782

سوال_فتنہ خوارج کب اور کیسے پیدا ہوے؟ انکا نقطہ نظر کیا تھا؟ حضرت علی رض نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟ اور آخر پر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر_171”
سوال_فتنہ خوارج کب اور کیسے پیدا ہوے؟ انکا نقطہ نظر کیا تھا؟ حضرت علی رض نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟ اور آخر پر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟

Published Date:21-12-2018

جواب..!
الحمدللہ..!!

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر*
*( 87٫88،92٫96٫102 131،133٫134 ،139،145،151،156,166)*
*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے* *ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے* *پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی* *شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ* *تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک* *کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی، اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟
کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*

*آج کے سلسلے میں ان شاءاللہ ہم پڑھیں گے کہ*

1. خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟

2. خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟

3. حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟

4. خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟

5.مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟

*فتنہ خوارج*
جنگ صفین کے بارے میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس جنگ میں جب واقع تحکیم پیش آیا یعنی حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین صلح ہوئی تو باغیوں کو یہ امر سخت ناگوار گزرا۔ ان کے ایک گروہ نے حضرت علی سے علی الاعلان علیحدگی اختیار کر لی اور ان دونوں صحابہ کو معاذ اللہ کافر قرار دے کر ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ حضرت علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے انہیں بہت سمجھایا لیکن یہ کسی طرح نہیں مانے۔ انہوں نے مسلم آبادیوں پر حملے شروع کر دیے ۔ اس پر حضرت علی نے ان کے خلاف کاروائی کی جس سے ان کا زور ٹوٹ گیا۔ بعد میں اسی گروہ نے سازش کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔

اب ہم ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اوپر ہم نے رکھے..!!

*خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟*

خوارج (واحد خارجی) کے بارے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی کتب موجود نہیں ہیں کیونکہ باقاعدہ کتب لکھے جانے کے زمانے(150/767 کے بعد) تک وہ ختم ہو چکے تھے۔ ان کے آغاز کے بارے میں زیادہ تر تفصیلا ت کا ماخذ وہی ابو مخنف ہے جو تاریخ طبری میں مسلسل ہمارے ساتھ ہے۔ یہ بات بہرحال معلوم و معروف ہے کہ ان کے بہت سے گروپ ہو گئے تھے جن میں سے ایک گروپ جو “اباضیہ” کہلاتا ہے، اب تک موجود ہے۔ اباضی خود کو خوارج سے الگ قرار دیتے ہیں اور یہ عمان، لیبیا اور الجزائر میں موجود ہیں۔ ان کی کتب میں بھی ہمیں خوارج کے ارتقاء سے متعلق کچھ زیادہ تفصیلات نہیں مل سکی ہیں۔ اس وجہ سے اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔

خوارج کے بارے میں جو روایات طبری میں بیان ہوئی ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے سے باغی تحریک کا حصہ بن گیا تھا۔ یہ لوگ “قراء” کہلاتے تھے۔ قراء کا لفظ ان لوگوں کے بارے میں بولا جاتا ہے جو خاص کر قرآن مجید کی قراءت کا فن سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت عابد و زاہد قسم کے لوگ تھے اور نماز روزہ کے معاملے میں بڑے تشدد سے کام لیتے تھے۔ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانیوں پر سیاہ نشان بن گئے تھے۔ عام طور پر ایسا ہو جاتا ہے کہ جو لوگ عبادت گزاری میں شدت پسند بن جائیں، وہ عام طور پر ان لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ، جو دنیاوی کاموں میں مشغول ہوں۔ یہ رویہ جب پختگی اختیار کر جائے تو ایسے لوگ بات بات پر دوسروں کو جھڑکتے ہیں، ان پر کفر، فسق اور گمراہی کے فتوے عائد کرتے ہیں اور اپنے سوا سب کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ انگریزی میں ایسے لوگوں کے لیے self-righteous اور holier-than-thou کے محاورے موجود ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اہل مغرب کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔

*خوارج سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بھی صحیح بخاری و مسلم میں نقل ہو ئی ہیں۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:*

🌹ابو سلمہ اور عطاء بن یسار ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تم نے حروریہ (حرور کے خوارج ) کے بارے میں کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا حروریہ ( دروریہ ) تو میں جانتا نہیں مگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اس امت میں اور یوں نہیں فرمایا اس امت میں سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے سامنے حقیر جانو گے اور قرآن کی تلاوت بھی کریں گے مگر قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور میں سے پار نکل جاتا ہے اور پھر تیر پھینکنے والا اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے بعد جڑ میں ( جو کمان سے لگی رہتی ہے ) اس کو شک ہوتا ہے شاید اس میں خون لگا ہو مگر وہ بھی صاف۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6931)

دوسری روایت میں ہے کہ !!

🌹ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( جنگ حنین کا مال غنیمت ) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز ( خون وغیرہ ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی ( نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں ) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ( اٹھا ہوا ) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی ( یعنی خوارج سے ) اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا ( جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا ) آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔ ۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر/3610)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خوارج کا یہ سیلف رائچس (Self-Righteous) گروپ عہد رسالت میں بھی موجود تھا۔ ان لوگوں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ بہت زیادہ عبادات کرتے تھے اور اس بنا پر ایک نوعیت کے تکبر کا شکار تھے۔ یہ خود کو اتنا حق پرست سمجھتے تھے کہ اپنے مقابلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاذ اللہ ناانصافی کرنے والا سمجھتے تھے۔ تاہم آپ نے اس وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی کہ اب تک انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان خوارج کے کچھ ساتھیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بعض جرائم کی وجہ سے سزائیں دی تھیں، جس کے سبب یہ آپ کے خلاف ہو گئے تھے۔

موجودہ دور کے لیبیا کے اباضی عالم سلیمان البارونی نے عبداللہ بن اباض (خوارج کی ایک پارٹی کے لیڈر، جن کے نام سے اباضی فرقہ موسوم ہے) کا عبدالملک بن مروان ایک خط اپنی کتاب “مختصر تاریخ الاباضیہ” میں نقل کیا ہے۔ اس خط میں ابن اباض نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھا ہے:

🌹پھر انہوں (عثمان) نے ایسے نئے امور ایجاد کیے، جب پر ان کے پہلے دو ساتھیوں (ابو بکر و عمر) نے عمل نہ کیا تھا اور نہ ہی ان لوگوں نے، جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دیکھا تھا۔ جب اہل ایمان (یعنی باغیوں) نے ان نئی باتوں کو دیکھا تو ان (عثمان) کے پاس آئے اور ان سے بات کی اور انہیں کتاب اللہ اور پہلے سے چلی آ رہی سنت کی طرف توجہ دلائی۔ اس پر انہوں نے ان پر سختی کی کہ وہ انہیں اللہ کی آیات کی طرف توجہ کیوں دلاتے ہیں اور انہیں قوت سے پکڑا۔ ان میں سے جسے چاہا، مارا اور جسے چاہا، جیل میں ڈال دیا یا پھر جلا وطن کر دیا،

(ابو الربیع سلیمان البارونی، مختصر تاریخ الاباضیہ، ص 24۔)

ان باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت لگائی کہ آپ نے کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف یاد دہانی کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی کی تھی حالانکہ اگر آپ ایسے ہوتے تو پھر اس وقت زیادہ شدت سے کاروائی کرتے جب ان باغیوں نے مدینہ کے گرد گھیرا ڈالا تھا۔ اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیے رکھا ، یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں جان دے دی مگر ان کے خلاف کاروائی نہ کی۔

عبداللہ بن اباض کے اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوارج کی بغاوت کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے بعض ساتھیوں کو سزا دی تھی۔ بہرحال یہ گروہ باغیوں کا حصہ بنا رہا اور جنگ جمل اور جنگ صفین میں ان کے ساتھ شریک رہا۔ اس وقت تک ان کی کوئی علیحدہ شناخت نہیں تھی بلکہ یہ اسی باغی تحریک کا حصہ تھا۔

جنگ صفین میں جب صلح کی گفت و شنید ہونے لگی تو یہ منظر عام پر آئے۔ ظاہر ہے کہ کوئی گروہ ایک دم نہیں بن جاتا۔ یہ گروہ بھی ایک دم ہی نہیں بنا ہو گا بلکہ طویل عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہو گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باغی پارٹی کے اندر ایک پارٹی تھی جو الگ سے موجود تھی لیکن جنگ صفین کے خاتمے پر ظاہر ہو گئی۔

بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ باغیوں کے اندر یہ تقسیم خفیہ طور پر جنگ جمل کے بعد ہی وجود میں آ گئی تھی۔ سیف بن عمر کی روایت کے مطابق جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے بعد بصرہ کے خزانے سے فوجیوں کو تنخواہ دی تو انہی باغیوں کو سخت ناگوار گزرا کیونکہ وہ خود پورے مال پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

ایک راوی راشد کا بیان ہے:

🌹حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اصول تھا کہ وہ کسی بھاگتے ہوئے اور زخمی کو قتل نہ کرتے تھے، نہ کسی کا پردہ فاش کرتے تھے اور نہ کسی کا مال لیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہا: “یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان لوگوں کا خون تو ہمارے لیے حلال ہے اور ان کا مال حرام۔ ” حضرت علی نے یہ سن کر فرمایا: “یہ تمہارے بھائی ہیں۔ جس نے ہم سے تعرض نہ کیا (یعنی غیر جانبدار رہا)، وہ ہمارا حصہ ہے اور ہم اس کا حصہ ہیں۔ جو شخص ہمارے مقابلے میں قتل ہوا، وہ ہماری جانب سے ابتداء کے باعث ہوا، اس لیے ان کے مال کا خمس (1/5) نہیں لیا جا سکتا۔” اسی وقت سے وہ لوگ، جو بعد میں خارجی ہو گئے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔
( طبری۔ 3/2-160)

مالک الاشتر کی اس تقریر سے پارٹی کے اندر اس پارٹی کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تقریر موصوف نے انہی خارجیوں کے سامنے کی تھی:

🌹تم لوگوں کو دھوکہ دیا گیا اور واللہ!
تم دھوکے میں مبتلا ہو گئے۔ تمہیں (صفین میں) جنگ بندی کی دعوت دی گئی، تم نے فریب میں آ کر اسے قبول کر لیا۔ اے سیاہ پیشانیوں والو! ہم تو تمہاری نمازیں دیکھ کر یہ سمجھتے تھے کہ تمہیں دنیا سے کوئی غرض نہیں۔ تم جو یہ عبادات کر رہے ہو، اللہ عزوجل کی ملاقات کے شوق میں کر رہے ہو، لیکن اب تمہارے فرار سے یہ ظاہر ہوا کہ تم دنیا کی طلب میں موت سے بھاگنا چاہتے ہو۔ افسوس صد افسوس!
اے بڑے بڑے جبے پہننے والو!
آج کے بعد تم ہمیشہ دو رایوں پر چلتے رہو گے اور ایک رائے پر کبھی متفق نہ ہو گے۔ تم بھی ہمارے سامنے سے اسی طرح دفع ہو جاؤ جیسے ظالم قوم (یعنی اہل شام) دور ہو گئی ہے۔
( طبری ۔ 3/2-244)

*ابو مخنف نے بڑا زور لگایا ہے کہ جنگ صفین میں صلح کے “جرم” کا سارا ملبہ اسی خارجی پارٹی پر ڈال دیا جائے حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی تقاریر اور خطوط سے واضح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود بھی صلح چاہتے تھے اور آپ کی جنگ صفین میں شرکت کا مقصد ہی یہ تھا کہ ان باغیوں کو کنٹرول کیا جائے*

🌹ابو مخنف کا کہنا یہ ہے کہ خارجیوں کے لیڈر مسعر بن فدکی تمیمی اور زید بن حصین الطائی نے حضرت علی سے بڑی بدتمیزی کی اور کہا:

علی! جب تمہیں کتاب اللہ کی دعوت دی جا رہی ہے، تم اسے قبول کرو ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے مخصوص ساتھیوں کو انہی لوگوں کے ہاتھو ں میں دے دیں گے۔ یا پھر جو سلوک ہم نے (عثمان) ابن عفان کے ساتھ کیا، وہی تمہارے ساتھ کریں گے (یعنی تمہیں قتل کر دیں گے۔)
( طبری۔ 3/2-243)

اگر یہ روایتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ خوارج کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی حیثیت نہ تھی اور وہ اپنے زہد و تقوی کے زعم میں ان جلیل القدر صحابہ کو بھی اپنے سامنے کچھ نہ سمجھتے تھے۔ بہرحال ابو مخنف ان خوارج کے خلاف بھی متعصب ہے کیونکہ باغیوں کے ان دونوں فرقوں میں بعد میں زبردست نفرت پیدا ہوئی،

*خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*

ابو مخنف کی روایت کے مطابق ان خوارج کی بغاوت کی بنیاد ان کا یہ نقطہ نظر تھا کہ قرآن مجید کے مطابق باغیوں سے اس وقت تک جنگ کی جائے جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لیں یا پھر بالکل ہی ختم نہ ہو جائیں۔ حضرت علی نے چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے صلح کر لی تھی، اس وجہ سے انہوں نے قرآن کی خلاف ورزی کی۔ قرآن کی خلاف ورزی کرنا گناہ کبیرہ ہے اور ایسا کرنے والا کافر ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما، معاذ اللہ دونوں ہی کافر ہو گئے۔

ان خوارج نے جس آیت کی بنیاد پر اپنے نقطہ نظر کی بنیاد رکھی تھی، وہ یہ ہے:

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🌹وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ.
اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کیجیے۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے خلاف سرکشی کرے تو اس سرکشی کرنے والے سے جنگ کیجیے یہاں تک کہ وہ اللہ کے امر کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروا دیجیے۔ اور انصاف کیا کیجیے کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
(سورہ الحجرات49:9 )

خوارج اس آیت کا مطلب یہ اخذ کرتے تھے کہ جو گروہ بغاوت کرے، اس سے جنگ کرنا قرآن کی رو سے فرض ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور کرنا جائز نہیں ہے بلکہ قرآن کی مخالفت کی وجہ سے کفر ہے۔ چونکہ معاویہ نے بغاوت کی تھی، اس وجہ سے علی پر لازم تھا کہ وہ ان سے جنگ کرتے۔ اب چونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ دو فیصلہ کرنے والے حکم مقرر کر دیے ہیں، اس وجہ سے انہوں نے حکم قرآنی کی خلاف ورزی کی ہے جس کے باعث وہ نعوذ باللہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔

اس کے برعکس حضرت علی اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا موقف یہ تھا کہ حکم مقرر کرنا اس آیت کریمہ میں صلح کروانے کے حکم سے متعلق ہے اور حضرت علی نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔

خوارج کا نقطہ نظر یہ تھا کہ قرآن کے ایک حکم کی خلاف ورزی بھی گناہ کبیرہ ہے اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس عام مسلمانوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا گناہ گار ضرور ہوتا ہے مگر کافر نہیں ہوتا۔ خوارج اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر کثرت سے مسلمانوں پر کفر کا فتوی عائد کیا کرتے تھے۔ بہت مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ وہ اپنے کسی لیڈر کو گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر کفر کا مرتکب قرار دے دیا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ان کی اپنی جماعت فرقوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
( writer/Fazal ur Rahman.
Book name/ Revival and Reform in Islam. Page no_ 36.
London: One World Publications (2006)

خوارج انہی وجوہات سے آپس میں ہی لڑنے لگے اور بالآخر روئے زمین ان کے وجود سے خالی ہو گئی۔

آیت کریمہ پر غور کیا جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ٹھیک ٹھیک اس آیت پر عمل کیا تھا اور فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا کے تحت اصلاح کی کوشش کی تھی۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو انہیں قائل کرنے کے لیے بھیجا اور پھر خود تشریف لے گئے لیکن خوارج نے آپ کی کسی وضاحت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ حضرات کسی طرح ماننا ہی نہ چاہتے تھے اور ہر صورت میں فتنہ و فساد پھیلانا چاہتے تھے۔
یہ بالکل اس کہانی کا سا معاملہ تھا جس میں ایک بھیڑیے نے پانی پیتے ہوئے ایک بھیڑ کے بچے کو دیکھا تو اسے کھانے کی ٹھانی۔ کہنے لگا: “تم پانی گندا کر کے میری طرف کیوں بھیج رہے ہو؟” اس نے جواب دیا: “جناب! پانی تو آپ کی طرف سے آ رہا ہے۔” بھیڑیا بولا: “تم نے مجھے پچھلے سال گالیاں کیوں دی تھیں؟” اس نے جواب دیا: “جناب! میری عمر تو ابھی چھ ماہ ہے۔” بھیڑیا بولا: “پھر تمہاری ماں ہو گی جس نے مجھے گالیاں دی ہوں گی۔” یہ کہہ کر اس نے بھیڑ کے بچے پر حملہ کر دیا اور اسے چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ خوارج کا معاملہ بھی یہی تھا۔ انہوں نے چونکہ فتنہ و فساد کی ٹھان رکھی تھی، اس وجہ سے وہ کسی بھی دلیل سے قائل نہیں ہونے والے تھے اور انہوں نے ہر صورت میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جنگ کرنا تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے مقابلے پر کوئی بھیڑ کا بچہ نہیں تھا بلکہ شیر خدا علی رضی اللہ عنہ تھے،

*خوارج دیگر باغیوں سے الگ کیوں ہوئے؟*

اس پر ہمیں تاریخ کی کتب میں سے کچھ نہیں مل سکا۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ باغیوں کے مابین مفادات کی جنگ ہو گئی ہو گی، جس کی وجہ سے یہ الگ ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا فلسفہ گھڑ لیا۔ مزاج کے اعتبار سے چونکہ یہ بالکل ہی اکھڑ قسم کے متکبر بدو تھے، اس وجہ سے انہوں نے کسی چالبازی کی بجائے سیدھی سیدھی خود کش جنگ چھیڑی اور اس میں اجتماعی خود کشی کر لی۔

*حضرت علی نے خوارج کے ساتھ کیا سلوک کیا؟*

ابو مخنف نے جو واقعات بیان کیے ہیں، ان کے مطابق خوارج کے کچھ سرکردہ لیڈر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ آپ نے معاویہ سے صلح کا معاہدہ کر کے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس پر توبہ کیجیے اور جنگ دوبارہ شروع کیجیے۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ حضرت علی نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایاکہ ہم معاہدہ کر چکے ہیں، جس کی خلاف ورزی کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اس پر ان خوارج نے کہا کہ اگر آپ اس معاہدہ کرنے کے گناہ سے توبہ نہ کریں گے تو ہم آپ سے جنگ کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ “لا حکم الا اللہ” کا نعرہ لگاتے چلے گئے,
(طبری۔ 3/2-269)

🌹اس وقت تک خوارج عام مسلمانوں میں مل جل کر رہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مسجد کے مختلف کونوں سے “لا حکم الا اللہ” کی صدائیں بلند ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ اکبر!
یہ ایک حق کلمہ (لا حکم الا اللہ) ہے جس کے ذریعے باطل کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔ جب تک آپ لوگ ہمارے ساتھ ہیں، میری جانب سے آپ کے لیے تین فیصلے ہیں:
اول یہ کہ ہم آپ کو اس وقت تک مسجد میں آنے سے نہ روکیں گے، جب تک آپ مسجد میں اللہ کا ذکر کرتے رہیں گے۔ (دوسرے یہ کہ) جب تک آپ ہمارا ساتھ دیں گے، ہم مال غنیمت کو بھی آپ سے نہ روکیں گے۔ (تیسرے یہ کہ) جب تک آپ ہم سے جنگ کی ابتدا نہ کریں گے، ہم آپ سے جنگ نہیں کریں گے،
( طبری۔ 3/2-270)

یہ روایت طبری نے ابو مخنف کے علاوہ اور ذرائع سے بھی بیان کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پالیسی یہی تھی۔ جب فیصلے کے لیے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے تو خوارج نے باہمی مشورے سے عبداللہ بن وہب الراسبی کو اپنا امیر بنا لیا۔ ان کے نزدیک یہ شخص پانچواں خلیفہ راشد کہلاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی قوت کو منظم کر کے مدائن کا رخ کیا جو کوفہ کے شمال میں واقع ہے۔ یہاں ان کی مدائن کے گورنر سعد بن مسعود سے جھڑپ بھی ہوئی اور اس کے بعد یہ نہروان کے علاقے میں اکٹھے ہو گئے۔ بصرہ کی خارجی جماعت بھی ان سے آ ملی۔

اس دوران باغی تحریک کے بقیہ عناصر شام پر دوبارہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ بقول ابو مخنف کے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کو خطوط بھی لکھے اور انہیں شام پر حملے کی ترغیب دی لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔ حضرت علی کا جو کردار ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، اس سے یہ بات بہت بعید ہے کہ آپ کے نزدیک اہل شام کا مقابلہ، ان باغیوں کے مقابلے سے زیادہ اہم تھا۔ یقینی طور پر باغی عناصر ہی شام پر حملہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے عزائم میں اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ ابو مخنف ہی کا بیان ہے کہ بہت کم لوگ شام پر حملے کے لیے تیار ہوئے۔ بالآخر غلاموں ، آزاد کردہ غلاموں اور بالکل ہی نوجوان لڑکوں کو ملا کر 57000 کا لشکر تیار ہوا۔
(طبری ۔ 3/2-277)

اس دوران خارجیوں نے جنگی کاروائیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا اور ان سے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں رائے طلب کی۔ انہوں نے ان سب حضرات کی تعریف کی تو انہیں شہید کر دیا۔ ان کے ساتھ ان کی ایک لونڈی بھی تھی جو حاملہ تھی۔ اسے شہید کر کے اس کا پیٹ چاک کر دیا ۔ ان خوارج کے زہد و تقوی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کا قتل ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا لیکن بقیہ معاملات میں یہ بڑے محتاط تھے۔ ایک جگہ ایک درخت سے کھجور گری تو ایک خارجی نے اسے منہ میں ڈال لیا۔ اس کے ساتھی نے ٹوکا کہ یہ کھجور لینا تمہارے لیے حرام ہے۔ اس نے منہ سے کھجور نکال پھینکی اور اپنا ہاتھ بھی کاٹ دیا۔ ایک جگہ ایک غیر مسلم کا خنزیر چرتا دیکھا تو اسے ایک خارجی نے مار دیا۔ دوسروں نے اسے تنبیہ کی تو اس نے جا کر اس کے مالک سے معافی مانگی۔(طبری ۔ 3/2-280)

*اس کردار کے لوگ اب بھی ہمارے ہاں نظر آتے ہیں جو انسانوں کے قتل کو تو بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات میں زہد و تقوی کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔*

🌹حضرت عبداللہ بن خباب کی شہادت کا سن کر حضرت علی نے ان خوارج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم کی سرکردگی میں ایک فوج خوارج کی طرف بھیجی۔ انہوں نے بھی براہ راست حملہ کرنے کی بجائے پہلے خوارج کو دعوت دی کہ وہ قاتلین کو ان کے حوالے کریں اور توبہ کر کے مسلمانوں سے آ ملیں لیکن خوارج نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے بھی انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ کسی طرح نہ مانے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک سفید جھنڈا کھڑا کر کے اعلان کیا کہ جو شخص جنگ کیے بغیر اس جھنڈے کے نیچے آ جائے، اسے امان حاصل ہو گی اور جو یہاں سے نکل کر کوفہ یا مدائن چلا جائے، اسے بھی امان حاصل ہو گی۔ متعدد خوارج نے اس آفر سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی۔ خوارج کی کل تعداد محض چار ہزار تھی جن میں سے اب 2800 آدمی عبداللہ بن وہب الراسبی کے ساتھ رہ گئے تھے۔ انہوں نے جان توڑ کر جنگ کی لیکن بالآخر مارے گئے،
( طبری۔ 3/2-285)

*جنگ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے چار سو زخمیوں کی مرہم پٹی کروائی اور انہیں ان کے قبائل میں بھیج دیا۔ آپ نے ان کا مال و اسباب بھی واپس کر دیا۔ اس سے زیادہ اچھا سلوک شاید ہی کسی نے باغیوں سے کیا ہو گا*

اس کے بعد مین اسٹریم باغی لیڈروں نے ایک مرتبہ پھر شام پر حملے کا ارادہ کیا اور فوج کو لشکر گاہ میں مقیم رہنے کی ہدایت کی لیکن لوگ اہل شام کا مقابلہ نہ کرنا چاہتے تھے چنانچہ وہ آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گئے اور چند سرداروں کے سوا لشکر گاہ خالی ہو گئی،
(طبری ۔ 3/2-290)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگ اہل شام کو مسلمان سمجھتے تھے اور ان باغیوں کے لیے شامیوں سے جنگ کو درست نہ سمجھتے تھے۔ ابو مخنف نے اپنے الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے کہلوا کر ان لوگوں کو بڑی لعن طعن کی ہے اور ان کا نوحہ کہا ہے کیونکہ انہی لوگوں کی وجہ سے باغی پارٹی کا مشن ناکام ہو گیا تھا۔

*خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟*

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شروع میں خوارج سے جنگ کرنے سے پرہیز کیا تھا ، اس کی وجہ وہی تھی کہ جنگ کے نتیجے میں ان کے قبائل بغاوت نہ کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے خوارج کو آخر تک ڈھیل دی اور جب کسی طرح ان کا معاملہ نہ سلجھا، تو ان سے جنگ کی۔ بہرحال جنگ کا نتیجہ وہی نکلا جس سے آپ بچنا چاہ رہے تھے۔

🌹طبری نے شعبی کا یہ بیان نقل کیا ہے:
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل نہروان کو قتل کیا تو ایک بہت بڑی جماعت آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی اور گرد و نواح میں ہر جانب بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ بنو ناجیہ بھی مخالف بن گئے، اہل اہواز نے بھی بغاوت کر دی، بصرہ میں ابن الحضرمی نے پہنچ کر ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور ذمیوں نے بھی خراج دینے سے انکار کر دیا۔ ایرانیوں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ ، جو وہاں کے گورنر تھے، نکال باہر کیا۔ حضرت علی نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ (حضرت معاویہ کے بھائی) زیاد (بن ابی سفیان) کو ایران روانہ کر دو۔ حضرت ابن عباس کوفہ سے بصرہ آئے اور زیاد کو ایک بڑا لشکر دے کر ایران روانہ کیا۔ زیاد نے اہل ایران کو خوب روندا اور انہوں نے بالآخر خراج ادا کیا۔
(طبری ۔ 3/811)

اگر ہم اس قبائلی ماحول کا تصور کریں تو اس سے بات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ یہ روایت دنیا بھر کے قبائلی معاشروں میں عام ہے کہ ہر قیمت پر اپنے قبیلے کے آدمی کا ساتھ دینا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ چنانچہ ہم اپنے دور میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ کوئی جرم جیسے قتل، اغوا وغیرہ میں ملوث ہوتے ہیں اور پھر اپنے قبیلے میں جا کر پنا ہ لے لیتے ہیں۔ پولیس اگر ان کے خلاف کوئی اقدام کرنا چاہے تو پورا قبیلہ ہی اس ملزم کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پولیس، عدالت اور دیگر حکومتی اداروں پر دباؤ ڈال کر تفتیش کا رخ کسی اور جانب پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قبائل تو کیا، موجودہ دور کی سیاسی پارٹیوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جرم کرتے ہیں اور عدالتیں انہیں سزا سناتی ہیں لیکن پارٹی کے کارکن عدالت کا گھیراؤ کر کے اس کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابتدا میں باغیوں کے خلاف کاروائی نہ کی تھی کہ کہیں ان کے قبائل ان کی حمایت میں اٹھ نہ کھڑے ہوں۔ پھر ان کے ایک گروہ “خوارج” نے حضرت علی کے خلاف بھی بغاوت کر دی اور لوگوں کی جان و مال کے لیے خطرہ بن گئے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف کاروائی کی تو ان کے قبائل اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ اس کی تفصیل ہم بعدمیں بیان کریں گے۔

خوارج کی مختلف پارٹیاں بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانوں میں مسلسل بغاوت کرتی رہیں۔ تاریخ میں خوارج کی متعدد بغاوتوں کا ذکر ملتا ہے۔

انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں متعدد بغاوتیں کیں جن میں 57ھ/ع677 کی بغاوت کافی بڑی تھی،

🌹حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں ان کے ساتھ آ ملے لیکن جلد ہی انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کیا تو ابن زبیر نے ان سے براءت کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد ان خوارج نے مغربی ایران کے مختلف علاقوں کو اپنا مرکز بنا لیا اور پہاڑوں میں چھپ کر گوریلا جنگ جاری رکھی۔ یہاں سے یہ شہروں پر حملہ کر کے لوٹ مار کرتے۔ انہوں نے 65ھ/ع684 میں انہوں نے پھر بغاوت کی جسے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرو کیا۔
68/687 میں انہوں نے ایران میں بغاوت برپا کر دی جسے مصعب بن زبیر نے فرو کیا۔
72/691 میں انہوں نے عبدالملک بن مروان کے خلاف بغاوت کی۔
(طبری۔ 4/1-123, 351, 4/2-57, 94)

خوارج کا نقطہ نظر یہ تھا کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے۔ جو شخص بھی ان کے خیال میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا، اسے یہ بلاتکلف کافر قرار دے کر اس سے جنگ شروع کرد یا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک سوائے ان کے گروپ کے، پورا عالم اسلام کافر تھا۔ یہ اپنے ساتھیوں کو بھی معاف نہ کرتے تھے بلکہ ذرا سی غلطی پر انہیں بھی کافر قرار دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی جماعت مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گئی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے تک ان کے بہت سے فرقے بن چکے تھے جن میں ازارقہ، صفاریہ اور اباضیہ نمایاں تھے۔ اباضیہ کے سوا یہ سب بار بار حکومت کے خلاف بغاوت کرتے رہے، جس کی وجہ سے ان کی قوت کمزور پڑ گئی اور دو صدیوں کے اندر اندر یہ فرقہ ختم ہو گیا۔ اباضیہ نسبتاً اعتدال پسند تھے اور جنگ و جدال سے پرہیز کرتے تھے، اس وجہ سے یہ باقی رہے اور آج تک یہ موجود ہیں۔

((( ہم جنگ جمل، صفین، تحکیم اور خوارج سے متعلق مختلف سوالات کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ اب ہم چلتے چلتے مختصراً مصر کی باغی پارٹی کی بقیہ تفصیلات بھی پڑھ لیں، کیونکہ مصر کی باغی پارٹی کا بہت اہم کردار رہا اس سب میں )))

*مصر کی باغی پارٹی*

ہم جانتے ہیں کہ شہادت عثمان کے وقت مصر باغی پارٹی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس سیکشن میں ہم ان کی اس مصری شاخ کے احوال کا مطالعہ کریں گے۔

*شہادت عثمان کے بعد مصر میں کیا ہوا؟*

جیسا کہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ یہاں مصر سے مراد فسطاط شہر ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ اور بصرہ کی طرز پر آباد کیا گیا۔ یہ اس وقت مصر کے صوبے کا دار الحکومت تھا اور اب یہ شہر، موجودہ قاہرہ کا ایک حصہ بن چکا ہے اور یہاں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی بنائی ہوئی مسجد اب تک موجود ہے۔ قدیم مصر کے اور بھی شہر تھے جن میں اسکندریہ مصر کا قدیم دار الحکومت تھا مگر مسلمانوں کے زمانے میں یہ تمام شہر فسطاط کی چھاؤنی ہی سے کنٹرول کیے جاتے تھے۔

آپ پڑھ چکے ہیں کہ کوفہ اور بصرہ کی طرح، فسطاط کو بھی باغیوں نے اپنا مرکز بنا لیا تھا اور ان کے جو گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لیے مدینہ آئے تھے، ان میں سب سے بڑا گروہ مصر ہی سے آیا تھا۔ مصر کے گورنر حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے لیبیا سمیت تیونس تک کا علاقہ فتح کر لیا تھا۔ جب انہیں باغیوں کے مدینہ پر حملے کی اطلاع ملی تو یہ اپنی فوج کے ساتھ مصر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے نکلے لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ خلیفہ کی شہادت کی اطلاع ملی۔

اوپر ہم محمد بن ابی حذیفہ کا ذکر کر چکے ہیں۔ اس شخص کی پرورش حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کی تھی اور اب یہ بڑا ہو کر بغیر کسی اہلیت کے کسی بڑے عہدے کا طالب تھا۔ حضرت عثمان نے اسے مصر بھیج دیا تاکہ یہ یہاں رہ کر ایڈمنسٹریشن میں مہارت حاصل کرے لیکن اس نے ابن ابی سرح کے ساتھ سرکشی کا رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے اس کی شکایت حضرت عثمان کو کی لیکن اسے کوئی سزا نہ دی۔ جب ابن ابی سرح مصر سے فوج لے کر نکلے تو ابن ابی حذیفہ نے مصر کی گورنری پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک کھلی بغاوت تھی جس کے نتیجے میں مصر پر باغیوں کا اقتدار قائم ہو گیا تھا۔ ابن ابی سرح نے باغیوں کے علاقے میں واپس جانا مناسب نہ سمجھا اور شام میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جا پہنچے۔ وہاں سے حضرت معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے مصر کی جانب فوج بھیجی اور ابن ابی حذیفہ کو قتل کر دیا۔

جنگ جمل سےپہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا۔ یہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے اور اب قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ نہایت ہی اعلی درجے کے منتظم اور مخلص مسلمان تھے۔ انہوں نے مصر جا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت لی۔ صرف ایک علاقے “خربتا” کے دس ہزار لوگوں نے ان سے قصاص عثمان کا مطالبہ کیا اور بیعت کا فیصلہ موخر کیا۔ ان میں مسلمہ بن مخلد انصاری اور معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہما جیسے بزرگ انصاری صحابہ موجود تھے۔ قیس رضی اللہ عنہ نے ان سے نرمی کی اور حسن سلوک سے کام لیا، اس طرح سے مصر کا معاملہ بڑی حد تک سلجھ گیا۔

🌹طبری نے یہاں ہشام کلبی اور ابو مخنف کی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں راویوں کا صحابہ سے بغض معلوم و معروف ہے۔ اس روایت میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک خط نقل کیا ہے جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید ہے اور لکھا ہے کہ انہوں نے بدعتیں نکالیں۔( طبری ۔ 3/2-167)

اس کے بعد انہی راویوں نے حضرت معاویہ اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہم کے درمیان خط و کتابت نقل کی ہے جس میں حضرت معاویہ، قیس بن سعد اور حضرت علی پر قتل عثمان کا الزام عائد کرتے ہیں اور حضرت قیس ان کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سازش حضرت معاویہ کی طرف منسوب کی ہے جس کے مطابق انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قیس سے بدظن کرنے کے لیے ان کے جانب سے اپنے نام ایک جھوٹا خط لکھوا کر حضرت علی کو بھجوایا۔ اس خط میں حضرت قیس نے معاویہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اس خط کی وجہ سے حضرت علی نے قیس بن سعد کو مصر کی گورنری سے معزول کر دیا۔

ان روایات کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے راوی ہشام کلبی اور ابو مخنف جیسے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اصحاب رسول کی کردار کشی کی ہے۔ اوپر جو تفصیل دی گئی ہے، اس کی روشنی میں واضح ہے کہ یہ روایت جعلی ہے اور اس کا موجود ہشام کلبی یا ابو مخنف میں سے کوئی ایک ہے کیونکہ حضرت علی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے دست راست اور سب سے بڑے حمایتی تھے۔

حقیقت یہ تھی کہ باغی لیڈر مصر پر خود قبضہ کرنا چاہتے تھے جو کہ ان کی تحریک کا مرکز رہا تھا مگر یہاں قیس بن سعد رضی اللہ عنہما جیسے دانش مند اور ہوشیار گورنر کی وجہ سے انہیں اپنی دال گلتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے خود یہ سازش کی ہو اور قیس کی جانب خط لکھ دیا ہو ۔ جعلی خطوط کے اس فن میں وہ پہلے سے ید طولی رکھتے تھے۔ اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کی جگہ ان باغیوں کے ساتھی محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر لگوایا جا سکے اور پھر مصر میں جی بھر کر من مانی کی جا سکے۔ اس کے لیے انہوں نے بہانہ یہ بنایا کہ اگر قیس، معاویہ کے حامی نہیں ہیں تو پھر انہیں کہیے کہ خربتا کے ان دس ہزار لوگوں سے جنگ کریں جنہوں نے بیعت نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ مصر میں باغیوں کے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی خربتا کے دس ہزار لوگ تھے۔

🌹 انہی کلبی اور ابو مخنف کی روایت کے مطابق جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قیس کو ان لوگوں سے جنگ کا حکم دیا تو قیس نے جواب میں لکھا:
امیر المومنین! مجھے آپ کے حکم سے بہت تعجب ہوا ہے۔ کیا آپ مجھے ایسے گروہ سے جنگ کا حکم دے رہے ہیں، جو آپ کی حفاظت کر رہے ہیں اور آپ کے دشمنوں کو روکے ہوئے ہیں۔ اگر آپ ان سے جنگ کریں گے تو آپ کے دشمن ان کی حمایت کریں گے اور ان پر چڑھ دوڑیں گے۔ امیر المومنین! آپ میری بات تسلیم کیجیے، ان سے جنگ نہ کیجیے کیونکہ ان سے جنگ نہ کرنا بہتر ہے۔ والسلام۔
(طبری ۔ 3/2-173)

ہمیں یقین ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا صاحب حکمت اور صاحب دانش ایسا اقدام نہ کر سکتا تھا کہ جب کئی محاذ کھلے ہوں، وہاں ایک اور محاذ کھول لیتا۔ خربتا کے لوگوں نے بغاوت نہ کی تھی ، وہ صرف غیر جانبدار رہ کر باغیوں کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کے خلاف لشکر کشی کا کوئی جواز نہ تھا۔ قیس بن سعد جیسے صائب الرائے شخص کی رائے بالکل درست تھی لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود باغیوں کو چین کیسے آتا۔ انہیں سب سے بڑھ کر تکلیف یہ ہو گی کہ جس مصر میں انہوں نے اپنی تحریک کو پروان چڑھایا، وہ قیس کے ذریعے ان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح مجبور کر کے قیس بن سعد کو معزول کروایا اور ان کی جگہ محمد بن ابی بکر مصر کا گورنر لگوا دیا اور قیس کو ان کا ماتحت بنا دیا۔ قیس یہ بات برداشت نہ کر سکے اور مصر چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔

🌹طبری نے ایک اور بے سر وپا روایت یہاں نقل کی ہے کہ جب قیس مدینہ پہنچے تو مروان اور اسود بن ابی البختری نے انہیں ڈرایا دھمکایا، جس کی وجہ سے وہ مدینہ چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے۔ اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا جس میں بہت ڈانٹا کہ یہ تم نے کیا کیا۔ اگر تم علی کی مدد ایک لاکھ سواروں سے کرتے تو مجھے اتنا ناگوار نہ گزرتا جتنا کہ قیس جیسے ہوشیار شخص کو مدینہ سے نکال کر تم نے کیا ہے۔
( طبری۔ 3/2-294)

*اس روایت کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ مروان تو اس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے بلکہ اسی وقت مدینہ سے نکل گئے تھے جب شہادت عثمانی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد باغیوں نے گھیرا ڈال رکھا تھا۔*

🌹 اس روایت کی سند یہ ہے:
حدثني عبد الله، عن يونس، عن الزهري۔
اس کی سند میں وہی یونس بن یزید الایلی ہیں جو کہ سخت ناقابل اعتماد ہیں اور انہوں نے زہری سے عجیب و غریب روایتیں نقل کی ہیں۔محدثین نے ان کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی ہیں، ہماری تاریخ کے ابتدائی سلسلوں میں آپ ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

*مصر میں باغی پارٹی کا خاتمہ کیسے ہوا؟*

🌹ہشام کلبی اور ابو مخنف کی روایت کے مطابق محمد بن ابی بکر نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی اور یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ طبری کہتے ہیں کہ چونکہ عام لوگ ان خطوط کا سننا برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں،
(طبری ۔ 3/2-176)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان خطوط میں ان غالی راویوں نے جی کھول کر حضرت معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کی کردار کشی کی ہو گی، تبھی طبری جیسے انسان، جو ہر طرح کی روایت نقل کر دیتے ہیں، نے بھی ان خطوط کو نقل کرنے سے احتراز کیا ہے۔

🌹ہشام اور ابو مخنف کی اپنی روایت کے مطابق محمد بن ابی بکر نے جاتے ہی خربتا کے ان غیر جانبدار لوگوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا مصر اس کے خلاف ہو گیا۔ باغیوں نے اس کی مدد کے لیے مالک الاشتر کو مصر روانہ کیا۔ اگر آپ نقشے کو دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ عراق سے مصر جانے کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاقے سے گزرنا لازم تھا۔ اشتر اسی علاقے سے گزرا اور ایک غیر مسلم کے گھر قیام کیا۔ اس نے اشتر کو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ قاتل اپنے انجام کو پہنچا۔
( طبری۔ 3/2-296)

اس کے سامان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک جعلی خط ملا جس میں اسے اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح باغیوں نے اپنی جعل سازی کے طفیل اس شخص کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا درجہ دے رکھا تھا۔

حضرت معاویہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی سرکردگی میں باغیوں کی سرکوبی کے لیے مصر ایک فوج بھیجی ۔ حضرت عمرو بن عاص ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مصر فتح کیا تھا۔ اس کے بعد طویل عرصے تک یہاں کے گورنر رہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسکندریہ میں دو مرتبہ بغاوت اٹھی تو آپ ہی نے اسے فرو کیا۔ اب آپ ایک مرتبہ پھر مصر فتح کرنے کے لیے نکلے لیکن اس مرتبہ آپ کے مقابلے پر وہی باغی پارٹی تھی۔ جلد ہی انہیں شکست ہوئی اور اس طرح چوتھی مرتبہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا۔ محمد بن ابی بکر چھپتا پھرا لیکن بالآخر پکڑا گیا۔ اس کی موت کے بارے میں اختلاف ہے:

🌹ابو مخنف کی روایت کے مطابق اسے مار کر گدھے کی کھال میں بھر کر جلا دیا گیا جبکہ واقدی کی روایت کے مطابق یہ آخر دم تک لڑتا ہوا مارا گیا
(طبری ۔ 3/2-306)

*افسوس اس شخص پر کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر اس نے پرورش پائی۔ اس کے بعد یہ باغیوں سے مل گیا اور اسے وہ گورنری بھی راس نہ آئی، جس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔ بہرحال اب چونکہ وہ اس جہان سے جا چکا ہے، اس وجہ سے اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کر دینا چاہیے۔ ہمارے پاس سوائے ان روایات کے، کسی کے جرم کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور روایات کی حیثیت آپ کے سامنے ہے*

🌹ابو مخنف نے یہاں بھی ایک جھوٹی روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کر دی ہے کہ جب آپ کو محمد بن ابی بکر کی موت کی اطلاع ملی تو آپ حضرت عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہما کے خلاف بد دعا کرتی رہیں۔ اگر آپ کو اپنے بھائی سے اتنی ہی ہمدردی ہوتی تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے لیے آپ کیوں نکلتیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے البتہ یہ ضرور کیا کہ محمد بن ابی بکر کی اولاد کو اپنی کفالت میں لے لیا اور ان کے بیٹے قاسم بن محمد بن ابی بکر (d. 107/726)ایک بہت جلیل القدر عالم دین بنے۔ یہ سیدہ عائشہ، ابن عباس، ابن زبیر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے شاگردوں میں نمایاں تھے اور ان کا شمار مدینہ کے سات جلیل القدر فقہاء میں ہوتا ہے۔ یہ بہت عبادت گزار تھے اور راتوں کو رو رو کر اپنے والد کے گناہ کی معافی کی دعا کیا کرتے تھے۔

*مصر کی باغی پارٹی اس جنگ میں ماری گئی اور اس طرح سے باغیوں کا مصر کا چیپٹر بھی ختم ہو گیا۔ چونکہ ایسا کرنے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے غیر معمولی کردار ادا کیا، اس وجہ سے باغیوں کی اگلی نسلوں نے آپ کو خاص نشانہ بنایا اور آپ کی کردار کشی کے لیے روایتیں گھڑیں جو طبری میں موجود ہیں۔ ان روایات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں یہی ہشام کلبی، ابو مخنف، سیف بن عمر یا واقدی جیسے راوی نظر آتے ہیں۔ یہ روایات محض ان باغیوں کا انتقام ہے کہ انہوں نے اپنی ناکامی سے جھنجلا کر حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کردار کشی کی روایتیں گھڑی ہیں۔*

*تاریخ کے اگلے سلسلہ میں ان شاءاللہ ہم پڑھیں گے کہ حضرت علی رض کی شہادت کب اور کیسے ہوئی؟اس وقت صحابہ کرام اور باغی پارٹی کے کیا حالات تھے؟*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں