحریک کو بڑا نقصان ہوا ہو گا کیونکہ وہ جعل سازی کے فن میں ید طولی رکھتے تھے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت کے استحکام میں اس کمیونی کیشن کے نظام سے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ گورنر زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے انٹیلی جنس نظام کا یہ عالم تھا کہ افغانستان میں کسی کی رسی بھی چوری ہوتی تو انہیں بصرہ میں اس کا علم ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان پورے بیس برس میں باغی تحریک کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا اور جب انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کچھ سر اٹھایا تو اسے بڑی آسانی سے کچل دیا گیا۔ اس کسمپرسی کے سبب باغیوں میں جو فرسٹریشن پیدا ہوئی، اسے انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پراپیگنڈا کی شکل دے دی۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف سیاسی بلکہ علمی میدان میں بھی غیر معمولی پراجیکٹ شروع کیے۔ آپ کو سائنس سے خاص دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اہل یونان کی سائنس کی کتب کا خاص طور پر ترجمہ کروایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے اپنے خاندان میں ایک اتنا بڑا سائنسدان پیدا ہوا جس کی صلاحیت کا لوہا اہل مغرب نے بھی مانا۔ آپ کے پوتے خالد بن یزید بن معاویہ کو کیمسٹری اور میڈیسن (گویا بائیو کیمسٹری) سے غیر معمولی شغف حاصل تھا اور انہیں مسلم دنیا کا پہلا کیمیائی سائنسدان قرار دیا گیا ہے۔

ان کے متعلق چند اہل علم کی آراء ہم یہاں درج کر رہے ہیں۔

📚 ابن خلکان لکھتے ہیں:
ابو ہاشم خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان اموی۔ قریش میں فنی علوم میں سب سے مشہور تھے اور کیمسٹری اور طب کی صنعتوں میں ان کا کلام موجود ہے۔ وہ ان علوم میں بہت بڑے ماہر تھے اور ان کے علم اور ذہانت کا ثبوت ان کے رسائل ہیں۔ انہوں نے یہ علوم ایک راہب، مریانس راہب رومی سے حاصل کیے۔ ان کے تین رسائل ہیں جن میں سے ایک میں مریانس راہب کے ساتھ ان کا معاملہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اس سے یہ علوم کیسے سیکھے ۔
( ابن خلکان (608-681/1212-1282)۔ وفیات الاعیان۔ شخصیت نمبر 212۔ 2/224۔ بیروت: دار الصادر)

لنک…..!!!
http://majles.alukah.net
(ac. 22 Aug 2012)

*خالد کا یہ علمی پراجیکٹ محض ان کا ذاتی رجحان ہی نہ تھا بلکہ یہ اجتماعی نوعیت کی کاوش تھی۔*

📚مشہور برطانوی ماہر طب ایڈورڈ براؤن لکھتے ہیں:
دمشق کا جان (John of Damascus)، جن کا لقب کرسوروس اور عربی نام منصور ہے، پر پہلے اموی خلیفہ معاویہ نے بہت سے احسانات کیے۔ عربوں میں یونانی دانش کے علم کی خواہش سب سے پہلے اموی شہزادے، خالد بن یزید بن معاویہ کے ہاں پیدا ہوئی جنہیں کیمسٹری (Alchemy) کا جنون تھا۔ فہرست (ابن الندیم کی مشہور کتاب جس میں اس دور تک کی ہزاروں کتب کا تعارف موجود ہے) کے مطابق، جو اس بارے میں ہماری معلومات کا سب سے قدیم اور سب سے بہتر ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، خالد نے یونانی فلسفیوں کو ملک مصر میں اکٹھا کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس مضمون کی یونانی اور مصری تصانیف کو عربی زبان میں ترجمہ کریں۔ فہرست کے مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی (تاریخ) میں یہ وہ پہلی کتابیں تھیں جو ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ ہو کر آئیں۔ اسی شہزادے کے ساتھ مشہور کیمیا دان جابر بن حیان بھی کام کرتے تھے جو کہ قرون وسطی کے یورپ میں Geber کے نام سے مشہور ہیں۔
( Browne, Edward G. MB, FRCP. Arabian Medicine. P. 15. London: Cambride University Press (1921)

لنک______””
http://archive.org/details/arabianmedicineb00browiala (ac. 12 Aug 2012)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مفتوحہ اقوام کے علوم کو سیکھنے کی تحریک نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تیزی اختیار کی ۔ پھر انہی علوم کی بدولت اس دور کے مسلمانوں نے وہ بنیاد رکھی، جس پر بنو امیہ، بنو عباس اور پھر سلطنت عثمانیہ کی عالیشان عمارت 1200 سال تک کھڑی رہی۔

*حضرت معاویہ کی رسول اللہ سے محبت کا کیا عالم تھا؟*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو محبت تھی، اس کا اندازہ اس بات سےکیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “میں نے نماز پڑھنے کے انداز میں کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا مشابہ نہیں دیکھا، جتنا کہ معاویہ تھے۔
(ہیثمی۔ مجمع الزوائد ۔ کتاب المناقب،
ما جاء فی معاویہ بن ابی سفیان۔ حدیث 19520)

📚اُم علقمہ (مرجانہ) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مدینہ تشریف لائے تو (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے رسول اللہ ﷺ کی چادر اور بال مانگا۔ پھر انہوں نے چادر اوڑھ لی اور بال پانی میں ڈبو کر وہ پانی پیا اور اپنے جسم پر بھی ڈالا۔
(تاریخ دمشق ۱۰۶/۶۲ و سندہ حسن، مرجانہ و ثقھا العجلی وابن حبان)

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ ایک قمیص پہننے کے لیے دی تھی۔ یہ قمیص آپ کے پاس محفوظ تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تراشے ہوئے ناخن ایک شیشی میں محفوظ کر لیے تھے۔ جب حضرت معاویہ کی جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی کہ اسی قمیص میں مجھے کفن دیا جائے اور مبارک ناخنوں کو رگڑکر میری آنکھوں اور منہ پر چھڑک دیا جائے۔ اپنے ذاتی مال کے بارے میں انہوں نے وصیت کی کہ اس کا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کروا دیا جائے۔
(طبری۔ 4/1-131)

*حضرت معاویہ(رض)کے دور کا خلاصہ*

·حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت راشدہ ہی کا تسلسل تھا جس میں آپ نے بہت سے عظیم کارنامے سر انجام دیتے ہوئے عالم اسلام کو متحد رکھا۔

·باغیوں نے حضرت معاویہ پر جو الزامات عائد کیے، ان کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور آپ ان تمام تہمتوں سے بری تھے۔

·حضرت معاویہ نے باغی تحریک کو دبائے رکھا اور آپ کے دور میں کوئی بڑا فتنہ و فساد پیدا نہ ہو سکا۔

·حضرت معاویہ نے لائق ترین لوگوں کو سرکاری عہدے دیے جنہوں نے افغانستان سے لے کر لیبیا تک کے علاقوں پر امن قائم رکھا۔ آپ نے رومن ایمپائر کو دوبارہ اٹھنے نہ دیا اور اس کے زوال میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہم عصر صحابہ کی رائے ان کے بارے میں نہایت ہی مثبت تھی

(( تاریخ کے اگلے سلسلہ میں ان شاءاللہ ہم پڑھیں گے کہ سانحہ کربلا کیسے پیش آیا؟ اسکے اسباب کیا تھے؟ ))

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں