759

سوال_ فضیلت و رتبے میں کون سے صحابہ افضل تھے؟ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام آپس میں بغض رکھتے تھے، کیا یہ بات صحیح ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-87”
سوال_ فضیلت و رتبے میں کون سے صحابہ افضل تھے؟ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام آپس میں بغض رکھتے تھے، کیا یہ بات صحیح ہے؟

Published Date:26-9-2018

جواب!!
الحمدللہ!!

*میں عرصہ دراز سے اسی وجہ سے اس موضوع سے دور رہا ہوں کیونکہ یہ ایسا موضوع ہے کہ جس میں مختلف من گھڑت ،کمزور تاریخی روایات کی وجہ سے عام انسان کو ایسے لگتا ہے جیسے کچھ صحابہ کرام غلطی پر تھے،پہلی بات تو ہماری یہ اوقات ہی نہیں کہ ہم کسی بھی صحابی پر انگلی اٹھا سکیں،ہاں یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق بعض دفعہ غلط فہمیاں ضرور پیدا ہوئی تھیں انکے درمیان، جو انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے، مگر انکی کمال بصارت اور آقا کی تربیت کی وجہ سے انہوں نے ہر موقع پر حکمت و دانائی سے کام لیا،اور بعض اوقات بھول چوک بھی ہوئی،خلافت کے معاملے میں بھی کچھ لوگ صحابہ کرام پر نقطہ چینیاں کرتے ہیں کوئی ابو بکر صدیق رض کی خلافت کو درست نہیں مانتا تو کوئی عمر رض کی اور کوئی عثمان رض کی شہادت کا ذمہ دار علی رض کو بناتا تو کوئی علی رض کی شہادت کا ذمیدار امیر معاویہ رض کو ٹھہراتا اور کوئی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذمے دار یزید کو بناتا ہے،جبکہ یہ ساری باتیں حقائق کے بالکل خلاف ہیں،چند ایک صحابہ کرام میں غلط فہمیاں ضرور تھیں جنکی بنیادی وجہ ہر دور میں اسلام دشمن منافقین اور سبائیوں یہودیوں کا کردار تھا جو ہر دور میں مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے اور کئی بار وہ کامیاب بھی ہوئے، اور مسلمانوں کو بیش بہا قیمتی جانیں دینا پڑیں اور بہت سے عظیم صحابہ کرام کی شہادت کا سبب بھی مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے یہی خارجی، سبائی یہودی اور منافقین تھے جنہوں نے وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے لڑوانے کی جہاں سازشیں بنیں، وہیں بہت سے صحابہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور بے دری سے انکو شہید بھی کیا،لیکن میرا اس بات پر ایمان ہے کہ کسی ایک مسلمان کی بے گناہ شہادت یا بے گناہ قتل کے پیچھے جانتے بوجھتے کسی بھی صحابی کا ہاتھ نہیں ہو سکتا،بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت تمام صحابہ اور اہل بیت سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے،اور کسی ایک کے بارے میں بھی بغض رکھنا ایمان کے کمزور ہونے کی علامت ہے،انسان ہونے کے ناتے بھول کسی سے بھی ہو سکتی ہے مگر وہ عظیم ہستیاں اختلافی معمالات ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے سے بہت سے زیادہ محبت رکھتی تھیں*

دین اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ کا مطالعہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی کی بدولت ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برپا کردہ پیغمبرانہ تحریک نے انسانیت پر کیا اثرات مرتب کیے۔ دنیا کس درجے میں گمراہی کا شکار تھی اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اپنی جدوجہد کی بدولت ایک عظیم الشان اخلاقی انقلاب برپا کر کے دنیا کے سامنے ایک آئیڈیل نمونہ پیش فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ پاکباز شخصیتیں تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور اس کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگیوں کو آپ کے مشن کی تکمیل میں لگا دیا۔ اس لحاظ سے دور صحابہ کو عہد رسالت کی توسیع قرار دیا جا سکتا ہے۔

جب دین کا ایک طالب علم اولین مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے، تو اسے یہ نظر آتا ہے کہ یہ صحابہ اسلام کی دعوت کو لے کر اٹھے اور اپنے وقت کی متمدن دنیا پر چھا گئے۔ دنیا بھر میں اس وقت مذہبی جبر کا دور تھا اور لوگ اپنے بادشاہوں کا دین اختیار کرنے پر مجبور تھے۔ صحابہ کرام نے دنیا کے ایک بڑے حصے سے مذہبی جبر کا خاتمہ کر کے انسان کو یہ حق عطا کیا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کر سکے۔ وہ لوگ جو قیصر و کسری کی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے، انہیں رہائی عطا کی۔ صحابہ کرام کا یہ کارنامہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری نسل انسانی کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ایک طرف تو خلافت راشدہ کی یہ تصویر دین کے ہر طالب علم کو نظر آتی ہے لیکن دوسری جانب وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اسی خلافت راشدہ کے آئیڈیل دور کے پانچ چھ سال فتنہ و فساد کی نظر ہو گئے اور انہی صحابہ کے مابین ایسے اختلافات پیدا ہوئے کہ باہمی جنگ و جدال کی نوبت آ پہنچی۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کے پیچھے کیا تاریخی عوامل کار فرما تھے؟

دینی تاریخ کے ہر طالب علم کے ذہن میں یہ سوال اور اس سے ملتے جلتے کچھ اور سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا حل اگر اسے نہ ملے تو وہ ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو دین اسلام کو مانتا ہے، اس کا تعلق خواہ کسی بھی مسلک سے کیوں نہ ہو، یہ تاریخی سوالات اسے بہرحال پریشان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کیوں اور کیسے پیدا ہوئے ، ان کے اسباب کیا تھے اور ان کے کیا نتائج امت کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟اس سلسلے کا مقصد انہی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔

*واضح رہنا چاہیے کہ ہم یہ سلسلہ فرقہ وارانہ اختلافات کو اجاگر کرنے کے لیے نہیں لکھ رہے ہیں*

افسوس کی بات ہے کہ صحابہ کرام سے متعلق مسلمانوں کے ہاں دو بڑے گروہ موجود ہیں جن کا زاویہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان مسائل پر ان کے ہاں بحثیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم ان بحثوں سے بالاتر ہو کر محض تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیں گے اور یہ کوشش کریں گے کہ اس معاملے میں کوئی تعصب اور جانبداری ہماری راہ میں حائل نہ ہو سکے۔

🌷ہمارے نزدیک تمام صحابہ کرام ہی معتبر ہیں اور ہمارے سر کا تاج ہیں,ان میں سے کسی ایک کی جانب جھکاؤ یا کسی کے خلاف تعصب کے بغیر ان سب کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ہم قرآن مجید ، احادیث اور تاریخی روایات کی روشنی میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے*
ان شاءاللہ

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🌷مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمْ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً.
محمد اللہ کے رسول ہیں اور اس کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ رکوع و سجدہ کرتے ہوئے اللہ کا فضل اور رضا تلاش کرنے میں مشغول ہیں۔سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں، یہ ہے ان کی صفت۔ تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک فصل ہے جس نے پہلے کونپل نکالی ، پھر اس کو مضبوط بنایا ، پھر وہ موٹی ہوئی،پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایاہے۔
(الفتح 48:29)

دوسری جگہ پر اللہ پاک فرماتے ہیں!!
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🌷وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.

مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے آگے بڑھ کر [ایمان لانے والے] اور وہ جنہوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور اس سے۔ اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
(التوبہ،آئیت نمبر-100)

قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک بالکل صحیح طور پر پورے تواتر سے منتقل ہوا ہے۔
جو لوگ قرآن کو اللہ تعالی کی کتاب نہیں بھی مانتے، وہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کتاب ہم تک بعینہ ویسے ہی پہنچی ہے، جیسا کہ محمد رسول اللہ نے اسے اپنی امت کو دیا۔ کم از کم تاریخی اعتبار سے قرآن مجید کی محفوظ ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی قرآن کی ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو صحابہ کرام کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آپس میں نرم دل اور رحم دل ہیں، ایک دوسرے کے لیے ان کے دلوں میں محبت اور احترام کے جذبات موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس گروہ کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی ہو، اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ صحابہ کرام کی ایک تصویر ہے۔

*دوسری جانب جب ہم تاریخ کے مآخذ کا جائزہ لیں تو ہمیں دو قسم کی معلومات ملتی ہیں*

معلوماتی رپورٹس کا ایک گروپ تو وہ ہے جو قرآن مجید کی اوپر بیان کردہ آیات کے عین مطابق ہے جبکہ دوسرا گروپ ایسا ہے جو ان آیات سے بالکل متضاد اور مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سب کی سب رپورٹس درست نہیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو ان میں سے وہ روایات درست ہیں جو قرآن مجید سے مطابقت رکھتی ہیں اور یا پھر وہ درست ہیں جو قرآن مجید کے بیان سے ایک مختلف اور متضاد تصویر پیش کرتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی رپورٹس درست اور مستند ہیں؟ آیا قرآن سے مطابقت رکھنے والی یا اس سے متضاد تصویر پیش کرنے والی؟ اس سلسلے میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ ان میں کون سی رپورٹس درست ہیں اور فن تاریخ کی رو سے ان کا درجہ کیا ہے؟

دور صحابہ کی تاریخ مختلف افراد کی بیان کردہ کہانیوں اور رپورٹس پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر ایک کہانی کو فن حدیث و تاریخ کی اصطلاح میں ’’روایت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مختصر بھی ہیں اور طویل بھی۔

ان روایات کا پہلا گروپ وہ ہے جس کے مطابق صحابہ کرام انسانی اخلاق کے اعلی ترین منصب پر فائز نظر آتے ہیں۔ دنیا ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی، ان کے مخالفین انہیں رات کے راہب اور دن کے مجاہد کا خطاب دیتے ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات خلوص اور محبت پر مبنی نظر آتے ہیں اور وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار (بنیان مرصوص) بن کر انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

اس کے برعکس روایات کا دوسرا گروپ وہ ہے جو ان صحابہ کی کردار کشی پر مبنی ہے اور اس کے مطابق ان کی ایک بالکل مختلف تصویر دکھائی دیتی ہے۔ تعداد کے اعتبار سے پہلی قسم کی روایات کہیں زیادہ ہیں۔ یہاں ہم ان دونوں قسم کی روایات کی چند مثالیں پیش کر رہے ہیں جو اہل سنت او راہل تشیع دونوں کی کتب میں آئی ہیں۔

*سب سے پہلے ہم صحابہ کرام کی آپس میں محبت بیان کرتے ہیں کہ کہ وہ آپس میں کس قدر محبت کرتے تھے ،لاکھ اختلافات کے باوجود بھی انکے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف رتی بھر بغض نہیں تھا*

*پہلا گروپ مثبت روایات کا گروپ*

روایات کے اکثریتی گروپ کی چند مثالیں ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:

1- عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کے درمیان امتیاز کیا کرتے تھے توہم ابوبکر کوسب سے افضل اوران کے بعد عمربن الخطاب پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3655 )

2- ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے برابر کسی کو بھی قرار نہیں دیتے تھے ان کے بعد عمر اور ان کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی عنہم پھر ہم باقی صحابہ کو اسی طرح رہنے دیتے اوران میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3697 )

3- محمد بن حنفیہ جوکہ علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے بھی ہيں بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدلوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ تو انہوں کہا کہ ابوبکر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) میں کہا پھر کون ؟ توانہوں نے جواب میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کا نام لیا ، میں نے اس بات سے ڈرتے ہوۓ کہ کہيں اب عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کا ہی نہ کہہ دیں ،میں نے کہا پھرآپ ہیں ؟ توانہوں نے جواب دیا میں تومسلمانوں کا ایک عام سا آدمی ہوں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3671 )

4-علی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : جوبھی میرے پاس لایا گیا اوراس نے مجھے ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء لگاؤں گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں :
علی رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بات تواتر کےساتھ ثابت ہے کہ وہ کوفہ کے منبر پرکہا کرتےتھے اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر اورافضل ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور ان کے بعد عمررضي اللہ تعالی عنہ ۔
علی رضي اللہ تعالی عنہ سے اسے روایت کرنے والوں کی تعداد اسی ( 80 ) سے بھی متجاوز ہے اورامام بخاری وغیرہ نے بھی اسے روایت کیا ہے ، اور یہی وجہ ہےکہ پہلے دور کے سب کے سب شیعہ اس پر متفق تھے کہ سب سے افضل ابوبکر اورعمر رضي اللہ تعالی عنھما ہيں ، جیسا کہ کئ ایک نے ذکر بھی کیا ہے
(منھاج السنۃ ( 1 / 308 )

5-ابوجحیفہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ علی رضي اللہ تعالی منبر پر چڑھے اور اللہ تعالی کی حمدوثنا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے بعد کہنے لگے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہتر اور افضل ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ اور دوسرے نمبر پرعمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ، اورپھر یہ کہا کہ اللہ تبارک وتعالی جہاں پسند کرے بہتری اورخيررکھتا ہے ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اسے اپنی مسند ( 839 ) میں روایت کیا ہے اورشیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کوقوی قرار دیا ہے،

6۔ حبیب بن ابی ثابت کی روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آ کر کہا: “ابوبکر بیعت کے لیے مسجد میں بیٹھے ہیں۔” آپ نے صرف (لمبی) قمیص پہن رکھی تھی اور ازار اور چادر نہ تھی۔ اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے، آپ مسجد کی طرف گئے اور بیعت کی۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھ گئے اور گھر سے چادر اور ازار منگوا کر پہنا۔
( ابن جریر طبری(224-310/838-922)۔ (اردو ترجمہ: سید محمد ابراہیم)۔
(تاریخ الامم و الملوک۔ 11ھ کا باب۔ جلد2، ص 410 (11H, 2/1-410)کراچی: نفیس اکیڈمی

7۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو ( شہادت کے بعد ) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے ( اللہ سے ) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور ( ان کی نعش کو مخاطب کر کے ) کہا: آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو ( پہلے سے ) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“ ۔”
( بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3685)

8- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: “کیا آپ اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو حضرت موسی علیہما الصلوۃ والسلام سے تھی؟ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2404)

9- سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :میں اس شخص کوجھنڈا دونگا جس کے ھاتھ پراللہ تعالی فتح نصیب فرماۓ گا ، توصحابہ کرام یہ سوچنے ہوۓ اٹھے کہ یہ جھنڈا کسے دیا جاۓ گا ، اوردوسرے دن سب آۓ تو ہر ایک کی خواہش رکھتا تھا کہ جھنڈا اسے دیا جاۓ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) کہاں ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلانے کا حکم دیا وہ آۓ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا تووہ اسی وقت ایسے ٹھیک ہوئيں کہ انہیں کچھ تھا ہی نہیں ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2942 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2406 )

10۔ ابو بکر عبسی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ زکوۃ کے جانوروں کے باڑے میں گیا۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سایہ میں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سخت گرمی کی دھوپ میں کھڑے ہوئے انہیں کچھ لکھوا رہے تھے۔ ان کے بدن پر دو سیاہ چادریں تھے، ایک کو انہوں نے تہبند کی طرح لپیٹ رکھا تھا دوسری کو سر پر لپیٹا ہوا تھا۔ آپ زکوۃ کے اونٹ گن رہے تھے اور ان کے رنگ اور دانت کے بارے میں لکھوا رہے تھے۔ حضرت علی نے (جب خلیفہ وقت کی یہ مشقت دیکھی تو) حضرت عثمان سے فرمایا: “حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹی کا یہ قول اللہ کی کتاب میں (حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام) کے بارے میں نقل ہوا ہے۔ ‘ابا جان! انہیں ملازمت پر رکھ لیجیے کیونکہ جس سے آپ اجرت پر کام لیں، ان میں وہ بہتر ہے جو قوی اور امانت دار ہو۔'” پھر حضرت علی نے حضرت عمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “ایسے قوی اور امین آپ ہیں۔”
(طبری 22H, 3/1-222)

11۔ باغیوں کے محاصرے کےدوران حضرت علی رضی اللہ عنہ بار بار باغیوں کے پاس جاتے تھے اور خلیفہ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب صفائیاں پیش کر کے انہیں قائل کرتے تھے کہ وہ بغاوت سے باز آ جائیں۔ آپ کی ان کاوشوں سے متعدد باغی واپس بھی چلے گئے۔ اہل مصر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ۔ آپ احجار الزیت کے پاس ایک لشکر میں تھے اور آپ کے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی اور آپ سرخ یمنی عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ آپ نے حضرت حسن کو حضرت عثمان کی حفاظت کے لیے بھیجا ہوا تھا۔ مصریوں نے جا کر آپ کو سلام کیا اور اپنی عرض داشت پیش کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر چلائے اور انہیں نکال دیا۔ آپ نے فرمایا: “نیک لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ذو المروہ اور ذو خشب کے لشکر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ تم واپس جاؤ۔ اللہ تمہاری صحبت سے بچائے۔”
( طبری 35H, 3/1-441 to 443)

12۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے اپنے بیٹوں حسن و حسین بن علی، عبداللہ بن زبیر اور محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہم کو مقرر کیا۔
(طبری ص٫35H, 3 /444)

13۔ جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر پانی بند کیا تو یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جو اپنی جان پر کھیل کر انہیں پانی اور ضرورت کی دیگر اشیاء پہنچا کر آتے تھے
(طبری ۔35H, 3/448)

14۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے یہ آیت پڑھی: كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ. [یہ لوگ شیطان کی طرح ہیں کہ وہ انسان سے کہتا ہے، “کفر اختیار کرو۔” پھر وہ کافر بن جاتا ہے تو وہ شیطان یہ کہتا ہے: “میں تم سے بری الذمہ ہوں ، میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔”
(طبری ۔ 3/449)

15۔ باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے آپ کو دفن نہ ہونے دیا اور آپ کے جنازے پر پتھر برسائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جا کر انہیں روکا
(طبری۔ 3/472)

16۔ احنف بن قیس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے پوچھا: “مجھے لگتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیے جائیں گے۔ آپ یہ فرمائیے کہ میں ان کے بعد کس کی بیعت کروں؟” انہوں نے جواب دیا: “علی کی۔” جب انہوں نے یہی سوال سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو آپ نے بھی انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا حکم دیا۔
(طبری 36H, 3/2-113)

17- حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند مت کرو۔ اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے
( ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850)
(ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)

18۔ خوارج نے ایک ہی رات حضرت حضرت علی ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ برک بن عبداللہ خارجی نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا ۔ وار اوچھا پڑا اور آپ کے کولہوں پر زخم آیا۔ آپ نے اسے گرفتار کر لیا۔ قاتل نے کہا: “میرے پاس ایسی خبر ہے جس کے سننے سے آپ خوش ہو جائیں گے اور اگر میں آپ سے وہ خبر بیان کروں گا تو آپ کو بہت فائدہ پہنچے گا۔” آپ نے فرمایا: “بیان کرو۔” وہ بولا: “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا۔” آپ نے فرمایا: “کاش! تمہارے بھائی کو ان پر قدرت نہ نصیب ہو۔”
(طبری ۔ 40H, 3/2-357)

19۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے جو مسائل پیش ہوتے تھے، وہ ان کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر ان کی رائے مانگا کرتے تھے۔ جب ان کے پاس ان کی شہادت کی اطلاع پہنچی تو فرمایا: “فقہ اور علم، ابن ابی طالب کی شہادت کے ساتھ چلا گیا۔
(ابن عبد البر-368-463/979-1071)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ باب علی۔ 2/53۔ بیروت: دار الفکر۔www.waqfeya.com (ac. 11 Aug 2012

20۔ حضرت معاویہ کو جب حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر ملی تو رونے لگے۔ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا: “آپ اب ان کے متعلق رو رہے ہیں جبکہ زندگی میں ان سے جنگ کر چکے ہیں۔” آپ نے فرمایا: “افسوس! تمہیں علم نہیں کہ آج کتنے لوگ علم و فضل اور دین کی سمجھ سے محروم ہو گئے ہیں۔”
(ابن کثیر(701-774/1302-1373)(البدایہ و النہایہ۔11/129۔
(تحقیق: الدکتور عبداللہ بن محسن الترکی) قاہرہ: دار ہجر

21۔ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑے اصرار کے ساتھ ضرار صدائی سے کہا: “میرے سامنے علی کے اوصاف بیان کرو۔” انہوں نے نہایت بلیغ الفاظ میں حضرت علی کی غیر معمولی تعریفیں کیں۔ حضرت معاویہ سنتے رہے اور آخر میں رو پڑے۔ پھر فرمایا: “اللہ ابو الحسن (علی) پر رحم فرمائے، واللہ وہ ایسے ہی تھے۔”

(ابن عبد البر ( 463/1071)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ 2/52)

22۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے افسوس کا اظہار کیا اور مرثیہ کہا۔
(طبری۔ 3/2-358)

23۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ہر سال حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کے علاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے۔
( ابو مخنف، مقتل الحسین، ص 14،
قم: منشورات الرضی، http://www.al-mostafa.info/data/arabic/depot2/gap.php… (ac. 16 Feb 2012

21۔ واقعہ کربلا کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو جب شام لے جایا گیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خاندان کی خواتین بہت روئیں اور یزید نے بھی سخت افسوس کا اظہار کیا۔
( طبری، 61H, 4/1-236,237)

22۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں کا نام ابوبکر، عمر اور عثمان تھا۔ ان میں ابوبکر اور عثمان سانحہ کربلا میں شہید ہوئے۔
(طبری، 61H 4/1-227, 242)

*ممکن ہے ان تاریخی روایات میں کچھ سندا کمزور بھی ہوں مگر ان تمام احادیث اور تاریخی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ روایات قرآن کے مفہوم کے مطابق ہیں، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یک جان اور کئی قالب تھے۔ ان کے درمیان محبت، ہمدردی اور احترام کے تعلقات تھے۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی کینہ اور بغض نہ تھا*

*دوسرا گروپ ہے منفی روایات کا گروپ*

تاریخی روایات کا ایک اور گروپ بھی ہے جو عام روایات سے ہٹ کر بالکل ہی متضاد تصویر پیش کرتا ہے۔ اس کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ خود کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے۔ جب صحابہ کرام کی اکثریت نے آپ کی بجائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا لیا تو آپ کو سخت رنج پہنچا۔ نعوذ باللہ آپ نے دل ہی دل میں کینہ رکھا اور مجبوراً ان کی بیعت کر لی۔ اس کے بعد آپ نے حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کی خلافت کو بھی مجبوراً برداشت کر لیا۔ خلافت عثمانی کے آخری ایام میں آپ نے بغاوت برپا کر کے خلیفہ کو شہید کروا دیا اور خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔ حضرات طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو خلیفہ تسلیم نہ کیا اور آپ سے جنگیں کیں۔ آپ کی شہادت کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو مجبور کر کے صلح کی اور پھر بیس برس حکومت کی اور اپنی وفات کے بعد اپنے بیٹے یزید کو نامزد کر گئے۔ اس کی وجہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے علم بغاوت بلند کیا جس کی پاداش میں یزید نے انہیں کربلا کے میدان میں شہید کروا دیا۔

چونکہ اس سلسلے کا مقصد ہی ان منفی روایات کا جائزہ لینا ہے، اس وجہ سے ہم نے کوشش کی ہے کہ کم و بیش ان تمام منفی روایات کو اس سلسلے میں درج کیا جائے۔ یہ سب روایتیں اپنے اپنے مقام پر آئیں گی۔

*کون سی تصویر درست ہے؟*

ایک غیر جانبدار قاری جب ان دونوں قسم کی روایات پڑھتا ہے تو اس کا ذہن کنفیوز ہو کر رہ جاتا ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ عہد صحابہ کی ان متضاد تصاویر میں سے کون سی تصاویر درست ہیں؟ اگر پہلی قسم کی روایات کو درست مان لیا جائے تو پھر دوسری قسم کی روایات کا کیا کیا جائے اور اگر دوسری قسم کی روایات ٹھیک ہیں تو پہلی قسم کی روایات کی کیا حیثیت ہے؟

اگر پہلی قسم کی روایات درست تھیں تو پھر صحابہ کرام کے درمیان جنگیں کیوں ہوئیں؟
وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے محض پچیس برس بعد ہی ایک دوسرے سے کیوں برسر پیکار ہو گئے؟

اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس سے ہمیں جس رویے کی تلقین کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی ایسی ویسی بات آئے جس میں ان ہستیوں پر الزام عائد کیا گیا ہو، تو اسے بلا تامل مسترد کر دینا چاہیے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

🌷وَلَوْلا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ.
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب آپ لوگوں نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو آپ کہتے، ہم تو اس بارے میں اپنی زبان سے کچھ نہیں نکال سکتے۔ اے اللہ! تو پاک ہے۔ یہ تو بڑا ہی بہتان ہے۔
(النور ،آئیت نمبر-16)

🌷يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنْ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ.
اے اہل ایمان! آپ لوگوں کو چاہیے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے بچا کریں۔ یقیناً بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (کسی کی ذات سے متعلق) تجسس نہ کیا کریں اور نہ ہی آپ میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا آپ میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ آپ لوگ یقیناً اس سے کراہت محسوس کریں گے۔ اللہ سے ڈرتے رہیے کہ یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
(الحجرات ،آئیت نمبر-12)

اہل ایمان کا یہی رویہ ہونا چاہیے۔
تاہم کتب تاریخ میں چونکہ ایسی متعصبانہ روایتیں بڑی تعداد میں داخل کر دی گئی ہیں، اس وجہ سے بسا اوقات غیر جانبدار قارئین کو بھی یہ کنفیوژن محسوس ہوتی ہے کہ اتنی ساری روایات کو بلا تامل مسترد کیسے کیا جائے۔
اس سلسلہ میں ہم اسی کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے خالص علمی انداز میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ ان دونوں قسم کی روایات میں سے کون سی درست ہیں اور عہد صحابہ کی خانہ جنگیوں کے اسباب کیا تھے؟

صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار سے ہمیں جو عقیدت و محبت ہے، اس کی ایک اپنی جذباتی اور دینی اہمیت ہے مگر مناسب ہو گا کہ یہ تجزیہ کرتے وقت اس عقیدت کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیں اور بالکل خالی الذہن ہو کر خالص فن تاریخ کی روشنی میں ان روایات کا جائزہ لیں تاکہ ہم پوری غیر جانبداری کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں کیونکہ غیر جانبدارانہ تجزیہ ہی ہمیں دل کا اطمینان فراہم کر سکتا ہے۔ اگر انسان جانبدارانہ تجزیہ کرے تو اس کے دل کو کبھی اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے دل میں کسی مخصوص صحابی سے متعلق بغض موجود ہے، تو ان سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے دل سے یہ بغض وقتی طور پر نکال دیں اور بالکل غیر جانبدار ہو کر ان سلسلہ جات کا مطالعہ کریں۔

اس موضوع پر بلا مبالغہ ہزاروں کتب لکھی جا چکی ہیں۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ یہ کتب فرقہ وارانہ بحثوں پر مشتمل ہوتی ہیں جن میں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع پایا جاتا ہے۔ بعض کتب میں صحابہ کرام کے ایک گروہ کی جانب جھکاؤ موجود ہوتا ہے اور دوسرے گروہ پر تنقید ہوتی ہے۔ اکثر کتب تکنیکی زبان میں لکھی جاتی ہیں جن کی وجہ سے عام قارئین کے لیے ان کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ ان میں تاریخی تنقید کے فن کی تفصیلات دیے بغیر اس فن کو استعمال کیا گیا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ایک عام قاری کو مشکل لگتا ہے کہ وہ ان کے مندرجات کی تصدیق (Verification) کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایسے سلسلے لکھنے کی کوشش کی ہے جو فرقہ واریت سے پاک ہو، اس میں کسی فرقے پر طعن و تشنیع نہ ہو ، سبھی صحابہ و اہل بیت کا ادب ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو، اور سلسلہ جات کو ایسے اسلوب میں پیش کیا جائے جسے ایک عام قاری بآسانی نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اس کی تصدیق بھی کر سکے۔

روایات کا الگ الگ تجزیہ کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ فن تاریخ کے بارے میں ابتدائی معلومات آپ کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ صحابہ کرام سے متعلق کون کون سی روایات وہ ہیں جو قرآن مجید سے مطابقت رکھتی ہیں اور کون سی وہ ہیں جو قرآن مجید سے متضاد تصویر پیش کرتی ہیں۔ اس کے بعد ہم ایک ایک روایت کا جائزہ لے کر اس کے مستند(Authentic) ہونے کو چیک کر سکتے ہیں۔،

*قارئین حضرات سے التماس ہے کہ آپ سب روٹین اور تسلی سے ان سلسلہ جات کا مطالعہ کریں،تا کہ بات سمجھ آ سکے*

نوٹ-
*اگلے سلسلہ میں سب سے پہلے ہم یہ سیکھیں گے کہ تاریخی روایات کی تحقیق کیسے کی جائے؟ تاریخی روایات کیسے منتقل ہوتی ہیں اور کیسے مسخ کی جاتی ہیں؟ اور انکی جانچ پڑتال ایک عام آدمی کیسے کر سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب ان شاءاللہ اگلے سلسلہ میں ملیں گے*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں