840

سوال- عہد صحابہ کی تاریخ کو پہلی تین صدیوں میں کیسے مرتب کیا گیا اور ان صدیوں کے مؤرخین اور کتابیں کون سی تھیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-92”
سوال- عہد صحابہ کی تاریخ کو پہلی تین صدیوں میں کیسے مرتب کیا گیا اور ان صدیوں کے مؤرخین اور کتابیں کون سی تھیں؟

Published Date: 5-10-2018

جواب..!
الحمدللہ..!

*کچھ احباب تاریخ کے سلسلے سے اکتاہٹ محسوس کر رہے تھے اس لیے اس سلسلے کو ہر جمعہ کے دن پر رکھا ہے ،لیکن یاد رہے تاریخ اسلامی کو پڑھنے سے پہلے کچھ بنیادی معلومات ایسی تھیں جنکو جاننا قارئین کے لیے بہت ضروری تھا، اس لیے سلسلہ نمبر ،88- 87 اور یہ سلسہ نمبر-92 اور اس حوالے سے ایک اور اگلا سلسلہ انتہائی ضروری ہے، اسکو اگنور نا کریں ،کیونکہ آئندہ سلسلوں میں جب ہم تاریخ پڑھیں گے تو ان معلومات کی ضرورت پڑے گی،لہذا اسلامی تاریخ کے قاری ان ابتدائی سلسلہ جات کو بار بار پڑھ کر ذہن نشین کر لیں*

*تاریخ اسلام شروع کرنے سے پہلے ابتدائی معلومات کے ان سلسلوں کا مقصد ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ*

1- عہد صحابہ کی تاریخ کو پہلی تین صدیوں میں کیسے مرتب کیا گیا؟

2- پہلی تین صدیوں کے اہم مورخ کون کون سے ہیں اور وہ کس درجے میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں؟

3- قرون وسطی اور دور جدید کے اہم مورخ کون کون سے ہیں؟

4- مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کردار کشی کے اسباب کیا تھے؟

5- عہد صحابہ کی تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کا طریقہ کیا ہے؟

6- ایک عام آدمی تاریخ کی چھان بین کیسے کر سکتا ہے؟

*اس سلسلے کے اختتام پر ہم اس قابل ہوں گے کہ عہد صحابہ سے متعلق تاریخی معلومات کو جانچنے اور پرکھنے کے طریق کار سے واقف ہوں ان شاءاللہ*

*دور صحابہ و تابعین*
*(11-133ہجری / عیسویں 632-750)* *یعنی پہلی صدی ہجری کا اجمالی جائزہ*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور شروع ہوتا ہے۔ ان کے بعد تابعین اور ان کے بعد تبع تابعین کا دور آتا ہے۔ صحابی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو جبکہ تابعی اسے کہتے ہیں جس نے کسی صحابی سے ملاقات کی ہو۔ اسی طرح تبع تابعی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی تابعی سے ملاقات کی ہو۔

عام طور پر مصنفین دور صحابہ کو ہجری 11ھ/ع632 سے شروع کر کے 110ھ/ع728 تک لے جاتے ہیں کیونکہ آخری صحابی اسی سال میں فوت ہوئے تھے۔

اس کے بعد وہ تابعین کے دور کو شمار کرتے ہیں اور کم و بیش 200ھ/ع815 تک دور تابعین کو شمار کرتے ہیں کیونکہ آخری تابعی اسی زمانے میں فوت ہوئے تھے۔

تاہم دقت نظر سے دیکھا جائے تو صحابہ کرام کی اکثریت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک وفات پا چکی تھی اور اس زمانے میں جو صحابہ باقی رہ گئے تھے، ان کی غالب اکثریت بھی اگلے پندرہ بیس برس میں وفات پا چکے تھے۔ اس کے بعد جو اکا دکا صحابہ باقی رہ گئے، وہ اگرچہ رشد و ہدایت کا مینار تھے تاہم اس دور میں دین و دنیا کے زیادہ تر معاملات تابعین کے ہاتھ میں تھے۔ بالکل اسی طرح
133ھ/750ع تک اکثر جلیل القدر تابعین بھی وفات پا چکے تھے اور ان میں سے کچھ حضرات اگر باقی رہ بھی گئے تب بھی دین ودنیا کے معاملات عملاً تبع تابعین کے ہاتھ میں آ چکے تھے۔

عہد صحابہ و تابعین کے مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کو سمجھنے کی خاطر ہم اس دور کو بھی مزید چھوٹے ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
یہ تقسیم اس بنیاد پر ہے کہ کس دور میں کون لوگ دینی اور دنیاوی قیادت کے مناصب پر فائز رہے۔
یہ تقسیم ہمارے فہم کے مطابق ہے اور اس میں دو چار سال اوپر نیچے کیے جا سکتے ہیں۔

1۔ *کبار صحابہ کادور*
(11-40ہجری /عیسویں 632-660)
یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں کی قیادت ان صحابہ کے ہاتھ میں رہی جنہوں نے طویل عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی۔ ان میں زیادہ تر حضرات وہ تھے جو عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ہی کم تھے۔ ان میں سب سے نمایاں خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ کے بقیہ صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ان کے علاوہ دیگر سابقون الاولون بھی بالعموم اسی دور کے اندر وفات پا چکے تھے۔

2۔ *متوسط صحابہ کا دور*
(ہجری 40-60 / عیسویں660-680):
اس دور میں وہ صحابہ دینی اور دنیاوی قیادت پر فائز رہے جو عہد نبوی میں ابھی نوجوان تھے۔ ان میں سب سے نمایاں حضرت معاویہ، ابوہریرہ، ام المومنین عائشہ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم تھے۔

3۔ *صغار صحابہ کا دور*
(ہجری 60-80 / عیسویں 680-700):
اس دور میں دینی اور دنیاوی قیادت ایک حد تک تابعین کے ہاتھ میں آ چکی تھی تاہم ابھی وہ صحابہ موجود تھے جو عہد رسالت کے آخری دور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان میں حضرت حسن، حسین، عبداللہ بن زبیر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ 80/700 کے بعد بھی تیس سال تک بعض صحابہ زندہ رہے تاہم اس کے بعد دین و دنیا کی قیادت عملاً کبار تابعین کو منتقل ہو چکی تھی۔

4۔ *کبار تابعین کا دور *
(ہجری 80-100 /عیسویں680-718)
صحابہ و تابعین کے ادوار کا بہت سا حصہ مشترک ہے۔ کبار تابعین وہ تھے جو خلفائے راشدین کے ابتدائی ایام میں پیدا ہوئے اور ان کی پوری زندگی جلیل القدر کبار صحابہ کے ساتھ گزری۔
ان میں سے طویل عمر پانے والے بھی ھ100/ع718 کے لگ بھگ وفات پا چکے تھے۔

5۔ *متوسط تابعین کا دور
(100-133ھ/ع718-750):
یہ وہ تابعین ہیں جو متوسط صحابہ کے دور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ان سے تربیت حاصل کی۔ ان کا دور کم و بیش اس وقت ختم ہوتا ہے جب بنو امیہ کا اقتدار ختم ہوا۔

6۔ *صغار تابعین کا دور*
(60-200ھ/ع750-815):
یہ وہ تابعین ہیں جو صغار صحابہ کے دور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے صغار صحابہ یا کبار تابعین سے تعلیم و تربیت پائی۔ ان کا دور خاصا طویل ہے تبع تابعین کے دور کے ساتھ خلط ملط ہے۔

7۔ *تبع تابعین کا دور*
(150-300ھ/ع767-912) :
اس میں تبع تابعین کی مختلف نسلیں شامل ہیں جنہوں نے کبار سے لے کر صغار تابعین کا زمانہ پایا۔

*اس حص میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ عہد صحابہ سے متعلق تاریخ پر تحقیق کیسے کی جائے۔ اس کے لیے ہم پہلے یہ دیکھیں گے کہ عہد صحابہ کی تاریخ مرتب کیسے ہوئی اور پھر ہم دیگر امور کا جائزہ پیش کریں گے۔ گویا کہ ہم یہاں “علم تاریخ کی تاریخ” کا مطالعہ کر رہے ہیں*

*پہلی صدی ہجری میں علم تاریخ*

چونکہ عہد صحابہ پہلی صدی ہجری پر مشتمل ہے، اس وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے دور ہی میں کوئی مورخ پیدا ہوتے جو اس دور کے واقعات پر کتابیں لکھتے لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس دور میں کاغذ کمیاب تھا اور کتابیں لکھ کر پھیلانے کا رواج نہ تھا۔ قرآن مجید ہی وہ واحد کتاب تھی جو لکھی ہوئی صورت میں موجود تھی۔ احادیث نبویہ کو بعض لوگوں نے اپنے رجسٹروں میں لکھ رکھا تھا اور اس کی حیثیت ذاتی ڈائری کی تھی۔ اس وجہ سے ہمیں پہلی صدی ہجری میں کوئی نمایاں مورخ نظر نہیں آتے۔ پہلی صدی میں مورخین کی عدم دستیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تاریخ کا ذوق رکھنے والے مسلمانوں کا زیادہ تر فوکس احادیث نبویہ پر تھا۔ انہیں پڑھنا، پڑھانا، یاد کرنا، نوٹ کرنا، اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہی ان کے نزدیک اہم کام تھا۔ تاریخی واقعات کی یاد چونکہ ابھی تازہ تھی، اس وجہ سے انہیں اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ ان سے متعلق روایات کو کوئی شخص اکٹھا کر کے کتاب لکھے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں یہ روایات بکھری رہیں اور لوگ احادیث کے ساتھ ساتھ انہیں بھی روایت کرتے رہے تاہم بعض ایسی شخصیات اس دور میں پیدا ہوئیں جنہوں نے حدیث اور تاریخ پر غیر معمولی کام کیا۔

*اب ہم تاریخ لکھنے والی شخصیات کے بارے پڑھیں گے*

1-ابن شہاب الزہری
(58-124ھ/ع678-742)

پہلی صدی ہجری کے اواخر اور دوسری صدی کے اوائل میں محمد بن مسلم بن شہاب الزہری کی شخصیت ایسی ہے جو فن حدیث میں نمایاں ہوئی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زہری اپنے دور میں علم روایت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ بنو امیہ کے خلفاء ولید اور سلیمان کے قریب رہے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ بنے تو انہوں نے زہری سے فرمائش کی کہ وہ احادیث نبویہ کو اکٹھا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث کی بہت بڑی تعداد زہری سے مروی ہے اور موطاء امام مالک، بخاری اور مسلم جیسی کتابوں میں ان کی مرویات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے زہری پر تنقید کی ہے مگر امت کے اہل علم کی غالب اکثریت نے ان پر اعتماد کیا ہے۔
ابن شہاب زہری سے بعض تاریخی روایات بھی منقول ہیں مگر ان روایتوں میں ایک مسئلہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ جمل ، صفین، تحکیم وغیرہ کے واقعات 36-38ھ/ع657-659 میں پیش آئے جبکہ زہری کی پیدائش 58ھ/ع678 کی ہے،
زہری جب ان واقعات کی کوئی تفصیل بیان کرتے ہیں تو سند بیان کرنے کی بجائے براہ راست اس واقعے کی تفصیلات بیان کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس شخص کا نام نہیں بتاتے جس سے انہوں نے یہ واقعہ سن رکھا ہے۔ ان واقعات میں سے بہت سے ایسے ہیں جن میں کسی نہ کسی خاص صحابی کی کردار کشی ملتی ہے۔ چونکہ زہری ان واقعات کے عینی شاہد نہیں ہیں، اس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جس شخص سے انہوں نے وہ واقعہ سنا، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا۔ عین ممکن ہے کہ زہری نے یہ واقعات اپنے بچپن یا نوجوانی میں ایسے لوگوں سے سنے ہوں جو بعض صحابہ کے خلاف بغض رکھتے ہوں اور ان کے خلاف اٹھنے والی باغی تحریک کا حصہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ ایسی منقطع سند (Broken chain of narrators)
کے واقعات قابل اعتماد نہیں ہیں۔

2-یونس بن یزید الایلی
(152ھ/ع769)

یہ ابن شہاب زہری کے شاگرد خاص تھے اور ان کی کتابوں کے حافظ تھے۔ ویسے تو ایلی کا تعلق دوسری صدی ہجری سے ہے لیکن چونکہ یہ ابن شہاب الزہری کی تاریخی روایات کا اہم حصہ انہی سے مروی ہے، اس وجہ سے ان کا ذکر یہیں کیا جا رہا ہے۔اگرچہ بعض ائمہ جرح و تعدیل نے انہیں قابل اعتماد قرار دیا ہے تاہم جن لوگوں نے ان کے معاملے میں تحقیق کی ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ ان کا حافظہ کمزور تھا۔
امام احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ یونس نے زہری کی روایات لکھنے میں بکثرت غلطیاں کی ہیں اور بڑی منکر (یعنی عجیب و غریب) قسم کی روایات بیان کی ہیں۔
( شمس الدین الذہبی
(673-748/1275-1347)۔
سیر الاعلام النبلا۔ شخصیت نمبر 6894۔ ص 4300۔ عمان: بیت الافکار الدولیہ۔)

زہری سے جتنی بھی ایسی منقطع تاریخی روایات منقول ہیں، جن میں صحابہ کرام کی کردار کشی ہے، تقریباً ان سب کو یونس بن یزید الایلی نے روایت کیا ہے۔

*دوسری صدی ہجری میں علم تاریخ*

دوسری صدی ہجری میں مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا انقلاب آیا جس نے لوگوں کے رہن سہن پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ ہوا یوں کہ ماوراء النہر (موجودہ ازبکستان، تاجکستان وغیرہ) کے علاقے میں مسلم فوج کی ایک جھڑپ چین کی فوج کے ساتھ ہوئی۔ اس جنگ میں بعض ایسے چینی فوجی مسلمانوں کے جنگی قیدی بنے جو کاغذ بنانے کے ماہر تھے۔ ان قیدیوں سے مسلمانوں نے کاغذ بنانے کا فن سیکھا ۔ چونکہ مسلم دنیا میں کاغذ کی ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی، اس وجہ سے بہت تیزی سے کاغذ بنانے کے کارخانے یہاں پھیل گئے اور بڑی مقدار میں سستا کاغذ بنایا جانے لگا۔ اس عظیم ٹیکنالوجیکل انقلاب کا موازنہ بعد کی صدیوں میں پرنٹنگ پریس اور پھر کمپیوٹر کی ایجاد سے کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کمپیوٹر نے ہمارے زمانے میں انسانوں کے رہن سہن، باہمی تعلقات، اداروں ، کاروبار، تعلیم اور ہر چیز کو بدل دیا ہے، بالکل ویسے ہی کاغذ بنانے کے طریقے کی دریافت نے مسلم دنیا میں تعلیم، تحقیق اور زندگی کے دیگر شعبوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔

اس سے پہلے لوگ محض ذاتی ڈائری کے طور پر اپنے علم کو لکھ لیا کرتے تھے۔ جب طالب علم اپنے استاذ سے کچھ سیکھتا تو اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا اور بسا اوقات استاذ کو پڑھ کر سنا بھی دیتا تاکہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔
دوسری صدی ہجری کا نصف آخر اور تیسری صدی کے نصف اول میں تصنیف و تالیف کا کام بڑے پیمانے پر کیا جانے لگا جن میں تاریخی کتب بھی شامل تھیں۔ کتابوں کو کمرشل پیمانے پر نقل کیا جانے لگا اور “ورّاقین” کا ایک طبقہ وجود میں آیا۔ یہ کتابوں کی ہاتھ سے نقلیں تیار کرنے کے ماہر تھے اور انہوں نے باقاعدہ اپنا بازار بنا لیا۔ اگر کسی عالم کو اپنی کتاب کی مثلاً سو کاپیاں تیار کروانا ہوتیں تو وہ ان وراقین کے پاس آتے اور انہیں اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ دیتے۔ یہ وراقین اس کام کو آپس میں بانٹ لیتے اور چند ہی دنوں میں یہ سو کاپیاں تیار کر کے عالم کو دے دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھڑا دھڑ کتابیں لکھی جانے لگیں اور انہیں بآسانی منتقل کیا جانے لگا۔

حافظے سے کاغذ پر علم کی منتقلی کا یہ عمل ظاہر ہے کہ ایک سال میں نہیں ہوا ہو گا بلکہ ان کارخانوں کے ارتقاء میں کم از کم تیس چالیس برس ضرور لگے ہوں گے۔ کاغذ کا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک بنا ہو گا، دکانیں قائم ہوئی ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ ورّاقین (Scribes) کا وہ طبقہ وجود میں آیا ہو گا جس نے کتابوں کو نقل کرنے کے فن کو بہت تیز کر دیا۔ اس سارے عمل میں پچاس سے سو برس تو یقیناً لگے ہوں گے۔ ہم اپنے زمانے میں دیکھ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر کو مختلف معاشروں میں رواج پانے کے لیے کم و بیش تیس سال (1980-2010)کا عرصہ لگا ہے اور تقریباً2012 تک بھی یہ صورتحال نہیں تھی کہ ہر شخص کے پاس اپنا ذاتی کمپیوٹر ہوتا، بلکہ ابھی 2018 میں بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی بھی کئے علاقے ایسے ہونگے جہاں ذاتی کمپیوٹر لوگوں پاس نہیں ہوگا،
کچھ ایسا ہی معاملہ اس دور میں کاغذ کے ساتھ ہوا ہو گا۔

دوسری صدی ہجری کے نصف آخر میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کتابیں لکھنے کے عمل کا آغاز ہوا اور تیسری صدی ہجری کے اوائل اور نصف میں جب کتابیں بڑے پیمانے پر لکھی جانے لگیں تو ان کا اسلوب وہی تھا جو اس سے پہلے زبانی روایت کا چلا آ رہا تھا۔ سب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی محسوس ہوئی کہ جو کچھ علم اب تک زبانی یا ذاتی ڈائریوں کی صورت میں چلا آ رہا ہے، اسے مرتب کر لیا جائے۔ چنانچہ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، ادب، شاعری، فلسفہ غرض ہر علم میں جو کچھ دستیاب تھا، اسے لکھا جانے لگا۔ حدیث اور تاریخ کے میدان میں پہلے مرحلے پر ان روایات کو اکٹھا کیا گیا۔ اہل علم کا فوکس یہ تھا کہ علم کو مرتب کیا جائے، مستند و غیر مستند کو بعد میں اگلے مرحلے پر دیکھ لیا جائے گا۔ یہ مرحلہ دوسری صدی کے آخر سے شروع ہو کر پانچویں صدی کے آخر تک جاری رہا اور اس عمل میں تین سو سال لگے۔

دوسری صدی ہجری میں ایسے مورخین سامنے آئے جنہوں نے تاریخ پر کتابیں لکھنا شروع کیں اور روایتیں اکٹھی کیں۔ مناسب ہو گا کہ اس موقع پر ہم ان مورخین کا تعارف کروا دیں اور ان کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کی آراء بھی نقل کر دیں۔

ائمہ جرح و تعدیل سے ہماری مراد وہ محققین ہیں جنہوں نے احادیث اور تاریخی روایات کے راویوں پر تحقیق پر اپنی زندگیاں صرف کیں اور ان کے بارے میں یہ تفصیلات بیان کیں کہ یہ لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔

ان ائمہ کرام میں
احمد بن حنبل(164-241/780-855)،
ابن معین(156-233/772-847)،
بخاری(194-256/810-870)،
ابن المدینی (161-234/777-848)،
ابو حاتم الرازی (195-277/810-890)،
نسائی (214-303/829-915)
اور دار قطنی (306-385/918-995)
شامل ہیں۔
*یہ سب تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے مشہور ائمہ جرح و تعدیل ہیں اور ان کی رائے فن جرح و تعدیل میں اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے*

مورخین اور راویوں کے بارے میں یہ تفصیلات ہم فن رجال (Biographical Studies)کے مشہور انسائیکلو پیڈیا “میزان الاعتدال” سے فراہم کر رہے ہیں اور مشہور ائمہ جرح و تعدیل، جنہوں نے مختلف راویوں کے حالات اور ان کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے پر گہری تحقیق کی ہے،ان کی آراء یہاں پیش کر رہے ہیں۔

1- *محمد بن اسحاق*
(85-151ھ/ع703-768)
مشہور عالم ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک مفصل کتاب لکھی تھی جس کا جزوی حصہ اب بھی موجود ہے۔ دور صحابہ کی تاریخ کے بارے میں ان سے زیادہ روایات مروی نہیں ہیں۔
ان کے بارے میں محدثین اور ماہرین جرح و تعدیل کے مابین اختلاف ہے کہ یہ ثقہ تھے یا نہیں تھے۔علی بن مدینی اور ابن شہاب زہری نے انہیں سب سے بڑا عالم قرار دیا ہے ۔ سفیان بن عینیہ انہیں امیر المومنین فی الحدیث سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس امام مالک (93-179/711-795) جو ان کے ہم عصر تھے، انہیں “دجال” کا لقب دیتے ہیں۔ ان پر شیعہ اور فرقہ قدریہ سے کا الزام ہے اور اس کے علاوہ ان پر تدلیس (غیر ثقہ راوی کا نام چھپا لینا تاکہ یہ لگے کہ حدیث مستند ہے) کے ارتکاب کا الزام بھی ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ ثقہ تو تھے مگر حجت نہیں تھے۔
( جمال الدین المزی (654-742/1256-1342)،
تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، راوی نمبر 7057۔ بغداد: موسسہ دار الرسالہ)

2-*محمد بن عمر الواقدی*
(130-207ھ/ع747-823)
دوسری صدی کے سب سے مشہور مورخ محمد بن عمر الواقدی ہیں۔ یہ صاحب بغداد کے قاضی تھے اور بڑے عالم تھے۔ انہوں نے بڑی محنت سے ایک ایک شہر اور ایک ایک گاؤں میں جا کر تاریخی روایتیں اکٹھی کیں اور اس پر کتابیں لکھیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ کتب دوسری صدی کے نصف آخر میں لکھی گئی ہوں گی۔ انہوں نے روایات کی تفتیش و تنقید بالکل نہ کی بلکہ جو کچھ ملا، اسے لکھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقدی کو ماہرین جرح و تعدیل نے نہایت ہی ناقابل اعتماد اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔ واقدی کی تصانیف مرور ایام کی نذر ہو گئیں اور ہم تک نہیں پہنچیں تاہم ان کی روایات بعد کے دور کی تصانیف کا حصہ بن گئیں۔
واقدی کے بارے میں احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے۔
ابن معین انہیں ثقہ نہیں سمجھتےاور کہتے ہیں کہ ان کی روایت کبھی نہ لکھو۔
بخاری اور ابو حاتم انہیں متروک قرار دیتے ہیں۔
ابن المدینی، ابوحاتم اور نسائی کہتے ہیں کہ یہ روایتیں گھڑا کرتے تھے۔
دارقطنی کہتے ہیں کہ ان میں ضعف پایا جاتا ہے۔
ابن المدینی کہتے ہیں کہ یہ صاحب تیس ہزار ایسی احادیث سنایا کرتے تھے جو کہ بالکل ہی اجنبی تھیں۔
(جمال الدین المزی (654-742/1256-1342)،
تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، راوی نمبر 7999۔ بغداد: موسسہ دار الرسالہ)

خطیب بغدادی نے واقدی سے متعلق نقل کیا ہے کہ انہوں نے جنگ احد کے واقعے کو بیس (بروایت دیگر سو) جلدوں میں بیان کیا۔ اب چند گھنٹوں میں ہونے والی جنگ احد کو اگر بیس جلدوں میں بھی بیان کیا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فاضل مصنف نے اس میں کیا کچھ اکٹھا کر دیا ہو گا۔
(خطیب بغدادی (392-463/1002-1071)۔
تاریخ مدینۃ السلام (بغداد)۔ باب محمد بن عمر الواقدی، نمبر 1203۔ 4/11۔ بیروت: دار الغرب الاسلامی)

تاریخ کی کتب میں واقدی کی روایات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسی روایات، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی منفی بات ہو، ان میں سے اکثر کی سند میں واقدی موجود ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ واقدی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے بارے میں متعصب تھے۔
اس کے برعکس بعض شیعہ اہل علم جیسے ابن الندیم (385ع/ھ995) کا کہنا ہے کہ واقدی میں تشیع پایا جاتا تھا مگر وہ تقیہ کر کے خود کو اہل سنت میں ظاہر کرتے تھے۔
(خالد کبیر علال۔
مدرسۃ الکذابین فی روایۃ التاریخ الاسلامی و تدوینہ۔ ص 65-66۔ الجزائر: دار البلاغ)

3-*علی بن محمد المدائنی*
(135-225ع/ھ752-840)
یہ بھی دوسری صدی کے مورخ ہیں۔ مذکورہ بالا ابن الندیم،جو کہ اپنے زمانے کی لائبریری سائنس کے ماہر تھے اور انہوں نے اپنے زمانے تک کی کتب کی ایک مفصل فہرست تیار کی ہے، انہوں نے مدائنی کی 239 تصانیف کے نام گنوائے ہیں۔
ان کی یہ تصانیف بھی باقی نہیں رہیں تاہم ان کی بیان کردہ روایات کا بڑا حصہ تیسری صدی کی کتب کا حصہ بن گیا،
جرح و تعدیل کے مشہور ماہر
ابن عدی ان کے بارے کہتے ہیں:
“یہ حدیث کے معاملے میں قوی نہیں ہیں، اخباری ہیں اور ان کی روایات میں سے کم ہی ہیں جن کی سند مکمل ہے۔
” یحیی بن معین نے البتہ انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
( شمس الدین الذہبی۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال ، راوی نمبر 5927۔ بیروت: دار الکتب العلمیہ۔ www.waqfeya.com )

اوپر ذکر کردہ عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدائنی تاریخ میں ایک قابل اعتماد راوی سمجھے گئے ہیں مگر حدیث میں نہیں۔ بذات خود قابل اعتماد تھے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ جن لوگوں سے روایت کر رہے ہیں، وہ قابل اعتماد اور ثقہ ہیں یا نہیں۔

4-*ابو مخنف لوط بن یحیی*
(170ع/ھ787)
یہ دوسری صدی کے مشہور ترین مورخ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بنو امیہ سے متعلق جتنی بھی منفی نوعیت کی روایتیں ملتی ہیں، ان کا غالب حصہ انہی سے مروی ہے۔ جنگ صفین، واقعہ تحکیم، سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور اس کے بعد کے واقعات کا زیادہ تر حصہ تاریخ طبری میں انہی سے مروی ہے۔

#دارقطنی نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے،
#ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں ہیں، #ابن عدی نے انہیں غالی شیعہ قرار دیا ہے،
(شمس الدین الذہبی۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال ، راوی نمبر 6998۔ بیروت: دار الکتب العلمیہ www.waqfeya.com)

#جرح و تعدیل کے معتبر ماہر،
ابن عدی کا کہنا یہ بھی ہے کہ ابو مخنف بہت ہی دل جلے شیعہ تھے۔
(ابن حجر عسقلانی (773-852/1372-1448)۔
لسان المیزان ۔ راوی نمبر 6248۔
بیروت: مکتبہ مطبوعات الاسلامیہ)

مناسب رہے گا کہ ابو مخنف کے متعلق ہم اہل تشیع کی رائے پیش کر دیں۔ ابو مخنف کے متعلق اہل تشیع کے ایک مصنف،
قمر بخاری صاحب لکھتے ہیں:
ابو مخنف كا نام، لوط بن يحيٰ بن سعيد بن مخنف بن سُليم ازدی ہے۔ ان كا اصلی وطن كوفہ ہے اور ان كا شمار دوسری صدی ہجری كے عظيم محدثين اور مورخين ميں ہوتا ہے۔ انہوں نے پيغمبر اسلام صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم كی رحلت كے بعد سے اموی حكومت كے آخری دور تك كے اہم حالات و واقعات پر كتابيں لکھیں، جيسے كتاب المغازى، كتاب السقيفہ، كتاب الردہ، كتاب فتوح الاسلام، كتاب فتوح العراق، كتاب فتوح خراسان، كتاب الشوريٰ، كتاب قتل عثمان، كتاب الجمل، كتاب صفين، كتاب مقتل أمير المؤمنين، كتاب مقتل الحسن (عليہ السلام) كتاب مقتل الحسين (عليہ السلام) ۔۔۔

جو مجموعی طور پر اٹھائیس كتابيں ہيں اور ان كی تفصيل علم رجال كی كتابوں ميں موجود ہے۔ ليكن ان ميں سے اكثر كتابيں ہماری دسترس ميں نہيں ہيں البتہ ان كتابوں كے کچھ مطالب ان كے بعد لکھی جانے والی كتابوں ميں روايت ابی مخنف كے عنوان سے موجود ہيں،
مثلاً تاريخ طبرى ميں ابو مخنف سے مجموعی طور پر پانچ سو سے زيادہ روایتيں موضوعات پر نقل ہوئی ہيں
اور ان نقل شدہ روايات ميں سے اكثر كا تعلق، جو کہ تقريباً ايك سو چھبیس روايتيں ہيں، حضرت علی عليہ السلام كے دوران حكومت كے حالات و واقعات سے ہے۔ ايك سو اٹھارہ روايتيں واقعۂ كربلا اور ايك سو چوبيس روايتيں حضرت مختار كے قيام كے بارے ميں ہيں۔۔۔۔

اگر چہ ان كی تاريخ ولادت معلوم نہيں ہے ليكن ان كی تاريخ وفات عام طور سے سن 157 ہجری قمری نقل كی گئی ہے۔
ان كی تاريخ ولادت معلوم نہ ہونے كی وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمی كا شكار ہوئے ہيں۔ بعض نے انہيں حضرت علی ر، حضرت حسن رض اور حضرت حسين كا صحابی كہا ہے، جب كہ بعض علماء نے انہيں امام جعفر صادق رح كا صحابی جانا ہے۔
# جيسا كہ شيخ طوسی عليہ الرحمہ نے “كشّى” سے نقل كيا ہے كہ ابو مخنف، امام علی عليہ السلام امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ہيں۔ ليكن ان كا خود يہ نظريہ نہيں ہے بلكہ ان كا كہنا ہے كہ ابو مخنف كے والد “یحیی” امام علی عليہ السلام كے صحابی تھے جب كہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ كا زمانہ نہيں دیکھا ہے۔۔۔۔
جو بات يقينی ہے وہ يہ كہ ابو مخنف كے
پردادا “مخنف بن سليم” رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام كے اصحاب ميں سے تھے اور آپ كی طرف سے شہر اصفہان كے گورنر مقرر ہوئے اور جنگ جمل كے دوران حضرت علی عليہ السلام كی فوج ميں قبيلہ ازد كے دستہ كی سالاری كے فرائض انجام ديتے ہوئے اس جنگ ميں شہادت كے درجہ پر فائز ہوئے۔

اہل تشيع كی علم رجال سے متعلق كتابوں سے يہ بات روشن ہے كہ ابو مخنف ايك قابل اعتماد شخص تھے، شيخ نجاشی ان كے بارے ميں كہتے ہيں كہ ابو مخنف كوفہ كے بزرگ راويوں كے شيوخ (اساتذہ) ميں سے ہيں ان كی روايت پر اعتماد كيا جاسكتا ہے۔
شيخ طوسی نے اپنی علم رجال كی كتاب ميں انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابی كہا ہے۔
شيخ عباس قمی نجاشی جيسی عبارت نقل كرنے كے بعد فرماتے ہيں:
ابو مخنف عظيم شيعہ مورخين ميں سے ايك ہيں۔
نيز آپ فرماتے ہيں كہ ابو مخنف كے شيعہ مشہور ہونے كے باوجود طبرى،
اور ابن اثير ، جيسے علماء اہل سنت نے ان پر اعتماد كيا ہے،
آقا بزرگ تہرانى نجاشی كی چند عبارتيں نقل كرنے كے بعد فرماتے ہيں:
“ان كے شيعہ مشہور ہونے كے باوجود علمائے اہل سنت جيسے طبری اور ابن اثير نے ان پر اعتماد كيا ہے بلكہ ابن جرير كی كتاب تاريخ الکبیر تو ابو مخنف كی روايات سے بھری ہوئی ہے۔
آيت اللہ خوئی نے بھی انہيں ثقہ كہا ہے اور شيخ طوسی (رح) سے ابو مخنف تك جو سند ہے اسے آپ نے صحيح جانا ہے ۔

ليكن بعض علماء اہل سنت نے ان كے شيعہ ہونے كا ذكر كرتے ہوئے ان كی روايت كو متروك قرار ديا ہے اور بعض افراد نے ان كے شيعہ ہونے كا ذكر كئے بغير ان كی روايت كو ضعیف كہا ہے جيسا كہ،
یحیی بن معين كا كہنا ہے:
ابو مخنف ليس بشئ یعنی ابو مخنف قابل اعتماد نہيں ہيں۔
#اور ابن ابی حاتم نے یحیی بن معين كا قول نقل كيا ہے كہ وہ ثقہ نہيں ہيں۔
اور دوسروں سے بھی اس بات كو نقل كيا ہے كہ وہ “متروك الحديث” ہيں۔

#ابن عدی، یحیی بن معين كا قول نقل كرنے كے بعد كہتے ہیں كہ گذشتہ علماء بھی اسی بات كے قائل ہيں، (يوافقہ عليہ الائمہ) اس كے بعد وہ كہتا ہے كہ ابو مخنف ايك افراطی قسم كے شيعہ ہيں، ان كی احاديث كی سند نہيں ہے ان كی احاديث كی سند نہيں ہے ان سے ايسی ناپسنديدہ اور مكروہ روايات نقل ہوئی ہيں جو نقل كرنے كے لائق نہيں ۔

#ذہبی كا كہنا ہے كہ وہ متروك ہيں اور دوسری جگہ پر كہا ہے كہ ابو مخنف نے مجہول افراد سے روايت نقل كی ہے۔
دار قطنی كا قول ہے كہ ابو مخنف ايك ضعيف اخباری ہيں۔

#ابن حجر عسقلانی كا كہنا ہے كہ ان پر اطمينان نہيں كيا جاسكتا ہے۔
پھر بعض علماء كا قول نقل كرتے ہیں كہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمينان نہيں ہيں ۔

ليكن ابن نديم كا ان كے بارے ميں كہنا ہے كہ ميں نے احمد بن حارث خزار كے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحرير ميں دیکھا ہے كہ علماء كا كہنا ہے، كہ ابو مخنف كی عراق اور اس كی فتوحات سے متعلق روايات سب سے زيادہ اور سب سے بہتر ہيں، جس طرح سے خراسان، ہندوستان اور فارس كے بارے ميں مدائنى، حجاز و سيرت كے بارے ميں واقدى، اور شام كی فتوحات كے بارے ميں ان تينوں كی معلومات يكساں ہيں۔ يہ عبارت ياقوت حموی نے بھی اپنی كتاب “معجم الادباء” ميں ذكر كی ہے۔ مجموعی طور پر اكثر علماء اہل سنت نے يحييٰ بن معين كے قول كا سہارا لے كر ابو مخنف كو غير ثقہ قرار ديا ہے۔

شيخ طوسی كا اپنی كتاب “فہرست” ميں اور نجاشی كا اپنی كتاب “رجال” ميں ان كے مذہب كے بارے ميں كوئی رائے پيش نہ كرنا، ان كے شيعہ ہونے كی طرف اشارہ ہے۔ جيسا كہ بيان كيا جاچكا ہے كہ شيخ عباس قمی اور آقا بزرگ تہرانى نے واضح طور پر ان كے شیعہ ہونے كو بيان كيا ہے بلكہ يہاں تك كہا ہے كہ ان كا شیعہ ہونا مشہور ہے ليكن آقا خوئی نے اپنی كتاب “معجم رجال الحديث” ميں ان كے شيعہ يا غير شیعہ ہونے كو بيان كئے بغير انہيں ثقہ كہا ہے۔

اكثر علماء اہل سنت نے ان كے شیعہ ہونے كے بارے ميں كوئی اشارہ نہيں كيا۔ يہاں تك كہ ابن قتیبہ اور ابن نديم نے شیعہ افراد كے لئے ايك الگ باب تحرير كيا ہے ليكن ابو مخنف كے نام كا وہاں ذكر نہ ہونا ان كے غير شیعہ ہونے كو ظاہر كرتا ہے۔ علماء اہل سنت ميں سے ابن ابی الحديد وہ ہے جو اس بات كا قائل ہے كہ ابو مخنف كا شمار محدثين ميں ہوتا ہے اور وہ امامت پر اعتقاد رکھتے تھے، ليكن ان كا شمار شیعہ راويوں ميں نہيں ہوتا۔ صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقيد كرنے كے بعد فرماتے ہيں كہ ابو مخنف كی روايت ان كے متعصب نہ ہونے كی وجہ سے قابل اعتماد ہے ليكن ان كے شیعہ ہونے كے بارے ميں كوئی رائے پيش نہيں كی جاسكتی۔

لہٰذا ان كے مذہب كے بارے ميں بحث كرنے كا كوئی خاص عملی فائدہ نہيں ہے ليكن اگر ابو مخنف كی روايات پر غور و فكر كيا جائے جو اكثر سقیفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفین ، مقتل امام حسين عليہ السلام سے متعلق ہيں تو آپ اس نتيجہ پر پہنچیں گے كہ وہ شیعی افكار كے مالك تھے ،
البتہ ممكن ہے كہ ان كی روايات ميں بعض مطالب ايسے پائے جاتے ہوں جو كامل طور پر شیعہ عقيدہ كے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ ليكن ہميں چاہيے كہ ہم ابو مخنف كے دور زندگی كو بھی پيش نظر ركھيں كيونكہ بعض اوقات ائمہ معصومين عليہم السلام بھی تقیہ كی وجہ سے ايسے مطالب بيان كرتے تھے جو اہل سنت كے عقيدہ كے مطابق ہوا كرتے تھے اور يہ بات بھی قابل غور ہے كہ وہ ايك معتدل شخص تھے جس كی وجہ سے اہل سنت كی اكثر كتابوں ميں ان كی روايات كا مشاہدہ كيا جاسكتا ہے۔۔۔۔

ابو مخنف كی روايات كے متن كے صحيح يا غلط ہونے كے بارے ميں فيصلہ كرنا آسان كام نہيں ہے كيونكہ ابو مخنف كو تاريخی روايات نقل كرنے والوں ميں ايك بنيادی حيثيت حاصل ہے، لہٰذا دوسری روايات كے پيش نظر ان كی روايت كے صحيح يا غلط ہونے كا فيصلہ نہيں كيا جاسكتا۔ اس لئے كہ تاريخ كے تمام راوی جيسے ہشام كلبى، واقدى، مدائنى، ابن سعد وغيرہ يہ سب ان كے دور كے بعد سے تعلق ركہتے ہيں اور اسی كے مرہون منت ہيں۔

( قمر بخاری۔
مورخ ابی مخنف پر اک نظر۔ لنک
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php… ( 19 April 2012)

بخاری صاحب کی ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء رجال کے نزدیک ابو مخنف ایک بڑے شیعہ عالم اور مورخ تھے اور ان کے پڑدادا مخنف بن سلیم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ ایسے تمام تاریخی واقعات ، جن کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین اختلاف ہے، تقریباً سب کے سب کی تفصیلات ابو مخنف ہی سے مروی ہیں۔ اس وجہ سے ان معاملات میں ابو مخنف کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ مدعی اپنے نقطہ نظر کے حق میں خود گواہ نہیں بن سکتا ہے۔ راوی کی حیثیت گواہ کی ہوتی ہے۔ اگر مدعی خود ہی گواہ بن جائے تو کون سی عدالت اس کی گواہی کو قبول کرے گی؟

یہ بات درست نہیں ہے کہ صرف یحیی بن معین نے ہی ابو مخنف کو ناقابل اعتماد قرار دیا ہے اور اہل سنت کے بقیہ اہل علم ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ خود بخاری صاحب کے اقتباس میں متعدد علمائے اہل سنت کے اقوال درج ہیں جو ابو مخنف کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم بھی میزان الاعتدال اور لسان المیزان سے متعدد ماہرین جرح و تعدیل کے اقوال نقل کر چکے ہیں جن کے مطابق علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو مخنف قابل اعتماد نہیں ہیں۔
طبری، ابن اثیر اور دیگر مورخین کا ان کی روایات کو اپنی کتب میں جگہ دینا ، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ ابو مخنف کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ ہم آگے چل کر بیان کریں گے کہ خود ان مورخین نے اپنی کتب کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ہم نے واقعات کی تحقیق نہیں کی ہے بلکہ انہیں صرف نقل کیا ہے۔ صحیح غلط کی ذمہ داری ان راویوں پر ہے جن کے نام ہم نے سند میں دے دیے ہیں۔طبری اور دیگر مورخین کی حیثیت بات کو آگے نقل کرنے والے کی ہے۔ انہوں نے ہرگز یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ جن راویوں کی روایات کو انہوں نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، وہ سب کے سب قابل اعتماد تھے اور ان کی بیان کردہ ہر ہر روایت کو قبول کر لیا جائے۔

5-*محمد بن سائب الکلبی*
( 180ھ/ع795)
یہ بھی دوسری صدی ہجری کے مورخ ہیں اور ان کا تعلق بھی ابو مخنف ہی کی پارٹی سے ہے۔ محمد بن سائب الکلبی کے بارے میں مشہور امام سفیان ثوری کہتے ہیں: “کلبی سے بچو۔” کہا گیا: “آپ بھی تو ان سے روایت کرتے ہیں؟” کہا: “میں اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانتا ہوں۔
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کلبی نے مجھ سے کہا: “میں ابو صالح سے جتنی روایتیں بیان کرتا ہوں، وہ سب جھوٹ ہیں۔”
اعمش کہا کرتے تھے: “اس سبائی سے بچو، میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس کا نام جھوٹوں میں لیتے ہیں۔”
احمد بن زہیر کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: “کیا کلبی کی تفسیر کو دیکھنا جائز ہے؟” انہوں نے کہا: “نہیں۔
” ابن معین کہتے ہیں: “کلبی ثقہ نہیں ہے۔”

جوزجانی نے کلبی کو “کذاب” اور دارقطنی نے متروک قرار دیا ہے۔ مشہور محدث ذہبی کہتے ہیں کہ اس کا کتاب میں ذکر کرنا درست نہیں ہے تو پھر اس سے روایت قبول کیسے کی جائے۔
( ذہبی۔ میزان الاعتدال۔ راوی نمبر 7580)

6-*ہشام بن محمد بن سائب الکلبی*
( 204ھ/ع819)
یہ انہی کلبی صاحب کے بیٹے تھےاور اپنے والد سے روایات لیا کرتے تھے۔ بڑے عالم اور اخباری گزرے ہیں تاہم محدثین نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔
دارقطنی نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔
ابن عساکر انہیں ثقہ نہیں سمجھتے۔
150 کتب کے مصنف تھے۔
( ذہبی۔ میزان الاعتدال۔ راوی نمبر 9245)
تاریخ طبری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہشام کلبی کی بہت سی روایات، ابو مخنف ہی سے منقول ہیں۔ بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہشام نے ابو مخنف کے علاوہ کسی اور راوی سے بھی روایت کیا ہے۔ ہشام کے پڑدادا اور محمد بن سائب کے دادا جنگ جمل اور صفین میں باغی پارٹی کا حصہ تھے۔ ہشام سے ان کے بیٹے عباس بن ہشام اکثر روایت کرتے ہیں جو اسی خاندان کا حصہ ہیں۔

7-*سیف بن عمر التیمی*
( 185ھ/ع800)
یہ صاحب کثیر تاریخی روایات کے راوی ہیں اور اس فن پر انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔
یحیی بن معین انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔
ابو داؤد کہتے ہیں کہ ان کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔
ابو حاتم نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عام روایات “منکر” ہیں۔
ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ ان پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
(ذہبی۔ میزان الاعتدال۔ راوی نمبر3642)

ایسی بہت سی روایات، جو حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خلفائے راشدین کی منفی تصویر پیش کرتی ہیں، سیف بن عمر ہی سے منقول ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سیف بن عمر کی ان روایتوں کو قبول کیا جا سکتا ہے، جن میں صحابہ کرام کی کردار کشی نہ کی گئی ہو اور وہ عہد صحابہ کے سیاسی مسائل سے ہٹ کر ہوں،
(برزنجی و حلاق۔صحیح التاریخ الطبری۔ 3/6۔ دمشق: دار ابن کثیر)

*دوسری صدی کے علم تاریخ پر مجموعی تبصرہ*

یہ سب دوسری صدی ہجری کے مشہور مورخین ہیں لیکن ان کی کوئی کتابیں براہ راست ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کتابوں کے اکثر مندرجات بعد کی بڑی کتب کا حصہ بن گئے، جس کی وجہ سے لوگوں کو اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ پہلے کی کتابوں کو الگ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ موجودہ دور میں بعض حضرات نے خاص کر ابو مخنف کی روایات کو تاریخ طبری اور دیگر کتابوں سے اخذ کر کے الگ کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔

*اوپر بیان کردہ تفصیلات میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سوائے ایک آدھ کے، دوسری صدی ہجری کے اکثر بڑے مورخین قابل اعتماد نہیں ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب دو قسم کے ایسے محرکات(Motives)ظہور پذیر ہوئے جن کی بنیاد پر تاریخ کو جان بوجھ کر مسخ کیا گیا:*

*پہلا محرک سیاسی تھا*
بنو امیہ نے تقریباً نوے برس (40-132/660-750) حکومت کی۔
دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ان کے خلاف بنو ہاشم کی تحریک پیدا ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ امویوں کو ہٹا کر ان کی جگہ ہاشمیوں کا اقتدار قائم کیا جائے۔ یہ تحریک تین عشروں تک پھلتی پھولتی رہی اور بالآخر 132/750 میں یہ کامیاب ہوئی۔ اس کے نتیجے میں امویوں کی حکومت ختم ہوئی اور ان کی جگہ بنو عباس کا اقتدار قائم ہوا۔
ہم اپنے دور کے بارے میں جانتے ہیں کہ سیاستدان کس طرح ایک دوسرے بالخصوص حکمرانوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکا کر خود اقتدار پر قبضہ کیا جائے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنو ہاشم کے طرف داروں نے کیا اور بنو امیہ کو کردار کو داغدار کر کر کے ان کی نہایت ہی مسخ شدہ تصویر پیش کی۔
یہی تصویر تاریخی روایتوں کا حصہ بن کر کتب تاریخ میں داخل ہوئی۔
حضرت عثمان، معاویہ، مروان، عبدالملک بن مروان اور دیگر اموی حکمرانوں کی خاص طور پر کردار کشی کی گئی۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد بنو ہاشم میں پھوٹ پڑ گئی اور یہ عباسی اور علوی کیمپوں میں تقسیم ہو گئے۔ یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی اولادوں سے تھے۔ اقتدار چونکہ بنو عباس کے ہاتھ میں آیا، اس وجہ سے انہیں علویوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عباسی دور میں جب تاریخ کی کتب لکھی گئیں تو ایسی بہت سی روایات ان کا حصہ بن گئیں جن میں حضرت علی اور ان کے صاحبزادوں حسن و حسین کی کردار کشی تھی۔
اگرچہ امت کے اہل علم میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے ایسی روایتوں کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا جن میں حضرت عثمان، علی، معاویہ رضی اللہ عنہم اور دیگر اکابرین امت کی کردار کشی تھی تاہم یہ روایتیں کتب تاریخ میں داخل کر دی گئیں۔ بہرحال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تاریخ کی یہ کتب صرف جھوٹ ہی پر مشتمل ہیں کیونکہ انہی تواریخ میں بنو امیہ بالخصوص حضرت عثمان، معاویہ رضی اللہ عنہما اور ولید بن عبد الملک کے مثبت کارنامے بھی ملتے ہیں۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کتب تاریخ میں ان حضرات کی کردار کشی سے متعلق مخصوص روایات داخل کی گئی ہیں۔

*دوسرا محرک مذہبی تھا۔*
یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں فرقہ بندی ارتقاء پذیر تھی۔
اہل تشیع ایک منظم گروہ کی شکل میں موجود تھے۔ خوارج اگرچہ آخری سانسیں لے رہے تھے مگر پھر بھی مسلم معاشرے کے اندر موجود تھے۔ ایک گروہ ناصبیوں کا بھی تھا ، جو خود کو “شیعان عثمان” کہتے تھے۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے ساتھ تعصب رکھتے تھے۔ ان سب کے علاوہ مین اسٹریم مسلمان تھے جو بعد میں “اہل السنۃ و الجماعۃ” کہلائے۔ یہ وہ مسالک تھے جن کے اختلافات کی بنیاد “تاریخ” تھی۔ تاہم مسلمان ابھی مل جل کر رہتے تھے اور ان فرقہ بندیوں کی حدود اتنی واضح نہیں تھیں۔ اہل تشیع کے ہاں “تقیہ” کا اصول مسلمہ ہے جس کے تحت بہت سے شیعہ راوی، اپنا مسلک ظاہر نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین ایک دوسرے سے روایتیں حاصل کرتے تھے اور پھر انہیں آگے بیان کر دیتے تھے۔

فرقہ وارانہ اختلافات کی عینک سے جب تاریخ کو دیکھا گیا تو لوگوں نے بہت سی ایسی روایتیں وضع کر دیں جو ان کے نقطہ نظر کی تائید اور فریق مخالف کی تردید پر مبنی تھیں۔ اگر انسان اپنی آنکھوں پر سرخ شیشوں کی عینک لگا لے تو اسے ہر چیز سرخ ہی نظر آتی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے جب تاریخ کو اپنے اپنے مسلک کے شیشوں کی عینک سے دیکھا تو انہوں نے تاریخی واقعات کی توجیہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح تاریخی روایات میں بھی اس کے اثرات پیدا ہوئے اور واقعات کو توڑ مروڑ کر بیان کیا جانے لگا۔ چونکہ روایات کے تبادلے کا عمل مختلف مسالک کے لوگوں میں جاری تھا، اس وجہ سے اہل تشیع، خوارج اور ناصبیوں کی روایات مین اسٹریم مسلمانوں کی کتابوں میں داخل ہو گئیں

*تیسری صدی ہجری میں علم تاریخ*

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ عہد صحابہ کے بڑے بڑے واقعات ہمیں تواتر سے ملتے ہیں لیکن ان کی جزوی تفصیلات کا ذکر انفرادی رپورٹس یا روایات میں ملتا ہے۔ متواتر معلومات کے بارے میں مورخین کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ انفرادی روایات کے بارے میں ان کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان روایات کو زیادہ تر دوسری صدی ہجری کے چند مورخین نے مرتب کیا اور کتابیں لکھیں۔ تیسری صدی ہجری میں جب تاریخی روایات کے بڑے مجموعے مرتب ہوئے تو دوسری صدی ہجری کی یہ کتابیں ان کا حصہ بن گئیں۔ چونکہ اس دور میں کتابیں ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں، اس وجہ سے لوگوں نے بعد کی کتب کو ہاتھ در ہاتھ نقل کیا اور پرانی کتب غیر ضروری ہوتی چلی گئیں۔

تیسری صدی ہجری کی کتب تاریخ اس وجہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کہ ہمارے پاس پہلی صدی میں رونما ہونے والے واقعات کی تاریخ سے متعلق جو قدیم ترین مواد موجود ہے، وہ زیادہ تر تیسری صدی ہی میں لکھی گئی کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس وجہ سے ہمارے پاس ان کتابوں سے متعلق تفصیلی معلومات ہونی چاہییں۔ جو شخص بھی عہد رسالت یا عہد صحابہ پر تحقیق کرے گا، اسے تیسری صدی کی کتابوں ہی کو اپنا ماخذ بنانا پڑے گا۔
بعد کی صدیوں میں جو کتب تاریخ لکھی گئیں، ان کی بنیاد بھی یہی تیسری صدی کی کتب تھیں۔ یہ بالعموم چار طرح کی کتابیں ہیں:

*کتب انساب*
ان کتابوں کا مقصد یہ ہے کہ مختلف شخصیات کے نسب نامے اور کارنامے بیان کیے جائیں ۔ چونکہ عربوں کے ہاں نسب کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی اور اسی کی بدولت قبائل کا تشخص قائم تھا، اس وجہ سے علم الانساب کو دور جاہلیت ہی سے غیر معمولی حیثیت حاصل تھی۔ ہمارے ہاں تو دیہات میں بھانڈ اور میراثی وغیرہ چوہدریوں کے شجرہ ہائے نسب محفوظ رکھتے ہیں اور محفلوں میں انہیں گاتے ہیں لیکن عربوں کے ہاں جو شخص علم الانساب کا ماہر ہوتا، اسے معاشرے میں غیر معمولی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا۔ علم الانساب میں ہر ہر خاندان کا نہ صرف شجرہ نسب بلکہ اس کی مشہور شخصیات کے پورے حالات زندگی بیان کیے جاتے۔
یہی وجہ ہے کہ عربوں کا علم الانساب مرتب ہوتا رہا اور اگلی نسلوں کو یہ ذخیرہ صحیح طور پر منتقل ہوا۔ شجرہ نسب اور حالات زندگی کے علاوہ انساب کی کتب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شادیوں کی تفصیلات ملتی ہیں کہ کس کی شادی کس سے ہوئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف قبائل اور خاندانوں کے درمیان رشتوں سے ان کے باہمی تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں مورخین نے بنو ہاشم اور بنو امیہ کے اختلافات کی جو تفصیل بیان کی ہے، اسے علم الانساب کی روشنی میں بآسانی پرکھا جا سکتا ہے۔

علم الانساب پر سب سے مشہور اور جامع کتاب احمد بن یحیی البلاذری
( 279ھ/ع893) کی “انساب الاشراف” ہے۔ کہنے کو تو یہ انساب کی کتاب ہے لیکن اس میں تاریخی معلومات بکثرت موجود ہیں کیونکہ مصنف نے ہر ہر شخصیت کے نسب کے ساتھ اس کے پورے حالات زندگی بیان کر دیے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ کتاب بڑے سائز کے پانچ پانچ سو صفحات پر مشتمل 13 جلدوں میں چھپی ہے۔
مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے آغاز کرتے ہوئے نسل در نسل آپ کے ایک ایک رشتے دار کے حالات بیان کیے ہیں۔ پھر آپ کے چچا ابو طالب اور عباس رضی اللہ عنہ کے خاندان کے حالات بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد بنو امیہ، بنو زہرہ، بنو تیم، بنو مخزوم، بنو عدی اور قریش کے دیگر خاندانوں کے لوگوں کے حالات بیان کیے ہیں۔ کتاب کی ترتیب انہوں نے اس طرح رکھی ہے کہ جو خاندان نسب کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا قریب ہے، اس کے حالات انہوں نے پہلے بیان کیے ہیں۔

بلاذری سے پہلے دوسری و تیسری صدی کے نساب مصعب الزبیری (156-236/773-851)
کی کتاب ’’نسب قریش‘‘ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے بھی قریش کے مختلف قبائل اور خاندانوں کے باہمی رشتوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے اور امام مسلم نے ان سے روایات قبول کی ہیں۔ ان کی کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں صرف نسب اور رشتوں کو بیان کیا گیا ہے اور تاریخی واقعات بیان نہیں کیے گئے۔ اس وجہ سے اس کتاب کی غیر جانبداری مسلم ہے۔ بعد میں چوتھی صدی میں ابن حزم (384-456/994-1064)کی کتاب ’’جمہرۃ الانساب العرب‘‘ بھی ایک اہم کتاب ہے۔

*کتب طبقات*
طبقات کی کتابوں میں بھی مشہور شخصیات کے حالات زندگی ہوتے ہیں جس کے ذیل میں ان شخصیات کے دور کی تاریخ بیان ہو جاتی ہے لیکن ان کتابوں کی ترتیب طبقہ در طبقہ ہوتی ہے۔ طبقے سے مراد کسی شخص کا Peer Group یا Age Groupہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی سالوں میں ایمان لانے والے صحابہ ایک طبقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ہجرت کے بعد اور غزوہ بدر سے پہلے ایمان لانے والے ایک طبقہ میں، غزوہ بدر و احد کے درمیان ایمان لانے والے ایک طبقہ میں اور اسی طرح مشہور واقعات کے درمیان ایمان لانے والوں کو ایک طبقے میں رکھا جاتا ہے۔ صحابہ کرام کا آخری طبقہ وہ ہے جو فتح مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیانی عرصے میں ایمان لایا۔ ا س کے بعد تابعین کے طبقات شروع ہو جاتے ہیں۔

اس اسلوب پر لکھی جانے والی مشہور ترین کتاب محمد بن سعد ( 230ھ/ع845) کی “الطبقات الکبری” ہے۔
ابن سعد اگرچہ خود تو بڑے قابل اعتماد مورخ ہیں مگر وہ محمد بن عمر الواقدی (207ھ/ع822)کے شاگرد ہیں جنہیں محدثین نے نہایت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے ابن سعد کی وہ روایات جو واقدی کے توسط سے منقول ہیں، قابل اعتماد نہیں مانی جاتی ہیں۔ ابن سعد نے طبقہ در طبقہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے حالات بیان کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کتاب کو شہر وار مرتب کیا، یعنی ہر ہر شہر کے اندر جو جو طبقات موجود تھے، ان کی ترتیب سے شخصیات کے حالات بیان کیے۔

*کتب مغازی*
یہ وہ کتب ہیں جن میں جنگوں کے حالات بیان کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی تاریخ کے سب سے مشہور عالم یہی محمد بن عمر الواقدی ہیں جنہوں نے جنگوں سے متعلق روایات اکٹھی کیں۔ تیسری صدی میں بلاذری نے “فتوح البلدان” کے نام سے ایک کتاب لکھی جو مختلف شہروں کی فتوحات سے متعلق اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔
مشہور محدث امام احمد بن حنبل(164-241/780-855)کا کہنا ہے کہ مغازی، تفسیر اور ملاحم (جنگیں) کی کتابیں بے اصل ہیں۔
(عسقلانی۔ لسان المیزان۔ خطبۃ الکتاب۔ 1ج/ص207)
اس سلسلے میں جن واقعات پر ہم تحقیق کر رہے ہیں، ان میں کتب مغازی کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔

*کتب تاریخ*
اس اسلوب کی کتب میں تاریخی ترتیب سے روایات درج کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے مشہور کتاب ابن جریر طبری(224-310ھ/ع838-922) کی
“تاریخ الامم و الملوک” ہے۔
یہ مختصراً “تاریخ طبری” کے نام سے مشہور ہے اور بعد کی کتب تاریخ کا ماخذ بھی ہے۔طبری فن تاریخ میں ایک رجحان ساز شخصیت تھے۔ ان کے بعد اس اسلوب پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں لیکن یہ سب کی سب تاریخ طبری یا انساب و طبقات کی کتب سے ماخوذ تھیں۔ اس وجہ سے انہیں وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو تاریخ طبری کو حاصل ہے۔ طبری سے پہلے خلیفہ بن خیاط(160-240ھ/ع777-854)
اسی اسلوب پر کتاب لکھ چکے تھے مگر جو مقبولیت طبری کو حاصل ہوئی، وہ انہیں حاصل نہیں ہو سکی،

*تیسری صدی کے مشہور مورخین*

تیسری صدی ہجری کے مشہور مورخین یہ ہیں:

1۔ *محمد بن سعد کاتب* الواقدی (168-230ھ/ع784-845):
یہ طبقات ابن سعد کے مصنف ہیں اور واقدی کے شاگرد اور سیکرٹری تھے۔ ان کی کتاب میں ان کے استاذ واقدی کی روایات بکثرت موجود ہیں جن کے قبول کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔

2۔ *احمد بن یحیی البلاذری*
(279ھ/ع893):
یہ انساب الاشراف اور فتوح البلدان کے مصنف ہیں۔

3۔ *ابن جریر طبری*
(224-310ھ/838-922ع):
یہ علم تاریخ اور علم تفسیر کی رجحان ساز شخصیت ہیں اور انہوں نے نہایت مفصل تاریخ کو زمانی ترتیب سے بیان کیا ہے۔ ہمارے اس سلسلے کا بنیادی ماخذ یہی تین مصنفین ہیں لیکن اس کے علاوہ ہم نے دیگر ذرائع سے مدد بھی لی ہے۔

طبری کے بارے میں علمائے تاریخ کے مابین یہ اختلاف موجود ہے کہ وہ شیعہ تھے یا نہیں۔ ایک گروہ انہیں شیعہ قرار دیتا ہے اور دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ وہ شیعہ نہیں تھے بلکہ ان کے ہم نام ایک اور صاحب محمد بن جریر بن رستم طبری شیعہ تھے جس کی وجہ سے التباس پیدا ہوا۔ شیعہ عالم قمر بخاری کا کہنا ہے کہ اگر چہ طبری سنی مذہب تھے مگر زندگی كے آخری لمحات ميں ان كے تشيع كی طرف مائل ہونے كا احتمال ديا جاسكتا ہے,
(قمر بخاری۔ مورخ ابی مخنف پر اک نظر۔
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php…

طبری کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں جہاں حضرات ابوبکر، عمر، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر تنقید پر مشتمل روایات ملتی ہیں، وہاں ان چاروں حضرات کے فضائل سے متعلق مثبت روایات بھی ان کی کتاب میں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اگر روایات ہیں تو ان پر تنقید پر مبنی روایتیں بھی ان کی کتاب میں پائی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ طبری محض ایک مورخ تھے اور انہیں جو کچھ ملا، انہوں نے اسے جمع کر دیا اور تحقیق و تفتیش کی ذمہ داری اگلی نسلوں کے سپرد کر دی۔

4۔ *الجاحظ*
(159-255ھ/ع776-869):
جاحظ مورخ سے زیادہ ادیب تھے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے مصنفین ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخی ناول لکھے ہیں۔ ناول نگار یا ادیب کا اصل ہدف تاریخی روایات کی تحقیق و تجزیہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو بھی تاریخی واقعہ اسے ملے، وہ اسے نہایت خوبصورت اسلوب میں کہانی کی شکل میں بیان کر دے۔ اس وجہ سے ناولوں اور ادیبانہ تحریروں کو کبھی بھی تاریخ کا مستند ماخذ نہیں سمجھا گیا ہے۔ ہاں ان سے استفادہ ایک عام آدمی کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنے اسلوب کے اعتبار سے ریڈر فرینڈلی کتابیں ہوتی ہیں۔ تاہم جاحظ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتب میں تحقیق کی ہے اور “شک اور تنقید” کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ علم تاریخ میں انہوں نے علی بن محمد المدائنی (135-225/752-840)کی شاگردی اختیار کی اور اس پر بعض کتابیں بھی لکھیں۔ اس کتاب میں ہم نے ان کی کتاب “العثمانیہ” سے استفادہ کیا ہے۔

5۔ ابن عبد الحکم (187-257/803-871): انہوں نے مصر او رشمالی افریقہ کی تاریخ پر کتابیں لکھیں جو کہ ہماری اس کتاب کے موضوع سے براہ راست متعلق نہیں ہیں۔

6۔ ابن ابی الدنیا (208-281/823-894): یہ ایک بہت بڑے محدث ہیں اور انہوں نے تاریخ پر بھی کتابیں لکھیں۔ ویسے ان کی زیادہ تر کتب کا موضوع تزکیہ نفس ہے۔ ان کی تاریخ سے متعلق کتب ہم تک پہنچ نہیں سکی ہیں۔

7۔ خلیفہ بن خیاط (160-240/777-854):
یہ ایک بڑے مورخ ہیں۔ انہوں نے تاریخ پر ایک کتاب لکھی جو “تاریخ خلیفہ بن خیاط” کے نام سے مشہور ہے۔ غالباً یہ پہلی کتاب ہے جو تاریخی ترتیب کے مطابق لکھی گئی البتہ اسے وہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی جو تاریخ طبری کو حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ غالباً یہ رہی ہے کہ یہ نہایت مختصر کتاب ہے اور موجودہ دور کے محض 450 صفحات میں انہوں نے 232 سال کی تاریخ بیان کر دی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے “طبقات” کے موضوع پر بھی کتابیں لکھیں جن میں طبقہ در طبقہ لوگوں کے احوال کے ساتھ تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔

8۔ ابن ہشام ( 218/834):
ابن ہشام کا شمار بڑے مورخین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے محمد بن اسحاق کی لکھی ہوئی سیرت نبوی کی کتاب کا خلاصہ تحریر کیا جو “سیرت ابن ہشام” کے نام سے مشہور ہے اور اس موضوع پر دستیاب کتابوں میں قدیم ترین ہے۔ ان کی کتاب کا تعلق چونکہ سیرت طیبہ سے ہے، اس وجہ سے ہماری اس کتاب کے موضوع سے یہ براہ راست متعلق نہیں ہے۔

9۔ ابو العباس یعقوبی (284/897):
یہ ایک بڑے تاریخ دان اور جغرافیہ دان تھے جن کی کتاب “تاریخ یعقوبی” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک شیعہ مورخ تھے۔

10۔ عمر بن شبہ (173-262/789-876): عمر ایک بڑے عالم تھے اور انہوں نے مختلف علوم و فنون پر کتابیں لکھیں۔ تاریخ کے موضوع پر انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں کتاب الکوفہ، کتاب البصرہ، کتاب امراء المدینہ، کتاب امراء المکہ، کتاب السلطان، کتاب مقتل عثمان، کتاب التاریخ وغیرہ نمایاں ہیں۔ انہوں نے علم تاریخ میں ایک نیا رجحان پیدا کیا اور وہ یہ تھا کہ ہر شہر کی الگ تاریخ لکھی جائے۔ اس میں اس شہر کی مشہور شخصیات کا ذکر ہو۔ ویسے تو یہ رجحان طبقات ابن سعد میں بھی پایا جاتا ہے لیکن عمر بن شبہ کے بعد ہر ہر شہر کی تاریخ پر الگ الگ کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ان کی بہت سی کتب اب نایاب ہو چکی ہیں تاہم ان کی بہت سی روایات طبری میں موجود ہیں۔

11۔ الامامہ و السیاسۃ کے مصنف: اس کتاب کی نسبت ایک بڑے عالم ابن قتیبہ دینوری (213-276/828-889) کی جانب کی جاتی ہے تاہم یہ نسبت درست نہیں ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مصنف غالی شیعہ ہیں جبکہ ابن قتیبہ کے بارے میں یہ بات معلوم و معروف ہے کہ وہ اہل تشیع کے سخت مخالف تھے۔ ان کی “الامامۃ و السیاسۃ ” نامی کسی کتاب کا سراغ کسی اور ماخذ جیسے فہرست ابن الندیم میں نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کتاب کا اسلوب بیان ان کی دیگر کتب سے ملتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ الامامۃ و السیاسۃ کسی شیعہ عالم کی کتاب ہے۔

*کیا تیسری صدی ہجری کی لکھی ہوئی کتب تاریخ مستند ہیں؟*

اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی کیونکہ ان کتب تاریخ میں مستند(Authentic) روایات بھی ہیں اور جعلی بھی۔ عام طور پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری میں جو کتب لکھی گئیں، ان میں زیادہ زور اس بات پر تھا کہ روایات کو اکٹھا کر لیا جائے اور انہیں سند کے ساتھ بیان کر دیا جائے تاکہ مستقبل کا کوئی مورخ اس سند کی مدد سے تحقیق کر سکے کہ روایت مستند ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کس درجے میں ہے۔ اگرچہ روایات پر تنقید اور چھان بین کے عمل کا آغاز تیسری صدی ہجری کے نصف سے شروع ہو چکا تھا لیکن تاریخی روایات کی زیادہ چھان بین نہیں کی گئی۔ اس دور کے ناقدین نے اپنی ترجیحات یہ متعین کیں کہ جن روایات میں کوئی دینی مسئلہ ہو، ان کی چھان بین پہلے کر لی جائے۔ تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کا معاملہ کچھ دیر سے شروع ہوا۔

*اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مورخین نے جعلی روایتوں کو اپنی کتب میں درج ہی کیوں کیا؟*

یہ بات ہم جانتے ہیں کہ کوئی مصنف جب کتاب لکھتا ہے تو وہ اپنے زمانے کے لوگوں کی علمی اور ذہنی سطح ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ آج جو کتابیں لکھی جاتی ہیں ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ اگلے پچاس سو برس کے قارئین کی علمی و ذہنی سطح کو ہی مدنظر رکھ سکتے ہیں۔ سن2500 یا 3000 کے قارئین کی علمی و ذہنی سطح کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی اس کے مطابق کتاب لکھ سکتے ہیں۔ تیسری صدی کے مورخین نے بھی جب کتب لکھیں تو ان کے پیش نظر ہم لوگ نہیں تھے بلکہ ان کے اپنے دور کے قارئین تھے۔ یہ لوگ پہلی دو صدیوں کے کم از کم مشہور راویوں اور مورخین سے اچھی طرح واقف تھے۔ اگر ان کے سامنے مثلاً واقدی یا ابو مخنف یا ہشام کلبی کی کوئی روایت پیش کی جاتی تو یہ قارئین جانتے تھے کہ ان حضرات کا علمی مقام کیا ہے اور ان کی روایتوں پر کس درجے میں اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے وہ بآسانی یہ معلوم کر لیتے کہ قابل اعتماد روایت کون سی ہے اور ناقابل اعتماد کون سی۔

*کتب تاریخ میں مستند اور جعلی روایتوں کے درج ہونے سے متعلق جو بات ہم نے کہی ہے، وہ اپنی جانب سے نہیں کی بلکہ خود ان مورخین نے یہی بات کہی ہے*

ابن جریر طبری اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
قارئین کتاب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میں نے جو اخبار و آثار (روایتیں) اس کتاب میں نقل کیے ہیں، اس میں میرا اعتماد انہی روایات پر ہے جنہیں میں نے ذکر کیا ہے اور جن کے ساتھ ان کی سندیں بھی موجود ہیں۔ اس میں وہ حصہ بہت ہی کم ہے جنہیں میں نے عقلی دلائل کے ادراک اور وجدانی استنباط کے بعد ذکر کیا ہے کیونکہ گزشتہ واقعات کی خبروں کا نہ ذاتی طور پر ہمارا مشاہدہ ہے اور نہ وہ زمانہ ہی ہم نے پایا ہے۔ ان کا علم ہمیں صرف ناقلین اور راویوں کی بیان کردہ خبروں ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ عقلی دلائل اور وجدانی استنباط سے۔ پس ہماری کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں، جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے، ان کے بارے میں اگر اس کتاب کے پڑھنے یا سننے والے اس بنا کر کوئی برائی یا عجیب پن محسوس کریں کہ اس میں انہیں صحت (Authenticity) کی کوئی وجہ اور معنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے انہیں خود اپنی طرف سے درج نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ماخذ وہ ناقل (نقل کرنے والے) ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں۔ ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کر دی ہیں جس طرح ہم تک پہنچیں۔
( طبری۔ مقدمہ۔ 1ج/ص17)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود طبری کا نقطہ نظر یہ نہیں ہے کہ “مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔” ان تک جو روایتیں پہنچیں، انہوں نے انہیں آگے نقل کر دیا۔ اب یہ قارئین کا کام ہے کہ وہ ان روایتوں کی سند اور متن کا تجزیہ کر کے ان کی چھان بین کریں۔ موجودہ دور میں تین عرب علماء محمد بن طاہر البرزنجی، محمد صبحی حسن حلاق اور شیخ یحیی ابراہیم یحیی نے پوری کی پوری تاریخ طبری پر تحقیق کر کے اس کی صحیح اور ناقابل اعتماد روایتوں کو الگ کر دیا ہے۔ ان کی کتاب کا نام ہے: “صحیح و ضعیف تاریخ الطبری۔” اس کتاب کو 2007 میں دار ابن کثیر، بیروت نے شائع کیا ہے اور یہ www.waqfeya.com پر دستیاب ہے۔ اس کتاب سے آپ بہت استفادہ حاصل کر سکتے ہیں،

*کیا امت کے اہل علم نے دوسری صدی کے مورخین پر اندھا اعتماد کیا ہے؟*

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب طبری اور دیگر مورخین نے ابو مخنف، ہشام کلبی، واقدی اور سیف بن عمر وغیرہ کی روایتیں نقل کی ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ پھر ہم ان پر اعتماد کیوں نہ کریں؟ یہ بات درست نہیں ہے کہ امت کے اہل علم نے دوسری صدی کے مورخین جیسے ابو مخنف، ہشام کلبی، واقدی اور سیف بن عمر پر اندھا اعتماد کیا ہے۔ جیسا کہ آپ طبری کے اقتباس میں دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود بیان کر دیا ہے کہ ان کی حیثیت محض بات کو نقل کرنے والے اور مواد کو مہیا کر دینے والے کی سی ہے۔ انہوں نے ہر روایت کے ساتھ اس کی سند دے دی ہے۔ اب یہ قارئین کا کام ہے کہ وہ چھان بین خود کریں۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے آج کمپیوٹر کے دور میں کوئی ادارہ تمام تاریخی روایات کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کرے۔ اب یہ ادارہ ایسا نہیں کرے گا کہ کتب تاریخ میں کانٹ چھانٹ شروع کر دے بلکہ تمام تاریخی روایات کو، جیسا کہ وہ ہم تک پہنچی ہیں، اس انسائیکلو پیڈیا میں درج کرے گا۔ پھر اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہر ہر روایت پر تبصرہ بھی شامل کتاب کر دیا جائے گا کہ یہ کس درجے میں مستند ہے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس ادارے کے نزدیک یہ تمام روایات قابل اعتماد ہیں،

*قرون وسطی اور دور جدید میں علم تاریخ*

قرون وسطی کی مشہور عربی کتب تاریخ کون سی ہیں؟

تیسری صدی ہجری کے بعد کے دور کی تاریخ کی کتب میں ایک رجحان یہ پیدا ہوا کہ سند کو حذف کیا جانے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روایات کی صورت میں بیان کردہ واقعات میں عبارت کی روانی اور تسلسل برقرار نہیں رہ پاتا تھا۔ مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعے کو لیجیے۔ روایات کی شکل میں اگر اسے بیان کیا جائے تو ایک راوی اس کا آغاز باغی تحریک کے ارتقاء سے کرتے ہیں اور پھر واقعات بیان کرتے کرتے اپنی روایت کو آپ کی شہادت پر ختم کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے راوی کا بیان شروع ہوتا ہے جو مثلاً باغیوں کی مدینہ آمد سے آغاز کرتے ہیں۔ پھر تیسرے راوی کا بیان شروع ہوتا ہے۔ قارئین کو اس طرز کی کتابوں سے شدید نوعیت کی بوریت محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان میں مضامین کی بہت تکرار پیدا ہو جاتی ہے اور بسا اوقات یہ روایات ایک دوسرے کے متضاد تصویر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔

چوتھی صدی ہجری سے ایسی کتابوں کا آغاز ہوا جن میں تاریخ کو ایک مسلسل بہاؤ کی صورت میں بیان کیا جائے۔ ان کتابوں کو ادیبانہ اسلوب میں ناول یا کہانی کی طرح لکھا جانے لگا جن سے ان کا مطالعہ آسان ہو گیا لیکن دوسری طرف ان کی استنادی حیثیت (Authenticity) کمزور پڑ گئی۔ جن مصنفین نے یہ اہتمام کیا کہ واقعات کے ساتھ، سابقہ کتب کا حوالہ دے دیا جائے، ان کی کتابیں پھر بھی مستند مانی جاتی ہیں۔

اس دور میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوا کہ مورخین نے ماخذ کی چھان بین کے عمل کو یا تو بالکل ہی نظر انداز کر دیا یا پھر اس کا استعمال بہت کم کیا۔ اسی طرح متن کی چھان بین کا عمل بھی انہوں نے بہت ہی کم کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ واقدی، ابو مخنف، سیف بن عمر اور ہشام کلبی کی سچی جھوٹی روایتیں اس طرح نقل ہونے لگیں کہ گویا وہ سچ ہیں۔ بعد کی صدیوں میں تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ سند کو غیر ضروری سمجھ کر حذف کیا جانے لگا۔ اس طرح ماخذ کی چھان بین کا رواج سرے سے ختم ہو کر رہ گیا۔ مناسب ہو گا کہ ہم بعد کی صدیوں کے مشہور مورخین اور ان کی کتب تاریخ کا تعارف بھی کروا دیں تاکہ قارئین کو ان کتابوں کی صحت کے بارے میں علم ہو سکے۔

1۔ علی بن حسین مسعودی346/957) مسعودی ایک بڑے شیعہ عالم اور سیاح تھے۔ انہوں نے ایک نہایت ہی مفصل تاریخ لکھی۔ قمر بخاری صاحب لکھتے ہیں:
يہ كتاب علی بن حسين مسعودی (وفات 346 ہجري) نے لکھی ہے، ممكن ہے كہ وہ شيعہ اثنا عشری ہوں مگر اس بات كا اندازہ “مروج الذہب” ميں موجود مطالب سے نہيں لگايا جاسكتا بلكہ اس سے فقط ان كے مذہب شيعہ كی طرف مائل ہونے كا اندازہ لگايا جاسكتا ہے يہ كتاب مقامات كے سفر كر كے نہايت تحقيق اور جستجو كے بعد لکھے جانے كی وجہ سے كافی اہميت كی حامل ہے، انہوں نے اپنی كتاب ميں ابو مخنف كا بہت ذكر كيا ہے۔
(قمر بخاری۔ مورخ ابی مخنف پر اک نظر۔
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php… (ac. 19 April 2012)

چونکہ اہل تشیع کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایک خاص موقف ہے، اس وجہ سے تاریخ کے باب میں ان کا بیان معتبر نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

2۔ ابن عبد البر (368-463/979-1071): یہ پانچویں صدی ہجری کے عالم ہیں۔ انہوں نے “الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب” کے نام سے سیرت صحابہ پر ایک مفصل کتاب لکھی۔ انہوں نے اس کتاب میں بیان کردہ واقعات کی سند بیان نہیں کی، اس وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ عہد صحابہ اور ابن عبد البر کے درمیان چار سو سال میں ان روایات میں کیا چیز داخل کر دی گئی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب مستند نہیں سمجھی گئی۔ ابن عبد البر کی کتاب میں بیان کردہ جو واقعات ان سے پہلے کی کتابوں میں پائے جائیں، ان کی تحقیق کر کے ان کے مستند ہونے کو پرکھا جا سکتا ہے لیکن وہ واقعات، جو ان سے پہلے کی کتابوں میں درج نہیں ہیں، سرے سے ہی غیر مستند ہیں۔ محدثین نے اس کتاب کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا ہے:
ابن عبد البر کی الاستیعاب بڑی جلیل القدر اور کثیر الفوائد کتاب ہوتی اگر اس میں صحابہ کرام کے اختلافات سے متعلق روایات، محدثین کی بجائے اخباری لوگوں سے نہ لی جاتیں۔ اخباری (مورخین) عام طور پر واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اپنی بیان کردہ چیزوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔
(ابن صلاح، مقدمہ ۔ النوع 39: معرفۃ الصحابہ۔ 485۔ قاہرہ: دار المعارف)

3۔ ابن الاثیر الجزری (555-630/1160-1233):
یہ ساتویں صدی ہجری کے مشہور مورخ ہیں اور ان کا تعلق الجزائر سے ہے تاہم ان کا وقت موصل، عراق میں بھی گزرا ہے۔ انہوں نے دو کتابیں لکھیں جو ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔ ایک “الکامل فی التاریخ” اور دوسری “اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ۔” پہلی زمانی ترتیب کے مطابق لکھی اور دوسری سیرت صحابہ سے متعلق۔ انہوں نے دونوں کتابوں میں سند کا اہتمام نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کی کتب کی حیثیت مشکوک ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ عہد صحابہ کے چھ سو برس بعد کے مورخ ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ ان روایات کے ساتھ چھ سو برس میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔ ان کی بیان کردہ جو روایتیں تیسری صدی کی کتب میں سند کے ساتھ مل جائیں، ان پر تحقیق تو کی جا سکتی ہے لیکن جو روایتیں ان میں بھی نہ ملیں، ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اپنی کتاب “الکامل” سے متعلق وہ خود بیان کرتے ہیں:

میں یہ تو نہیں کہتا ہوں کہ تاریخ سے متعلق تمام واقعات میں نے جمع کر دیے ہیں ۔ اس لیے کہ موصل شہر میں رہنے والے ایک شخص کو مشرق و مغرب میں ہونے والے تمام واقعات کا علم کیسے ہو سکتا ہے۔ میں یہ دعوی بھی نہیں کرتا کہ میں نے اپنی کتاب میں وہ سب کچھ اکٹھا کر دیا ہے جو پہلے کسی ایک کتاب میں نہیں ہے۔ جس شخص کو (کسی واقعےکی) صحت کے بارے میں شک ہو (تو میں اپنے طریقے کی تفصیل بیان کرتا ہوں۔) میں نے ابو جعفر طبری کی التاریخ الکبیر سے آغاز کیا ہے۔ یہ وہ واحد کتاب ہے جس پر میں نے اعتماد کیا ہے اور اس کی اکثر روایات کو بیان کر دیا ہے۔ طبری میں (ایک ہی واقعے کی) جو متعدد روایات ہیں، انہیں میں نے کچھ کمی بیشی کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ ان روایات میں جو کمی پائی جاتی ہو ، اسے پورا کر دیا جائے اور اس میں ان معلومات کا اضافہ کر دیا جائے جو طبری نے بیان نہیں کی ہیں۔ میں نے ہر واقعے کے بیان کی روایات کے تمام طرق (Versions) کو اکٹھا کر کے اسے ایک مسلسل واقعے کی شکل میں بیان کیا ہے۔

مشہور تاریخی کتب میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اسے اکٹھا کرنے کے بعد میں نے اس میں ان روایات کا اضافہ کر دیا ہے جو تاریخ طبری میں نہیں پائی جاتی ہیں اور ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھ دیا ہے سوائے اس کے کہ جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واقعات پیش آئے۔ ان کے معاملے میں میں نے ابو جعفر (طبری) کی منقول روایات کے علاوہ کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا سوائے اس کے کہ کچھ تفصیلات کا اضافہ ہو ، یا کسی انسان کا نام ہو، یا کوئی ایسی بات ہو جس پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا ہو۔ میں نے مورخین میں انہی لوگوں پر اعتماد کیا ہے جو کہ ماہر ہوں، سچا عقیدہ رکھتے ہوں اور علم کو جمع کرتے ہوں۔ میں نے مذکورہ تواریخ اور مشہور کتب کے علاوہ کہیں اور سے کچھ نقل نہیں کیا ہے۔ ان مورخین کے سچائی کے ساتھ نقل کرنے اور صحت کے ساتھ مدون کرنے کا معاملہ معروف ہے۔ میں اس شخص کی طرح نہیں ہوں جو رات کی تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارے اور نہ ہی اس کی طرح ہوں جو کہ پتھر اور کنکریاں جمع کرے۔
(ابن الاثیر(d. 630/1233)۔ الکامل فی التاریخ۔ 1/6-7۔ بیروت: دار الکتب العلمیہ۔ www.waqfeya.com (ac. 11 Dec 2009))

ابن اثیر کے اپنے بیان سے واضح ہے کہ ان کی حیثیت محض ناقل کی ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ مشہور کتب تاریخ سے مواد اکٹھا کیا جائے اور اس معاملے میں پوری دیانتداری سے کام لیا ہو گا۔ تاہم جیسے کمپیوٹر سائنسز کی مثل مشہور ہے کہ Garbage in garbage out، بالکل اسی طرح اگر ابن اثیر کے مآخذ میں کوئی الٹی سیدھی اور غیر مستند روایت تھی تو انہوں نے اسے بھی ٹھیک ٹھیک منتقل کر دیا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابن اثیر کی اپنی کتاب کی استنادی حیثیت (Authenticity) کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے جو روایات تاریخ طبری اور کسی اور مشہور کتاب سے اخذ کی ہیں، ان کی سند کو طبری وغیرہ سے دیکھ کر تحقیق کرنی چاہیے۔ ابن اثیر کی ایسی روایتیں جو طبری یا کسی اور قدیم ماخذ میں نہیں ہیں، کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ واقعہ بیان کر کے فٹ نوٹ میں ابن اثیر کا حوالہ دے دیتے ہیں، ان کا یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ اگر واقعہ کے بارے میں کوئی شک پایا جائے تو اس کی سند اور متن کی پوری تحقیق ضروری ہے۔

4۔ ابن عساکر (499-571/1106-1175): یہ چھٹی صدی کے بڑے عالم ہیں۔ انہوں نے شام کی تاریخ پر ایک مفصل کتاب لکھی جو کہ 80 جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب “تاریخ مدینہ دمشق” کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے شام میں رہنے والے اور یہاں سفر کر کے آنے والے ہزاروں لوگوں کے حالات زندگی سند کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

4۔ ابن کثیر (701-774/1301-1372): ابن کثیر آٹھویں صدی کے مشہور عالم ہیں اور ان کی کتاب “البدایہ و النہایہ” کو بعد کی صدیوں میں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ مشہور عالم ابن تیمیہ (661-728/1263-1327) کے شاگردتھے۔ ابن کثیر نے تاریخ طبری ہی کو بنیاد بنایا ہے اور جہاں طبری میں بیان کردہ روایات پیش کی ہیں، وہاں اس سے مختلف تصویر پیش کرنے والی روایات بھی دیگر کتب حدیث اور تاریخ سے اکٹھی کر دی ہیں۔ اس طرح سے انہوں نے نہایت غیر جانبداری کے ساتھ تصویر کے دونوں رخ پیش کیے ہیں۔ بعض حضرات ابن کثیر سے کوئی روایت پیش کر کے یہ دعوی کر دیتے ہیں کہ یہ روایت بہت ہی مستند ہے کیونکہ ابن کثیر نے اسے نقل کر دیا ہے۔ یہ دعوی اس وجہ سے درست نہیں ہے کیونکہ ابن کثیر خود ان روایات کو درست نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی کتاب میں کئی جگہ پر اس نوعیت کا تبصرہ انہوں نے ان روایات پر کیا ہے:
ابن کثیر لکھتے ہیں!
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے، اس کا بعض حصہ محل نظر ہے۔ اگر ابن جریر (طبری) وغیرہ حفاظ اور ائمہ نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اس کا اکثر حصہ ابو مخنف لوط بن یحیی کی روایت سے ہے جو کہ شیعہ تھا اور ائمہ کے نزدیک واقعات بیان کرنے میں ضعیف (ناقابل اعتماد) ہے۔ لیکن چونکہ وہ اخباری اور (خبروں کا) محفوظ کرنے والا ہے اور اس کے پاس ایسی چیزیں ہیں جو اس کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہیں، اس وجہ سے اس کے بعد کے کثیر مصنفین نے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔
( ابن کثیر 11ج/ص577)

اس سے ظاہر ہے کہ کسی روایت کو مستند ثابت کرنے کے لیے محض اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ابن کثیر نے اسے نقل کیا ہے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ ابن کثیر نے اس روایت کو کس کتاب سے نقل کیا ہے۔ پھر اس کتاب میں اس روایت کی سند دیکھی جائے گی اور پھر تاریخی تنقید کے اصولوں کے تحت فیصلہ کیا جائے گا۔

5۔ ابن خلدون (732-808/1332-1405): ابن خلدون علوم انسانیات کے بہت بڑے ماہر تھے۔ انہیں علم بشریات (Anthropology) اور عمرانیات (Sociology) کا بانی کہا جاتا ہے۔ مسلم علماء میں سے جن چند شخصیات کو اہل مغرب کے ہاں غیر معمولی اہمیت دی گئی، ان میں سے ایک ابن خلدون ہیں۔ دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیوں میں ان کے نام پر چیئرز قائم ہیں اور کئی اداروں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی تاریخ کا جو شہرہ آفاق “مقدمہ” لکھا، اس میں تاریخ سے زیادہ بشریات اور عمرانیات سے متعلق مواد موجود ہے۔ ابن خلدون کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تاریخ کو محض نقل کر دینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ واقعات کا عمرانی تجزیہ کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ جس دور سے وہ واقعہ منسوب ہے، اس کے مجموعی حالات (Ethos) میں اس واقعے کا ہونا عقلاً ممکن ہے بھی یا نہیں۔ پچھلے باب میں ہم نے تاریخی تنقید کے جو اصول بیان کیے ہیں، اگرچہ وہ ابن خلدون سے پہلے دریافت ہو چکے تھے مگر تاریخ پر ان کا بڑے پیمانے پر اطلاق ابن خلدون ہی نے کیا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے جو تجزیہ کر دیا ہے، وہ حرف آخر ہے اور اس پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے بھی ایک حد تک ابن خلدون کے بیان کردہ انہی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے۔

چوتھی صدی ہجری میں مسلمانوں کے ہاں تاریخ کی بنیاد پر فرقہ بندی اپنے عروج کو پہنچی اور یہ تقسیم گہری ہوتی چلی گئی۔ اس سے پہلے تمام مسلمان، خواہ ان کے سیاسی اور تاریخی نظریات کچھ بھی ہوں، اکٹھے نماز پڑھتے تھے اور مل جل کر رہتے تھے۔ اگلے دو تین سو برس میں یہ تقسیم گہری ہوتی چلی گئی اور ان فرقوں میں باہم مناظرے بازی نے جنم لیا۔ ان مناظروں میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق روایات پیش کی جائیں۔ چھٹی ساتویں صدی ہجری تک علمی و ذہنی سطح تبدیل ہو چکی تھی اور مختلف علوم میں بہت وسعت پیدا ہو چکی تھی۔ اب عام پڑھے لکھے شخص کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ سابقہ صدیوں کے ہر بڑے راوی کے بارے میں معلومات رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں روایات کی تنقید کے عمل نے زور پکڑا۔ چوتھی صدی ہی میں روایات کی تنقید اور راویوں کے حالات سے متعلق فنون پر کتابیں لکھی جانے لگیں۔ پانچویں ، چھٹی اور ساتویں صدی میں ان کتابوں میں موجود معلومات کو یکجا کر کے جامع ترین انسائیکلو پیڈیا تیار ہوئے۔ اس کے بعد ساتویں اور آٹھویں صدی میں تاریخی روایتوں کی چھان بین بھی کی جانے لگی۔ اس زمانے میں بڑے بڑے تاریخی نقاد پیدا ہوئے جن میں
ابن کثیر(701-774/1301-1372)،
ابن خلدون (732-808/1332-1405)
اور ابن حجر عسقلانی (773-852/1371-1448)نمایاں تھے۔

ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی ٹرینڈ کسی معاشرے میں جاری ہو تو نیا ٹرینڈ آ جانے سے پرانا ٹرینڈ یک دم ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے دور میں کمپیوٹر کی ایجاد سے پرنٹنگ پریس کا دور ختم نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بھی پانچ سو سال بعد تک ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں چلتی رہی ہیں۔ بالکل اسی طرح تیسری صدی ہجری کے مورخین نے جو ٹرینڈ شروع کیا تھا کہ ہر طرح کی روایت کو اکٹھا کر لیا جائے، بہرحال جاری رہا۔

ابن عبد البر (368-463/979-1071) اور ابن اثیر (555-630/1160-1233) کی کتابیں اسی رجحان کے مطابق لکھی گئیں۔ تاہم پانچویں صدی میں آ کر ایک تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ سند کو غیر ضروری سمجھ کر حذف کیا جانے لگا تاکہ عبارت کا تسلسل برقرار رہے۔یہ ایک نہایت ہی خطرناک رجحان ثابت ہوا اور اس کے نتیجے میں بہت سی روایات بغیر کسی چھان بین کے مورخین میں عام رواج پا گئیں۔

دسویں صدی سے لے کر چودھویں صدی ہجری تک پانچ سو برس کا زمانہ مسلمانوں کے ہاں علمی جمود ، شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کا دور ہے۔ اگرچہ بڑی علمی شخصیات اس دور میں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں جنہوں نے تاریخی روایات کا ناقدانہ جائزہ لیا، لیکن اہل علم کی اکثریت بس اسی کو کافی سمجھتی رہی ہے کہ قرون وسطی میں لکھی ہوئی کتابوں کے مندرجات کو محض اس وجہ سے قبول کر لیا جائے کہ اسے کسی بڑے عالم نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ چنانچہ کسی بات کو مقبول بنانے کے لیے یہ کہنا ہی کافی ہو گیا کہ ابن اثیر، ابن کثیریا ابن خلدون نے اسے اپنی کتب تاریخ میں درج کیا ہے۔

اب پندہرویں صدی ہجری یا اکیسویں صدی عیسوی میں اس رجحان میں تبدیلی آ رہی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے مسلم نوجوانوں کے ذہنوں کو وسیع کرنے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سابقہ چودہ صدیوں کا علمی ریکارڈ انٹرنیٹ پر بلا معاوضہ دستیاب ہو چکا ہے۔ لوگوں میں دینی علم کو سیکھنے ، آن لائن کتابیں پڑھنے اور اندھی تقلید اور شخصیت پرستی سے ہٹ کر معاملات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کا رجحان پرورش پا رہا ہے،

*ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سابقہ مورخین کے کام کو کافی نہ سمجھیں بلکہ فن تاریخ کے مسلمہ اصولوں کے تحت روایات کا تنقیدی جائزہ لے کر ہی کسی بات کو قبول یا رد کریں*

*اردو کی کتب تاریخ کون سی ہیں؟*

اردو زبان میں کتابیں لکھے جانے کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں اردو زبان ، ایک علمی زبان کے طور پر ابھرنا شروع ہوئی اور انیسویں صدی کے وسط میں اس میں کتابیں لکھی جانے لگیں۔ اردو میں تاریخ پر زیادہ تر کام بیسویں صدی میں ندوۃ العلماء اور دار المصنفین اعظم گڑھ کے اداروں میں ہوا۔
ان دونوں اداروں کے بانی مولانا شبلی نعمانی(1857-1915) تھے۔
جن ندوی علماء نے اسلام کے اولین دور کی تاریخ لکھی ان میں شاہ معین الدین ندوی نمایاں تھے۔
اسی دور میں مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی (1875-1938) نے بھی اپنی کتاب “تاریخ اسلام” لکھی۔
شیعہ عالم جسٹس امیر علی (1849-1928)نے اس موضوع پر انگریزی میں دو کتابیں Short History of Saracens
اور Spirit of Islam لکھیں جن کے اردو ترجمے شائع ہوئے۔

ان تمام اہل علم نے اپنی تواریخ لکھتے ہوئے قرون وسطی کی کتب تاریخ جیسے تاریخ ابن اثیر، ابن کثیر، ابن عبد البر ، ابن خلدون اور اسی نوعیت کے دیگر مآخذ پر انحصار کیا۔ بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اردو یا انگریزی کے کسی مورخ نے ابتدائی صدیوں کی کتب تاریخ میں جا کر واقعات کے اصل مآخذ کی جانچ پڑتال (Source Criticism) سے کام لیا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخی اعتبار سے بالکل ہی گئی گزری روایات کو اس طرح بیان کیا جانے لگا کہ یہ گویا کہ بالکل ہی سچے اور حقیقی واقعات ہیں۔

اکبر شاہ صاحب نے اپنی کتاب میں ایک حد تک درایت(Internal Criticism)کے اصولوں سے کام لیا ہے، تاہم تمام واقعات کے بارے میں انہوں نے یہ روش اختیار نہیں کی ہے اور بہت سے واقعات کی تحقیق کیے بغیر انہیں سابقہ مورخین پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کر دیا ہے۔

بہت سے اہل علم نے جزوی طور پر بعض واقعات جیسے شہادت عثمان، عہد معاویہ اور شہادت حسین رضی اللہ عنہم کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں اور ان میں تاریخی تنقید کے اصولوں سے کام لیا ہے تاہم ابھی تک کوئی ایسی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزر سکی جس میں مصنف نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پورے دور سے متعلق واقعات کی چھان بین کی ہو،

اس سلسلے میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشہور واقعات کی چھان بین کی جائے اور انکے کردار بارے غلط فہمیوں کا ازالہ کہا جائے،

قارئین..!
*ان شاءاللہ تاریخ اسلام کے اگلے سلسلہ میں ہم یہ پڑھیں گے کہ صحابہ کرام کی کردار کشی کیوں کی گئی؟،انکے اسباب کیا تھے،؟ اور یہ کردار کشی کن لوگوں نے کی اور یہ روایات تاریخ کی کتابوں میں منتقل کیسے ہوئیں؟ اور ہم ان روایات کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں