1,212

سوال_ کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟اور کیا خون لگنے سے کپڑے ناپاک ہو جاتے؟نیز کیا ان کپڑوں میں نماز نہیں ہو گی؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-195
سوال_ کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟اور کیا خون لگنے سے کپڑے ناپاک ہو جاتے؟نیز کیا ان کپڑوں میں نماز نہیں ہو گی؟

Published Date: 20-1-2019

جواب..!!
الحمدللہ..!!

*شرمگاہ کے علاوہ جسم کے کسی حصے سے بھی خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،جسکے دلائل درج ذیل ہیں*

*دلیل نمبر-1*
📚امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں باب باندھا ہے..!!
صحيح بخاري
كتاب الوضوء
کتاب: وضو کے بیان میں
34- بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوُضُوءَ إِلاَّ مِنَ الْمَخْرَجَيْنِ، مِنَ الْقُبُلِ وَالدُّبُرِ:
باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

تبویب کر کے نیچے لکھتے ہیں!!

📚وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لاَ وُضُوءَ إِلاَّ مِنْ حَدَثٍ. وَيُذْكَرُ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَرُمِيَ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَنَزَفَهُ الدَّمُ فَرَكَعَ وَسَجَدَ، وَمَضَى فِي صَلاَتِهِ. وَقَالَ الْحَسَنُ مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ. وَقَالَ طَاوُسٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَعَطَاءٌ وَأَهْلُ الْحِجَازِ لَيْسَ فِي الدَّمِ وُضُوءٌ. وَعَصَرَ ابْنُ عُمَرَ بَثْرَةً فَخَرَجَ مِنْهَا الدَّمُ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ. وَبَزَقَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى دَمًا فَمَضَى فِي صَلاَتِهِ. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَالْحَسَنُ فِيمَنْ يَحْتَجِمُ لَيْسَ عَلَيْهِ إِلاَّ غَسْلُ مَحَاجِمِهِ.
ترجمہ_
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے ،
اور جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی لڑائی میں (تشریف فرما) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس (کے جسم) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی، اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون (نکلنے) سے وضو (واجب) نہیں ہوتا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (اپنی) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے (دوبارہ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفی نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن رضی اللہ عنہم پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں

*دلیل نمبر-2*
📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی میں اتر کر صحابہ سے فرمایا،
آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا ؟
تو مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دھانے پر رات گزاری ، انہوں نے رات کا وقت پہرے کے لئے تقسیم کر لیا لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا – اچانک دشمن کے ایک آدمی نے آ کر انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا – انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی ، پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا ، پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع اور سجدہ کیا اور اپنی نماز مکمل کی _ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی (خون آلود) کی حالت میں دیکھا تو کہا جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا ؟
تو اس نے کہا میں ایک صورت کی تلاوت کر رہا تھا جسے کاٹنا (یعنی تلاوت چھوڑنا) میں نے پسند نہیں کیا –
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-198) حدیث صحیح
باب _
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا کہ (خون نکلنے سے وضو نا ٹوٹنے کا بیان)

📚اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اپنی کتاب میں حدیث نمںر 36، اور
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے (1096حدیث نمںر) ”صحیح” کہا ہے اور
امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد ” کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح” کہا ہے، حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن” قرار دیا ہے۔
(المجموع شرح المہذب : ج2 /ص55)

📚ائمہ کی تصحیح حدیث سے راوی عقیل بن جابر انصاری ”حسن الحدیث” ہو گیا۔
اسے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے (الثقات :ج 5/272)
میں بھی ذکر کیا ہے۔ :

📚1_امام دارقطنی رحمہ اللہ (م : ٣٨٥ھ ) نے اس حدیث پر ان الفاظ کے ساتھ تبویب کی ہے:
بُابُ جَوَازِ الصَّلَاۃِ مَعَ خُرُوجِ الدَّمِ السَّائِلِ مِنَ الْبَدَنِ .
”بدن سے خون نکلنے کے باوجود نماز جاری رکھنا درست ہے۔”
(سنن الدارقطني : ج1 /ص223)

📚2 _امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بَابُ ذِکْرِ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلٰی أَنَّ خُرُوجَ الدَّمِ مِنْ غَیْرِ مَخْرَجِ الْحَدَثِ لَا یُوجِبُ الْوُضُوءَ .
”اس بات پر دلالت کرتی حدیث کہ سبیلین کے علاوہ کہیں اور سے خون نکلے، تو وضو نہیں ٹوٹتا ۔”
(صحیح ابن خزیمۃ :حدیث نمبر-36)

📚3 _ امام ابو عبد اللہ حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَہٰذِہٖ سُنَّۃٌ ضَیِّقَۃٌ قَدِ اعْتَقَدَ أَئِمَّتُنَا بِہٰذَا الْحَدِیثِ أَنَّ خُرُوجَ الدَّمِ مِنْ غَیْرِ مَخْرَجِ الْحَدَثِ لَا یُوجِبُ الْوُضُوءَ .
”یہ بہترین سنت ہے۔ ہمارے ائمہ اس حدیث پر اعتقاد رکھتے تھے کہ سبیلین کے علاوہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم :ج1 /ص156،157)

📚4_ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
بَابُ تَرْکِ الْوُضُوءِ مِنْ خُرُوجِ الدَّمِ مِنْ غَیْرِ مَخْرَجِ الْحَدَثِ .
”سبیلین کے علاوہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ج1 /ص140)

📚5 _ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَمَوْضِعُ الدَّلَالَۃِ أَنَّہ، خَرَجَ دِمَاءٌ کَثِیرَۃٌ وَّاسْتَمَرَّ فِي الصَّلَاۃِ وَلَوْ نَقَضَ الدَّمُ لَمَا جَازَ بَعْدَہُ الرُّکُوعُ وَالسُّجُودُ وَإِتْمَامُ الصَّلَاۃِ وَعَلِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ وَلَمْ یُنْکِرْہُ .
”محل ِاستشہاد یہ ہے کہ کثیر خون نکلتا رہا، مگر انہوں نے نماز جاری رکھی۔ اگر خون ناقض وضو ہوتا، تو اس کے بعد رکوع اور سجود اور نماز مکمل کرنا درست نہ ہوتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا مگر آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔”
(المجموع شرح المہذب : ج2 /ص55)

📚6 _ حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَرَادَ الْمُصَنِّفُ بِہٰذَا الْحَدِیثِ الرَّدَّ عَلَی الْحَنَفِیَّۃِ فِي أَنَّ الدَّمَ السَّائِلَ یَنْقُضُ الْوُضُوءَ .
”امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث لا کر احناف کی اس بات کا رد کرنا چاہتے ہیں کہ بہنے والے لہو سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاری:ج1/ ص281)

*دلیل نمبر-3*
📚مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أَنَّہ، دَخَلَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنَ اللَّیْلَۃِ الَّتِي طُعِنَ فِیہَا فَأَیْقَظَ عُمَرَ لِصَلاَۃِ الصُّبْحِ فَقَالَ عُمَرُ نَعَمْ وَلاَ حَظَّ فِي الْإِسْلاَمِ لِمِنَ تَرَکَ الصَّلاَۃَ فَصَلّٰی عُمَرُ، وَجُرْحُہ، یَثْعَبُ دَماً .
”جس رات سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تیر لگا وہ رات میں نے آپ کے ہاں گزاری۔ میں نے آپ کو نماز صبح کے لئے جگایا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : ہاں! نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، اس وقت آپ کے زخم سے خون رس رہا تھا۔”
(موطّأ الإمام مالک:ج1/ ص39، وسندہ، صحیحٌ)

*دلیل نمبر-4*
📚عبد الرحمن بن مجبر رحمہ اللہ سے روایت ہے:
أَنَّہ، رَآی سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَخْرُجُ مِنَ أَنْفِہِ الدَّمُ، حَتّٰی تَخْتَضِبَ أَصَابِعُہ،، ثُمَّ یَفْتِلُہ،، ثُمَّ یُصَلِّي، وَلَا یَتَوَضَّأُ .
”انہوں نے سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کو دیکھا کہ ان کے ناک سے خون نکل رہا ہے اور ان کی انگلیاں خون آلود ہو گئی ہیں۔ انہیں ملا، نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔”
(موطّأ الإمام مالک : ج1/ص39 وسندہ، صحیحٌ)

*دلیل نمبر-5*
📚عبد الرحمن بن حرملہ اسلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَرْعُفُ، فَیَخْرُجُ مِنْہُ الدَّمُ، حَتّٰی تَخْتَضِبَ أَصَابِعُہ، مِنَ الدَّمِ الَّذِي یَخْرُجُ مِنَ أَنْفِہٖ، ثُمَّ یُصَلِّي، وَلاَ یَتَوَضَأُ .
”میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو دیکھا، ان کی نکسیر پھوٹ پڑی ہے۔ ناک سے نکلنے والے خون کی بنا پرانگلیاں خون آلود ہو چکی ہیں، انہوں نے نما ز پڑھی اور وضو نہیںکیا۔”
(موطّأ الإمام مالک : ج1/ص39، وسندہ، حسنٌ)

*دلیل نمبر-5*
📚امام طاوس بن کیسان تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
أَنَّہ، کَانَ لَا یَرٰی فِي الدَّمِ السَّائِلِ وُضُوئً، یَغْسِلُ عَنْہُ الدَّمَ ثُمَّ حَسِبَہ، .
”وہ بہنے والے خون سے وضو کے قائل نہیں تھے۔ فرماتے تھے : ایسی صورت میں خون والی جگہ کو دھو لینا ہی کافی ہو جائے گا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ :ج1/ص137، وسندہ صحیحٌ)

*دلیل نمبر-6*
📚علاء بن حبیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ فَقُلْتُ إِنِّي أَتَوَضَّأُ فَآخُذُ الدَّلْوَ فَأَسْتَسْقِي بِہٖ فَیَخْدِشُنِي الْحَبْلُ أَوْ یُصِیبُنِي الْخَدْشُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الدَّمُ قَالَ : اغْسِلْہُ وَلَا تَتَوَضَّأْ .
”میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ میں وضو کر کے ڈول سے پانی پی لیتا ہوں۔ اس ڈول کی رسی سے زخم آجاتا ہے، جس سے خون بہنے لگتا ہے۔ فرمایا : خون دھو دیں، وضو نہ کریں۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ج1 /ص137 وسندہ، صحیحٌ)

*دلیل نمبر-7*
📚ابو قلابہ تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
إِنَّہ، کَانَ لَا یَرٰی بَأْسًا بِالشُّقَاقِ یَخْرُجُ مِنْہُ الدَّمُ .
”زخم سے خون بہہ پڑے، تو وضو نہ کیا جائے۔ یہ ان کا موقف ہے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ج1/ص137، وسندہ، صحیحٌ)

*دلیل نمبر-8*
📚ابو خلدہ خالد بن دینار بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: رَأَیْتُ أَبَا سَوَّارٍ الْعَدَوِيَّ عَصَرَ بَثْرَۃً ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ .
”میں نے ابو سوار عدوی رحمہ اللہ کو دیکھا، ان کی پھنسی بہہ پڑی ہے، انہوں نے اسی طرح نماز ادا کی، وضو نہیں کیا۔”
(مصنّف ابن أَبي شیبۃ : ج1/ص137 وسندہ، صحیحٌ)

*دلیل نمبر-9*
📚قیس بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
إِنَّ عَطَائً کَانَ لَا یَرٰی فِي الرُّعَافِ وَضُوئً .
”عطاء نکسیر پھوٹنے سے وضو کے قائل نہیں تھے۔”
(تغلیق التعلیق لابن حجر، ج2/ ص118) وسندہ، صحیحٌ)

*دلیل نمبر-10*
📚حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَقَالَ سَمُّوَیْہِ فِي فَوَائِدِہٖ : ثَنَا أَبُو جَعْفَر النُّفَیْلِيُّ ثَنَا خَطَّابُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنِ الْـأَعْمَشِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ الرُّعَافِ فَقَالَ لَو سَالَ نَہْرٌ مِّنْ دَمٍ مَا أَعَدْتُّ مِنْہُ الْوُضُوءَ .
”امام سلیمان بن مہران اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے ابو جعفر رحمہ اللہ سے نکسیر کے بارے میں سوال کیا، فرمایا : (بالفرض) خون کی نہر جاری ہو جائے، میرے نزدیک تو تب بھی وضو نہیں ٹوٹے گا۔”
(تغلیق التعلیق : ج2/ص117 وسندہ، صحیحٌ)
علامہ عینی حنفی نے اس کی سند کو ”صحیح ”کہاہے۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری : ٢/٣٥٣)

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا ،
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے مگر صحیح بات یہی ہےکہ شرمگاہ کے علاوہ کسی جگہ سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اس مسئلہ ميں ميرا بہتر اوراچھا اعتقاد يہى ہے كہ اصل ميں وضوء نہيں ٹوٹا حتى كہ شريعت مطہرہ سے وضوء ٹوٹنا ثابت ہو جائے، اور يہ ثابت نہيں ” انتہى
( المجموع للنووى ( 2 / 63 – 65 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 1 / 247 – 250 ) اور الشرح الممتع ابن عثيمين ( 1 / 185 – 189 )

*لہذا_*
*اوپر ذکر کردہ احادیث ،صحابہ اور تابعین کے آثار سے اور ائمہ محدثین کی وضاحت سے یہ بات صاف سمجھ آتی ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ جسم کے کسی حصے سے بھی خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ،چاہے وہ کم نکلے یا زیادہ،*

_______&&_________

🌷 *سوال کا دوسرا جز تھا کہ کیا خون لگنے سے کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں،؟*

تو شرمگاہ سے نکلے خون کے علاوہ کسی اور جگہ سے نکلے خون سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے،

اسکی دلیل اوپر ذکر کردہ احادیث ہیں،

🌹کہ جس صحابی کو تین تیر لگے تو یقیناً انکا خون بھی نکلا ہو گا ،مگر انہوں نے نماز مکمل کی،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-198) صحیح

تو یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ خون کپڑوں کو ناپاک نہیں کرتا، اگر ناپاک کرتا تو وہ نماز توڑ دیتے، یا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسکی خبر ملی تو آپ انہیں نماز لوٹانے کا حکم دیتے یا کم ازکم اس منع کرتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاموش رہنا اور کوئی اعتراض نا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خون لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے،

*دوسری دلیل*

انسان کا خون نجس اور پلید نہیں ہے۔
🌷 محدث زمان، علامہ البانی لکھتے ہیں:
أَنَّہ، لَمْ یَرِدْ دَلِیلٌ فِیمَا نَعْلَمُ عَلٰی نَجَاسَۃِ الدَّمِ عَلَی اخْتِلَافِ أَنْوَاعِہٖ،إِلَّا دَمُ الْحَیْضِ، وَدَعْوَی الِاتِّفَاقِ عَلٰی نَجَاسَتِہٖ مَنْقُوضَۃٌ بِّمَا سَبَقَ مِنَ النُّقُولِ، وَالْـأَصْلُ الطَّہَارَۃُ، فَلَا یُتْرَکُ إِلَّا بِنَصٍّ صَحِیحٍ یَجُوزُ بِہٖ تَرْکُ الْـأَصْلِ، وَإِذَ لَمْ یَرِدْ شَيْءٌ مِنْ ذٰلِکَ فَالْبَقَاءُ عَلَی الْـأَصْلِ ہُوَ الْوَاجِبُ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
”ہمارے علم کے مطابق نجاست خون پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل موجود نہیں، سوائے حیض کے خون کے خون کی نجاست پر اتفاق کا دعوی مذکورہ منقولات کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اصل طہارت ہے، تو کوئی ایسی نص ہی چاہیے، جس کی بنا پر اصل نص کو چھوڑ دیا جائے۔ جب ایسی نص موجود نہیں، تو اصل ہی پر رہنا چاہیے۔”
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، تحت حدیث:301)

*خون حرام ہے مگر حرام ہونے سے نجس ہونا لازم نہیں ہوتا۔ہر حرام نجس نہیں ہوتا بلکہ ہر نجس حرام ہوتا ہے،*
*جیسے زہر حرام ہے ،نجس نہیں،*
*شراب حرام ہے نجس نہیں،*
*اسی طرح خون حرام ہے مگر ناپاک نہیں ہے،لہٰذا اگر دوران نماز خون بہہ پڑے اور کپڑے خون آلودہ ہو جائیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں،ان میں نماز ہو جائے گی*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹کن کن امور سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-15))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*اللہ پاک صحیح معنوں میں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں