915

سوال_خلافت راشدہ کا سیاسی نظام کیا تھا؟ خلافت کی ابتداء کیسے ہوئی؟ خلافت کے پہلے دور کی مکمل تفصیل بیان کریں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-102”
سوال_خلافت راشدہ کا سیاسی نظام کیا تھا؟ خلافت کی ابتداء کیسے ہوئی؟ خلافت کے پہلے دور کی مکمل تفصیل بیان کریں؟

Published Date:19-10-2018

جواب!!
الحمدللہ!

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم ہر جمعہ کے دن تاریخ اسلام کے بارے پڑھتے ہیں، پہلے (سلسلہ جات 87,88,92,96) میں ہم نے تاریخ اسلام کو پڑھنے کے چند ضروری اصول سمجھے تھے،یہاں ہم خلافت راشدہ کا تذکرہ شروع کرتے ہیں*

اس سلسلے میں ہم پڑھیں گے،

*خلافت راشدہ کا سیاسی نظام کیا تھا؟*

*خلافت کی ابتداء کیسے ہوئی؟*

*سب سے پہلے خلیفہ کون،کیسے اور کب مقرر ہوئے؟*

*کیا کچھ اصحاب نے انکی بیعت سے انکار کیا؟*

*خلیفہ اول کی خلافت پر اعتراضات کے جوابات*

*پہلے خلیفہ کے دور میں کونسے فتنے ظاہر ہوئے؟*

*سب سے پہلا سوال کہ خلافت راشدہ کا سیاسی نظام کیا تھا؟*

یہ سوال خلافت راشدہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر اگلے بہت سے سوالوں کے جواب ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خلافت راشدہ کا سیاسی نظام کیا تھا اور اس کے خدو خال کیا تھے؟ دنیا میں انسانوں نے حکومت کے بہت سے نظام تیار کیے ہیں، جن میں سے ہر ایک کی خصوصیات دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں بادشاہت، آمریت، تھیو کریسی، سیکولر ازم، ارسٹو کریسی، فیوڈل ازم، قبائلی نظام، جمہوریت وغیرہ شامل ہیں۔ پھر جمہوریت میں پارلیمانی اور صدارتی نظام رائج ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف زمانوں میں یہ سب کے سب نظام رائج رہے ہیں۔ اس بات کا تعین کرنے سے پہلے کہ خلافت راشدہ کا نظام کیا تھا، مناسب ہو گا کہ ہم ان نظاموں کی بنیادی خصوصیات بیان کرتے چلیں۔ پھر اس کی مدد سے ہم اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کریں گے کہ خلافت راشدہ کے دور میں کون سا سیاسی نظام رائج ہوا؟ واضح رہے کہ یہاں کسی نظام کی تائید یا تردید مطلوب نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ مختلف سیاسی نظاموں کا تقابلی مطالعہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عہد خلافت راشدہ اور پھر بعد کے ادوار میں کون سا نظام حکومت رائج ہوا۔

*بادشاہت یا ملوکیت*

بادشاہت یا ملوکیت وہ نظام ہے جس میں حکومت کو ایک خاص خاندان کا حق مان لیا جاتا ہے۔ اس خاندان کے ایک شخص کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے جو اپنے کارندوں کی مدد سے حکومت کرتا ہے۔ یہ بادشاہ بالعموم قوانین سے ماوراء ہوتا ہے اور اسے استثنا حاصل ہوتا ہے۔ بادشاہ کا کہا ہوا ایک ایک لفظ قانون ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کے دوران کوئی شخص یا گروہ اسے حکومت سے اتار نہیں سکتا اور ایسا کرنے والے کو باغی سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے یا خاندان کے کسی اور شخص کو بادشاہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بادشاہ مرنے سے پہلے اپنے کسی بیٹے یا بھائی کو ولی عہد نامزد کر دیتا ہے۔ ملکی خزانے کو بادشاہ کی ذاتی ملکیت سمجھا جاتا ہے اور وہ اسے جیسے چاہے خرچ کرے، کوئی اس کا احتساب نہیں کر سکتا ہے۔ لوگوں کی ذہنی تربیت کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ خود کو بادشاہ کا غلام سمجھیں۔ حکومت پر تنقید کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور بالعموم آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
اس وقت دنیا کے صرف چند ہی ممالک میں بادشاہت موجود ہے جن میں برونائی، خلیجی ریاستیں، مراکش وغیرہ شامل ہیں لیکن ان ممالک میں بھی یہ خالص بادشاہت نہیں ہے بلکہ ان کا نظام حکومت ملوکیت، تھیو کریسی اور جمہوریت کا ملغوبہ ہے جس میں ملوکیت کا عنصر زیادہ ہے۔ اسی طرح برطانیہ، ہالینڈ اور جاپان میں بھی ملوکیت اور جمہوریت کا ملغوبہ ہی رائج ہے لیکن وہاں جمہوریت کا عنصر زیادہ ہے۔

*آمریت (Autocracy)*
یہ بھی بادشاہت سے ملتا جلتا نظام ہے جس میں ایک شخص کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ خود ہر قسم کے قانون سے ماوراء ہوتا ہے۔ اسے آمر یا ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے۔ بادشاہت اور آمریت میں فرق یہ ہے کہ بادشاہت میں حکومت کو ایک خاندان کا حق مان لیا جاتا ہے جبکہ آمریت میں اسے اس شخص تک محدود رکھا جاتا ہے۔ ڈکٹیٹر کے مرنے یا اس کے زوال کے بعد اس کی جگہ دوسرا ڈکٹیٹر لے لیتا ہے۔ عام طور پر آمریت ، فوجی طاقت کی بنیاد پر حاصل کی جاتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں فوجی آمریت قائم رہی ہے جن میں حافظ الاسد کا شام، صدام حسین کا عراق، قذافی کا لیبیا، شمالی کوریا اور کافی حد تک پاکستان بھی شامل ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو بھی آمریت کہا جا سکتا ہے۔

*تھیو کریسی (Theocracy)*

اس نظام میں اختیارات کا منبع کوئی بادشاہ نہیں بلکہ خدا ہوتا ہے اور اسی خدا کا قانون چلتا ہے۔ حکمران سمیت حکومت کے تمام کارندوں کو اسی قانون پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس قانون کی تشریح و توضیح مذہبی علماء کے پاس ہوتی ہے۔ عملاً اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت مذہبی علماء کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور وہ بادشاہ کو بھی مجبور کر سکتے ہیں۔ یہ مذہبی علماء عام طور پر ایک خاص تنظیم کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور پھر اس تنظیم کا سربراہ ہی اصل حکمران ہوتا ہے۔ سلطنت کا حکمران بالعموم علماء کی اس تنظیم کے ماتحت ہوتا ہے اور اس کے احکام سے سرتابی نہیں کر سکتا ہے۔ قرون وسطی میں یورپ میں تھیو کریسی کا نظام رائج تھا اور کیتھولک پوپ کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ بادشاہوں کو اس سے ملنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ موجودہ دور میں ایران کا نظام حکومت تھیو کریسی کے قریب ہے۔ اسی طرح خلیجی ریاستوں کے نظام میں بھی تھیوکریسی کا عنصر نمایاں ہے۔

*سیکولر ازم (Secularism)*

یہ نظام تھیو کریسی کا متضاد ہے۔ اس میں یہ مان لیا جاتا ہے کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور حکومتی اور اجتماعی معاملات میں مذہب کو دخل حاصل نہ ہو گا۔ اس طرح سے مذہبی علماء کا اقتدار ختم کر دیا جاتا ہے۔ سیکولر ازم کے فلسفے کے تحت بننے والا نظام بادشاہت، آمریت، جمہوریت، ارسٹو کریسی کسی بھی عنصر پر مشتمل ہو سکتا ہے۔

*ارسٹو کریسی (Aristocracy / Oligarchy)*

اس نظام میں اختیارات کا منبع ایک خاص طبقہ ہوتا ہے جو کہ اشرافیہ کہلاتا ہے۔ یہ ملک کے امیر لوگوں کا طبقہ ہوتا ہے جو مل کر نظام حکومت چلاتے ہیں۔ ان میں سیاستدان، جاگیردار، بڑے تاجر، بیور کریٹ، فوجی جرنیل، مذہبی علماء، میڈیا ٹائی کون وغیرہ سبھی شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں یہی نظام رائج ہے۔ قرون وسطی میں ارسٹو کریسی بھی بادشاہت کی طرح خاندانی ہوتی تھی اور جو شخص کسی غریب گھرانے میں پیدا ہو گیا، وہ کبھی ارسٹو کریٹس میں شامل نہیں ہو سکتا تھا۔ موجودہ دور میں ترقی یافتہ ممالک میں یہ پابندی بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے تاہم پس ماندہ ممالک میں اب بھی یہ پابندی برقرار ہے۔

معاشی نظام کے اعتبار سے ارسٹو کریسی کی کئی شکلیں ہیں جن میں
جاگیرداریت (Feudalism)،
سرمایہ داریت (Capitalism)
اور اشتراکیت (Socialism) دنیا میں رائج رہے ہیں۔

جاگیر داریت (Feudalism) ارسٹو کریسی کی ایسی شکل ہے جو بالعموم زرعی معاشروں میں رائج رہی ہے۔ زرعی معاشرے میں چونکہ تمام معاشی سرگرمیوں کا محور زمین ہی ہوتی ہے، اس وجہ سے جاگیردار ہی اشرافیہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے وفادار افراد کو زمین کا بڑا سا ٹکڑا دے دیتا ہے۔ اس زمین پر کام کرنے والے مزارع عملاً جاگیردار کے غلام ہوتے ہیں جو اس کے زرعی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اسے فوجی طاقت بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ حالت امن میں زمین کو کاشت کرتے ہیں اور حالت جنگ میں اپنے جاگیردار کے شانہ بشانہ لڑتے ہیں۔ اس کے بدلے جاگیردار انہیں فصل اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دے دیتا ہے۔ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے جاگیردار کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس چلا جائے۔ ہاں جن علاقوں میں جاگیردارانہ نظام کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے، وہاں مزارع اسے چھوڑ بھی جاتے ہیں۔

*سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)*

اس میں معاشی سرگرمی کا اصل محور صنعتیں اور کاروبار ہوتے ہیں۔ اس طرح سے دولت کا بڑا حصہ ان صنعتی اور تجارتی ایمپائرز کے مالکوں کے پاس ہوتا ہے۔ یہی لوگ مل کر ارسٹو کریسی تشکیل دیتے ہیں جو حکومت چلاتی ہے۔ جاگیردارانہ نظام کی نسبت، اس میں کارکنوں میں اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک کمپنی کو چھوڑ کر دوسری کے پاس ملازمت کر لیں۔

*اشتراکیت (Socialism)*

میں تمام زمینوں، صنعتوں اور کاروباری کمپنیوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ ملک کو ایک پارٹی چلاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ نظام فیوڈل ازم اور کیپیٹل ازم کو ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا لیکن اس کے نتیجے میں عملاً کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں کی حکومت قائم ہو گئی جو بذات خود ایک ارسٹو کریسی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار ہم نے ارسٹو کریسی میں کیا ہے۔

*قبائلی نظام (Tribalism)*

اس نظام میں سیاسی سرگرمی کا محور و مرکز قبیلہ ہوتا ہے۔ قبیلہ دراصل ایک بہت بڑا خاندان ہوتا ہے جس میں ہر شخص دوسرے کا رشتے دار ہوتا ہے۔ ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا ہے۔ قبیلوں کے اندر آمریت، جمہوریت یا ارسٹو کریسی کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر کسی جگہ بہت سے قبائل رہتے ہوں تو وہ مل جل کر رہنے کے لیے ایک وفاق یا پنچایت مقرر کرتے ہیں جس میں قبائلی سردار مل کر اجتماعی فیصلے کر لیتے ہیں۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہر قبیلے کو آزادی حاصل ہوتی ہے۔ قدیم عرب میں یہ رواج تھا کہ خاندان سے باہر کے لوگوں کو بھی قبیلے کا حصہ بنا لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ اس قبیلے کے “حلیف” یا “موالی” کہلاتے تھے۔

*جمہوریت (Democracy)*

اس نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو معاشرے میں برابر سمجھا جاتا ہے اور اسے یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پارٹی بنائے۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرے ، حکومت پر تنقید کرے اور اپنی رائے کا اظہار کرے۔ حکمران کا انتخاب عام لوگوں کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔ حکمران قانون سے بالاتر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا احتساب بھی کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ اور میڈیا حکومت کی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں اور حکومت کا احتساب کرتے ہیں۔ ہر اہم معاملہ پارلیمنٹ کے مشورے سے طے کیا جاتا ہے۔ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔

جمہوریت میں دو طرح کے نظام رائج ہیں، ایک پارلیمانی جمہوریت کہلاتا ہے اور دوسرا صدارتی۔ پارلیمانی جمہوریت میں عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور یہ نمائندے اپنے میں سے ایک وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس صدارتی نظام میں عوام، ملک کے سربراہ کو براہ راست منتخب کرتے ہیں جسے بالعموم “صدر” کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ عوام پارلیمنٹ کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ ان دونوں کے اختیارات میں توازن رکھا جاتا ہے اور یہ دونوں مل کر حکومت چلاتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کی مثال برطانیہ ہے اور صدارتی جمہوریت کی مثال امریکہ کا نظام حکومت ہے۔

اس وقت جمہوریت کو آئیڈیل نظام حکومت سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں جمہوریت رائج ہے تاہم عملی اعتبار سے یہ ارسٹو کریسی ہی کی ایک نسبتاً بہتر شکل ہے۔ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے دولت اور خاندانی بیک گراؤنڈ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ترقی یافتہ جمہوریتوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقات جیسے مزدور، کسان، خواتین اور اقلیتوں کے لیے پارلیمنٹ میں نشستیں مخصوص کی جائیں تاکہ حکومت میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

*خلافت راشدہ کا نظام*

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے کسی ایک نظام حکومت کو اپنانے کا حکم نہیں دیا کیونکہ مختلف حالات میں مختلف نظام حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم قرآن میں ایک بنیادی اصول بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان جو بھی نظام حکومت اپنائیں، اس کی بنیاد “مشورے” پر ہونی چاہیے اور حکومت کے تمام امور لوگوں کو مل جل کر باہمی مشورے سے چلانے چاہییں۔

🌷وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ.
وہ لوگ جو اپنے رب کی بات کا جواب دیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ان کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(الشوری 42:38)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اگرچہ کسی سے مشورہ کرنے کے محتاج نہ تھے، مگر آپ کو بھی یہی حکم دیا گیا تھا:
🌷فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ.
ان سے درگزر کیجیے، ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے، معاملات میں ان سے مشورہ کیجیے۔ پھر جب آپ فیصلہ کر لیں تو اللہ پر توکل کیجیے، یقیناً اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
(آل عمران 3:159)

ان آیات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی اجتماعی نظام مشورے سے چلنا چاہیے۔ حکمران کسے بنایا جائے؟ حکومتی فیصلے کیسے کیے جائیں؟ حکمران کو معزول کیسے کیا جائے؟ ان سب کا فیصلہ مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہو گا۔ ایسا نہیں کہ حکمران مشورے تو سب کے سن لے اور پھر اپنی من مانی کرے بلکہ معاملات کا فیصلہ لوگوں کے مشورے ہی سے ہو گا۔ جو مشورہ لوگوں کی اکثریت دے ، حکمران کو اسے قبول کرنا ہو گا۔

خلفائے راشدین نے اپنے دور کے لحاظ سے جو نظام حکومت اختیار کیا، اسے ہم قبائلی وفاق کا نظام کہہ سکتے ہیں۔ اس نظام میں مشورے کی روح پوری طرح کار فرما تھی۔ عرب میں دور جاہلیت سے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان قبائل کو اپنی خود مختاری بہت عزیز تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ صدیوں سے کسی ایک حکومت پر متفق نہ ہو سکے تھے اور آپس میں جنگیں کرتے رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنی حکومت قائم فرمائی تو معاہدوں کے ذریعے ان قبائل کو اسلامی مملکت کا حصہ بنا لیا۔ ان معاہدوں میں یہ شرط ہوتی تھی کہ اپنے اندرونی معاملات میں قبیلہ خود مختار رہے گا اور ان پر ان کی مرضی کے خلا ف کسی کو حکمران مقرر نہ کیا جائے گا۔ بین القبائلی معاملات میں فیصلہ کن حیثیت مدینہ کی مرکزی حکومت کو حاصل ہو گی۔ خلفائے راشدین نے بھی یہی نظام حکومت جاری رکھا۔

ہر قبیلے سے متعلق معاملات اس قبیلے کے ساتھ مشورے ہی سے طے پاتے۔ مرکزی حکومت کے لیے طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ تمام قبائل نے متفقہ طور پر یہ تسلیم کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قبیلہ قریش کی حکومت کو تسلیم کریں گے۔ چنانچہ خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ قبیلہ قریش کے سپرد کیا گیا کہ وہ اپنے میں سے کسی شخص کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ اب کس شخص کو خلیفہ منتخب کیا جائے؟ اس کے لیے مدینہ کے سبھی باشندوں سے رائے لی جاتی۔ ان میں خاص کر ان صحابہ کی رائے کو اہمیت دی جاتی جنہوں نے نہایت تکالیف کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس میں وہ صحابہ شامل تھے جو جنگ بدر سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد صلح حدیبیہ میں شامل بقیہ صحابہ کا درجہ تھا اور ان کے بعد باقی سب صحابہ کا۔ اعلی حکومتی عہدوں پر وہ دس صحابہ فائز تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں بالکل ابتدائی سالوں میں شریک ہوئے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں۔
انہیں “عشرہ مبشرہ” کہا جاتا ہے۔
ان کے نام یہ ہیں:

1. ابوبکر صدیق (573-634CE/13H): آپ پہلے خلیفہ تھے اور آپ کو دور حکومت 11-13ھ/ع632-634 تھا۔

2. عمر فاروق (586-645/23H): آپ دوسرے خلیفہ تھے اور آپ نے
13-23ھ/ع634-644کے دوران حکومت کی۔ پہلے خلیفہ کے دور میں آپ ان کے دست راست رہے اور محکمہ قضاء کی ذمہ داری آپ ہی کے سپرد تھی۔

3. عثمان غنی (579-656/35H): آپ تیسرے خلیفہ تھے اور آپ کا دور حکومت 23-35ھ/ع644-656 پر محیط ہے۔ آپ پہلے دو خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ کے رکن تھے اور متعدد ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔

4. علی المرتضی (598-661/40H): چوتھے خلیفہ۔ آپ کا دور حکومت 35-40ھ/ع656-661 ہے۔ پہلے تین خلفاء کے دور میں آپ وفاقی کابینہ میں شامل رہے اور عدلیہ کے سربراہ بھی رہے۔

5. طلحہ بن عبیداللہ (595-656/36H): سب سے پہلے ایمان لانے والے دس افراد میں شامل ہیں۔ دین کی خاطر زبردست قربانیاں دیں، جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر برسنے والی تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکا۔ آپ پہلے تین خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ میں شامل تھے۔

6. زبیر بن عوام (594-656/36H) جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے “حواری ” کا خطاب دیا۔ آپ بھی پہلے تین خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ میں شامل تھے۔

7. ابو عبیدہ بن الجراح (580-652/31H) جو “امین الامت” کے لقب سے مشہور ہیں اور شام کو فتح کرنے والی فوج کے سپریم کمانڈر تھے۔ اس کے علاوہ آپ محکمہ مالیات کے سربراہ بھی رہے۔

8. سعد بن ابی وقاص(595-664/43H): آپ ایران کو فتح کرنے والی فوج کے سربراہ تھے۔ عراق کے گورنر بھی رہے اور مرکزی کابینہ کے رکن بھی تھے۔

9.عبدالرحمن بن عوف (580-652/32H): آپ بھی مرکزی کابینہ کے رکن رہے۔ آپ کو مالی امور پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔

10.سعید بن زید (593-673/51H): آپ حکومتی اور سیاسی معاملات میں زیادہ شریک نہیں رہے۔ رضی اللہ عنہم

عام حکومتی معاملات کو ان ہی دس صحابہ کی ایک کابینہ مل کر چلایا کرتی تھی جس کا سربراہ خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ بڑے اور اہم مسائل کے حل کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب فیصلہ کرنا مقصود ہوتا تو “صلوۃ الجامعہ” کا اعلان کر دیا جاتا جس سے دار الحکومت کے تمام افراد مسجد نبوی میں جمع ہو جاتے جن میں خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔ مسئلے کو ان کے سامنے رکھا جاتا اور ہر شخص کو اپنی رائے بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ اس کے بعد اجتماعی طور پر لوگ جس رائے پر متفق ہوتے ، اسے اختیار کر لیا جاتا۔ بہت بڑے مسائل کی صورت میں قبائل اور صوبوں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جاتا اور ان کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جاتے۔ ایران پر بڑے حملے کا فیصلہ اسی طرح ہوا تھا۔ ان میں آفیشل نمائندوں کے علاوہ کسی بھی عام شخص کو مشورے میں شریک ہونے کا حق حاصل ہوتا تھا اور وہ جب چاہے ، دربار خلافت میں آ کر اپنا مشورہ پیش کر سکتے تھے۔ دربار خلافت کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ مسجد کے فرش پر لگتا تھا جس میں کوئی کسی کو داخل ہونے سے نہ روک سکتا تھا۔

اگر خلیفہ وقت کی رائے ، عام لوگوں کی رائے سے مختلف ہوتی تو وہ اس وقت تک اپنی رائے کو نافذ نہ کر سکتے تھے جب تک کہ وہ انہیں قائل نہ کر لیتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب عراق کی زمینوں کے انتظام کا مسئلہ درپیش ہوا تو اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں فاتحین میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں حکومتی ملکیت میں رکھا جائے اور کسانوں کے ساتھ پارٹنر شپ پر معاملہ کر لیا جائے۔ اس مسئلے پر کئی دن بحث ہوئی اور بالآخر جب صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوئے تو اسے نافذ کیا گیا۔ ہاں اگر کسی معاملے میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود ہوتا، تو پھر اسے بلا تامل نافذ کر دیا جاتا۔

حکومتی معاملات سے لوگوں کو آگاہ رکھا جاتا اور اس کے لیے جمعہ کی نماز کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے نہ صرف اہل مدینہ بلکہ گرد و نواح کے دیہات سے بھی لوگ آیا کرتے تھے۔ خلیفہ وقت جمعہ کا خطبہ دیتے اور اس میں اہم حکومتی امور بھی زیر بحث لاتے اور حکومت کی پالیسی کو بیان کرتے۔ اگر کسی کو اختلاف ہوتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ بر سر منبر ہی خلیفہ کو ٹوک کر اپنی رائے بیان کرے۔ مالی معاملات میں شفافیت کا یہ عالم تھا کہ مال کی تقسیم کھلے عام مسجد میں ہوتی تھی اور ہر شخص کو اعتراض کرنے اور اپنی رائے بیان کرنے کا حق حاصل تھا۔ سال میں ایک مرتبہ بیت المال کے اکاؤنٹس کلوز کیے جاتے اور اس میں موجود تمام مال لوگوں میں ان کی خدمات کے مطابق تقسیم کیا جاتا۔ بیت المال کو صاف کر کے اس میں جھاڑو دے دی جاتی۔

جب خلافت راشدہ کے صوبے قائم ہونا شروع ہوئے تو وہاں بھی یہی ماڈل اختیار کیا گیا۔ ہر شہر کے گورنر کا تعین اس شہر کے لوگوں کی رائے کے مطابق ہوتا۔ مشہور ہے کہ اہل کوفہ اور اہل بصرہ نے حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ادوار میں کئی مرتبہ اپنے گورنر کو ہٹا کر کسی دوسرے کو گورنر بنانے کا مطالبہ کیا تو اسے مان لیا گیا۔ گورنروں کو حکم تھا کہ وہ اپنے تمام فیصلے اہل شہر کے مشورے سے ہی انجام دیں۔ اگر کسی بھی شخص کو گورنر کے خلاف کوئی شکایت ہوتی تو اسے براہ راست خلیفہ تک رسائی حاصل تھی۔ حج کے موقع پر خلفاء راشدین ایسی مجالس لگایا کرتے تھے جن میں کوئی بھی شخص گورنروں کے خلاف اپنی درخواست پیش کر سکتا تھا اور اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہوتا تھا۔

اس طرح سے خلفائے راشدین نے ایک ایسا شورائی نظام حکومت قائم کیا جس کی مثال دور جدید کی امریکی اور یورپی جمہوریتوں میں بھی ملنا مشکل ہے۔ ان جدید جمہوری ریاستوں میں بھی بہت سے امور عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں اور عام آدمی حکومتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن خلافت راشدہ میں ایک عام آدمی کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ کا احتساب کر سکے اور یہ احتساب بھی کسی منفی جذبے سے نہیں بلکہ خلیفہ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہوا کرتا تھا۔

*خلیفہ کا انتخاب قبیلہ قریش ہی سے کیوں کیا گیا؟*

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اسلام مساوات کا قائل ہے اور ہر مسلمان کو برابر قرار دیتا ہے لیکن دوسری طرف اس زمانے میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے اس کے قریشی ہونے کی شرط کیوں لگائی گئی؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اس دور کے تمدنی حالات کو دیکھنا ہو گا۔ علم عمرانیات (Sociology) کے بانی
ابن خلدون (732-808/1332-1405)
کے مطابق ، کسی بھی قوم کی بنیاد “عصبیت ” پر ہوتی ہے۔ عصبیت اس جذبے کو کہتے ہیں جس کے تحت انسان خود کو کسی گروپ سے وابستہ سمجھتا ہے اور اس کی بدولت اپنی شناخت قائم کرتا ہے۔ اسی عصبیت کی بدولت انسان کے ذہن میں “ہم” اور “وہ” کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں یہ عصبیت ملک، صوبے، علاقے، زبان، مذہب، رنگ، نسل کسی بھی بنیاد پر پیدا ہو سکتی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں اہل پاکستان، خود کو ہندوستانیوں سے ایک الگ قوم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی، سندھی، بلوچ ، پٹھان ، کشمیری، بلتی وغیرہ خود کو الگ الگ قومیں تصور کرتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے عصبیت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ اگر عصبیت کمزور ہو جائے تو قوم بکھر جاتی ہے لیکن اگر یہ مضبوط ہو تو قوم کی تشکیل اسی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

عربوں کے ہاں یہ کیفیت تھی کہ ان کا بنیادی معاشرتی یونٹ “قبیلہ” تھا اور عصبیت کی بنیاد اسی پر تھی۔ قبائلی عصبیت کو مذہب کی سی حیثیت حاصل تھی۔ عرب اپنے قبیلے پر کسی بیرونی قوت کی بالا دستی کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ جب اسلام نے مساوات کا درس دیا تو اس کے نتیجے میں یہ ممکن نہ تھا کہ عرب اپنی صدیوں کی روایت کو ایک دن میں چھوڑ دیں۔ جو لوگ علم عمرانیات سے واقف ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ معاشرتی تبدیلی کبھی ایک دن میں نہیں آتی۔ خاص کر جو تعصبات اور عصبیتیں لوگوں میں قائم ہو جائیں انہیں ختم ہونے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمارے قبائلی علاقوں میں اگر آج کوئی ایسی مہم شروع کر دی جائے جس میں انہیں قبائلی عصبیتوں کو ترک کر دینے کی ترغیب ہو، تو یہ عمل کئی صدیوں میں مکمل ہو گا۔ اب سے پانچ سو برس پہلے تک پنجاب بھی ایک قبائلی علاقہ تھا۔ یہاں صدیوں کے عمل کے نتیجے میں قبائل ختم ہو گئے لیکن اب بھی ان کی باقیات برادریوں (جیسے جٹ، ارائیں، راجپوت وغیرہ) کی صورت میں موجود ہیں اور ووٹ دیتے وقت یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اپنی برادری کے نمائندے ہی کو ووٹ دیا جائے۔

دور جاہلیت کے عرب میں ہزاروں سال کے پراسیس کے نتیجے میں جو قبائل بنے تھے، انہیں چند دن میں ختم کرنا ممکن نہ تھا۔ ان قبائل کی عصبیتوں کو ختم کر کے انہیں اسلام کی عصبیت میں یکجا کے لیے سینکڑوں برس درکار تھے۔ فی الحقیقت تین چار سو برس کے بعد ہی یہ عصبیتیں ختم ہوئیں مگر ان میں سے بعض قبائل نے اپنی شناخت آج تک برقرار رکھی ہوئی ہے۔

دور جاہلیت ہی سے ایک ایسی روایت قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں قبیلہ قریش کو عرب میں سردار قبیلے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ قریش حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد تھے اور یہ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ حج کا انتظام کرتے تھے۔ اہل عرب چونکہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی امت تھے اور آپ کے تعلق کی بنا پر خانہ کعبہ کو ان کے ہاں مرکزی حیثیت حاصل تھی، اس وجہ سے وہ قریش کا بہت احترام کرتے تھے۔ دور جاہلیت میں حج متحدہ عرب قومیت کا مظہر بن چکا تھا اور اس کے علاوہ ان میں کسی قسم کی کوئی اجتماعیت نہ تھی۔ کسی عرب قبیلے کا تجارتی قافلہ اگر دوسرے قبیلے کے علاقے میں داخل ہوتا تو اسے لوٹ لیا جاتا تھا لیکن قریشیوں کے تجارتی قافلے یمن سے لے کر شام تک بلا روک ٹوک سفر کرتے اور انہیں ہر قبیلے کی جانب سے امن حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر قبائل کے لوگوں نے بھی قریشی قافلوں میں انوسٹمنٹ کرنا شروع کر دی۔ اس طرح سے قریش عرب میں ایک زبردست معاشی قوت بن گئے۔

ان حالات میں اگر سوائے قریش کے کسی بھی قبیلے کے کسی بھی شخص کو خلیفہ بنایا جاتا تو بقیہ تمام عرب قبائل اس کے خلاف بغاوت کر دیتے کیونکہ ان میں قبائلی عصبیت موجود تھی۔ وہ کسی اور قبیلے کے شخص کو اپنی ناک کٹ جانے کے مترادف سمجھتے اور فضول اور لامتناہی جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا۔ قریش کے معاملے میں ایسا نہ تھا کیونکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام اور خانہ کعبہ سے تعلق کی بنا پر سوائے چند ایک کے سبھی عرب ان کا احترام کیا کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا دعوی صرف دو قبائل کر سکتے تھے۔
ان میں سے ایک قریش تھے
اور دوسرے انصار۔
قریشی صحابہ نے مکی زندگی میں بے پناہ قربانیاں دی تھیں ، ظلم سہے تھے اور اپنا گھر بار اور مال و دولت اللہ تعالی کے دین پر نثار کر دیا تھا۔ دوسری طرف انصار مدینہ تھے جنہوں نے پورے عرب کی مخالفت لے کر مہاجرین قریش کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ ان کی خدمات سے کسی کو انکار نہ تھا لیکن جمہوری اصول پر دیکھا جائے تو یہ مہاجرین قریش ہی تھے جنہیں عرب کے کم و بیش سبھی قبائل کی حمایت تھی۔ اس کے برعکس انصار مدینہ کو اپنے سوا کسی اور قبیلے کی حمایت حاصل نہ تھی۔ پھر انصار دو مزید قبائل میں منقسم تھے جو اوس اور خزرج کہلاتے تھے۔ ان قبائل میں دور جاہلیت سے دشمنی چلی آ رہی تھی جسے اسلام نے ختم کر کے انہیں بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں اس قضیے کا فیصلہ فرما دیا تھا کہ آپ کی وفات کے فوراً بعد خلافت کس قبیلے کو ملے گی۔

فتح مکہ سے پہلے مدینہ کی ریاست میں انصار کو اکثریت حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن، خیبر وغیرہ کے علاقوں جو گورنر مقرر فرمائے، ان کا تعلق انصار ہی سے تھا۔ اگر بالفرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات فتح مکہ سے پہلے ہو جاتی تو عین ممکن ہے کہ پہلا خلیفہ راشد بھی انصار ہی سے ہوتا۔ لیکن فتح مکہ کے بعد صورتحال بدل گئی اور نہ صرف پورے قبیلہ قریش بلکہ عرب کے تمام قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔ اب قریش کے حمایتیوں کو اکثریت حاصل ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قضیے کا فیصلہ فرما دیا۔

🌷وحدثنا محمد بن رافع. حدثنا عبدالرزاق. حدثنا معمر عن همام بن منبه. قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم (الناس تبع لقريش في هذا الشأن. مسلمهم تبع لمسلمهم. وكافرهم تبع لكافرهم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ ان کے مسلمان قریش کے مسلمانوں کے اور ان کے کفار قریش کے کفار کی پیروی کرتے ہیں۔”
(مسلم ، کتاب الامارہ، حدیث 1818)

🌷اسی بات کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنو ساعدہ میں ان الفاظ میں بیان کیا:
فأما العرب فلن تعرف هذا الأمر الا لهذا الحي من القريش.
جہاں تک عربوں کا تعلق ہے تو وہ اس معاملے [سرداری] میں قریش کے سوا کسی اور قبیلے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ عربوں کے نیک، قریش کے نیک لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے برے، قریش کے بروں کی۔
( طبری۔ ص11H/2/1-408۔ حدیث سقیفہ)

واضح رہے کہ یہ دائمی نوعیت کا حکم نہیں تھا بلکہ اس وقت تک کے لیے تھا جب تک قریش کے لیے یہ حمایت برقرار رہے۔ یہ صورتحال چوتھی صدی ہجری میں اس وقت تک رہی جب تک بنو عباس کو اقتدار حاصل رہا۔ اس کے بعد خلافت برائے نام ہی قائم رہی۔ جب غیر عرب قوموں کی طاقت عربوں سے بڑھ گئی تو ترکی کے سلطان سلیم اول (918-926/1512-1520)نے 922/1517 میں خلافت کو عربوں سے ترکوں کی طرف منتقل کر دیا اور عالم اسلام نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ جب ترکوں کی طاقت ختم ہوئی تو خلافت عثمانیہ کا بھی 1343/1924 میں خاتمہ ہو گیا،

*خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت*

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت دو مراحل میں ہوئی۔
پہلے مرحلے پر سقیفہ بنو ساعدہ میں اور دوسرے مرحلے پر عام لوگوں میں۔

سقیفہ بنو ساعدہ انصار مدینہ کے ایک خاندان کا چھپر تھا جس کے نیچے بیٹھ کر وہ باہمی مشورے کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر کچھ انصار کو یہ خیال گزرا کہ ان کی خدمات کے باعث خلیفہ انصار ہی میں سے بننا چاہیے مگر تمام انصار اس بات پر متفق نہ تھے۔ جب جلیل القدر مہاجر صحابہ کو اس بات کا علم ہوا کہ عام مسلمانوں کے مشورے کے بغیر انصار خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان کے پاس پہنچے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ انصار میں چونکہ دین کی خدمت کا بہت جذبہ تھا، اس وجہ سے وہ قائل ہو گئے اور بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ اس کے بعد اگلے دن مسجد نبوی میں عام لوگوں کے سامنے یہ بات پیش ہوئی اور سب لوگوں نے بیعت کر کے متفقہ طور پر آپ کو خلیفہ منتخب کر لیا۔

*سقیفہ بنو ساعدہ میں کیا واقعات پیش آئے؟*

🌷صحیح بخاری، مسند احمد، تاریخ طبری، طبقات ابن سعد اور الانساب الاشراف وغیرہ کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سقیفہ بنو ساعدہ کا واقعہ پیش آیا۔ انصار مدینہ میں سے بعض لوگوں نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (جو کہ ایک جلیل القدر صحابی اور انصار کے قبیلہ خزرج کے سربراہ تھے) کو خلیفہ بنانا چاہا۔ مہاجرین ، جن میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر بزرگ شامل تھے، نے انہیں اس بات پر قائل کر لیا کہ خلیفہ قبیلہ قریش میں سے بنانا چاہیے کیونکہ اہل عرب قریش کے سوا کسی اور قبیلے کی حکمرانی قبول نہیں کریں گے۔ انصار قائل ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کے لیے حضرت عمر یا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما کا نام پیش کیا لیکن ان دونوں حضرات نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور پھر انصار نے بھی آپ کی بیعت کر لی۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-3668، 2462)
(تاریخ اسلام ص : ص328 ج:1)
(تاریخ الخلفاء ص : 52)
(اسد الغابہ ص : ص222 ج:3)
(البدایہ و النہایہ ص :248 ج : 5)

یہاں تک اس واقعے میں کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ انصار مدینہ نے دین کے لیے بہت سی قربانیاں دی تھیں۔ یہ ایک فطری امر تھا کہ وہ خود کو خلافت کا حق دار سمجھتے تاہم اس دور میں ابھی قبائلی عصبیتیں ختم نہ ہو سکی تھیں اور بہت سے قبائل دین میں ابھی داخل ہوئے تھے۔ دور جاہلیت ہی سے ان قبائل کی باہمی دشمنیاں چلی آ رہی تھیں۔ دور جاہلیت ہی سے قبیلہ قریش کو عرب میں امتیازی مقام حاصل تھا۔ اگر خلیفہ کسی اور قبیلے کا بنایا جاتا تو اس کے مخالفین اٹھ کھڑے ہوتے اور خانہ جنگی کی نوبت آ جاتی۔

🌷یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد کی صورتحال کے پیش نظر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ “حکمران قریش میں سے ہوں گے۔
(مسند احمد،حدیث نمبر_12307)
( تاریخ الخلفاءسیوطی ص : 14)

🌷اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کے لیے نامزد کر کے آپ کی جانب اشارہ بھی فرما دیا تھا
(صحیح بخاری ۔ کتاب العلم)

انصار مدینہ نے دین کی خاطر بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ انہوں نے اپنی جائیدادوں تک کو مہاجرین کے ساتھ تقسیم کر لیا تھا۔ اس وجہ سے یہ ایک فطری خواہش تھی کہ دین کی خدمت کے لیے ان کے سردار کو خلیفہ بنا لیا جاتا۔ لیکن اس صورت میں عرب قبائل بغاوت کر دیتے اور حالات بگڑ جاتے۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ انصار خود قبیلہ اوس و خزرج میں تقسیم تھے اور ان دونوں قبیلوں میں دور جاہلیت ہی سے دشمنی چلی آ رہی تھی۔ مدینہ میں اسلام کی دعوت پہنچنے سے پہلے ان میں ایک بڑی جنگ ہو چکی تھی، جو جنگ بعاث کہلاتی ہے اور اس جنگ میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے۔اگر ان میں سے کسی ایک قبیلے سے خلیفہ منتخب کیا جاتا تو دوسرا قبیلہ اسے پسند نہ کرتا۔
ان وجوہات کی بنیاد پر جب حضرت ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی تو وہ قائل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو دل وجان سے خلیفہ تسلیم کر لیا اور ایسا کیا کہ اس کے بعد کبھی بھی ان کے مقابلے میں خلافت کے مدعی نہ بنے۔

یہاں البتہ بعض روایات نے ایک سوال پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی بیعت نہ کی تھی اور سقیفہ کے موقع پر کچھ تلخ کلامی اور مار پیٹ بھی ہوئی تھی۔ بعد میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی بیعت نہیں کی، پھر وہ شام کی طرف چلے گئے جہاں راستے میں پراسرار طریقے سے فوت ہو گئے۔ نظریہ سازش کے علمبردار ان کی وفات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ پہلے ہم تفصیل سے یہ روایتیں پیش کریں گے اور پھر تاریخی تنقید کے مسلمہ اصولوں کے تحت ان کا تجزیہ پیش کریں گے۔ یہاں ہم آپ سے گزارش کریں گے کہ اگر آپ نے پہلے سلسلہ جات کا مطالعہ نہیں کیا تو پہلے ان کا مطالعہ کر لیجیے کیونکہ ان میں تاریخی روایات کی چھان بین کا پروسیجر تفصیل سے بیان ہوا ہے۔

*سقیفہ بنو ساعدہ کی روایت صحیح بخاری میں کچھ یوں آئی ہے:*

🌷ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ایک شخص نے کہا کہ اگر عمر فوت ہو جائیں تو میں فلاں کی بیعت کر لوں۔ خدا کی قسم !
ابوبکر کی بیعت اتفاقاً ہو گئی تھی۔۔۔۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے اور انہوں نے ایک خطبہ دیا۔
اس میں انہوں نے کہا: ۔۔۔۔ “مجھے خبر ملی ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی کہتا ہےکہ اگر عمر فوت ہو جائیں تو میں فلاں کی بیعت کر لوں۔ کوئی شخص آپ لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اتفاقاً مکمل ہو گئی تھی ۔ سن لیجیے کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن اللہ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ آپ میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں ابوبکر جیسی فضیلت ہو۔ جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر بیعت کر لی تو اس کی بیعت اس وجہ سے نہ کی جائے کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔
جس وقت اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفادت دے دی تو ہمیں خبر ملی کہ انصار ہم سے اختلاف رائے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے۔ علی، زبیر اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہم سے اختلاف کیا اور جو ان کے ساتھ تھے۔ مہاجرین ابوبکر کے پاس اکٹھے ہو گئے۔ میں نے ابو بکر سے کہا: “ابو بکر! اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلیے۔” ہم ان کی طرف جانب چلے ، جب ہم قریب پہنچے تو ان کے دو نیک افراد ہمیں ملے۔ ان دونوں نے وہ بات بیان کی جس کی طرف وہ لوگ مائل تھے۔” پھر انہوں نے پوچھا: “اے گروہ مہاجرین! آپ کہاں جا رہے ہیں؟” ہم نے کہا: “اپنے انصار بھائیوں کے پاس۔” وہ بولے: “آپ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ ان کے پاس جائیں بلکہ آپ خود اپنے معاملے کا فیصلہ کر لیجیے۔” میں نے کہا: “واللہ! ہم ان کے پاس جائیں گے (اور خود فیصلہ کرنے کی بجائے پہلے انہیں قائل کریں گے۔)”
ہم ان کے پاس سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ان کے درمیان چادر اوڑھے بیٹھا ہے۔ میں نے پوچھا: “یہ کون صاحب ہیں؟” وہ بولے: “یہ سعد بن عبادہ ہیں۔” میں نے کہا: “انہیں کیا ہوا؟” وہ بولے: “انہیں بخار ہے۔” ہم وہاں تھوڑی دیر ہی بیٹھے تھے کہ ان کے ایک خطیب کلمہ شہادت پڑھ کر اللہ کی حمد و ثنا، جیسا کہ اس کا حق ہے، بیان کرنے لگے۔ پھر وہ بولے: ’’اما بعد۔ ہم اللہ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور اے مہاجرین! آپ لوگ وہ گروہ ہیں کہ آپ کی قوم کے کچھ لوگوں کا ارادہ یہ ہے کہ وہ ہمیں جڑ سے اکھاڑ پھینک کر اس امر [حکومت] کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ‘‘
جب وہ خاموش ہوئے تو میں (عمر) نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک بات سوچ رکھی تھی کہ جسے میں ابوبکر کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا۔ میں ان کا ایک حد تک لحاظ کرتا تھا۔ جب میں نے بولنا چاہا تو ابوبکر نے گفتگو کی اور وہ مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار تھے۔
واللہ!
جو بات میری سمجھ کے مطابق اچھی تھی، انہوں نے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر پیرایہ میں فی البدیہ بات مکمل کی۔ انہوں نے کہا:
“(اے انصار!) آپ حضرات نے جو خوبیاں بیان کی ہیں، حقیقتاً وہ آپ میں موجود ہیں۔ لیکن یہ امر (خلافت) صرف قریش ہی کے لیے مخصوص ہے کیونکہ یہ لوگ عرب میں نسبت اور بیت اللہ سے تعلق کے لحاظ سے افضل مانے جاتے ہیں۔ میری رائے میں آپ ان دو افراد میں سے جسے پسند کریں، اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ ” یہ کہہ کر انہوں نے میرا (عمر ) اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا جو کہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔
(عمر کہتے ہیں:) “مجھے اس کے سوا ان کی اور کوئی بات ناگوار نہ گزری۔
واللہ! میں اس جماعت کی سربراہی پر، جس میں ابوبکر (میرے ماتحت) ہوں، اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا۔
یا اللہ! میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جو مجھے اب میرے اندر محسوس نہیں ہوتی۔ ” اتنے میں انصار میں سے ایک شخص نے کہا: “ہم اسلام کی جڑ اور اس کے بڑے ستون ہیں۔ اے قریش! ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک آپ لوگوں میں سے۔” اتنے میں شور وغل برپا ہو گیا اور آوازیں بلند ہوئیں۔ مجھے اختلاف کا خوف ہوا تو میں نے کہا: “ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھائیے۔” انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کی بیعت کی۔ مہاجرین نے بھی بیعت کی، پھر انصار نے ان کی بیعت کی۔ ہم لوگ سعد بن عبادہ پر غالب آ گئے۔ کسی نے آواز لگائی: “تم نے سعد بن عبادہ کو تو گویا مار ہی ڈالا۔” میں نے کہا: “اللہ نے سعد کو مار دیا، (ہم نے نہیں۔)”
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: “(سقیفہ میں) جو معاملہ ہوا تھا، ہمیں یہ خطرہ تھا کہ اگر ہم یہاں سے ہٹ گئے تو ابوبکر کی بیعت نہ کی تو یہ لوگ ہمارے پیچھے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے (اور یوں عرب قبائل میں بغاوت پیدا ہو جائے گی۔) اس صورت میں یا تو ہم کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں، جو ہماری مرضی کے خلاف ہوتا یا ہم اس کی مخالفت کرتے اور فساد ہوتا۔ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی، اس کی پیروی نہ کی جائے ۔ اور نہ ہی اس شخص کی پیروی کی جائے، جس نے بیعت کی۔ ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔”

(صحیح بخاری۔ کتاب المحاربین من اہل الکفر و الردۃ، حدیث نمبر-6830)

اس واقعے میں تین باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے صحابہ کرام پر تنقید کرنے والا کوئی سوال اٹھا سکتا ہے:

1_ انصار مدینہ نے عام مسلمانوں کے مشورے کے بغیر خود میں سے خلیفہ منتخب کرنا کیوں چاہا؟

2_ مشورہ مکمل ہونے سے پہلے ہی حضرت عمر نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر بیعت کیوں کر لی؟

3_ حضرت عمر نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کے متعلق سخت الفاظ کیوں کہے کہ “اللہ نے انہیں مار ڈالا۔”؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ انصار مدینہ بھی مکمل طور پر اس بات پر متفق نہ تھے کہ خلیفہ انہی میں سے بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف تجاویز پیش کیں۔ پہلی تجویز تو یہ تھی کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا جائے۔ دوسری یہ تھی کہ ایک خلیفہ مہاجرین میں سے اور ایک انصار میں سے بنایا جائے۔ جب مشورہ کیا جا رہا ہو تو ہر شخص کو اپنی رائے قائم کرنے کی آزادی ہوتی ہے جس سے اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں برائی بھی کوئی نہیں ہے۔ ہاں جب مشورہ مکمل ہو جائے اور مسلمان ایک بات پر متفق ہو جائیں تو پھر تفرقہ پیدا کرنا ایک برائی ہے۔ اختلاف رائے کی آزادی اس وقت بھی حاصل ہے لیکن اس اختلاف رائے کو بنیاد بنا کر تفرقہ پیدا کرنا ایک جرم ہے۔ انصار نے محض اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ جب ان کے سامنے دلائل پیش کیے گئے تو انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا کہ خلیفہ مہاجرین میں سے ہو۔ اس وجہ سے انصار پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا سوال کہ،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورے کے دوران ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی جو کہ درست نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر جانتے تھے کہ حضرت ابوبکر ایسی شخصیت ہیں جن پر کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ آپ بلا تفریق مہاجرین و انصار کے کمزوروں کا خیال کرتے تھے، ان کی خدمت کرتے تھے اور ہر شخص کی مدد کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جیسے ہی حضرت ابوبکر کی بیعت کی، تو سب لوگ آپ کی بیعت پر ٹوٹ پڑے۔ انصار کے اس مجمع میں مہاجرین کی نسبت انصار کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اگر انصار آپ کی بیعت نہ کرنا چاہتے تو وہ کم از کم اس وقت انکار کر سکتے تھے لیکن اس کے برعکس وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اکثریت بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا رائے رکھتی تھی؟

بعض دیگر روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا نام پیش کیا تو انصار آپ کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بھی کھلے دل سے حضرت ابوبکر کی خلافت کو قبول کیا،

روایات یہ ہیں:

🌷 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک آپ لوگوں میں سے ، تو حضرت عمر نے ان سے کہا: “اے گروہ انصار! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا ہے۔ آپ میں سے کس کا دل یہ چاہتا ہے کہ وہ ابوبکر سے آگے بڑھے؟” انصار نے جواب دیا: “ہم ابوبکر سے آگے بڑھنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔”
(احمد بن حنبل۔ المسند۔ مسند عمر ۔ حدیث 135۔ 1/98۔ بیروت: دار الفکر۔ www.waqfeya.com (ac. 16 Dec 2009))
[شعیب ارناووط کہتے ہیں: اس حدیث کی سند حسن (درمیانے درجے کی لائق اعتماد) ہے۔ اس کی سند میں عاصم ہیں جو کہ ابن ابی النجود ہیں۔ یہ حسن الحدیث (درمیانے درجے کے قابل اعتماد) ہیں۔ باقی تمام راوی انتہائی قابل اعتماد ہیں اور بخاری و مسلم نے ان سے روایت کیا ہے۔]

🌷حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے آپ (ابوبکر) کا ہاتھ پکڑا تو انصار کے ایک آدمی نے مجھ پر سبقت کی اور آپ کے ہاتھ پر میرے ہاتھ رکھنےسے پہلے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ پھر میں نے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور لوگوں نے بیعت کر لی۔” بعض روایات میں ان کا نام بشیر بن سعد آیا ہے جو کہ نعمان بن بشیر کے والد تھے۔
(ابن کثیر بحوالہ طبقات ابن سعد۔ 5/342)

🌷حضرت ابوبکر نے تقریر کی اور جو کچھ انصار کے بارے میں (قرآن میں) نازل ہوا تھا، اس میں کوئی بات نہ چھوڑی اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بیان فرمایا تھا، اسے بھی بیان کیا۔ فرمایا : “آپ حضرات کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ‘اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا۔’
سعد! آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا اور اس وقت آپ بھی وہیں بیٹھے تھے کہ ‘قریش اس امر (خلافت) کے والی ہیں۔ (دوسرے قبائل کا) نیک آدمی، ان کے نیک آدمی کا اور ان کا برا آدمی ان کے برے آدمی کا تابع ہے۔ ‘” حضرت سعد نے کہا: “آپ نے سچ فرمایا ہے۔ آپ لوگ امراء ہیں اور ہم آپ کے وزیر ہیں۔
(احمد بن حنبل۔ المسند۔ مسند ابی بکر۔ حدیث 19، 1/60)

ان روایات سے پتا چلا کہ انصار ابو بکر صدیق رض کہ بیعت پر راضی تھے!

تیسرا سوال یہ ہے ،
کہ حضرت عمر نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں سخت الفاظ کیوں کہے۔
یہ سوال اصل میں عرب کلچر سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔
عرب سادہ مزاج کے لوگ تھے اور بات کرنے کے لیے ڈپلومیٹک انداز کم ہی اختیار کرتے تھے۔ جو بات دل میں ہوتی، وہ بغیر کسی منافقت کے کھل کر اس کا اظہار کر دیا کرتے تھے اور اگلا شخص بھی اس کا برا نہیں مانتا تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمارے دیہات میں لوگ کھل کر ایسی بات کہہ دیتے ہیں جو شہروں کے رہنے والوں کو ناگوار محسوس ہوتی ہے لیکن سننے والا دیہاتی اس کا برا نہیں مانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی عربی میں اللہ تمہیں مارے، تمہاری ماں تمہیں روئے، تمہاری ناک پر مٹی پڑے، قسم کے بہت سے محاورے موجود ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اردو میں “تمہارا بیڑہ غرق، خدا تمہیں غارت کرے” کہا جاتا ہے۔ ان تمام محاوروں کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کہنے والا واقعی یہ چاہتا ہے کہ اگلا سچ مچ غارت ہو جائے۔ یہ محض بے تکلفانہ انداز میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی دوستوں میں لوگ بے تکلفی سے یہ جملے بولتے ہیں اور سننے والا برا نہیں مانتا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا ہے۔ اگر وہ سچ مچ قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی سخت بات کہتے تو قبیلہ خزرج کے انصار انہیں کم از کم تنبیہ تو کرتے۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اتنی کثرت سے بیعت کے لیے لپکے کہ حضرت سعد ان کے درمیان دب کر رہ گئے۔ اس پر کسی نے یہ جملہ کہا کہ تم نے تو سعد کو مار دیا، اس پر حضرت عمر نے جواباً مزاح فرمایا کہ نہیں اللہ نے مار دیا۔

اگر انصار مدینہ سے زبردستی بیعت لی گئی ہوتی تو پھر عہد خلافت راشدہ میں ان کا وہ کردار نہ ہوتا جو انہوں نے ادا کیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جبر سے جو کام کروایا جائے، اس میں انسان کبھی اس درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا، جو اپنی رضا و رغبت سے کیے گئے کام میں کرتا ہے۔ انصار کے بارے میں معلوم ہے کہ انہوں نے خلفائے راشدین کے پراجیکٹس میں کھلے دل سے حصہ لیا۔ مرتدین کے خلاف جنگیں ہوں یا روم اور ایران کی فتح، مفتوحہ علاقوں کی ایڈمنسٹریشن کا معاملہ ہو یا بیت المال سنبھالنے کا، ہر ہر معاملے میں انصار کے بہت سے لوگ شریک رہے اور انہوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔

انصار کے متعدد لوگوں کو گورنر مقرر کیا گیا اور اعلی فوجی عہدے دیے گئے۔ ان میں حضرت معاذ بن جبل، عبادہ بن صامت، حذیفہ بن یمان، ابو ایوب انصاری، زید بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ حضرت معاذ ، حضرت ابو عبیدہ کے بعد شام میں اسلامی افواج کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے اور ان کی وفات کے بعد فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔
قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں گورنر اور پولیس چیف رہے۔

حضرت عبادہ بن صامت، حذیفہ بن یمان اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم اہم افواج کے کمانڈر رہے۔

حضرت ابو ایوب کی وفات بھی قسطنطنیہ کے جہاد میں ہوئی اور ان کی قبر آج بھی استنبول میں موجود ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر نے قائم مقام خلیفہ مقرر کیا۔

اوپر بیان کی گئی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے:

🌷ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب (سقیفہ بنو ساعدہ میں ) خطبہ دیا تو انصار کے فضائل میں کوئی بات نہ چھوڑی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی فضیلت میں جو کچھ فرمایا تھا، اسے بیان کر دیا اور کہا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: “اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری میں، تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ اے سعد! آپ یقیناً جانتے ہیں کہ جب آپ بیٹھے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: “اس امر (خلافت) کے حقدار قریش ہیں کیونکہ لوگوں کے نیک لوگ ان کے نیک لوگوں کے تابع ہیں اور لوگوں میں سے برے لوگ، ان قریش کے برے لوگوں کے تابع ہیں۔” سعد نے جواب دیا: “آپ نے سچ کہا۔ ہم وزیر ہوں گے اور آپ لوگ امیر ہوں گے۔”
( احمد بن حنبل۔ مسند عمر ۔ حدیث 135، 1/98)

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں انصار کا کردار اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے پوری رضا و رغبت سے بیعت کی تھی۔ اگر ان سے زبردستی بیعت لی گئی ہوتی تو وہ اس طرح ذوق و شوق سے اجتماعی کاموں میں شریک نہ ہوتے،
____________&&&&&________

*حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عام بیعت کیسے ہوئی؟*

سقیفہ کے واقعے کے بعد کیا ہوا، اس کی تفصیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کی ہے:

🌷انس کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے اگلے دن خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ ابوبکر خاموش بیٹھے تھے اور کچھ نہیں بول رہے تھے۔ عمر نے کہا: “میں امید کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہیں گے اور ہمارے بعد انتقال فرمائیں گے۔ پھر اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے تو اللہ نے آپ کے سامنے نور (قرآن) پیدا کر دیا ہے کہ جس کے ذریعے آپ ہدایت پاتے ہیں اور جس سے اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوبکر ، جو غار میں آپ کے دوسرے ساتھی تھے، مسلمانوں میں سے آپ کے امور کے معاملے میں زیادہ اہل ہیں۔ اس لیے اٹھیے اور ان کی بیعت کر لیجیے۔” ان لوگوں میں سے ایک گروہ پہلے ہی سقیفہ بنو ساعدہ میں آپ کی بیعت کر چکا تھا۔ عام بیعت منبر پر ہوئی۔
زہری نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی بات نقل کی ہے کہ میں نے عمر کو اس دن سنا کہ ابوبکر سے بار بار کہہ رہے تھے : “منبر پر آئیے۔” وہ بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ ابوبکر منبر پر بیٹھے اور لوگوں نے ان کی بیعت کی۔
( صحیح بخاری، کتاب الاحکام، حدیث نمبر-7219)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پسند کرتی تھی اور انہیں ہی خلیفہ دیکھنا چاہتی تھی،

*کیا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا گیا؟*

بعض مستشرقین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خفیہ طریقے سے قتل کروا دیا تاکہ وہ حکومت کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ یہ بے اصل اعتراض ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ انصار کے قبیلہ خزرج کے سردار اور انصار کے سابقون الاولون میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ ان صحابہ میں ہیں جنہوں نے مدینہ میں اسلام کی دعوت کو پھیلانے میں زبردست کردار ادا کیا۔ آپ نہایت سخی تھے اور اصحاب صفہ کے اسی اسی افراد کو کھانا کھلاتے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پیدا کرتے جبکہ خود انصار نے متفقہ طور پر حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی تھی؟
عہد صدیقی میں آپ مدینہ منورہ میں رہے اور مسلسل قبیلہ خزرج کے سردار رہے، پھر حضرت عمر کے زمانے میں بھی دو تین سال مدینہ میں رہے۔ اس کے بعد 15 یا 16 ہجری میں آپ شام جا رہے تھے کہ راستے میں حوران کے مقام پر آپ نے وفات پائی۔
( محمد بن سعد بن منیع الزہری (d. 230ھ/844)۔
(الطبقات الکبیر۔ صحابی نمبر 353۔ 3/570۔ قاہرہ: مکتبہ الخانجی www.waqfeya.com (ac. 6 May 2011)

اصل میں بلاذری نے انساب الاشراف میں تین روایتیں ایسی بیان کی ہیں، جن سے یہ سازشی تھیوری اخذ کی گئی ہے۔ ان کی سند کو دیکھتے ہی سارا معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ بلاذری بیان کرتے ہیں:

پہلی روایت_
جدثنا محمد بن مصفى الحمصي، ثنا بقية بن الوليد، عن الزبيري، عن الزهري: سب لوگوں نے (حضرت ابوبکر) کی بیعت کر لی سوائے سعد بن عبادہ کے۔ وہ غچہ دے کر نکل گئے اور پھر شام چلے گئے۔
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ امر السقیفہ ۔ 2/264۔ بیروت: دار الفکر۔ www.waqfeya.com (ac. 27 Oct 2007))
اس روایت کی سند میں بقیہ بن ولید ہیں جو کہ قابل اعتماد راوی نہیں ہیں۔

دوسری روایت یہ ہے:
جدثني روح بن عبد المؤمن، جدثني علي بن المدائني، عن سفيان بن عينية، عن عمرو بن دينار، عن أبي صالح: سعد بن عبادہ شام کی طرف نکل گئے اور وہاں قتل کیے گئے ۔
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ امر السقیفہ ۔ 2/272۔ بیروت: دار الفکر۔ www.waqfeya.com)
اس روایت کی سند میں روح بن عبد المومن ہیں جن کے بارے میں کوئی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی کہ یہ کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ اس روایت میں یہ واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کروایا تھا۔

تیسری روایت_
اس موضوع پر بالکل واضح ہے اور یہی نظریہ سازش کی بنیاد ہے:
المدائني عن ابن جعدبة عن صالح بن كيسان، وعن أبي مخنف، عن الكلبي وغيرهما:
سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور شام کی طرف چلے گئے۔ عمر نے ایک شخص کو بھیجا اور کہا: “انہیں بیعت کی طرف بلانا اور انہیں پریشان کرنا۔ اگر وہ انکار کریں تو ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگنا۔ یہ شخص شام آیا تو اسے سعد حوران کے ایک احاطے میں ملے۔ اس نے انہیں بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: “میں کسی قریشی کی کبھی بیعت نہ کروں گا۔ ” وہ بولا: “پھر میں آپ سے لڑوں گا۔” انہوں نے کہا: “کیا تم مجھ سے لڑو گے؟” اس نے کہا: “آپ اس امت میں داخل ہیں یا خارج؟ ” وہ بولے: “میں اس بیعت سے باہر ہوں۔” اس نے آپ کو نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ یہ روایت بھی کی گئی ہے کہ سعد پر حمام میں حملہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بیٹھ کر پیشاب کر رہے تھے کہ ایک جن نے انہیں تیر مار کر قتل کر دیا۔
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ امر السقیفہ ۔ 2/272۔ بیروت: دار الفکر۔ www.waqfeya.com (ac. 27 Oct 2007)
اگر آپ نے پہلے سلسلوں کا مطالعہ نہیں کیا تو اب کر لیجیے تاکہ پہلی دو صدیوں کے مشہور مورخین کا تعارف ہو سکے۔ اس روایت کی دو اسناد ہیں اور ہر ایک میں ایسے نام ہیں جس سے سارے نظریہ سازش کی بنیاد سمجھ میں آ جاتی ہے۔
ایک تو مشہور مورخ ابو مخنف ہیں جن کے بارے میں ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ ان کا دل صحابہ کرام کے بغض سے بھرا ہوا تھا۔ یہ کلبی سے روایت کر رہے ہیں جن کا صحابہ کرام سے بغض مشہور ہے۔ دوسرے مورخ ابن جعدبہ ہیں جن کا پورا نام یزید بن عیاض بن جعدبہ ہے۔ انہیں امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے، امام مالک نے جھوٹا قرار دیا ہے، دار قطنی نے ضعیف کہا ہے اور یحیی بن معین نے کہا ہے کہ وہ روایات میں جھوٹ کی ملاوٹ کرتے تھے ، اس لیے ان کی روایات کو نہ لکھا جائے۔
( ذہبی۔ میزان الاعتدال۔ 7/259۔ راوی نمبر 9748)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ناقابل اعتماد ہے اور کسی ایسے شخص نے گھڑی ہے جو صحابہ کرام بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہے۔

درایت کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بتا کر قاتل کو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بھیجا تھا؟
اگر انہوں نے اعلانیہ قاتل کو بھیجا تھا تو حضرت سعد کی اولاد، خاندان اور قبیلہ والے کیوں خاموش رہے؟
اور اگر انہوں نے قاتل کو خفیہ طور پر بھیجا تھا تو ان راویوں کو علم کیسے ہوا؟
پھر اگر آپ کو قتل کروانا مقصود ہوتا تو اس کے لیے تین سال انتظار کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
کسی تاریخی روایت میں ایسی کوئی تفصیلات نہیں ملتیں جن کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کبھی حکومت کے لیے خطرہ بننے کی کوشش کی ہو اور نہ ہی کوئی ایسا سراغ ملتا ہے کہ آپ کی اولاد اور اہل قبیلہ نے حکومت پر آپ کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سازش محض افسانہ ہے اور اس کا مقصد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

*اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی وفات کیسے ہوئی؟*

🌷ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت نقل کی ہے:
أخبرنا يزيد بن هارون عن سعيد بن أبي عروبة قال سمعت محمد بن سيرين يحدث: سعد بن عبادہ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: “مجھے کوئی چیز اپنے جسم پر رینگتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔” پھر انہوں نے وفات پائی اور ساتھیوں نے کسی جن کو یہ شعر پڑھتے سنا: “ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کر دیا ہے اور انہیں دو ایسے تیروں سے مارا ہے جن کا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا ہے۔”
( ابن سعد۔ طبقات الکبری۔ سعد بن عبادہ، صحابی نمبر 353۔ 3/570۔ قاہرہ: مکتبہ خانجی۔

اسی صفحے پر دی ہوئی واقدی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک سوراخ میں پیشاب کیا تھا اور جب وہ فوت ہوئے تو ان کی جلد سبز پڑ گئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں انہوں نے پیشاب کیا تھا، وہ کسی سانپ کا بل ہو گا، جس نے نکل کر انہیں کاٹ لیا۔ جسم پر کوئی چیز رینگنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سانپ ان کے لباس میں گھس گیا ہو۔ رہی جنات کے شعر پڑھنے والی بات ، تو ممکن ہے کہ وہ سانپ جن ہو یا پھر یہ محض ان کے ساتھیوں کا وہم ہو کہ پراسرار واقعہ پیش آ جانے پر لوگوں میں اس نوعیت کے وہم پیدا ہو ہی جاتے ہیں اور آوازیں سی سنائی دے جاتی ہیں۔ یہ سانحہ 15/636 میں پیش آیا اور ڈیڑھ سو برس تک حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے، پوتے یا قبیلے کے آدمی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر سازش کا الزام عائد نہیں کیا۔ یہ خیال اس واقعے کے ڈیڑھ سو سال بعد ابن جعدبہ، ابو مخنف اور کلبی کو آیا اور انہوں نے یہ روایت بیان کر دی۔ انہی کی روایت کی بنیاد پر بعض مستشرقین نے کہانی گھڑ لی۔

*کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رض کی بیعت نہیں کی؟*

اس معاملے میں کتب تاریخ میں جو روایات مروی ہیں، ان کا تجزیہ یہ ہے۔

[[ بلاذری (d. 279/893) میں بیعت علی سے متعلق ٹوٹل 16 روایات ہیں جن میں سے 8 روایات میں ناقابل اعتماد راوی ہیں،
جنکے نام یہ ہیں،
محمد بن عمر الواقدی سے 3 روایات ہیں،
ابو مخنف سے 1،
ہشام قلبی سے 2،
مسلمہ بن محارب سے 1،
نامعلوم راوی سے،1

اور

طبری (224-310ھ/ع838-922) میں ٹوٹل بیعت علی پر 5 روایات ہیں، جن میں ناقابل اعتماد روایات کی تعداد 4 ہے،
ہشام کلبی: 1
۔ سیف بن عمر:1۔
ابن الحر: 1۔
نامعلوم راوی:1

یعنی بیعت علی سے متعلقہ ٹوٹل 21 روایات ہیں جن میں سے 12 روایات ناقابلِ اعتماد ہیں، پیچھے صرف 9 روایات رہ جاتی ہیں،

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تاریخی روایتوں کا بڑا حصہ ناقابل اعتماد راویوں کے توسط سے کتب تاریخ میں آیا ہے۔

اس معاملے میں جو تاریخی روایات بیان ہوئی ہیں اور یہ تین طرح کی ہیں:

پہلی قسم کی روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوری رضا و رغبت کے ساتھ اگلے دن ہی بیعت کر لی تھی۔

· دوسری قسم کی روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کچھ پس و پیش کیا تھا لیکن دیگر صحابہ کے سمجھانے پر کچھ ہی عرصہ بعد بیعت کر لی تھی۔

· تیسری قسم کی روایات مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ خود خلیفہ بننا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے بیعت سے انکار کر دیا تھا اور حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا اور ان کا دروازہ جلا دیا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بھی تشدد کیا جس سے ان کا حمل ضائع ہوا اور حضرت علی کو مجبور کر کے ان سے بیعت لی گئی۔ اس کے بعد پہلے تین خلفاء راشدین کے زمانے میں خفیہ سازشوں میں مصروف رہے اور ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتے رہے۔

آگے تفصیل سے ہم تینوں گروپس کی روایات کا تفصیلی جائزہ لیں گے ان شاءاللہ!!!

*پہلے گروپ کی روایات*

برضا و رغبت بیعت والی روایتیں
متعدد ہیں اور یہاں ہم انہیں پیش کر رہے ہیں۔

🌷وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَامِدٍ الْمُقْرِئُ ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَاكِرٍ , ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ , ثنا وُهَيْبٌ , ثنا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدَ , ثنا أَبُو نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر بیعت لینے کے لیے منبر پر چڑھے تو آپ نے دیکھا کہ حضرت علی موجود نہ تھے۔ آپ نے ان کے بارے میں پوچھا۔ انصار میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور انہیں بلا لائے۔ جب وہ آئے تو ان سے فرمایا: “اے رسول اللہ کے چچا زاد بھائی اور داماد! کیا آپ مسلمانوں کے عصا (طاقت) کو توڑنا پسند کریں گے؟” انہوں نے بھی یہی کہا: “اے رسول اللہ کے خلیفہ! مجھے ملامت نہ کیجیے۔” اور پھر ان کی بیعت کر لی۔ پھر آپ نے دیکھا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ غیر حاضر ہیں۔ آپ نے انہیں بلا بھیجا۔ جب حضرت زبیر آئے تو ان سے فرمایا: “اے رسول اللہ کے پھوپھی زاد بھائی اور آپ کے حواری! کیا آپ مسلمانوں کے عصا (طاقت) کو توڑنا پسند کریں گے؟ ” انہوں نے کہا: “اے رسول اللہ کے خلیفہ! مجھے ملامت نہ کیجیے۔ ” پھر کھڑے ہو کر انہوں نے بیعت کر لی۔
( بیہقی۔ الاعتقاد الی سبیل الرشاد۔ باب اجتماع المسلمین علی بیعۃ ابی بکر۔ حدیث 325۔ بلاذری، انساب الاشراف۔ 2/267
www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php… (ac. 11 May 2012)

🌷حدثنا عبيد الله بن سعد ، قال : أخبرني عمي ، قال : أخبرني سيف ، عن عبد العزيز بن ساه ، عن حبيب بن أبي ثابت: حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ کسی نے انہیں بتایا کہ مسجد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیعت لے رہے ہیں۔ اس وقت حضرت علی نے محض ایک طویل کرتا پہن رکھا تھا اور تہمد نہ باندھ رکھا تھا ۔ آپ دیر ہو جانے کے خوف سے اٹھے اور بغیر تہمد باندھے بھاگم بھاگ مسجد میں پہنچے اور بیعت کر کے صدیق اکبر کے پاس بیٹھ گئے۔ اس کے بعد آپ نے گھر سے بقیہ لباس منگوا کر پہنا۔
( ابن جریر طبری۔ حدیث سقیفہ۔ 11H/2/1-410

🌷محمد بن سعد، ثنا محمد بن عمر الواقدي، عن أبي معمر، عن المقبري، و يزيد بن رومان مولى آل زبير، عن ابن شهاب: (سقیفہ کے واقعہ کے بعد) حضرت علی نے ابوبکر رضی اللہ عنہما سے کہا: “ابوبکر! آپ جانتے نہیں کہ اس معاملے (مشورہ) میں ہمارا بھی حق تھا؟” انہوں نے فرمایا: “جی ہاں، لیکن مجھے انتشار کا خوف تھا اور مجھ پر بڑا معاملہ آن پڑا تھا۔” علی نے فرمایا: “میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز کی امامت کا حکم دیا تھا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ غار (ثور) میں ثانی اثنین ہیں۔ ہمارا حق تھا (کہ ہم سے مشورہ کیا جائے) لیکن ہم سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ بہرحال اللہ تعالی آپ کو معاف کرے۔” یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کر لی۔
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 2/263)

🌷حدثن عن الحسن بن عرفة، عن علي بن هشام بن اليزيد، عن أبيه، عن أبي الجحاف: جب ابو بکر کی لوگوں نے بیعت کر لی تو آپ نے کھڑے ہو کر تین بار اعلان کیا: “اے لوگو! (اگر آپ چاہیں) تو میری بیعت کو ختم کر سکتے ہیں۔” علی نے کہا: “خدا کی قسم، ہم نہ تو آپ کی بیعت کو ختم کریں گے اور نہ ہی آپ کو استعفی دینے دیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں آپ کو امام بنایا تھا تو پھر کون ہے جو (دنیاوی امور کی امامت) میں آپ سے آگے بڑھے؟”
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 2/270)

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی اور زبیر رضی اللہ عنہما نے برضا و رغبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔ بعد میں پہلے تینوں خلفاء کے دور میں وہ جس طرح امور حکومت میں پوری دلجمعی کے ساتھ شریک رہے، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پوری رضا و رغبت سے بیعت کی تھی۔ سند کے اعتبار سے ان میں سے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت سب سے زیادہ مستند ہے۔ بقیہ روایتیں اگرچہ سند کے اعتبار سے کمزور ہیں تاہم حضرت علی ا ور زبیر نے پہلے تینوں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایتیں بالکل درست ہیں،

*دوسرے گروپ کی روایات*

بیعت میں پس و پیش کرنے سے متعلق روایات کے مطابق سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے باغ فدک کی وراثت کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ ایک باغ تھا جس کی آمدنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پر خرچ ہوتی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ باغ سرکاری ملکیت ہے، جس کی وجہ سے اس کی وراثت تقسیم نہیں ہو سکتی۔ ہاں ا س کی آمدنی میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو حصہ ملتا رہے گا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس بات پر ناراض ہو گئیں اور چھ ماہ بعد اپنی وفات تک انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات نہیں کی۔
باغ فدک کی روایت یہ ہے:

🌷حدثنا عبد العزيز بن عبد الله: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب قال: أخبرني عروة بن الزبير: أن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أخبرته : سیدہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ کی میراث تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے بطور فئی (وہ مال غنیمت جو جنگ کے بغیر حاصل ہو) دیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہمارا (انبیا کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔” (ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ) فاطمہ رضی اللہ عنہا غضب ناک ہو گئیں اور ابوبکر کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ پھر وہ ان سے اپنی وفات تک نہ ملیں ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں۔
( صحیح بخاری۔ کتاب خمس۔ حدیث 4240)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں چھ ماہ بند رہے اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی ۔ سیدہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ان کے پاس گئے اور ان سے گفت و شنید کی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے فضائل بیان کیے اور اس کے بعد حضرت علی نے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی۔

روایت کچھ یوں ہے:

🌷حدثنا أبو صالح الضرار ، قال : حدثنا عبد الرزاق بن همام ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة :حضرت فاطمہ اور عباس ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا اور کہا کہ فدک اور خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے، وہ ہمیں دیا جائے۔ ابوبکر نے کہا : اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ ہمارے املاک میں ورثہ نہیں، جو ہم چھوڑتے ہیں، وہ صدقہ ہے تو ضرور یہ املاک آل محمد کو مل جاتیں۔ ہاں اس کی آمدنی میں سے آپ کو بھی ملے گا۔ بخدا میں ہر اس بات پر عمل کروں گا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہے۔

(زہری نے) بیان کیا کہ اس واقعے کی وجہ سے فاطمہ نے پھر وفات تک اس معاملے سے متعلق ابوبکر سے کوئی بات نہیں کی اور قطع تعلق کر لیا۔ جب فاطمہ کا انتقال ہوا تو علی نے رات میں ان کو دفن کر دیا اور ابوبکر کو نہ تو ان کی وفات کی اطلاع دی اور نہ دفن میں شرکت کی دعوت دی۔ فاطمہ کی وفات کے بعد ان لوگوں کا خیال علی کی طرف پلٹ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ فاطمہ اور زندہ رہیں اور پھر انہوں نے وفات پائی۔

معمر کہتے ہیں کہ زہری سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا علی نے چھ مہینے تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں کی اور جب تک انہوں نے نہیں کی ، تو بنو ہاشم میں سے کسی نے نہیں کی۔ مگر فاطمہ کی وفات کے بعد جب علی نے دیکھا کہ لوگوں کا وہ خیال باقی نہیں رہا، جو فاطمہ کی زندگی میں تھا تو وہ ابوبکر سے مصالحت کے لیے جھکے اور انہوں نے ابوبکر کو کہلا بھیجا کہ مجھ سے تنہا آ کر ملیے اور کوئی ساتھ نہ ہو۔ چونکہ عمر سخت طبیعت کے آدمی تھے، علی کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ وہ بھی ابوبکر کے ساتھ آئیں۔ عمر نے ابوبکر سے کہا کہ آپ تنہا بنو ہاشم کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر نے کہا: “نہیں، میں تنہا جاؤں گا۔ مجھے اس کی توقع نہیں کہ میرے ساتھ کوئی بدسلوکی کی جائے گی۔” ابوبکر، علی کے پاس آئےتو تمام بنو ہاشم جمع تھے۔ علی نے کھڑے ہو کر تقریر کی ۔ اس میں حمد و ثنا کے بعد کہا: ’’اے ابوبکر! آج تک ہم نے آپ کے ہاتھ پر جو بیعت نہیں کی، اس کی وجہ آپ کی کسی فضیلت سے انکار یا اللہ کی آپ کو دی گئی بھلائیوں پر حسد نہ تھا۔ بلکہ ہم اس خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے مگر آپ نے زبردستی اسے ہم سے لے لیا۔‘‘ اس کے بعد علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت اور اپنے حق کو بیان کیا۔ علی نے ان باتوں کو تفصیل سے بیان کیا یہاں تک کہ ابوبکر رو پڑے۔ علی جب خاموش ہوئے تو ابوبکر نے تقریر شروع کی۔ کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالی کے شایان شان حمد و ثنا کے بعد انہوں نے کہا: “واللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرباء مجھے اپنے رشتہ داروں کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہیں۔ میں نے ان املاک کے متعلق جو میرے اور آپ کے درمیان اختلاف کا باعث بنی ہیں، میں صرف واجبی کمی کی تھی۔ نیز میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت نہیں جو ہم چھوڑیں۔ وہ صدقہ ہے۔ ہاں اس کی آمدنی میں سے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا رہے گا اور میں اللہ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ کسی بات کا ذکر کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو اور خود اس پر عمل نہ کروں۔ ”

علی نے کہا: “اچھا! آج شام ہم آپ کی بیعت کریں گے۔” ظہر کی نماز کے بعد ابوبکر نے منبر پر سب کے سامنے تقریر کی اور بعض باتوں کی علی سے معذرت کی۔ پھر علی کھڑے ہوئے او رانہوں نے ابوبکر کے حق کی عظمت اور ان کی فضیلت اور اسلام میں پہلے شرکت کا اظہار اور اعتراف کیا اور پھر ابوبکر کے پاس جا کر ان کی بیعت کی،
( بخاری۔ کتاب خمس۔ حدیث 4642)
( طبری۔ 11H/2/1-411)

اس واقعے کا تجزیہ دو اعتبار سے کیا جا سکتا ہے، ایک سند کے اعتبار سے اور دوسرا درایت کے اعتبار سے اور دونوں اعتبار سے اس میں کچھ مسائل موجود ہیں۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام روایتوں کی سند میں دیکھیے تو ان میں ابن شہاب الزہری (58-124/678-742) موجود ہیں۔ محدثین کے نزدیک زہری ایک جلیل القدر محدث اور قابل اعتماد راوی ہیں تاہم ان کے ساتھ کچھ مسائل موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ احادیث میں “ادراج ” کیا کرتے تھے۔ ادراج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے اس میں اپنی جانب سے تشریحی جملے شامل کر دیے جائیں۔ اس پر زہری کو ان کے معاصر ربیعہ کہتے تھے کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ہے۔ اگر ایسا کرنا ضروری بھی ہو تو اسے الگ سے بیان کریں تاکہ ان کی رائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات میں مل نہ جائے۔
(بخاری۔ التاریخ الکبیر۔ راوی نمبر 976۔ 3/135۔ www.almeshkat.net (ac. 28 Apr 2007)

دوسرے یہ کہ وہ “تدلیس” کیا کرتے تھے یعنی حدیث کی سند میں اگر کوئی کمزوری ہو تو اسے چھپا لیتے تھے۔

باغ فدک سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، ان سب کو اگر اکٹھا کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراضی کا ذکر صرف انہی روایات میں ملتا ہے جن کی سند میں زہری موجود ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناراضی والی بات زہری کا ادراج (اضافہ) ہے۔ چھ ماہ تک ناراض رہنے والی بات صرف زہری ہی نے بیان کی ہے جو کہ اس واقعہ کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ زہری اس واقعے کے عینی شاہد تو نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بات کس سے سنی اور جس سے سنی، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان کے علاوہ کسی اور نے تو یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ مشہور محدثین جیسے بیہقی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی زہری کی اس بات کو منقطع قرار دے کر اسے مسترد کیا ہے،
( ابن حجر عسقلانی۔ فتح الباری شرح بخاری۔ 7/495۔ زیر حدیث 4240۔ ریاض: مکتبہ سلفیہ۔)

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ناراضی والی بات درایت کے نقطہ نظر سے بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے حصول کا خیال گزرا تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بات کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ، حضرت صدیق اکبر کو جائز حکمران تسلیم کرتی تھیں، تبھی ان کے پاس مقدمہ لے کر گئیں۔ حضرت ابوبکر نے وضاحت فرما دی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مال کو صدقہ قرار دیا تھا اور باغ فدک تو ایک سرکاری جائیداد تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت نہ تھی بلکہ حکومت کی ملکیت تھی۔ اس کی صرف آمدنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر بطور تنخواہ خرچ ہوتی تھی کیونکہ آپ بطور سربراہ حکومت فل ٹائم کام کرتے تھے اور آپ کی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی آمدنی بدستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر خرچ ہو گی۔

حضرت ابوبکر نے دلیل سے بات کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اگرسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس سے اختلاف ہوتا تو وہ بھی جوابی دلیل پیش کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ آپ کی بات کو سمجھ گئی تھیں۔ سیدہ کے زہد و تقوی ، اعلی کردار اور دنیا سے بے رغبتی کو مدنظر رکھا جائے تو آپ سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ آپ اس بات پر ناراض ہو جائیں گی کہ آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا جائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو زہری کی روایت میں کسی اور نے یہ ناراضی والا جملہ شامل کر دیا ہے یا پھر یہ جملہ خود انہوں نے کسی غلط فہمی کے سبب کہہ دیا ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ باغ فدک کے دعوے داروں میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی نظر آتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ یہ بات بالکل معروف اور متعین ہے کہ قرآن مجید کے قانون وراثت کی رو سے چچا کا میراث میں حصہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ان کا دعوی کرنا سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خاندان کے بزرگ کے طور پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چلے گئے تھے۔

چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کو محروم نہ کیا تھا بلکہ ان دونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سیدہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو بھی اس وراثت سے محروم کیا تھا۔ عام طور پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات کو بہت اچھالا گیا ہے لیکن سیدہ عائشہ و حفصہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے حالانکہ وراثت میں بیوی کا حصہ بھی ہوتا ہے۔

پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہم کو اس کا ٹرسٹی مقرر کر دیا تھا۔ آپ اس کی بطور ٹرسٹ حیثیت کو مانتے تھے تبھی آپ نے اس کا ٹرسٹی بننا قبول کیا۔ اگر باغ فدک واقعی اہل بیت کی ملکیت ہوتا تو آپ کم از کم اپنے دور خلافت میں تو اسے ان کے حوالے کر سکتے تھے۔ ان کا ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسے اہل بیت کی ملکیت نہ سمجھتے تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس باغ کو مروان بن حکم نے حکومت سے خرید لیا تھا، اس وجہ سے حضرت علی نے ایسا نہ کیا۔ لیکن یہ بات درست نہیں، اگر یہ واقعتاً اہل بیت کا حق تھا تو حضرت علی کو چاہیے تھا کہ وہ اسے اس کے حق داروں تک پہنچاتے اور مروان کو ان کی رقم واپس کروا دیتے۔

چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ خود حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پڑپوتے، حضرت زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: “اگر میں ابوبکر کی جگہ ہوتا تو فدک کے بارے میں وہی فیصلہ کرتا جو انہوں نے کیا تھا۔
( ابن حجر عسقلانی۔ فتح الباری شرح بخاری۔ 7/495۔ زیر حدیث 4240۔ ریاض: مکتبہ سلفیہ۔
( بیہقی، حدیث 12744۔ 6/493)

ساتواں مسئلہ یہ ہے کہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مرد مومن سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ محض ایک باغ کی وجہ سے آپ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہیں اور نماز پڑھنے کے لیے بھی مسجد میں تشریف نہ لائیں؟ آپ نے اسلام کے لیے بے شمار خدمات انجام دیں، کیا یہ ممکن تھا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات جیسے نازک موقع پر پیچھے بیٹھ رہتے جب متعدد عرب قبائل نے بغاوت کا علم بلند کر دیا تھا۔ اگر آپ کو حضرت ابوبکر سے کوئی شکایت تھی تو براہ راست ان کے پاس جا سکتے تھے اور ان سے معاملات پر گفتگو کر سکتے تھے لیکن اس کی بجائے یہ کہنا کہ آپ اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر گھر بیٹھ رہے، یہ بات کسی طرح آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ جب سب کے سب صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت علی ایسا نہ کرتے اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ حضرت علی کی بیعت نہ کرنے والی روایات دراصل حضرت ابوبکر پر نہیں بلکہ حضرت علی پر بہتان ہیں اور آپ کی کردار کشی کی کوشش ہیں۔

آٹھواں مسئلہ یہ ہے کہ عہد رسالت میں مال غنیمت میں سے جو حصہ بنو ہاشم کے لیے مقرر تھا، اس کی تقسیم کی ذمہ داری حضرت علی ہی کے سپرد تھی۔ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم، برابر اس مال کو حضرت علی ہی کو دیتے رہے جو کہ ان پر اعتماد کی علامت ہے۔ اگر ان کے درمیان عدم اعتماد کی فضا ہوتی تو پھر ایسا نہ ہوتا۔

🌷حدثنا عباس بن عبد العظيم، ثنا يحيى بن أبي بُكير، ثنا أبو جعفر الرَّازي، عن مُطرِّف، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: سمعت عليّاً يقول: حضرت علی نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس کے پانچویں حصے (کی تقسیم) کا ذمہ دار بنایا۔ میں نے اسے رسول اللہ کی حیات طیبہ میں اس کے مخصوص مقامات پر خرچ کیا۔ پھر ابو بکر اور عمر کی زندگی میں بھی اسی طرح ہوتا رہا۔ پھر کچھ مال آیا تو عمر نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’لے لیجیے۔‘‘ میں نے کہا: ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لے لیجیے، آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (کہ پہلے ہی ہمارے پاس کافی مال ہے، کسی ضرورت مند کو دے دیجیے۔)‘‘ چنانچہ انہوں نے اسے بیت المال میں جمع کر دیا۔‘‘
ابو داؤد۔ سنن۔ کتاب الخراج و الفئی و الامارہ۔ حدیث 2983)

نواں مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں متعدد ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن کے مطابق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت کے لیے تشریف لاتے رہے۔ جب سیدہ کا انتقال ہوا تو حضرت علی نے اصرار کر کے حضرت ابوبکر ہی کو نماز جنازہ پڑھانے کے لے کہا،
سیدہ فاطمہ کو غسل حضرت ابوبکر کی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہم نے دیا۔ اب اگر روایات ہی کو ماننا ہے تو پھر ان روایات کو کیوں نہ مانا جائے جو اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار کے کردار کے عین مطابق ہیں۔

روایات یہ ہیں:

🌷أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ : مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَتَكِىُّ بِنَيْسَابُورَ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِى خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِىِّ: شعبی کہتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق ان کے پاس آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ علی نے کہا: “فاطمہ! یہ ابوبکر آئے ہیں اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں؟” انہوں نے کہا: “آپ کیا انہیں اجازت دینا چاہتے ہیں؟” فرمایا: “ہاں۔” انہوں نے اجازت دے دی تو ابوبکر اندر داخل ہوئے اور سیدہ کو راضی کرنے کی کوشش کی اور فرمایا: “واللہ! میں نے اپنا گھر، مال، اہل و عیال اور خاندان کو صرف اللہ اور اس کے رسول اور آپ اہل بیت کی رضا ہی کے لیے چھوڑا تھا۔ ” پھر وہ انہیں راضی کرتے رہے یہاں تک کہ سیدہ ان سے راضی ہو گئیں۔،
( بیہقی۔ سنن الکبری۔ حدیث 12375۔ 6/491۔ www.waqfeya.com (ac. 17 May 2005)

حافظ ابن کثیر (701-774/1301-1372) نے پہلی اور دوسری قسم کی روایات کو تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت شروع ہی میں کر لی تھی۔ باغ فدک کی وجہ سے سیدہ رضی اللہ عنہا کے ذہن میں کچھ کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ کشیدگی کا پیدا ہو جانا ایک انسانی معاملہ ہے جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بلند رتبہ کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بیمار پڑیں تو ان کی تیمار داری کے باعث حضرت علی زیادہ باہر نہ نکلے ۔ دوسرے یہ کہ آپ قرآن مجید کو نزولی ترتیب سے جمع کرنا چاہتے تھے جو کہ ایک علمی نوعیت کی کاوش تھی۔ اس بات کی تائید بلاذری کی اس روایت سے ہوتی ہے:

🌷حدثنا سلمة بن الصقر، وروح بن عبد المؤمن قالا: ثنا عبد الوهاب الثقفي، أنبأ أيوب، عن ابن سيرين قال: ابن سیرین کہتے ہیں کہ ابوبکر نے علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: “کیا آپ میرے امیر بننے کو ناپسند کرتے ہیں؟” انہوں نے کہا: “نہیں۔ اصل میں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ قسم کھائی ہے کہ جب تک میں قرآن مجید کو نزولی ترتیب سے جمع نہ کر لوں، اس وقت تک باہر نہ آؤں گا۔
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 2/269)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے باہر نہ نکلنے سے بعض لوگوں کو گمان گزرا کہ ان حضرات میں کچھ ناراضگی موجود ہے حالانکہ حضرت ابوبکر صدیق ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے گھر آ کر انہیں راضی کر چکے تھے۔ صدیق اکبر کا فیصلہ شریعت کے عین مطابق تھا تاہم انہوں نے پھر بھی سیدہ کی دلجوئی کی جس سے آپ کی اہل بیت کے لیے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کے نقطہ نظر کو قبول کیا اور ان سے راضی ہو گئیں۔
( ابن کثیر۔ البدایہ و النہایہ۔ 5/389)

آپ کے انتقال کے بعد حضرت علی نے اس وجہ سے علی الاعلان صدیق اکبر کی دوبارہ بیعت کی تاکہ لوگوں کی غلط فہمی دور ہو جائے اور انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ اصحاب رسول میں کوئی ناراضی نہیں ہے اور وہ یکجان کئی قالب ہیں۔ اس ضمن میں بلاذری نے یہ روایت بیان کی ہے جس سے اس سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کردار واضح ہوتا ہے۔

🌷المدائني، عن عبد الله بن جعفر، عن أبي عون: ابو عون کہتے ہیں کہ جب عربوں نے ارتداد اختیار کیا تو عثمان، علی کے پاس گئے اور علی کہنے لگے: “میرے چچا زاد بھائی! کوئی بھی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔” عثمان نے کہا: “یہ دشمن (مرتدین) ہیں اور آپ نے بیعت نہیں کی۔” عثمان، علی کے پاس اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک کہ وہ ان کے ساتھ چل نہ پڑے اور ابوبکر کے پاس آ نہ گئے۔ ابوبکر انہیں دیکھ کر کھڑے ہوئے اور ان سے گلے ملے۔ اس کے بعد یہ دونوں حضرا ت روئے اور علی نے ابوبکر کی بیعت کر لی۔ لوگ اب جنگ کے لیے تیار ہو گئے اور لشکر روانہ کیے گئے۔ (بلاذری۔ 2/570)

*تیسرے گروپ کی روایات*

جبراً بیعت لی جانے والی روایات بالعموم اہل تشیع کی کتب میں آئی ہیں۔ ان کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور دروازہ جلا دیا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آگے آئیں تو انہیں گرا دیا جس سے ان کا حمل ضائع ہو گیا اور ان کی پسلی ٹوٹ گئی۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کر کے ان سے زبردستی بیعت لی۔
جبری بیعت والی روایات زیادہ تر ابو مخنف لوط بن یحیی (d. 157/774) سے مروی ہیں جن کا صحابہ کرام کے بارے میں تعصب مشہور ہے اور صحابہ کی کردار کشی سے متعلق جتنی روایات ہمیں ملتی ہیں، ان کا زیادہ تر حصہ انہی سے منقول ہے۔ ابو مخنف سے ہٹ کر صرف ایک روایت ایسی ملتی ہے جو بلاذری نے نقل کی ہے:

🌷المدائني، عن مسلمة بن محارب، عن سليمان التيمي، وعن ابن عون:
ابوبکر نے علی کو پیغام بھیجا کہ وہ آ کر بیعت کریں۔ انہوں نے بیعت نہ کی۔ عمر ان کے گھر آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک مشعل تھی۔ فاطمہ گھر کے دروازے پر آئیں اور کہنے لگیں: “ابن خطاب! کیا آپ میرے گھر کا دروازہ جلا دیں گے؟” انہوں نے کہا: “ہاں۔ یہ اس سے زیادہ مضبوط طریقہ ہے جو آپ کے والد لے کر آئے تھے۔” اتنے میں علی آ گئے اور انہوں نے بیعت کر لی اور کہا: “میرا تو ارادہ صرف یہ تھا کہ میں اس وقت تک گھر سے نہ نکلوں جب تک کہ قرآن جمع نہ کر لوں۔
( بلاذری۔ 2/268)

اس روایت کی سند میں دو مسائل ہیں:

پہلا مسئلہ-
مسلمہ بن محارب کے حالات نامعلوم ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس درجے کے قابل اعتماد راوی ہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمہ بن محارب کو مشہور ماہر جرح و تعدیل، ابن حبان نے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔ یہ ابن حبان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے لیکن ان کے علاوہ کسی اور ماہر جرح و تعدیل نے مسلمہ بن محارب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معروف راوی نہیں تھے، جس کی وجہ سے ماہرین کو ان کے حالات کا زیادہ علم نہیں ہو سکا ہے۔

دوسرا مسئلہ-
یہ روایت ابن عون بیان کر رہے ہیں جو کہ (d. 151/768) میں فوت ہوئے۔
( ذہبی۔ سیر الاعلام النبلاء۔ شخصیت نمبر 3328۔ ص 2451)

اگر ابن عون کی عمر کو سو سال بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ اس واقعے کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ابن عون نے یہ واقعہ کس سے سنا اور جس سے سنا، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟

اس ایک روایت کے علاوہ کسی اور ذریعے سے یہ روایات نہیں ملتی ہیں۔ جس شخص نے بھی جبری بیعت کی یہ روایت گھڑی ہے، اس نے نہ صرف حضرات ابوبکر و عمر بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہم کی شہرت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی باتوں کو آپ سے منسوب کیا ہے جو آپ کے شایان شان نہیں ہیں۔ حضرت علی کی شجاعت ضرب المثل ہے۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ کوئی آ کر آپ کے گھر پر حملہ کرے اور خاتون جنت کے ساتھ گستاخی کرے اور حضرت علی اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں اور پھر سر جھکا کر بیعت بھی کر لیں؟ ہمارے دور کا کوئی غیرت مند شوہر ایسا برداشت نہ کرے گا، کجا سیدنا علی شیر خدا جیسے عظیم بہادر کے بارے میں یہ تصور کیا جائے؟ روایت کے الفاظ پر غور کیجیے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ کسی طرح بھی آپ کے شایان شان نہیں ہے۔

اب یہ ہر شخص کے اپنے ضمیر پر ہے۔ چاہے تو ان منقطع اور جھوٹی روایتوں کو مانے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بدگمان رہے اور چاہے تو ان روایتوں کے جھوٹ کو جھوٹ مانے اور صحابہ کرام سے متعلق اپنا دل صاف رکھے۔ پہلی صورت میں پھر اسے یہ بھی ماننا ہو گا کہ معاذاللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ناکام رہی اور آپ پر جو لوگ ایمان لائے، انہوں نے آپ کی وفات کے فوراً بعد آنکھیں پھیر لیں اور آپ کے خاندان پر ظلم و ستم ہوتا دیکھتے رہے۔ جو شخص یہ سوچنا چاہے، سوچے لیکن پھر اسے پھر ان ہزاروں روایات کی توجیہ بھی پیش کرنا ہو گی جن میں اصحاب رسول اور اہل بیت کی باہمی محبت اور تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ محبت والی روایتیں ، بغض والی روایتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ کوئی غیر متعصب غیر مسلم مورخ بھی انہیں نظر انداز کر کے صرف بغض والی روایتوں کو قبول نہیں کر سکتا ہے۔ ان میں سے متعدد روایات ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔

ایک اور روایت پیش خدمت ہے:

🌷حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عْن أَبِيهِ أَسْلَمَ: اسلم عدوی روایت کرتے ہیں: “جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پا س آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے۔ اس بات کا علم جب عمر رضی اللہ عنہ کو ہوا تو وہ سیدہ کے گھر آئے اور کہنے لگے: “اے رسول اللہ کی بیٹی! ہمارے نزدیک تمام مخلوق میں آپ کے والد سے بڑھ کر کوئی محبت و عقیدت کے لائق نہیں ہے اور آپ کے والد کے بعد کوئی آپ سے بڑھ کر عقیدت کے لائق نہیں ہے۔ ” یہ کہہ کر انہوں نے سیدہ سے گفتگو کی۔ سیدہ نے علی اور زبیر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: “آپ دونوں پلٹ کر ہدایت پا لیجیے۔” یہ دونوں واپس پلٹے اور جا کر (ابوبکر کی) بیعت کر لی۔
( ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ جلد 21۔ حدیث 38200۔ www.almeshkat.net (ac. 23 Feb 2008)

درایت کے اعتبار سے بھی حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما پر یہ الزام غلط ہے۔
بے شمار روایات سے معلوم ہے کہ پہلے تینوں خلفاء راشدین کے دور میں حضرت علی ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ امور سلطنت میں ہاتھ بٹایا اور ان کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ اختیار کیا۔ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اسماء بنت عمیس سے حضرت علی نے شادی کی۔ حضرت ابوبکر کے ان سے ایک بیٹے تھے جن کا نام محمد بن ابی بکر تھا۔ ان کی پرورش حضرت علی نے اپنے بیٹوں کی طرح کی۔ اگر آپ پر جبر و تشدد کر کے بیعت لی گئی ہوتی تو کیا آپ یہ سب کچھ کر سکتے تھے؟ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے بطور تقیہ ایسا کیا تو یہ معاذ اللہ حضرت علی پر ایک تہمت ہو گی کہ آپ دل سے جس بات پر قائل نہیں تھے، اس کے لیے آپ نے پوری جانفشانی سے جدوجہد کی۔

🌷حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب یروشلم کی فتح کے لیے خود شام گئے تو اپنے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو قائم مقام خلیفہ بنا کر گئے جو کہ ان پر اندھے اعتماد کی علامت ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ چاہتے تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ نہج البلاغہ کی روایت کے مطابق جب حضرت عمر ایران کو فتح کرنے کے لیے خود جانا چاہتے تھے تو حضرت علی نے خود انہیں روکا۔ حضرت علی نے اپنے بیٹوں کے نام ابو بکر ، عمر اور عثمان رکھے،
( مصعب الزبیری (156-236/773-851)۔ نسب قریش۔ باب ولد علی بن ابی طالب۔ 42, 43۔ www.waqfeya.com (ac. 14 Aug 2012)

جو ان تینوں خلفاء سے ان کی محبت کی علامت ہے اور ان میں سے دو بیٹے ابوبکر اور عثمان سانحہ کربلا میں شہید ہوئے۔
( ابن حزم۔ جمہرۃ الانساب۔ 38۔ قاہرہ: دار المعارف)
اگر حضرت علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر جبر و تشدد کیا گیا ہوتا تو کیا اس کا امکان تھا کہ آپ پہلے خلفاء کے ساتھ اتنے خلوص اور محبت سے پیش آتے؟

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے پہلے خلافت کا مسئلہ کیوں طے کیا گیا؟*

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلافت کا معاملہ اتنا اہم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے بھی پہلے اسے طے کرنے کی کوشش کی گئی؟ جو لوگ سیاسی امور سے واقف ہیں، وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ قوم کو اکٹھا رکھنا اور فتنہ و فساد کا ذرہ برابر بھی موقع نہ دینا ایسا امر ہے جو دوسرے تمام امور سے اہم ہے۔ اگر ایک دن کے لیے بھی حکومت باقی نہ رہے، تو ملک میں فتنہ و فساد پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں آئین میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ اگر سربراہ مملکت فوت ہو جائے تو اس کی جگہ قومی اسمبلی کا اسپیکر یا سینٹ کا چیئر پرسن قائم مقام صدر بن جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی تھا کہ آپ کی امت کو افتراق و انتشار سے بچایا جائے۔
اور تدفین میں تاخیر کی حکمت یہ بھی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ حاضر ہو کر آپ کی آخری مرتبہ زیارت کر لیں،

*کیا بنو امیہ و بنو ہاشم نے حضرت ابوبکر کے خلاف سازشیں کیں؟*

بنو امیہ اور بنو ہاشم کے سبھی لوگوں نے دل و جان سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو قبول کر لیا۔ بنو امیہ میں حضرت عثمان اور بنو ہاشم میں حضرت علی رضی اللہ عنہما نمایاں شخصیات تھیں اور ان کے بارے میں تفصیل ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے دل و جان سے حضرت ابوبکر کی خلافت کو قبول کیا۔ بعض روایتیں ایسی بیان کی گئی ہیں جن کے مطابق بنو امیہ کے دو افراد، حضرت ابو سفیان اور حضرت خالد بن سعید اور بنو ہاشم کے ایک فرد حضرت عباس رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور ان کے خلاف سازشیں کیں۔ مناسب ہو گا کہ ہم ان روایتوں کا جائزہ لیتے چلیں۔

🌷حدثني محمد بن عثمان بن صفوان الثقفي ، قال : حدثنا أبو قتيبة ، قال : حدثنا مالك – يعني ابن مغول – عن ابن الحر:
ابن الحر کہتے ہیں کہ ابو سفیان نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: “یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت قریش کے سب سے چھوٹے خاندان میں چلی گئی ہے۔ واللہ! اگر آپ چاہیں تو میں گھوڑوں اور آدمیوں سے بھری ایک فوج لے کر حکومت کو ابوبکر سے چھین لوں۔” علی نے کہا: “ابو سفیان! تم ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے مگر تمہاری دشمنی سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ہم نے ابوبکر کو حکومت کا اہل سمجھ کر ان کی بیعت کی ہے۔”

(بلاذری نے اس واقعے کی سند یوں بیان کی ہے: حدثني محمد بن سعد، عن الواقدي، عن يزيد بن عياض، عن ابن جعدبة، عن محمد بن المنكدر.

دوسری سند یوں ہے: المدائني، عن الربيع بن صبيح، عمن حدثه، عن الحسين، عن أبيه.)

دوسری روایت_
🌷حدثني محمد بن عثمان التقفي ، قال : حدثنا أمية بن خالد ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت: جب ابوبکر خلیفہ بنے تو ابو سفیان نے کہا: “ہمیں ان سے کیا لینا دینا، یہ (حکومت) تو بنو عبد مناف کا حق ہے۔ کسی نے ان سے کہا: “ابوبکر نے آپ کے بیٹے (یزید) کو گورنر بھی تو بنایا ہے۔” کہنے لگے: “ہاں، اس معاملے میں انہوں نے صلہ رحمی کی ہے۔”

تیسری روایت_
حدثت عن هشام ، قال : حدثني عوانة:
جب سب لوگ ابوبکر کی بیعت کے لیے تیار ہو گئے تو ابو سفیان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : “مجھے یقین ہے کہ اس کاروائی سے ہنگامہ برپا ہو جائے گا اور خونریزی ہو گی۔ اے آل عبد مناف! ابوبکر کو تمہارے معاملات میں مداخلت کا کیا حق ہے؟ وہ دونوں کمزور کدھر گئے؟ کہاں ہیں علی اور عباس؟ ابو الحسن (علی!) اپنا ہاتھ کھولیے، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔” مگر علی نے ان کی بات نہ مانی۔ ابو سفیان نے اس وقت متلمس کے یہ شعر پڑھے: “سوائے دو کمزور چیزوں کے کوئی اور ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔ ایک خاندان کا گدھا اور دوسری خیمے کی میخ۔ میخ پر جب ضرب لگائی جاتی ہے تو اس کا سر دب جاتا ہے۔ گدھے پر جب بوجھ لادا جاتا ہے تو وہ کراہتا ہے مگر اس پر کوئی رحم نہیں کرتا۔” علی نے ابو سفیان کو ڈانٹا اور بولے: “اس تجویز سے آپ کا مقصد فتنہ و فساد برپا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ نے ہمیشہ اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں آپ کی نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔”
(تاریخ طبری ۔ 2/1-411)

(طبری نے دوسری سند یہ بیان کی ہے: قال هشام بن محمد : وأخبرني أبو محمد القرشي: ۔)

سند کے اندر خط کشیدہ ناموں کو دیکھیے تو یہ روایتیں بیان کرنے والے وہ لوگ ہیں جو متعصب اور جھوٹی روایتوں کے لیے مشہور ہیں:

1_ ابن الحر جنہوں نے بنو امیہ کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا اور یہ بنو امیہ سے تعصب رکھتے تھے۔
ان کا پورا نام عبید اللہ بن حر الجعفی (d. 68/687) ہے۔
(www.al-kawthar.com/husainia/mosoa/355.htm, http://shiaonlinelibrary.com/…/3679_كتاب-الفتوح-أ…/الصفحة_72 (ac. 22 Aug 2012)

2_ دوسرے شخص محمد بن عمر الواقدی ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جھوٹی روایتیں بیان کرتے ہیں۔

3_ تیسرے راوی ابن جعدبہ ہیں جن کے جھوٹا ہونے پر ماہرین کا اتفاق ہے اور ان کی تفصیل ہم بیان کر چکے ہیں۔

4_ چوتھے صاحب ہشام بن محمد کلبی ہیں جن کا صحابہ کرام سے بغض مشہور ہے اور ان کی تفصیلات ہم بیان کر چکے ہیں۔

یہ چاروں کے چاروں وہ راوی ہیں جو ناقابل اعتماد ہیں۔ درایت کے نقطہ نظر سے دیکھیے تو اس روایت میں چند مسائل موجود ہیں:

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے اس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ، خلیفہ وقت کے خلاف سازش کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر تھے اور اس معاملے میں ان کا رشتہ وہی تھا جو حضرت ابوبکر کا تھا۔ یہ درست ہے کہ قومی تعصب میں انہوں نے چند سال (غزوہ احد سے لے کر فتح مکہ تک) اسلام کی مخالفت کی لیکن جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ایمان لائے تو اس کے بعد مخلص مومن ثابت ہوئے۔ سوائے اس ایک روایت کے، اور کوئی روایت ہمیں نہیں ملتی ہے جس میں کوئی منفی بات ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا مستحق سمجھنے کی رائے رکھتے ہوں اور کبھی اس کا اظہار بھی کیا ہو، جس پر حضرت علی نے انکار کر دیا ہو۔

· رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت ابو سفیان کو نجران کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ نجران اور مدینہ میں کم و بیش 1300 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ عہد صحابہ کے ذرائع آمد و رفت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ فاصلہ کم از کم پچیس چھبیس دن میں طے ہوتا تھا۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیمار ہوتے ہی حضرت ابو سفیان کو خبر پہنچانے کے لیے مدینہ سے ہرکارہ دوڑایا گیا ہو گا، تو بھی یہ ممکن نہیں کہ خبر ملنے کے بعد وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت تک وہ مدینہ پہنچ سکیں۔

· حضرت ابو سفیان کے خاندان پر حضرت ابوبکر کس درجے کا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے آپ کے دو بیٹوں یزید اور معاویہ کو شام میں اعلی عہدے دیے۔ یہ دونوں شام کو فتح کرنے والے لشکر میں شریک تھے۔ فتح کے بعد حضرت ابوبکر نے یزید کو شام کا گورنر مقرر فرمایا اور معاویہ کو ان کا نائب بنایا۔ پھر یزید کی وفات کے حضرت عمر نے معاویہ کو وہاں کا گورنر مقرر کر دیا۔ اگر حضرت ابو سفیان ایسی کسی سازش میں شریک ہوتے، تو ان کے خانوادے پر حضرات ابوبکر و عمر اتنا اعتماد نہ کرتے۔
(رضی اللہ عنہم۔)

حضرت خالد بن سعید بن عاص اموی رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی ، جو کہ سابقون الاولون میں شمار ہوتے ہیں کے بارے میں بلاذری نے یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان اورعلی رضی اللہ عنہما سے کہا: “آپ دونوں (اپنے اپنے خاندان) کا شعار ہیں نہ کہ عام لوگ۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ یہ حکومت بنو عبد مناف سے باہر چلی جائے۔” اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “یہ اللہ کا معاملہ ہے، وہ جسے چاہے ،عطا کرے۔” ممکن ہے کہ حضرت خالد کی رائے یہ رہی ہو مگر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کی بیعت کر لی تھی۔

بنو ہاشم میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسی روایات بیان کی گئی ہیں جن کے مطابق انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بیعت نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ روایت یہ ہے:
🌷حدثني عباس بن هشام، عن أبيه، عن جده، عن أبي صالح عن جابر بن عبد الله: عباس نے علی سے کہا: “آپ کو کس چیز نے پیچھے رہ جانے پر مجبور کیا ہے؟” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عباس، علی سے کہا کرتے تھے: “باہر نکلیے تاکہ میں سب کے سامنے آپ کی بیعت کروں۔ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہ کرے گا۔” حضرت علی نے انکار کر دیا اور کہا: “کیا کوئی ایسا ہے جو ہمارے حق کا انکار کرے اور ہم پر غلبہ پا لے؟” عباس نے کہا: “عنقریب آپ یہ بات دیکھ لیں گے۔” جب ابوبکر کی بیعت ہوئی تو علی سے عباس نے کہا: “علی! میں آپ کو کیا کہتا تھا؟”
( بلازری2/64)

روایت کی سند دیکھیے تو اس میں ہشام کلبی کے بیٹے عباس، اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا روایت ایک ہی خاندان کی تین نسلوں میں چل رہی ہے اور اس پورے خاندان کے بارے میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ لوگ صحابہ کرام کے متعلق شدید بغض دل میں رکھتا ہے۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے وقت بھی ایسی ہی روایات بیان کی ہیں جن میں حضرت عباس، حضرت علی کو سازش کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔

*ان تمام روایتوں کی سند سے واضح ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اختلاف سے متعلق جتنی روایات بیان کی گئی ہیں، ان کے موجد وہی ہیں جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے تھے،ان روایات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض مخصوص حضرات کو بدنام کرنے کے لیے بطور پراپیگنڈا وضع کی گئی ہیں،*

*خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فتنے*

*فتنہ ارتداد*

خلافت راشدہ کی اولین تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں نجد میں مسیلمہ اور یمن میں اسود عنسی سے نبوت کا دعوی کر دیا تھا۔ اس کے بعد اور کئی لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا اور ان کے بہت سے پیروکار بھی اکٹھے ہو گئے۔ بعض لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت مسلمانوں کو ان تمام مرتدین سے جنگ کی اور ایک سال کی جنگ کے بعد ان سب پر قابو پایا۔ عام طور پر تواریخ میں چونکہ محض یہ واقعا ت بیان کر دیے جاتے ہیں اور ان کے عمرانی اسباب پر بات نہیں کی جاتی ہے، اس وجہ سے بہت سے طالب علموں کے ذہن میں یہ سوال برقرار رہتا ہے کہ یکایک ایسا کیا واقعہ پیش آ گیا تھا کہ عرب کے بہت سے قبائل نے اس طریقے سے بغاوت کر دی تھی۔ مناسب رہے گا کہ ہم ان وجوہات کو تفصیل سے بیان کر دیں۔

فتنہ ارتداد کے اسباب کیا تھے؟

اس تفصیل کو سمجھنے کے لیے ہمیں عربوں کے قبائلی نظام کی ساخت اور باہمی سیاست کو سمجھنا پڑے گا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس زمانے میں قوم یا قبیلے کا تشخص کسی بڑی شخصیت سے قائم ہوتا تھا۔ ایسا ضروری نہیں تھا کہ ایک شخص کے دو بیٹے ہیں تو وہ دونوں ہی الگ الگ قبیلے کے بانی بن جائیں بلکہ ان میں سے جس نے غیر معمولی کارنامے سر انجام دیے ہوتے اور اپنے خاندان کو اکٹھا رکھا ہوتا اور پھر یہ عمل سو دو سو سال تک جاری رہتا، اسی کی اولاد ایک قبیلے کی شکل اختیار کرتی تھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک باپ کے دو بیٹوں میں مخاصمت پیدا ہوجاتی اور دونوں ہی باصلاحیت ہوتے، جس کے باعث دونوں ہی الگ الگ قبیلے کی بنیادرکھتے۔ بسا اوقات ان میں طویل دشمنیاں چلتیں لیکن اپنے جد اعلی کے نام پر وہ کبھی اکٹھے بھی ہو جایا کرتے تھے۔
جزیرہ نما عرب میں دو قسم کے قبائل آباد تھے۔ ایک تو یمن کے حمیری قبائل تھے اور دوسرے حجاز کے وہ قبائل جو حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے تھے۔ دور جاہلیت میں ان کے مابین کشمکش برپا رہتی تھی۔ حمیریوں نے ایک زمانے میں یمن میں ایک بڑی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی اور وہ پورے عرب میں ایک علاقائی سپر پاور کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی (عہد رسالت سے ڈیڑھ دو سو برس پہلے) میں ان کا مشہور ڈیم “سد مآرب” ٹوٹ گیا اور حمیری تہذیب پر زوال آیا ۔ اس واقعے کو قرآن مجید میں سورۃ سبا میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسری جانب حجازی قبائل نے قوت پکڑی اور اب عرب میں انہیں غلبہ حاصل ہو گیا۔ ہم انسانی نفسیات کے بارے میں یہ جانتے ہی ہیں کہ غلبہ پا لینے والوں کے بارے میں مغلوبین کے دلوں میں بغض کی سی کیفیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے، خاص کر اس وقت جب غالب آنے والوں نے مغلوبین کو شکست دے کر ان پر غلبہ حاصل کیا ہو۔ مثلاً موجودہ دور کے مسلمانوں میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے خلاف اسی قسم کی نفرت پائی جاتی ہے اور اس سے پہلے قرون وسطی کے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف ایسی ہی نفرت پائی جاتی تھی۔

دوسری طرف حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں جس شخص کی نسل تیزی سے پھیلی، ان کا نام عدنان تھا۔ عدنان کی اولاد کچھ عرصہ بعد متعدد قبائل میں تقسیم ہو گئی جن میں ربیعہ اور مضر کے قبائل کو غیر معمولی طاقت حاصل ہو گئی اور نتیجتاً ان کے درمیان ایک دوسرے پر غلبے کی جدوجہد شروع ہوئی۔ مضر قبائل زیادہ طاقتور تھے اور ان کی ایک شاخ “قریش” تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی جس کے نتیجے میں قریش کا اسٹیٹس تمام قبائل میں مزید بلند ہو گیا۔ آپ کی حیات طیبہ ہی میں اسلام پورے جزیرہ نما عرب میں پھیل گیا ، جس سے عدنانی قبائل کی مضری شاخ اور مضری قبائل کی قریشی شاخ کو ایک خاص اسٹیٹس حاصل ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جانب ربیعہ قبائل (جو کہ زیادہ تر نجد میں آباد تھے)، دوسری جانب حمیری قبائل (جو کہ یمن میں آباد تھے) اور تیسری طرف غیر قریشی مضر قبائل میں ان کے خلاف بغض او رحسد پیدا ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ ان قبائل کے سبھی لوگوں میں یہ بغض موجود تھا۔ ان میں بھی بہت سے لوگ پورے خلوص نیت کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے اور وہ اپنے دین پر عمل پیرا تھے لیکن ایک طبقہ ایسا تھا جس نے محض اسلام کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر اطاعت قبول کی تھی، مگر ان کے دلوں میں اسلام ابھی پوری طرح داخل نہ ہوا تھا۔

ہر قوم میں کچھ ایڈونچر پسند لوگ ہوتے ہیں جو کسی بڑے فائدے کے لیے بڑا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔ اس کائنات کا ایک اصول ہے کہ بڑے فائدے کے لیے بڑا خطرہ مول لینا پڑتا ہے اور چھوٹے فائدے کے لیے چھوٹا۔

درمیانے فائدے کے لیے درمیانے درجے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رسک مینجمنٹ میں ایک تصور موجود ہے جسے “خطرات مول لینے کا ذوق” کہا جاتا ہے۔ یہ ہر شخص اور گروہ میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض حضرات کا ذوق یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے بڑے خطرات مول لے لیتے ہیں۔ کامیاب ہو جائیں تو انہیں بڑی کامیابی ملتی ہے اور ناکام ہو جائیں تو اپنی اور اپنے خاندان کی مکمل تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ انہی کو ایڈونچر پسند لوگ کہا جاتا ہے۔ حمیری اور ربیعہ قبائل میں جو بغض موجود تھا، اسے بعض ایسے ہی ایڈونچر پسند لوگوں نے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس طرح حمیریوں کو اسود عنسی اور ربیعہ قبائل کو مسیلمہ کی شکل میں قومی راہنما مل گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی نبوت کے اور بھی دعوے دار پیدا ہو گئے۔

قبائلی تعصب کا یہ عالم تھا کہ مسیلمہ کے ایک پیروکار سے بعض صحابہ نے مکالمہ کیا اور مسیلمہ کے جھوٹ کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس کا جواب یہ تھا: “میں مضر قبائل کے سچے نبی کی بجائے ربیعہ قبائل کے جھوٹے نبی کا ساتھ دینا پسند کروں گا۔” تاہم ایسا نہیں تھا کہ عربوں کا بہت بڑا حصہ ان جھوٹے نبیوں کا پیروکار بن گیا تھا۔ ان قبائل میں بھی کم ہی تعداد ان لوگوں کی تھی جو ان نبیوں کے لیے کٹ مرنے کو تیار تھی اور ان کی تعداد پورے عرب کا شاید دس فیصد بھی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف کاروائی کی تو محض ایک سال کے عرصے میں پورے عرب میں امن قائم ہو گیا اور یہ جھوٹے نبی محض تاریخی قصہ بن کر رہ گئے۔ انہی میں سے بعض حوصلہ مند افراد جیسے طلیحہ بن خویلد اسدی نے دوبارہ ایمان لا کر ایران کے خلاف معرکوں میں داد شجاعت دی۔

*روم و ایران پر حملہ*

ایک جدید قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں روم اور ایران پر حملہ کیوں کیا گیا؟ کیا یہ دوسری قوموں کی آزادی میں مداخلت نہیں تھی؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں دو چیزوں کا جائزہ لینا پڑے گا۔ ایک تو رسولوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ایک خاص قانون اور دوسرے اس زمانے کی عالمی سیاست کے اصول ۔

*رسولوں کے بارے میں اللہ تعالی کا خاص قانون کیا ہے؟*

رسولوں کے بارے میں اللہ تعالی کے قانون کی وضاحت یہاں مختصراً بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا قاعدہ یہ ہے کہ اس نے بارہا اس روئے زمین پر کسی قوم کا انتخاب کر کے اس میں اپنے رسول کو بھیجا۔ اس رسول نے ہر ممکن طریقے سے حق کو ان لوگوں کے سامنے واضح کر دیا اور یہ بتا دیا کہ جزا و سزا کا جو معاملہ سب انسانوں کے ساتھ آخرت میں ہونے والا ہے، وہ اس قوم کے ساتھ اسی دنیا میں ہو جائے گا۔ ایک خاص وقت کے بعد اللہ تعالی کا عذاب اس رسول کے منکرین پر آیا اور انہیں نیست و نابود کر دیا گیا۔ دوسری طرف رسول کے ماننے والوں کو ان کی جگہ اس خطے کا اقتدار دے دیا گیا۔ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا اور ان پر آسمانی آفتوں کی صورت میں اللہ کا عذاب نازل ہوا۔

انسانیت کی معلوم تاریخ میں دو مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ رسول پر اتنی زیادہ تعداد میں لوگ ایمان لائے کہ اس جزا و سزا کے نفاذ کا کام انہی کے ہاتھوں لیا گیا۔ یہ حضرت موسی اور محمد علیہما الصلوۃ والسلام تھے۔ جو عذاب دیگر قوموں پر سیلاب، زلزلے یا کسی اور آسمانی آفت کی صورت میں نازل ہوا، وہ ان دونوں پیغمبروں کے امتیوں کے ہاتھوں ان کے مخاطبین پر نافذ ہوا۔ حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام پر بنی اسرائیل کے لاکھوں لوگ ایمان لائے۔ جب فرعون کو سمندر میں غرق کر دیا گیا تو یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ ارد گرد کی اقوام پر واضح ہو گیا کہ حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس کے بعد بھی جب انہوں نے آپ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تو بنی اسرائیل کے ہاتھوں انہیں سزا دی گئی۔ حضرت موسی کے خلفائے راشدین یوشع اور کالب علیہم الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں دریائے فرات سے لے کر دریائے نیل تک (موجودہ فلسطین، اردن، شام او رمصر) کے پورے علاقے کو فتح کر کے یہاں بنی اسرائیل کا اقتدار قائم کر دیا گیا۔

بعینہ یہی معاملہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ہاتھوں پیش آیا۔ جس زمانے میں پورے عرب کے قبائل نے مل کر مدینہ پر حملہ کیا اور آپ نے خندق کھود کر ان کا مقابلہ کیا، اسی وقت آپ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب زمین کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آنے والے ہیں۔
( بخاری۔ کتاب التعبیر۔ حدیث ،3595)

یہ ایسا وقت تھا جب بظاہر مسلمان صفحہ ہستی سے مٹتے نظر آتے تھے۔ اس موقع پر کی گئی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ چند ہی سالوں میں پورا عرب اسلام کے جھنڈے تلے اکٹھا ہوا۔ یہ بات روم اور ایران کے بادشاہوں کے لیے اتمام حجت تھی اور ان پر واضح ہو گیا کہ محمد، اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس کے بعد بھی جب انہوں نے سرتابی کی، تو ان پر اللہ کا عذاب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تلواروں کے ذریعے نافذ کر دیا گیا اور قرآن مجید کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی:

🌷قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمْ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ.
ان سے جنگ کرو۔ اللہ تمہارے ہاتھوں ہی سے انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور اس طرح صاحب ایمان قوم کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچائے گا۔ (التوبہ 9:14)

ایک صحابی حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایرانی سپہ سالار رستم کے دربار میں اپنی اس کاروائی کا یہ مقصد بیان کیا تھا کہ “ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے آئے ہیں۔
( طبری۔ 14H /2/2-287)

اس زمانے میں ریاستیں مذہبی بنیادوں پر قائم ہوا کرتی تھیں اور غالب قوم، اپنے مذہب کو مغلوب قوموں پر مسلط کر دیا کرتی تھی۔ بادشاہ کے مذہب کو نہ ماننا بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا یہ حصہ تھا کہ اس وقت کی متمدن دنیا کے مرکزی علاقے میں ایک ایسی ریاست قائم کر دی جائے، جس میں ہر شخص کو مذہبی آزادی ہو۔ جو لوگ دنیا کے کسی بھی خطے میں ایمان لانا چاہیں ، ان کے لیے یہ موقع موجود ہو کہ وہ ہجرت کر کے اس آزاد خطے میں آباد ہو جائیں اور اپنے ضمیر کے مطابق زندگی بسر کریں۔

اس تفصیل کو پڑھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس سے ایک مسلمان تو مطمئن ہو سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مانتا ہے، غیر مسلم کیسے مطمئن ہو سکتا ہے جو آپ کو رسول نہیں مانتا؟ غیر مسلموں کے لیے بھی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے سچا ہونے کا ثبوت ہے۔ اگر آپ اللہ کے سچے نبی اور رسول نہ ہوتے تو آپ اور آپ کے صحابہ کو کبھی دنیا پر غلبہ نصیب نہ ہوتا۔ تاریخ میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ خاص اہتمام کیا ہے کہ جھوٹے نبیوں کو کبھی غلبہ نصیب نہیں ہوتا ہے۔ کبھی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ انہیں کسی خطے کا اقتدار وقتی طور پر مل جاتا ہے، لیکن اس کے بعد وہ کبھی طویل عرصے تک پھل پھول نہیں پاتے اور اللہ تعالی ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش گوئی کر کے اپنے وقت کی سپر پاورز پر غلبہ پا لینا آپ کی نبوت کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ نے جو کاروائی کی تھی، وہ اپنے زمانے کے مروجہ بین الاقوامی قانون کے عین مطابق تھی۔ فوجی کاروائی کا آغاز روم اور ایران کی طرف سے ہوا تھا۔ مسلمانوں نے اس میں نہ تو کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی تھی اور نہ ہی کسی اخلاقی ضابطے کی پامالی۔
اس کی تفصیل یہ ہے۔

*ساتویں صدی کا بین الاقوامی قانون کیا تھا؟*
ساتویں صدی تو کیا، ابھی 1945 سے پہلے تک عالمی سیاست کا اصول “جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس” تھا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ دنیا کے تمام ممالک نے ایک دوسرے سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ اگر کوئی ملک کسی پر زیادتی کرے گا تو اقوام متحدہ کے تحت اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اگرچہ عالمی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے قوانین کی کئی مرتبہ خلاف ورزی کی ہے، مگر پھر بھی ہمارے زمانے میں دور قدیم کی نسبت جنگ و جدل میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ دور قدیم میں عالمی سطح پر کوئی معاہدہ موجود نہ تھا۔ ہاں ایسا ہوتا تھا کہ دو ممالک آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیں۔ ایسے معاہدوں کی پابندی ضروری سمجھی جاتی تھی اور خلاف ورزی کرنے والے کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ معاہدے بھی عام طور پر متعین مدت کے ہوا کرتے تھے۔ عام اصول یہی تھا کہ جس حکومت کو طاقت حاصل ہو، وہ دیگر ممالک پر لشکر کشی کر سکتا ہے۔ اس اصول کے تحت جس بادشاہ کو طاقت مل جاتی، وہ دوسری قوموں پر لشکر کشی کر دیتا تھا۔ عہد رسالت میں روم اور ایران بڑی طاقتیں تھیں اور اسی زمانے میں ان کے درمیان بڑی جنگیں برپا رہی تھیں۔ اس زمانے میں عرب قبائل میں تقسیم قوم تھے اور آپس ہی میں جنگ و جدل برپا کیے رکھتے تھے۔

روم اور ایران نے اپنے اور عربوں کے درمیان باج گزار ریاستیں قائم کر رکھی تھیں تاکہ یہ عرب قبائل کو کنٹرول کریں اور یہ رومی اور ایرانی سلطنت کے لیے درد سر نہ بنیں۔ روم اور عرب کے درمیان “غسان” کی عیسائی سلطنت تھی جو موجودہ اردن اور شمالی سعودی عرب کے بعض علاقوں پر قائم تھی۔ اسی طرح ایران اور عرب کے درمیان “حیرہ” کی سلطنت تھی جو موجودہ عراق کے جنوبی علاقوں پر قائم تھی۔ دور جاہلیت کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ شمال اور مشرق میں رہنے والے مختلف عرب قبائل غسان اور حیرہ کی ان سلطنتوں کے حلیف تھے۔ ان دونوں سلطنتوں میں جنگیں بھی ہوا کرتی تھیں جن میں عرب قبائل اپنی اپنی حلیف سلطنت کا ساتھ دیتے تھے۔

روم اور ایران کی سلطنتوں کو جزیرہ نما عرب پر براہ راست قبضے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس علاقے پر قبضہ کرنے کے اخراجات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ تھے کیونکہ عرب اپنے اوپر کوئی براہ راست اقتدار برداشت نہ کرتے تھے اور مسلسل بغاوتیں برپا کیے رکھتے تھے۔ دوسری طرف صحرائے عرب میں زراعت نہ ہوتی تھی جس کی وجہ سے اس پر قبضہ کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ تیل اس وقت دریافت نہ ہوا تھا اور نہ ہی یہ اس وقت کی جیو پالیٹکس کا مرکز و محور تھا۔ ہاں جزیرہ نما عرب کے زرخیز خطوں پر ان دونوں بڑی طاقتوں نے قبضہ جما لیا تھا۔ شام اور اردن کے علاقے سلطنت روم کے ماتحت تھےاور یمن کا زرخیز علاقہ عہد رسالت میں ایران کی قبضے میں تھا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کی قیادت میں پورا عرب ایک مرکز پر اکٹھا ہو گیا تو روم اور ایران کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔ یہ دونوں سپر پاورز نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی تیسری طاقت کھڑی ہو جائے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کاروائی میں پہل کی۔ ایران کے بادشاہ خسرو پرویز (r. 590-628/6H) کے پاس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا تو اس نے یمن کے گورنر باذان (d. 10/632)کو حکم دیا کہ وہ فوجی کاروائی کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ گرفتار کر کے ایران بھجوا دے۔ اس طرح اس نے آپ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب باذان نے واقعے کی تحقیق کروائی تو ان پر حق واضح ہو گیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس طرح یمن، جو کہ ایرانیوں کی ایک کالونی تھی، ایرانی سلطنت سے الگ ہو گئی۔
( طبری۔ ۔ 7H/2/1-272)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایران کے سرحدی علاقوں پر مسلمانوں کی دعوت کے نتیجے میں جو لوگ مسلمان ہوئے، حکومت ایران نے ان کے خلاف کاروائی کی اور انہیں مرتد ہونے پر مجبور کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلم علاقے میں رہنے والے عرب قبائل پر حملہ کر دیا۔ ان میں سے ایک قبیلے بنو شیبان کے سردار حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ(d. 14/635) مدینہ آئے اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قائل کیا کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے کچھ کریں۔ آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر ایران کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد ایران سے جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔

*دوسری طرف روم نے بھی کاروائی میں پہل کی۔*
سلطنت غسان کے فرمان روا کے پاس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت شجاع بن وہب اسدی رضی اللہ عنہ پہنچے تو اس نے انہیں قتل کروا دیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت سفیر کا قتل ایک بہت بڑا جرم تھا اور ایک طرح سے اعلان جنگ تھا۔ اس کے خلاف آپ نے کاروائی کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر کو بھیجا۔ غسانی سلطنت نے روم سے مدد حاصل کی اور قیصر روم نے اپنا لشکر ان کی مدد کے لیے بھیجا۔ موتہ کے مقام پر ان میں جنگ ہوئی اور حضرت زید، جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگرے اسلامی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی اور اپنی جنگی حکمت عملی کے ساتھ اس لشکر کو بحفاظت نکال لائے۔

صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک ملنے پر قیصر روم، جو اس وقت یروشلم میں موجود تھا، نے تحقیقات کیں۔ اس وقت قریش مکہ کا ایک قافلہ وہاں تجارت کے لیے آیا ہوا تھا جس کے سربراہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ تھے جو ابھی ایمان نہ لائے تھے۔ قیصر نے ان سے سوال و جواب کیے تو اسے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے پیغمبر ہیں۔ اہل کتاب ہونے کے سبب وہ اس بات سے واقف تھا کہ رسولوں کے مقابلے پر دنیا کی کوئی طاقت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی وجہ سے اس نے یہ تاریخی جملہ کہا: “اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان کے پاس حاضر ہوتا۔ یہ لکھ لو کہ اس وقت جو زمین میرے قدموں تلے ہے، وہ ضرور ان کے قبضے میں آئے گی۔”
صحیح بخاری ۔ حدیث نمبر _7)

تاہم قیصر کے ساتھیوں نے اسے مجبور کیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کرے اور اس جنگ میں اسے ناکامی ہوئی۔

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجی کاروائی کا آغاز ایران اور روم کی جانب سے ہوا۔ پھر مسلمانوں نے جوابی کاروائی کی اور متعدد جنگوں میں انہیں پے در پے شکست دے کر موجودہ عراق، ایران، شام، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ کے علاقوں کو فتح کر لیا۔ ایرانی سلطنت اب وسط ایشیا اور رومی سلطنت اناطولیہ (ترکی) تک محدود ہو چکی تھی۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواہش کی کہ کاش ان کے اور ہمارے درمیان آگ کا دریا حائل ہوتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپ جنگوں کے اس سلسلے کو روکنا چاہتے تھے لیکن روم و ایران نے کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایرانی بادشاہ یزد گرد (r. 10-30/631-651) نے مسلمانوں کے علاقے میں مسلسل بغاوتیں برپا کروانا شروع کر دیں۔ اس پر اس کے خلاف فوجی کاروائی کرنا پڑی جس کے نتیجے میں افغانستان اور ماوراء النہر کے علاقے فتح ہوئے اور ایرانی سلطنت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ رومی بادشاہ ہرقل نے صلح کر لی اور مسلمانوں نے اس کی جانب پیش قدمی روک دی۔ تاہم بعد میں رومیوں نے پھر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جس کے نتیجے میں آرمینیا کا علاقہ فتح ہوا۔

ان جنگوں کے دوران صحابہ کرام نے صرف اور صرف حکومت اور اس کی مسلح افواج کے خلاف کاروائی کی۔ انہوں نے کسی عام شہری کو نشانہ نہیں بنایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر یہ ہدایت نامہ جاری کر دیا تھا :

🌷خبردار! آپ لوگ زمین میں فساد نہ مچایے اور نہ ہی احکامات کی خلاف ورزی کیجیے ۔ کھجور کے درخت نہ کاٹیے اور نہ جلائیے۔ چوپایوں کو ہلاک نہ کیجیے اور نہ ہی پھل دار درختوں کو کاٹیے۔ کسی عبادت گاہ کو مت گرائیے اور نہ ہی بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو قتل کیجیے۔ آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے خود کو گرجا گھروں میں بند کر رکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔
(سنن بیھقی سنن الکبری ، 18125)

حضرت موسی، داؤد اور سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وہ پہلا گروہ تھے، جنہوں نے جنگ کو بھی اخلاقیات کے دائرے میں لانے میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے عام شہری پر لگی ہوئی پابندیوں کو ختم کیا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ اسلام کی دعوت کو ان کے سامنے پیش کیا لیکن لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ “دین میں کوئی جبر نہیں” کے اصول کے تحت کسی پر کوئی پابندی نہ لگائی۔ بعد کے مسلمانوں نے اسے برقرار رکھا اور ایران، افغانستان اور پھر ہندوستان کے غیر مسلموں کو مکمل آزادی دیے رکھی۔ مسلم مفتوحہ علاقوں شام، فلسطین، لبنان، اردن اور عراق میں موجود عیسائی آبادی اور ہندوستان کی ہندو اکثریت اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی اور ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کی گئی۔ اگر کسی پرجوش حکمران نے ایسا کرنے کی کوشش کی، تو خود مسلم علماء نے آگے بڑھ کر ان غیر مسلموں کا تحفظ کیا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی قوم سے اس کی آزادی نہیں چھینی بلکہ لوگوں کو قیصر و کسری کی غلامی سے آزاد کیا۔ اس طرح سے دنیا بھر کے حق پرستوں کے لیے یہ موقع پیدا ہوا کہ اگر وہ اپنے ضمیر کے مطابق مذہبی آزادی چاہیں تو اس علاقے میں چلے آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ سے بہت سے یہودی اور ایسے عیسائی ، جو کلیسا سے اختلاف رکھتے تھے، آ آ کر مسلم علاقوں میں آباد ہوتے رہے اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔

*حضرت عمر کی نامزدگی*

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور پر جو آخری سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ کیا اس طرح سے آپ نے شوری کے مسلمہ قرآنی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی؟

*کیا حضرت عمر کی نامزدگی شوری کے اصول کی خلاف ورزی نہ تھی؟*

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں آپ کی وفات کے زمانے کی صورتحال پر غور کرنا پڑے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جو صورتحال تھی، اس میں دو سال میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی۔ وہی عرب قبائل تھے جو کہ قبیلہ قریش کو اپنا سربراہ مانے ہوئے تھے۔ انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ ایک قریشی خلیفہ کی وفات پر دوسرا قریشی خلیفہ بن جائے۔ یہ بالکل ایسی ہی صورتحال تھی کہ ایک برسر اقتدار پارٹی کا صدر یا وزیر اعظم اگر اپنی حکومت کی مدت کے دوران فوت ہو جائے تو الیکشن نہیں کروائے جاتے بلکہ اسی پارٹی کے کسی اور شخص کو صدر یا وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے۔ قریش کا اقتدار ابھی ختم نہ ہوئی تھی بلکہ عرب قبائل بدستور انہی کو اپنا قائد مانتے تھے۔

ان حالات میں صدیق اکبر بیمار پڑے تو ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو اپنی مرضی سے خلیفہ بنا کر سب پر مسلط کر دیا ہو۔ بلکہ انہوں نے مناسب یہ سمجھا کہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے جو مشورہ ان کی وفات کے بعد ہونا ہے، وہ آپ کی وفات سے پہلے ہو جائے۔ چنانچہ طبری، انساب الاشراف ، طبقات اور دیگر کتب تاریخ کی روایات کے مطابق آپ نے ایک ایک صحابی کو بلا کر ان سے مشورہ کیا۔ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی تھی۔ بعض صحابہ نے حضرت عمر کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تو حضرت ابوبکر نے انہیں دلائل سے قائل کیا۔ جب سب لوگ متفق ہو گئے تو آپ نے وصیت لکھوا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتخاب کی توثیق کر دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب نامزدگی سے نہیں بلکہ شوری سے ہوا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہ مشورہ صدیق اکبر کی وفات کے بعد نہیں بلکہ اس سے پہلے مکمل ہو گیا تھا۔ روایات یہ ہیں:

🌷ابوبکر نے اپنی وفات کے وقت عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور ان سے پوچھا: “یہ بتائیے کہ عمر کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟” انہوں نے کہا: “اے خلیفہ رسول! وہ اور لوگوں کی نسبت اس سے بھی بہتر ہیں جو آپ کی ان کے متعلق رائے ہے مگر ان کے مزاج میں شدت ہے۔” ابوبکر نے کہا: “یہ شدت اس وجہ سے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب حکومت خود ان کے حوالے ہو گی تو اس قسم کی اکثر باتوں کو چھوڑ دیں گے۔ اے ابو محمد (عبدالرحمن!) میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے کہ جب میں کسی شخص پر کسی معاملے میں ناراض ہوتا تھا تو عمر مجھے اس سے راضی ہونے کا مشورہ دیتے تھے اور جب میں کسی پر نرم پڑتا تھا وہ وہ مجھے اس پر سختی کا مشورہ دیتے۔ ابو محمد! یہ باتیں جو میں نے آپ سے کہی ہیں، ان کا ذکر اور سے ذکر نہ کیجیے گا۔ ” عبدالرحمن نے کہا: “بہت بہتر۔”
اس کے بعد ابوبکر نے عثمان بن عفان کو بلایا اور ان سے کہا: “ابو عبداللہ! یہ بتائیے کہ عمر کیسے ہیں۔ ” انہوں نے کہا: “آپ انہیں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔” ابوبکر نے کہا: “ہاں ، اے ابو عبداللہ! اس بات کی ذمہ داری مجھ ہی پر ہے۔ ” پھر عثمان نے کہا: “یا اللہ! میں عمر کے باطن کو ان کے ظاہر سے بہتر سمجھتا ہوں، ہم میں ان کے جیسا دوسرا شخص نہیں ہے۔” ۔۔۔

ابو السفر کی روایت ہے کہ ابوبکر نے اپنے گھر سے (مسجد میں) جھانکا۔ (آپ کی اہلیہ) اسماء بنت عمیس ، جس کے ہاتھوں پر مہندی لگی تھی، آپ کو پکڑے ہوئے تھیں۔ آپ نے فرمایا: “لوگو! میں جس شخص کو آپ پر خلیفہ مقرر کرنے لگا ہوں، کیا آپ اسے پسند کرتے ہیں؟ کیونکہ میں نے اس کے متعلق غور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میں نے اپنے کسی رشتے دار کو منتخب نہیں کیا ہے بلکہ عمر بن خطاب کو آپ کا خلیفہ بنایا ہے۔ آپ ان کا حکم سنیے اور ان کی اطاعت کیجیے۔” یہ سن کر سب نے کہا: “ہم دل و جان سے منظور کرتے ہیں کہ ہم ان کی اطاعت کریں گے۔”
(رضی اللہ عنہم اجمعین)
(تاریخ طبری۔ حضرت ابوبکر کی وفات کے حالات۔ 13H/2/2-204)

*یہاں پر خلیفہ اول یعنی عہد صدیقی کا دور ختم ہوتا ہے، اگلے سلسلے میں ہم خلیفہ دوم یعنی عہد فاروقی کے بارے میں پڑھیں گے ان شاءاللہ*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں