915

سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-204″
سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا؟

Published Date:6-2-2019

جواب:
الحمدللہ..!

*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت میں غلو کرتے ہوئے کچھ علماء حضرات نے ایسے من گھڑت قصے بیان کئے ہیں جن میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے سارے پردے ہٹا کر اپنے محبوب کو دیدار کرایا اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ اللہ اور رسول نے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کی اور ایک مولوی صاحب جنکا نام ڈاکٹر طاہر القادری ہے انہوں نے تو نعوذباللہ غلو کی حد ہی مکا دی،*

اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ معراج پر جاتے ہوئے پہلے نبی نے بشریت کا لباس اتارا پھر نورانیت کا لباس اتارا پھر لا مکاں میں چلے گئے، اور وہاں نا بشر تھے نا نور تھے، پھر کیا تھے؟
پھر وہ یہ شعر پڑھتے ہیں کہ،

⁦🏷️⁩ ہک اے ہک اے ہک اے…!
جیڑا انکو دو آکھے اوہ مشرک تے کافر اے

کہ نعوذباللہ اللہ اور رسول ایک ہی ذات ہیں جو ان دونوں کو الگ الگ دو کہے وہ مشرک اور کافر ہے،

انکا یہ مکمل بیان یوٹیوب کے اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں
(https://youtu.be/MLmre2tmjOQ)

نعوذباللہ یہ ایک کفریہ/ شرکیہ عقیدہ ہے،
اللہ خالق ہے اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق ہیں، وہ رب ہے اور رسول اسکے بندے ہیں،
اللہ اکیلا ہے اسکا کوئی ہمسر نہیں، جسکے دلائل میں پورا قرآن موجود ہے،
اور یہ فرق رکھنے کا حکم بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دیا ہے،اور باقاعدہ آپ نے تعریف میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے،

📚عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو ( میرے متعلق ) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3445)

مگر ہمارے کچھ بعض کم علم حضرات بار بار اللہ کے ساتھ برابری کرتے ہیں کبھی کسی نبی کا رتبہ بڑھا کر اللہ تک لے جاتے ہیں اور کبھی کسی پیر بزرگ کو رب اور نبی کا مقام دے دیتے ہیں،

اب آتے ہیں سوال کی طرف….!!!

*صحیح عقیدہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر گئے ضرور تھے ،لیکن آپ نے اللہ پاک کو نہیں دیکھا، اس بات کے دلائل درج ذیل ہیں:*

*قرآن کریم سے دلائل*

ارشاد باری تعالی ہے
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

📚وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحۡيًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآىٴِ حِجَابٍ اَوۡ يُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَيُوۡحِىَ بِاِذۡنِهٖ مَا يَشَآءُ‌ؕ اِنَّهٗ عَلِىٌّ حَكِيۡمٌ
ترجمہ:
اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یا یہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بیشک وہ بےحد بلند، کمال حکمت والا ہے۔
(سورہ شوریٰ آئیت نمبر-51)

📚امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آئیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،
یہاں کیفیات وحی کا بیان ہو رہا ہے کہ کبھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وحی ڈال دی جاتی ہے جس کے وحی اللہ ہونے میں آپکو کوئی شک نہیں رہتا۔۔۔۔یا پردے کی اوٹ سے جیسے حضرت موسیٰ سے کلام ہوا ۔ کیونکہ انہوں نے کلام سن کر جمال دیکھنا چاہا لیکن وہ پردے میں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے لیکن تیرے باپ سے اپنے سامنے کلام کیا یہ جنگ احد میں کفار کے ہاتھوں شہید کئے گئے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ کلام عالم برزخ کا ہے اور آیت میں جس کلام کا ذکر ہے اس سے مراد دنیا کا کلام ہے یا اپنے قاصد کو بھیج کر اپنی بات اس تک پہنچائے جیسے حضرت جبرائیل وغیرہ فرشتے انبیاء علیہ السلام کے پاس آتے رہے
(تفسیرِ ابن کثیر،سورہ شوریٰ آئیت نمبر-51)

📚وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰى لِمِيۡقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِىۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَيۡكَ‌ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰٮنِىۡ وَلٰـكِنِ انْظُرۡ اِلَى الۡجَـبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوۡفَ تَرٰٮنِىۡ‌ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوۡسٰى صَعِقًا‌ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَكَ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ
ترجمہ:
اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر آیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھے گا اور لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھ، سو اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا۔ تو جب اس کا رب پہاڑ کے سامنے ظاہر ہوا تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑا، پھر جب اسے ہوش آیا تو اس نے کہا تو پاک ہے، میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔
(سورہ الاعراف آئیت نمبر-143)

📚امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آئیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ،
طلب زیارت اور موت وعدے کے مطابق حضرت موسیٰ طور پہاڑ پر پہنچے ، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی ، جواب ملا کہ یہ تیرے لئے ناممکن ہے ۔ اس سے معتزلہ (فرقے ) نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہوگا کیونکہ( لن) ابدی نفی کے لئے آتا ہے لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مومنوں کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہوگا،
ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ (نا دیکھنے کی) نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لئے ہے،
نہ کہ آخرت کے لئے بھی، کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مومنوں کو ضرور عطا ہوگا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے،
یہ آیت مثل ( لا تدرکہ الا بصار ) کے ہے جس کی تفسیر سورۃ انعام میں گذر چکی ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے وہ مر جائے ۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا ۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں چنانجہ پہاڑ کا حال خود کلیم اللہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بیہوش ہوگئے،
(تفسیر ابن کثیر، سورہ الاعراف آئیت نمبر-143)

📚لَا تُدۡرِكُهُ الۡاَبۡصَارُ وَهُوَ يُدۡرِكُ الۡاَبۡصَارَ‌ۚ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ
ترجمہ:
اسے نگاہیں نہیں پا سکتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔۔‘‘
(سورہ الانعام آئیت نمبر-103)

📚تفسیر ابن کثیر میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مکتوب ہے: (لا تدركه في الدنیا وإن کانت تراه في الآخرة) کہ ’’دنیا میں یہ آنکھیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں اگر چہ آخرت میں دیکھیں گی۔‘‘

*احادیث سے دلائل*

📚مسروق بیان کرتے ہیں میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی نا واقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے ،
1-مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ.
جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏» سے لے کر «من وراء حجاب‏» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو
2- وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ اور جو تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏» یعنی ”اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔“ کی تلاوت فرمائی۔
3- وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ
اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔
ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا
(صحیح بخاری حدیث نمبر-4855)

📚 عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نےابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے کہا : اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : تم ان سے کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟
عبد اللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ تو سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔۔۔!
سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ:
« نُورٌ أَنَّیٰ أَرَاہُ» .کہ ’’میں نے رسول کریمﷺ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:وہ نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔۔؟‘
(صحیح مسلم حدیث نمبر-178)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3282)

*اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہی نہیں جا سکتا، اس کے متعلق ایک اور صحیح اور نہایت ہی صریح حدیث مبارکہ یہ ہے*

📚فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے،
[عن عبادة بن الصامت:] إِنَّي حدثتُكم عنِ الدجالِ حتى خشيتُ أن لا تعقِلُوا، إِنَّ المسيحَ الدَّجالَ رجلٌ قصيرٌ، أفحجُ، جعدٌ، أعورٌ، مطموسُ العينِ، ليستْ بناتِئَةٍ، ولَا جحراءَ، فإِنْ أَلْبَسَ عليكم؛ فاعلموا أنَّ ربَّكم ليسَ بأعورَ، و إنكملن تروا ربَّكم حتى تموتوا
بلا شبہ میں نے تمہیں دجال کے متعلق (اتنا) بتایا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم نے اسے سمجھا ہی نہ ہو (یعنی اتنی زیادہ باتیں کہیں تم پر خلط ملط ہی نہ ہوگئی ہوں)، یاد رکھو کہ مسیح دجال ٹھگنے قد والا، باہر کو نکلی ٹیڑھی پنڈلیوں والا اور بہت گھنگھریالے بالوں والا ہوگا۔ ایک آنکھ سے کانا ہوگا جو مِٹی ہوئی ہوگی، نہ تو ابھری ہوئی اور نہ گہری ہوگی۔ اگر پھر بھی تمہیں شبہ ہو تو یاد رکھنا کہ تمہارا رب کانا نہیںاور (یہ بھی یاد رکھنا کہ) تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے(یعنی اس دنیوی زندگی میں تمہارے پاس اپنے حقیقی رب کے دیدار کی طاقت نہیں ہے۔)
(صحیح الجامع حدیث نمبر-2459) صحیح

نبی کریمﷺ نے دجال کی شعبدہ بازیوں کے بعد اس کے ربوبیت کے دعوے کی تردید دو طریقوں سے فرمائی:

1۔ دجال کانا ہے، اور رب کانا نہیں ہو سکتا۔

2۔ کوئی انسان مرنے سے پہلے (جنت میں جانے سے پہلے) اپنے حقیقی رب کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔

📚حضرت جابر رض کے والد عبداللہ جب غزوہ احد میں شہید ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں؟
، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے ملاقات کے وقت کہا؟ ،
جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ضرور بتائیے اللہ کے رسول!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
*مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا* ‏
اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں کیا، لیکن تمہارے والد سے بغیر حجاب کے کلام کیا، اور فرمایا: میرے بندے! مجھ سے آرزو کر میں تجھے عطا کروں گا، اس پر انہوں نے کہا: میرے رب! میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے، اور میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تو پہلے ہی ہماری جانب سے لکھی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ واپس نہیں لوٹائے جائیں گے ۱؎، انہوں نے کہا: میرے رب! ان لوگوں کو جو دنیا میں ہیں میرے احوال کی خبر دیدے ، انہوں نے کہا: اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں
( سورة آل عمران: ۱۶۹ )
(سن ابن ماجہ حدیث نمبر-190)

*سلف صالحین کا اجماع*

📚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
(م : ٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
”صحابہ کرام، تابعین عظام، معروف ائمہ اسلام، مثلاً مالک، ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحاق، ابوحنیفہ، ابویوسف اور ان جیسے دوسرے ائمہ کرام علیھم السلام ، تمام اہل سنت والحدیث اور وہ جماعتیں، جو خود کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتی ہیں، مثلا کلابیہ، اشعریہ، سالمیہ وغیرہ، ان تمام کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا۔ محدثین کرام کے ہاں اس پر متواتر احادیث نبویہ ہیں، اسی طرح آثار صحابہ وتابعین بھی بہ کثرت موجود ہیں۔ امام احمد اور آثار سلف کو جاننے والے دیگر ائمہ کرام کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کا اتفاق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار آنکھوں سے ہو گا۔
وَمُتَّفِقُونَ عَلٰی أَنَّہ، لَا یَرَاہُ أَحَدٌ فِي الدُّنْیَا بِعَیْنِہٖ نیز یہ بھی اتفاقی بات ہے کہ
اللہ کو دنیاوی آنکھ سے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔”
(منہاج السّنۃ النّبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریّۃ : ٢/٣١٦)

📚حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٧٤٨ھ) لکھتے ہیں:
وَلَمْ یَأْتِنَا نَصٌّ جَلِيٌّ بِّأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی اللّٰہَ تَعَالٰی بِعَیْنَیْہِ، وَہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃُ مِمَّا یَسَعُ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ فِي دِیْنِہِ السُّکُوتُ عَنْہَا . فَأَمَّا رُؤْیَۃُ الْمَنَامِ فَجَاء تْ مِنْ وُّجُوہٍ مُّتَعَدِّدَۃٍ مُّسْتَفِیضَۃٍ . وَأَمَّا رُؤْیَۃُ اللّٰہِ عِیَاناً فِي الْـآخِرَۃِ فَأَمْرٌ مُّتَیَقَّنٌ، تَوَاتَرَتْ بِہِ النُّصُوصُ، جَمَعَ أَحَادِیثَہَا الدَّارَقُطْنِيُّ، وَالْبَیْہَقِيُّ، وَغَیْرُہُمَا .
”ہمیں کوئی ایسی واضح نص نہیں ملی، جس میں ہو کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس مسئلہ میں ایک مسلمان کے لیے سکوت ہی بہتر ہے۔ رہا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا، تو یہ کئی ایک مشہور اسانید سے ثابت ہے۔ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ یقینی مسئلہ ہے، جو کہ متواتر نصوص سے ثابت ہے۔ امام دارقطنی اور بیہقی وغیرہما نے (آخرت میں )رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق احادیث جمع کی ہیں۔”
(سیرأعلام النّبلاء : ٢/٢٦٧)

*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو نہیں دیکھا اور نا ہی کوئی شخص قیامت تک دنیا میں اللہ کو دیکھ سکتا ہے، ہاں جنت میں اللہ اپنے نیک بندوں کو اپنا دیدار کرائے گا جو کہ قرآن و آحادیث سے صحیح ثابت ہے،*

*اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرما دے جنکو وہ جنت میں اپنا دیدار کروائے گا ،آمین ثم آمین*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

((کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب تھے؟))
دیکھیں سلسلہ نمبر-95

((کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ مبارک نہیں تھا؟))
دیکھیں سلسلہ نمبر-16

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں