883

سوال-سنت کے مطابق قربانی کے گوشت کی تقسیم کیسے کریں؟ کیا گوشت کے تین برابر حصے کرنا واجب ہے؟ اور کیا زیادہ قربانیاں کرنے والے کے لیے ہر جانور کے گوشت میں سے صدقہ کرنا ضروری ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-75″
سوال-سنت کے مطابق قربانی کے گوشت کی تقسیم کیسے کریں؟ کیا گوشت کے تین برابر حصے کرنا واجب ہے؟ اور کیا زیادہ قربانیاں کرنے والے کے لیے ہر جانور کے گوشت میں سے صدقہ کرنا ضروری ہے؟

Published Date: 21-8-2018

جواب….!
الحمدللہ..!!

🌷فرمان باری تعالیٰ ہے!

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِّيَشۡهَدُوۡا مَنَافِعَ لَهُمۡ وَيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ فِىۡۤ اَ يَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ‌‌ ۚ فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡبَآٮِٕسَ الۡفَقِيۡـرَ
[[سورہ الحج_28]]
تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔

فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا ۔۔ :
قربانی دینے والے حجاج کو اللہ پاک یہ فرما رہے ہیں کہ،
چوپائے جو میں نے تمہیں عطا کیے اور تم نے میرے نام پر قربان کیے، اب میری اس نعمت کا تقاضا ہے کہ خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیر کو بھی کھلاؤ۔،۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غنی کو نہیں کھلا سکتے، بلکہ یہ فقراء کو کھلانے کی تاکید کے لیے ہے،
اغنیاء کو کھلانے کا ذکر آیت (36) میں آ رہا ہے۔

🌷فرمان باری تعالیٰ ہے!!
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَر
َّ [[سورہ الحج:36]]
خود بھی کھاؤ اور مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کو بھی دو

” الْقَانِعَ “ قناعت کرنے والا، اللہ نے جو دیا ہے اس پر صبر کرکے سوال سے بچنے والا۔
” وَالْمُعْتَرَّ “ (سوال کے لیے) سامنے آنے والا۔
” فَكُلُوْا “ میں ” فاء “ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کی جان پوری طرح نکلنے کے بعد جتنی جلدی ہو سکے اس کا گوشت کھانے اور کھلانے کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ قربانی کے گوشت ہی سے ناشتہ کرنا مستحب ہے۔
جیسا کہ!
🌷مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے ”
مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).
زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.
ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221)

معلوم ہوا قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، دوست احباب، خویش و اقارب اور ان مساکین کو بھی کھلانا چاہیے جو سوال نہیں کرتے اور ان فقراء و مساکین کو بھی جو سوال کے لیے آجاتے ہیں۔ گویا قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاسکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ تینوں برابر ہوں۔
خود کھانے کا حکم اس لیے دیا کہ مشرکین اپنی قربانی میں سے نہیں کھاتے تھے۔
مفسرین فرماتے ہیں کہ خود کھانے کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب یا رخصت کے لیے ہے، یعنی تمہیں خود بھی کھانے کی اجازت ہے، ضروری نہیں کہ کھاؤ۔ بہرحال امر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہو سکے تو اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے،

🌷جیسا کہ جابر (رض) بیان کرتے ہیں :
” وہ اونٹ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نحر کیے، ایک سو اونٹ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (٦٣) اونٹ نحر کیے اور باقی علی (رض) نے کیے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا جو ایک ہانڈی میں ڈالے گئے، پھر دونوں نے اس کا کچھ شوربا پیا۔ “
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1218)

اس حدیث میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام قربانیوں میں سے کچھ نا کچھ کھانے کے لیے سب کی ایک ایک بوٹی ہانڈی میں ڈلوائی..!!

🌷چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، ہمارا اور دیگر تمام علمائے کرام کا یہی موقف ہے، تاہم چند سلف صالحین سے یہ منقول ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا بھی واجب ہے۔۔۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں قربانی کا گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے، اور فرمانِ باری تعالی میں بھی کھانے کا حکم ہے: ۔( فَكُلُوا مِنْهَا) اس میں سے کھاؤ۔[الحج : 28] لیکن جمہور اہل علم نے اس حکم کو مندوب اور مباح کے حکم میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ حکم قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی ممانعت کے بعد دیا گیا ہے” انتہی
(شرح صحيح مسلم ” (13/131)
__________________&&_______$

*قربانی کا گوشت کھانا، صدقہ کرنا اور ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن تین حصوں میں برابر تقسیم کرنا واجب نہیں*

🌷سیدنا سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں ،
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے تم میں سے قربانی کی ہے وہ تیسرے دن بعد اس حال میں صبح نہ کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت سے کوئی چیز باقی ہو۔ ” آئندہ سال صحابہ نے کہا:” اے اللہ کے رسولﷺ! جس طرح ہم نے پچھلے سال کیا تھا، کیا اب بھی اسی طرح کریں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
تم کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ کرو،
اس ( پچھلے ) سال لوگوں کو مشقت تھی تو میں نے چاہا تھا کہ تم اس میں ان کی مدد کرو۔”
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-5569)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_1971)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت بندہ خود بھی کھائے ، دوست ، احباب کو تحفہ بھی دے اور صدقہ بھی کرے۔ ذخیرہ بھی کرے، لیکن حصوں کی کوئی حد کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئی لہٰذا جو تناسب سمجھتا ہو، رکھے ، اللہ نے آزادی دی ہے
_______________&&&_________

*قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا بہتر ہے*

🌷البتہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں:
ہم عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا مذھب رکھتے ہيں جس میں ہے ( وہ خود ایک تہائي کھائے اورایک تہائي جسے چاہے کھلائے ، اورایک تہائي مساکین وغرباء پرتقسیم کردے ) ۔
اسے ابوموسی اصفہانی نے الوظائف میں روایت کیا ہے اوراسے حسن کہا ہے ، اورابن مسعود ، ابن عمررضي اللہ تعالی عنہم کا قول بھی یہی ہے ، اورصحابہ کرام میں سے کوئي ان دونوں کا مخالف نہيں ۔
(دیکھیں : المغنی ( 8 / 632 )

_______________&&__________

*جو شخص قربانی کا سارا گوشت رشتہ داروں کو پکا کر کھلا دے؟۔۔*

🌷شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قربانی کا مکمل گوشت پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دیتا ہے، اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کرتا تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟
تو انکے جواب کا مفہوم یہ ہے،
“ان کا یہ عمل غلط ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: کہ خود بھی کھاؤ اور مانگنے اور نا مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ،
(الحج-36)
لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ گوشت کا کچھ حصہ صدقہ بھی کرے
(مجموع فتاوى ابن عثیمین” (25/132)

________________&&__________

*مذکورہ بالا حکم کہ قربانی کے جانور میں سے کچھ نہ کچھ کھانا،کچھ صدقہ کرنا مانگنے اور نا مانگنے والوں کو، یہ حکم ہر جانور کیلئے الگ الگ ہے،چنانچہ اگر کسی نے دس بکریں ذبح کی ہیں تو اسے ہر بکری میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا مستحب ہوگا*

لہذا اگر کوئی دس بکریوں میں سے دو چار بکریاں مکمل صدقہ کر دے اور باقی خود رکھ لے تو یہ طریقہ غلط ہے، اور ایسا کرنا جائز نہیں،
کیونکہ قربانی کہ ہر جانور میں سے کچھ نا کچھ صدقہ کرنا اور کچھ نا کچھ کھانا چاہیے،

🌷جیسا کہ اوپر حدیث ہم نے پڑھی کہ،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی حج کی سو قربانیاں نحر کی تو سب کی ایک ایک بوٹی ہنڈیاں میں جمع کر کے پکانے کا حکم دیا اور پھر اسکا شوربہ پیا،
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1218)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قربانی کا الگ سے حکم ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام قربانی کے اونٹوں کا گوشت ایک ہانڈی میں جمع کرنے کا حکم دیا،
🌷اس بارے میں اہل علم کا کہنا ہے کہ:
جب قربانی کے ہر جانور کے گوشت کو کھانا سنت ہے اور ایک سو جانوروں کے گوشت کو کھانے میں مشقت بھی تھی تو اس کے حل کیلئے تمام جانوروں کے تھوڑے تھوڑے گوشت کو ہانڈی میں ڈال دیا گیا ؛ تا کہ ان کے شوربہ کو نوش کر کے سب کا کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا آسان ہو جائے” انتہی
” شرح صحيح مسلم ” (8/192)

🌷امام نووی رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
“ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک بوٹی لی، اور ان کا شوربہ نوش فرمایا ؛ اس میں حکمت یہ تھی کہ آپ سب کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ تناول فرما لیں” انتہی
” المجموع شرح المهذب ” (8/414)

_____________&&____________

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں