952

سوال_کن اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے؟ اور ان ممنوع اوقات کا دورانیہ کتنا ہے؟ کیا فرضی نماز بھی ممنوع اوقات میں نہیں پڑھ سکتے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-39″
سوال_کن اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع/مکروہ ہے؟ اور ان ممنوع اوقات کا دورانیہ کتنا ہے؟ کیا فرضی نماز بھی مکروہ اوقات میں نہیں پڑھ سکتے؟ اور کیا بیت اللہ میں بھی عبادت کے لئے ممنوع اوقات کا خیال رکھنا ضروری ہے..؟

Published Date: 22-3-2018

جواب..!
الحمدللہ۔۔۔!

*کراہت یعنی زوال کے اوقات کے بارے لوگوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، بہت سے لوگوں کو کراہت کے صحیح اوقات اور انکا شرعی حکم معلوم نا ہونے کی وجہ سے عبادات میں کافی دشواری ہوتی ہے،اور بہت سے لوگ کم علمی کیوجہ سے ان اوقات میں فرضی نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں،جیسے فجر اور عصر کی نماز اگر کسی کی لیٹ ہو جائے  تو وہ سورج نکلنے یا غروب ہونے کے ڈر سے نماز یا تو چھوڑ دیتا ہے یا قضا کر لیتا ہے، آج کے سلسلہ میں ہم ان شاءاللہ اس مسئلہ کو صحیح احادیث سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے*

*مکروہ/ممنوع اوقات*

📚 وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ : ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا : حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ.
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
”نبی اکرم ﷺ ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع  فرماتے تھے،
جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلندہوجائے۔ جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی عین زوال کا وقت)
اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔”
(صحیح مسلم،کتاب المساجد٬حدیث_831)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_3192)

📚سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاتَيْنِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ.
”رسول اللہﷺ نے دو (وقتوں میں) نمازوں سے منع فرمایا۔ فجر (کی نماز) کے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور عصر (کی نماز کے) بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔”
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_588)

لہٰذا۔۔!
ان دونوں احادیث کے مطابق نماز کے لیے ممنوع اوقات یہ ہوئے :

(1) نمازِ فجر کے بعد سے لیکر جب تک سورج اچھی طرح نکل نہ آئے۔
(2) زوال کے وقت(یعنی سورج نصف آسمان سے ڈھلنے تک)
(3) عصر کی نماز کے بعد سے لیکر سورج جب تک غروب نہ ہوجائے۔

*مکروہ اوقات کا دورانیہ*

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کے اوقات کا بیان
باب: باب: اس بیان میں کہ صبح کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 582 
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَحَرَّوْا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرهَا. 
حدیث نمبر: 583 
وَقَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَرْتَفِعَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغِيبَ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَبْدَةُ .
ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا کہ نماز پڑھنے کے لیے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو۔  
عروہ نے کہا مجھ سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا کہ جب سورج کا اوپر کا کنارہ طلوع ہونے لگے تو نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے۔ اور جب سورج ڈوبنے لگے اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ غروب ہوجائے،

1- *یعنی سورج کی ٹکیہ کا ایک کنارہ ظاہر ہو جائے تو مکمل سورج طلوع ہونے تک،*

2- *اسی طرح ایک کنارہ غروب ہو جائے تو مکمل سورج غروب ہونے تک،*

3- *نصف آسمان سے سورج ڈھلنے تک کا  وقت،*

*ان تینوں اوقات کا  دورانیہ صرف دو منٹ اور پینتیس سیکنڈ کا ہوتا ہے،پھر بھی اندازے سے تقریباً ان اوقات میں 5 سے 10 منٹ کا دورانیہ چھوڑ کر باقی اوقات میں نفل نماز پڑھ سکتے ہیں*

*ان تینوں اوقات میں کراہت صرف نفلی نماز کے لیے ہے ، اگر کسی کی فرضی نماز رہتی ہو ، تو وہ ان ممنوع اوقات میں بھی پڑھ سکتا ہے،*

جیسا کہ،
📚سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ “.
”جس نے عصر کی نماز میں سے سورج غروب ہونے  سے پہلے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی اور جس نے فجر کی نماز میں سے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی۔”
(صحیح مسلم،کتاب المساجد،۔608)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_186)

📚 امام ترمذی نے باقاعدہ اس بات کی  وضاحت حدیث کے نیچے اسطرح سے کی ہے کہ،
کہ جو نماز سے سو گیا اور سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدار ہوا ہو،
یا اسے بھول گیا ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے نماز یاد آئی ہو۔ (تو وہ اس کراہت کے وقت نماز ادا کر سکتا ہے، )
ہمارے اصحاب، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_186/ حدیث کے نیچے وضاحت)

ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں،

📚حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ سَجْدَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَالسَّجْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الرَّكْعَةُ “.
’’ جس نے سورج کے غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کا ایک سجدہ پالیا ،اور سورج کے نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کا ( ایک سجدہ پا لیا) تو یقینا اس نے اس نماز کو پالیا،( ان شہاب نے کہا کہ) سجدے سے مراد رکعت ہی ہے ۔
(صحیح مسلم،کتاب المساجد،حدیث نمبر_609)

*وضاحت*
یعنی اس ایک سجدہ(رکعت) کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضاء نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہوگی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہوگیا اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگی، لیک سنن نسائی کی روایت جس میں «فليتم صلاته پس وہ اپنی نماز پوری کرے» کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے،

سنن نسائی کی روایت میں اس طرح سے وضاحت ہے کہ،

📚ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ أَوَّلَ سَجْدَةٍ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ أَوَّلَ سَجْدَةٍ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ ”
سورج ڈوبنے سے پہلے جب تم میں سے کوئی نماز عصر کا پہلا سجدہ پا لے تو اپنی نماز مکمل کر لے، اور جب سورج نکلنے سے پہلے نماز فجر کا پہلا سجدہ پا لے تو اپنی نماز مکمل کر لے ۔
(سنن نسائی،کتاب المواقیت،حدیث516)
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_556)

_______&_________

*ویسے تو فرض نماز اول وقت میں ادا کرنی چاہیے لیکن اگر کسی کی فرضی نماز رہ گئی ہو تو وہ ممنوع وقت میں بھی پڑھ سکتا ہے،جیسا کہ اوپر ذکر کردہ احادیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے،*

📚اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے،
مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، 
کہ جو نماز پڑھنا بھول جائے تو جونہی اسے یاد آئے وہ نماز پڑھ لے،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_680)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_435)

________&_________

*یاد رہے کہ مسجد ِحرام ان ممنوعہ اوقات سے مستثنیٰ ہے۔اس میں دن رات کی کسی بھی گھڑی میں نماز اور کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے*

📚سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ، وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ
”اے بنی عبد ِمناف! کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو خواہ وہ رات دن کی کسی گھڑی میں بھی (یہ عبادت) کررہا ہو۔”
(سنن ترمذی،حدیث نمںر_868)
(سنن نسائی،حدیث نمبر_586)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1254)

اور ایک جگہ یہ الفاظ ہیں کہ

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا يَطُوفُ بِهَذَا الْبَيْتِ وَيُصَلِّي أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ
اس گھر ( کعبہ ) کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے کسی کو مت روکو، رات اور دن کے جس حصہ میں بھی وہ کرنا چاہے کرنے دو،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_1894)

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

___________&_______

📚[[ کیا فجر اور عصر کے بعد نفل نماز نہیں پڑھ سکتے۔۔۔؟ دیکھئیے سلسلہ نمبر_40 ]]

📚[[ فرضی نماز کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟ اور اگر فجر کی سنتیں جماعت سے پہلے نا پڑھ سکیں تو کب پڑھیں؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_41  ]]

___________&____________

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں