668

سوال_زکوٰۃ و عشر کن پر خرچ کر سکتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-43”
سوال_زکوٰۃ و عشر کن پر خرچ کر سکتے ہیں؟ کیا سکول ،مسجد، یا امام مسجد وغیرہ کو عشر, زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟

Published Date: 4-4-2018

جواب۔۔۔!!
الحمد للہ:::

*جن آٹھ مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح  لفظوں میں بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتلایا کہ انہی مصارف  میں زکوۃ خرچ کرنا واجب ہے، اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے،*

چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: 

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ:
صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
[سورہ التوبة:60]

📒پہلا اور دوسرا مصرف:
فقراء اور مساکین:
ان لوگوں کو زکاۃ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دی جائے گی۔
فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ :
فقیر شخص  کو زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس  کے پاس اپنے اہل خانہ  کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آدھے سال کا بندو بست بھی نہیں ہوتا، تاہم مساکین کا حال فقراء سے قدرے بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ مساکین کے پاس سال کے آدھے یا زیادہ  حصے کیلئے ضروریات پوری کرنے کا بندو بست ہوتا ہے،
چنانچہ مساکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بقدر حاجت ہی دیا جائے گا

 اس کے جواب میں علمائے کرام کہتے ہیں:
“انہیں ان کے خاندان کی ایک سالہ ضروریات کیلئے کافی  کر دینے والی مقدار میں مال دیا جائے گا، کیونکہ ایک سال بعد دوبارہ ان کے لئے اصحاب ثروت کے مال میں زکاۃ واجب ہو جائے گی،
چنانچہ  زکاۃ کے مستحق فقراء اور مساکین  کی ایک سالہ ضروریات و حاجات کا اندازہ لگایا جائے گا۔یہ اچھا موقف ہے، کہ ہم فقراء و مساکین اور ان کے اہل خانہ کو مکمل ایک سال کی اشیائے ضرورت  وغیرہ دیں، چاہے یہ راشن اور لباس کی صورت میں ہوں یا نقدی کی صورت میں کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں خرید لیں، یا  کسی بھی فن میں ماہر زکاۃ کے مستحق فرد کو  متعلقہ آلات و اوزار خرید کر دیں، مثلاً: درزی، بڑھئی، لوہار وغیرہ کو مطلوبہ چیزیں خرید کر دے دیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی  مقدار میں زکاۃ دیں گے”

📒تیسرا مصرف:
زکاۃ جمع کرنے والے اہل کار:
یعنی وہ لوگ جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہے،
اسی لیے فرمایا: (وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ) اور زکاۃ جمع کرنے والے عاملین
[سورہ التوبة:60]

اللہ تعالی نے یہاں یہ فرمایا کہ:
وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” میں یہ اشارہ ہے کہ انہیں اس کام کے لیے  یعنی وہ لوگ جو مالدار طبقہ سے زکاۃ اکٹھی کر کے زکاۃ کے مستحق افراد میں  اسے تقسیم کریں، زکاۃ کا حساب کتاب رکھیں، چنانچہ ان لوگوں کو زکاۃ کی مد میں سے دیا جائے گا،
اس میں اتنا خیال رہے جو جس قدر حقدار ہو اسکو اتنا مال دیا جا سکتا ہے،
مطلب ایک شخص کی الگ آمدن بھی ہے اور وہ زکوٰۃ جمع بھی کرتا ہے تو اسکو ضرورت کے تحت کم مال دیا جائے اور ایک شخص جسکی کوئی اور آمدن نہیں اور وہ زکوٰۃ جمع کر کے لوگوں پر خرچ کرتا ہے تو چونکہ وہ غریب اور مسکین بھی ہے تو اسکو ضرورت کے تحت زیادہ مال دیا جائے گا،

📒چوتھا مصرف:
جن لوگوں کی تالیف قلبی مقصود ہو:
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اسلام کے قریب لانے کیلئے  کچھ دیا جائے چاہے کوئی ایسا غیر مسلم ہو جس کے مسلمان ہونے کا امکان ہو، یا پھر کوئی کمزور ایمان والا مسلمان ہو جسے دیکر اسلام پر ثابت قدم رکھا جا سکے، یا پھر کوئی غیر مسلم شریر شخص ہو جسے پیسے دے کر مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ بنایا جا سکے، یا مسلمانوں  کے بھلے کیلئے کوئی بھی مد ہو اس میں زکاۃ اس مصرف کے تحت خرچ کی جا سکتی ہے۔

📒پانچواں مصرف:
     گردن آزاد کروانا:
فرمانِ باری تعالی ہے:  ( وَفِي الرِّقَابِ )، یہاں تین چیزیں علمائے کرام نے بیان کی ہیں:

1-   مکاتب غلام  جس نے اپنے آقا سے  آزادی کیلئے مؤجل ادائیگی پر معاہدہ کر لیا ہے، تو ایسے غلام کو اتنی رقم دی جائے گی جس سے اس کی قیمت ادا ہو جائے۔
2- غلام کو زکاۃ کی رقم سے خرید کر آزاد کر دیا جائے۔
3-  کوئی مسلمان کفار کی قید میں ہے، تو کفار کو زکاۃ سے رقم دیکر مسلمان کو آزاد کروا لیا جائے، اسی طرح اغوا برائے تاوان بھی اسی میں شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی کافر یا مسلم کسی مسلمان کو اغوا کر لے تو یہ تاوان زکاۃ کی مد سے ادا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں علت اور وجہ ایک ہی ہے، اور وہ ہے کہ کسی مسلمان کو قید سے آزادی مل جائے، لیکن اغوا برائے تاوان میں یہ شرط ہے کہ : ہم اغوا کاروں سے مسلمان کو بغیر تاوان دیے آزاد نہ کروا سکتے ہوں۔

📒چھٹا مصرف:
قرض اٹھانے والے لوگ:
اہل علم نے ان کی دو قسمیں بیان کی ہیں:

1- دو متحارب گروپوں میں صلح کروانے پر دونوں کو مال دیکر صلح پر آمادہ کرنا
2- اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھانا
پہلی قسم کی مثال یہ ہے کہ:
دو متحارب گروپوں یا قبائل یا خاندانوں میں لڑائی ہو اور کوئی با اثر  اور محترم شخصیت  کا مالک شخص  دونوں میں پیسے دیکر صلح کروا دے ، تو ہم صلح کروانے والے شخص کی نیکی اور احسان مندی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو زکاۃ میں سے وہ رقم دیں گے جو اس نے صلح کیلئے اپنی ذمہ لی،  کیونکہ اس نے مسلمانوں کے درمیان عداوت، اور بغض کا خاتمہ کیا  اور قتل و غارت کا دروازہ بند کر دیا ہے، ایسے شخص کو بھی زکاۃ کا مال دیا جائے گیا چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کیونکہ ہم اس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ نہیں دے رہے، بلکہ ہم اسے اس لیے دے ہیں کہ اس نے مفاد عامہ کا بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

اس کی دوسری قسم  میں وہ شخص شامل ہے جس نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھایا ، یا کوئی ضرورت کی چیز خرید کر اپنے پاس رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ذمہ قرض  لکھوا لیا تو اس کا قرض زکاۃ سے ادا کر دیا جائے گا، بشرطیکہ اس کے پاس قرضہ ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو۔

📒ساتواں مصرف:
فی سبیل اللہ:
اور یہاں “فی سبیل اللہ” سے مراد صرف جہاد ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی مراد نہیں ہے،
چنانچہ  نیکی و بھلائی کے دیگر تمام راستے اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ  اگر ایسا ہی حقیقت میں ہوتا تو اس  آیت
میں حصر اور تخصیص کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا،
کیونکہ غریبوں ،مسکینوں اور باقی جگہ پر خرچ کرنا بھی تو فی سبیل اللہ کے لیے ہے، تو اس کو الگ سے بیان کرنے کا مقصد کیا تھا؟
اس لیے “فی سبیل اللہ” سے مراد صرف جہاد ہے،
لہذا جہاد فی سبیل اللہ میں لڑنے والے شخص کو زکاۃ میں سے دیا جائے گا، جن کی ظاہری حالت سے یہی محسوس ہو کہ یہ لوگ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے جہاد کر رہے ہیں، انہیں اپنی ضروریات اور اسلحہ وغیرہ کی خریداری کیلئے زکاۃ میں سے دیا جائے گا۔اسی طرح انہیں قتال کیلئے اسلحہ خرید کر بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہی ہونا چاہیے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا:
“ایک آدمی خاندانی تعصب کی وجہ سے لڑتا ہے، دوسرا داد شجاعت وصول کرنے کیلئے لڑتا ہے، اور تیسرا دکھاوے کیلئے لڑتا ہے، ان میں سے کون سا “جہاد فی سبیل اللہ” میں قتال کر رہا ہے؟
” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جو شخص اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑے وہی فی سبیل اللہ ہے)

📒آٹھواں مصرف:
ابن سبیل:
اس سے مراد  مسافر ہے، یعنی ایسا مسافر جس کے پاس زادِ راہ ختم ہو چکا ہے، تو اسے اپنے علاقے تک پہنچنے کیلئے زکاۃ سے امداد دی جائے گی، چاہے یہ شخص اپنے علاقے میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، کیونکہ اسے ابھی امداد کی ضرورت ہے، یہاں ہم اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی سے قرض اٹھا لو اور بعد میں اد اکر دینا، کیونکہ اس طرح ہم اسے مقروض کر دینگے، [جب کہ قرآن مجید اسے زکاۃ کی مد سے امداد لینے کی اجازت دیتا ہے]، تاہم اگر وہ شخص خود سے قرض اٹھانے پر تیار ہو تو یہ اس کی مرضی ہے،

______________&____________

*سکول یعنی جدید تعلیم کے ادارے اور مساجد میں استعمال ہونے والی اشیاء قرآن کے بتائے ان آٹھ مصارف میں شامل نہیں ، اسلئے ان پر زکوٰۃ کا مال خرچ نہیں ہوسکتا*

اور مساجد پر  زکاۃ اس لئے بھی نہیں لگائی جاسکتی کہ مساجد کی تعمیر و آبادی ہر مسلمان پر اسکی استطاعت کے مطابق اسکی ذمہ داری ہے۔
اور مساجد میں استعمال ہونی والی چیزیں ہماری اپنی ضرورت ہیں ، لہذا اپنی ضرورت پر اموال زکاۃ صرف نہیں ہوسکتا ،

📒اس ضمن میں درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد کے لوٹے، رسی، چٹائی، دری، جاجم فرش اور اس کی مرمت و صفائی یا تعمیر میں عشر اور زکوٰۃ (اوساخ الناس) کا خرچ کرنا درست نہیں، کیوں کہ مسجد اور اس کی ضروریات زکوٰۃ کے مصارف منصوصہ میں داخل نہیں،
“ولا یجوز صرف الزکوٰة إلی غیر من ذکر اللّٰہ تعالیٰ من بناء المساجد والقناطر والسقایات واصلاح الطرقات وسد الثبوق وتکفین الموتی والتوسعة علی الاضیاف وغیر ذلك من القرب التی لم یذکرھا اللہ تعالیٰ وقال أنس والحسن ما اعطیت فی الجسور والطرق فھی صدقة ما ضیة والأوّل أصح لقوله سبحانه وتعالیٰ ﴿إنماالصدقات للفقراء والمساکین﴾ وإنما للحصروا والاثبات تثبت المذکور وتنفی ما عداہ”
(المغنی ص ۵۲۷ ج ۲)

📒رہی بات مؤذن، امام مسجد اور میانجی کی، اگر انکا گذر اوقات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور وہ محتاج و ضرورت مند ہیں، (اور وہاں کی جماعت بھی اس قدر طاقت نہیں رکھتی کہ انکی مدد کر سکے تو زکوٰۃ کا مصرف ہونے کی حیثیت سے عشر و زکوٰۃ سے معین یا غیر معین مقدار کے ذریعے انکی امداد کی جا سکتی ہے۔
(محدث دہلی جلد نمبر ۱۰ نمبر ۹)

*لمحہ فکریہ*

ہمارے معاشروں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب دینی اداروں مساجد سے منسلک واعظین و خطباء لوگوں کو زکوٰۃ پر ابھارتے ہیں تو اس سےمراد اپنا ہی ادارہ و مسجد لی جاتی ہے اور لوگوں کا بھی یہی تصور ہے اللہ کی راہ تو بس یہی ہے گویا، حالانکہ زکوٰۃ  کے مصارف میں جن کا اولین ذکر آیا انہیں تو کوئی پوچھتا نہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ مساکین فقراء ومقروض  وغیرہ لوگ دوسرے راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کچھ بھکاری تو کچھ جرائم پیشہ بن جاتے ہیں، اللہ کی عظیم حکمت ہے کہ اپنے دین کے کاموں پر دیگر صدقات کی ترغیب دلائی ہے زکوٰۃ کے مصارف کو الگ مخصوص اور محدود طور پر ذکر فرمایا ہے جس سے معاشرے میں امن و بھائی چارہ اور دیگر مواسات و ہمدردی  جیسے عظیم مقاصد حاصل ہوتے ہیں جو معاشرے میں امن و ترقی لاتے اور ظلم و غربت کو ختم کرتے ہیں بلکہ دعوت وتبلیغ کے زاویے سے بھی جو مصارف زکوٰۃ میں ذکر ہیں وہ جہاد اور غیرمسلموں پر پیسہ خرچ کرنا تاکہ وہ اسلام کی طرف راغت ہوں اور اس پر استقامت اختیار کریں۔ اس مد پر مسلمانوں کے زکوٰۃ خرچ کرنے سے لاشعور ہونے  اور اغیار کو اس کی اہمیت کا ادراک ہونے سے نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ دیگر بے دین و ملحد قسم کی این جی اوز بلکہ عیسائی مشنریز تک اس مد میں خرچ کرکے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتی اور گمراہ کرتی ہیں۔

اور صد افسوس کہ اپنے قریبی رشتہ داروں دوستوں میں جو سفید پوش مسکین ہوں انہیں نہيں دیا جاتا نتیجۃً دل ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں قطع رحمی ہے وغیرہ، ورنہ مسکین میں تو وہ بیچارہ تنخواہ دار کام کرنے والا تک آتا ہے جو کماتا تو ہے لیکن اس کے ماہانہ اخراجات پورے نہیں ہوتے۔لہذاٰ لوگوں کو چاہیے کہ اس اہم دینی فریضے کی ادائیگی میں کتاب وسنت کی رہنمائی کے مطابق تھوڑی محنت کرکے صحیح مصارف پر خرچ کریں، جس سے انہيں دنیا و آخرت کی بھلائیاں نصیب ہوں گی،

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں