587

سوال_خصی جانوروں کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-64”
سوال_خصی جانوروں کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟

Published Date:9-8-2018

جواب..!!
الحمدللہ..!!

*خصی جانور کی قربانی جائز یے اور احادیث سے ثابت ہے*

*دلیل نمبر-1*
🌷ام المؤمنین عائشہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے، موٹے سینگ دار، چتکبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے، جو اللہ کی توحید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، اور دوسرا محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ذبح فرماتے۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3122​ صحیح)
علامہ الألبانی نے اسکو
صحيح ابن ماجه 2548 میں صحيح لکھا ہے،
(مسند احمد،25843صحیح لغیرہ)
(تحفة الأشراف: 14968، 17731)
(مباحثہ الزجاجة: 1083)
(ابن الملقن (٧٥٠ هـ)، البدر المنير ٩/٢٩٩_ حسن)
(تحفة المحتاج ٢/٥٣٠ • إسناده جيد)

*دلیل نمبر-2*
🌷جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلك أمرت وأنا من المسلمين، اللهم منك ولك وعن محمد وأمته باسم الله والله أكبر» “میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم کے دین پر ہوں، کامل موحد ہوں، مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز میری تمام عبادتیں، میرا جینا اور میرا مرنا خالص اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لیے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر، (بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے” پھر ذبح کیا۔
سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3121)
(تحفة الأشراف: 3144)
(مسند احمد_3/356، 362، 375)
سنن الدارمی/الأضاحي،1989)(حسن)
(اس کے راوی ابوعیاش مصری مجہول، لین الحدیث ہیں، لیکن تابعی ہیں، اور تین ثقہ راویوں نے ان سے روایت کی ہے، نیز حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ، حاکم، اور ذھبی نے کی ہے،علامہ البانی نے پہلے اسے ضعیف ابی داود میں رکھا تھا، پھر تحسین کے بعد اسے صحیح ابی داود میں داخل کیا ) (8/142
(سنن أبي داود : حدیث نمبر: 2795​) صحیح
(علامہ الألباني نے تخريج مشكاة المصابيح 1406 میں اسکو حسن کہا ہے)
(امام ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)
تخريج مشكاة المصابيح ج2/ص128 حسن كما قال في المقدمة)

*دلیل نمبر-3*
🌷نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو چتکبرے اور خصی دنبوں کی قربانی کی، ایک دنبہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں پیغام پہنچا دینے والوں کی طرف سے تھے اور ایک دنبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت کی طرف سے تھا،
(مسند احمد،حدیث نمبر_23860)
(علامہ الهيثمي (٨٠٧ هـ) نے مجمع الزوائد
ج4/ص24 میں اسکو إسناده حسن لکھا ہے)
(علامہ الألباني (١٤٢٠ هـ) نے إرواء الغليل میں
ج4/ص360 پر اسکو إسناده حسن لکھا
اور فرماتے ہیں کہ ،
لولا أن شريكا وهو ابن عبد الله القاضي سيء الحفظ لكن قد تابعه جماعة من الثقات
اگرچہ اسکی سند میں ابن عبداللہ حافظے کے کمزور راوی ہیں مگر اسکی متابعت ایک ثقہ جماعت نے کی ہے اس لیے یہ حدیث حسن ہے)

وضاحت_ اس حدیث کے بعض طرق میں اگرچہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی وجہ سے کچھ کلام ہے،
لیکن علما ء کی ایک جماعت نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جیسے امام محمد اسحاق بن راھویہ حمیدی امام بخاری ،امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور (ابن عدی تہذیب میزان اور خلاصہ) میں،ان ائمہ سے اس کی توثیق منقول ہے،علاوہ ازیں عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی روایت کے اور بھی شواہد ہیں جواس روایت کو تقویت پہنچاتے ہیں،

🌷 *اگر ان احادیث پر اعتراض کرنے والوں کی بات مان بھی لی جائے کہ یہ روایات ضعیف ہیں تو بھی خصی جانور کی ممانعت کہاں ثابت ہے؟*

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے قربانی کے عیوب آپ سابقہ *(سلسلہ نمبر_ 62)*
میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔

*کسی ایک روایت میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا کسی صحابی یا سلف صالحین میں سے کسی نے بھی قربانی کے لیے خصی جانور کو عیب میں شامل نہیں کیا،*
*جانور کا خصی ہونا ان عیوب میں شامل نہیں جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لیے عیب قرار دیا ہے،*
*لہٰذا خصی جانور کو قربانی میں عیب سمجھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی شریعت کو ناکافی سمجھتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے اضافے کی مذموم کوشش ہے۔*

*یہی وجہ ہے کہ خصی جانور کی قربانی تمام محدثین وفقہا کے ہاں بالاجماع جائز ہے جیسا کہ*

🌷حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:‘‘قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہونے سے اس کے گوشت کی عمدگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ (فتح الباری:۱۰/۷)

🌷 علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ
(٥٤١۔٦٢٠ ھ)بیان کرتے ہیں :
وَلَا نَعْلَمُ فِي ہٰذَا خِلَافًا .
”اس بارے میں کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں آیا۔”
(المغني : ٣/٤٧٦، ٩/٤٤٢)

🌷امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
أَرْجُو أَن لَّا یَکُونَ بِہٖ بَأْسٌ .
”اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(مسائل الإمام أحمد و إسحاق بن راہویہ بروایۃ إسحاق بن منصور الکوسج : 368/2)

🌷امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بکرے اور دنبے کو خصّی کرنے میں کوئی
حرج نہیں۔
(تفسیر الطبری : ١٠٤٧٥، وسندہ، صحیحٌ)

🌷 الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ قربانی کے مسنون اور افضل جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصی جانور کی قربانی صحیح حدیث سے ثابت ہے ،جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد میں روایت کیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرادیا ہے ۔ دیکھیں صحیح ابن ماجہ ( 3122 )
اور حدیث میں الموجوء کا لفظ ہے،
الموجوء : خصی جانور کوکہتے ہيں ، اوریہ گوشت کے اعتبار سے غالبا فحل سے بہتر اوراکمل ہوتا ہے
قربانی میں سے جنس اور اوصاف کے لحاظ سے افضل جانور میں یہ بھی شامل ہے،
(احکام الاضحيۃ و الذکاۃ (تالیف: الشيخ محمد بن صالح عثیمین)

🌷 *لہذا ثابت ہوا کہ خصی جانور کی قربانی بالکل جائز ہے، اور مسنون ہے اور اگر مسنون نا بھی سمجھا جائے تو بھی اسکی ممانعت ثابت نہیں اور نا ہی خصی ہونا قربانی سے مانع والے عیوب میں شامل ہے،*
*اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ غیر خصی جانور کے عموماً پیشاب پینے کی وجہ سے اسکے گوشت کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا جبکہ خصی جانور کے گوشت کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے،*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں