1,591

سوال_کیا مسجد میں داخل ہونے والا شخص سلام کہہ سکتا ہے۔۔؟خصوصاً جب لوگ نماز یا قرآن پڑھ رہے ہوں۔۔۔؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-34″
سوال_کیا مسجد میں داخل ہونے والا شخص سلام کہہ سکتا ہے۔۔؟خصوصاً جب لوگ نماز یا قرآن پڑھ رہے ہوں۔۔۔؟ اور نماز پڑھنے والا جواب کیسے دے گا؟

Published Date: 02-03-2018

جواب۔۔۔!!
الحمدللہ۔۔۔!!

*شریعت اسلامیہ میں مسلمان کو سلام کرنا ایک عظیم الشان عمل ہے،اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو پھیلانے اور عام کرنے کا حکم دیا ہے،سلام کو عام کرنے سے مسلمانوں کے درمیان محبت بڑھتی ہے، سلام ایمان کی علامت ہے،سلام جنت میں داخل کرنے کا سبب ہے، سلام اہل جنت کا تحفہ ہے، سلام کرنا صدقہ ہے، یہودیوں کو سلام اور آمین پر مسلمانوں سے شدید حسد ہے۔ کتاب و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس میں  مسجد میں داخل ہوتے یا نماز،قرآن پڑھنے والے  پر سلام کہنے سے روکا گیا ہو، بلکہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اور نماز پڑھنے والوں کو سلام کرنا کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے*

ابتدائے اسلام(مکۃ المکرمہ) میں جب نماز میں آپس میں باتیں کرنا جائز تھا، تو سلام کہنا اور منہ سے اس کا جواب دینا بھی مشروع تھا۔

📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ
كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فَتَرُدُّ عَلَيْنَا. قَالَ : ” إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا ”
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا کرتے تھے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے۔
لیکن جب ہم نجاشی کے پاس سے واپس لوٹے اور ہم نے آپ کو سلام کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ ہم نے عرض کی
اے اللہ کے رسول! ہم آپ کو سلام کرتے تھے تو آپ جواب دے دیتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقیناً نماز میں ایک مشغولیت ہوتی ہے‘‘۔
(صحیح بخاری،کتاب مناقب الانصار/ح:3875)
صحیح مسلم،کتاب المساجد،باب تحریم الکلام فی الصلاة حدیث نمبر_538)

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں!

📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں سلام کا جواب دینا
حدیث نمبر: 924
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ. فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ.
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ  (پہلے)   ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور کام کاج کی باتیں کرلیتے تھے، تو   (ایک بار)   میں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آیا آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ  ﷺ  نے جواب نہیں دیا تو مجھے پرانی اور نئی باتوں کی فکر دامن گیر ہوگئی   ١ ؎، جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ  ﷺ  نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، نیا حکم نازل کرتا ہے، اب اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ نماز میں باتیں نہ کرو ، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا۔  
تخریج دارالدعوہ:
  سننن / الکبری/ السہو ١١٣ (٥٥٩)،
(تحفة الأشراف: ٩٢٧٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٣٧٧)، ٤٣٥، ٤٦٣) (حسن صحیح  )  
وضاحت:
١ ؎: یعنی میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہوئی ہے جس سے رسول اللہ  ﷺ  ناراض ہوگئے ہوں۔

*پھر جب (مدینہ طیبہ میں)نماز میں باتوں سے منع کر دیا گیا تو منہ سے سلام کا جواب دینا بھی منسوخ ہو گیا۔ مگر ہاتھ کے اشارہ سے سلام کا جواب دینا قیامت تک جائز اور مسنون عمل ہے*

جیسا کہ احادیث میں آیا ہے،

📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں سلام کا جواب دینا
حدیث نمبر: 927
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ الدَّامِغَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا نَافِعٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ لِبِلَالٍ:‏‏‏‏ كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ هَكَذَا:‏‏‏‏ وَبَسَطَ كَفَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ.
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال ؓ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ  ﷺ  کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ  ﷺ  کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال ؓ کہا: آپ  ﷺ  اس طرح کر رہے تھے، اور بلال ؓ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔  
تخریج دارالدعوہ:
سنن الترمذی/ الصلاة ١٥٥ (٣٦٨)، (تحفة الأشراف: ٢٠٣٨، ٨٥١٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/١٢) (حسن صحیح  )

📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں اشارہ کرنا
حدیث نمبر: 368
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِبِلَالٍ:‏‏‏‏ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏  كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ صُهَيْبٍ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِبِلَالٍ:‏‏‏‏ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ حَيْثُ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً، ‏‏‏‏‏‏وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُهَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَى عَنْهُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيعًا.
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ  میں نے بلال ؓ سے پوچھا کہ نبی اکرم  ﷺ  صحابہ کو جب وہ سلام کرتے اور آپ نماز میں ہوتے تو کیسے جواب دیتے تھے؟ تو بلال نے کہا: آپ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے جواب دیتے تھے۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اور صہیب کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف لیث ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے بکیر سے روایت کی ہے اور یہ زید ابن اسلم سے بھی مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال سے پوچھا: نبی اکرم  ﷺ  کس طرح جواب دیتے تھے جب لوگ مسجد بنی عمرو بن عوف میں آپ کو سلام کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اشارے سے جواب دیتے تھے۔ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے کہ صہیب ؓ کا قصہ بلال ؓ کے قصے کے علاوہ ہے، اگرچہ ابن عمر ؓ نے ان دونوں سے روایت کی ہے، تو اس بات کا احتمال ہے کہ انہوں نے دونوں سے سنا ہو۔  
تخریج دارالدعوہ:
  سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٠ (٩٢٥)،  ( تحفة الأشراف: ٢٠٣٨)، مسند احمد (٦/١٢) (صحیح)  
قال الشيخ الألباني:  صحيح، ابن ماجة (1017)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 368

*اگر مسجد میں یا نمازی کو سلام کہنا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کو ضرور بالضرور سلام کہنے سے روک دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو مسجد میں نمازیوں کو سلام کہنے سے نہ روکنا ،بلکہ ہاتھ کے اشارے سے جواب دینا مسجد میں نمازیوں کو سلام کہنے اور ہاتھ کے اشارے سے جواب دینے کے جائز اور مسنون ہونے کی صریح دلیل ہے*

📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں سلام کا جواب دینا
حدیث نمبر: 925
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صُهَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِفَرَدَّ إِشَارَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ إِشَارَةً بِأُصْبُعِهِ. وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ.
ترجمہ:
صہیب ؓ کہتے ہیں کہ  میں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے إشارة بأصبعه  کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ  ﷺ  نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
   تخریج دارالدعوہ:
( سنن الترمذی/الصلاة ١٥٩ (٣٦٧)،
(سنن النسائی/السھو ٦ (١١٨٧)،
(تحفة الأشراف: ٤٩٦٦)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٩ (١٠١٩)،
(مسند احمد (٤/٣٣٢)،
( سنن الدارمی/الصلاة ٩٤ (١٤٠١) (صحیح  )

📚سنن ابن ماجہ
کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ
باب: نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ کیسے جواب دے ؟
حدیث نمبر: 1018 
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَدْرَكْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ دَعَانِي فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ سَلَّمْتَ عَلَيَّ آنِفًا وَأَنَا أُصَلِّي.
ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے تحت بھیجا، جب میں واپس آیا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے اشارے سے جواب دیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو مجھے بلایا، اور پوچھا:  ابھی تم نے مجھے سلام کیا، اور میں نماز پڑھ رہا تھا   ١ ؎۔  
تخریج دارالدعوہ:
  صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٤٠)، سنن النسائی/السہو ٦ (١١٩٠)، (تحفة الأشراف: ٢٩١٣)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٣٣٤) (صحیح  )  
وضاحت: 
١ ؎: یہ آپ  ﷺ نے اس لئے فرمایا کہ جابر ؓ کو جواب نہ دینے کی وجہ معلوم ہوجائے اور ان کے دل کو رنج نہ ہو، سبحان اللہ آپ کو اپنے صحابہ ؓ کا کس قدر خیال تھا۔

📚ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے جواب دیا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’پہلے ہم نماز میں سلام کا (جواب میں وعلیکم السلام) کہتے تھے پھر ہم اس سے روک دیئے گئے‘‘۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، ح:2917)
(المعجم الاوسط للطبرانی، ح8871)

📚محدث ابن خزیمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان احادیث کو بیان کیا ہے اور اس پر یوں عنوان قائم کیا ہے: “نمازی کو اگر دورانِ نماز سلام کیا جائے تو اسے اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی اجازت ہے۔”
(ابن خزیمہ،ص49،ج2)

*ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اشارے کو جوابی سلام ہی سمجھا، اسے کسی دوسرے ردعمل پر محمول کرنا بعید از قیاس ہے*

📚 چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ
  انّ عبداللہ بن عمر علی رجل،و ھو یصلی، فسلّم علیہ فرّدّ الرجل کلاماًً ،فرجع الیہ عبداللہ بن عمر ،فقال لھ: اذا سلّم علی احد کم ،وھو یصلی ،فلا یتکلّم ولیشر بیدہ۔۔ 
ابن عمر رضی اللہ عنھما  ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کہا تو اس نے سلام کا جواب زبان سے کہا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف لوٹ کر آئے اور فرمایا: “جب دورانِ نماز کسی کو سلام کہا جائے تو اس کا جواب زبان سے نہ دے بلکہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے۔
(الموطا،قصر الصلوٰۃ فی السفر،:406)
(مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/٧٤،ح : ٤٧٤٩،اسنادہ صحیح کالشمس وضوحاًً )

📚ان عطأ أنّ موسٰی بن عبداللہ بن جمیل الجمحی سلّم علی ابن عبّاس،و ھو یصلی ،فأ خذہ بیدہ
عطأ بن ابی رباح رحمہ اللّہ بیان کرتے ہیں کی موسٰی’’ بن عبداللہ بن جمیل جمحی نے سید نا ابن عباس ؓ کو سلام کہا ، آپ نماز میں تھے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا (یہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب تھا۔) 
(الشمس الکبری للبیھقی٢/٢٥٩،مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٧٣، سندہ صحیح)

📚عن ابی مجلز،سٔل عن الرّجل یسلّم علیہ فی الصّلاۃ قال؛ یردّ بشق رأسہ الایمن۔: 
‘‘ابو مجلز ( لاحق بن حمید تابعی ) رحمہ اللہ سےایسے نمازی کے بارے میں سوال کیا گیا ،جس کو سلام کہا جائے،آپ نے فرمایا ،وہ اپنے سر کی دائیں جانب کے ساتھ ( اشارہ کرتے ہوے) جواب لوٹائے- 
 (مصنف ابن ابی شیبہ ٢/٧٣،ح: ٤٨٥،و سندہ صحیح )

📚امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان شأ أشارہ و أ مّا بالکلام فلا یردّ ۔ 
نمازی اگر چاہے تو اشارے سے سلام کا جواب دے دے ،لیکن زبان سے کلام کر کے جواب نہ لوٹائے 
( مسائل احمد لابی داوّد : ص ٣٧،مسائل احمد لابی ھانی ١/٤٤)

*بعض لوگ صحیح بخاری کی روایت کو دلیل بنا کر کہتے ہیں کسی کو دوران نماز سلام کہنا یا جواب دینا منع ہے*

📒امام بخاری نے ایک روایت کو اس عنوان کے تحت ذکر کیا ہے کہ
“نماز میں سلام کا جواب (زبان سے) نا دے”

📚اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب وہ حبشہ سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا اور آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اس کا جواب نہ دیا اور فرمایا کہ نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر:1216)

📒حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے نہیں بلکہ اشارہ سے اس کا جواب دیا۔
(فتح الباری،ص95،ج3)

📒چنانچہ امام بخاری نے آئندہ ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
“نماز میں اشارہ کرنا”
(صحیح بخاری،السھو،باب:9)

اس مقام پر متعدد احادیث پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دورانِ نماز کسی وجہ سے اشارہ کیا جا سکتا ہے جب دیگر اغراض کے پیش نظر اشارہ کیا جا سکتا ہے تو جوابی سلام کے لیے بھی اشارہ ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا نماز کی مصروفیت کے منافی نہیں،جیسا کہ اوپر بہت سی احادیث میں وضاحت گزر چکی ہے،

📚اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نماز میں مصروفیت والی حدیث ابن مسعود میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے: “سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ ایسے موقع پر کیا کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں دل میں جواب دیتا ہوں۔”
(بخاری،مناقب الانصار:3875)

جب دل میں جواب دینا نماز کی مصروفیت نہیں تو اشارہ سے جواب دینا کیوں منافی ہو سکتا ہے بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان قطعا یہ نہیں کہ دورانِ نماز سرے سے سلام کا جوب نہ دیا جائے بلکہ زبان سے جواب دینے پر پابندی ہے

📒جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت سے لکھا ہے: یہ ضروری نہیں کہ سلام کا جواب دوران نماز اشارہ سے ہی دیا جائے۔ کیونکہ یہ تو ایک رخصت ہے اگر کوئی اس فرض کی ادائیگی کو سلام پھیرنے تک مؤخر کر دے تو بھی جائز ہے، سلام پھیرنے کے بعد وہ زبان سے اس کا جواب دے دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو سلام پھیرنے کے بعد جواب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں دورانِ نماز بھی جواب دے سکتا تھا لیکن نماز کی ادائیگی (زبان سے جواب دینا) اس کے منافی تھی۔
(صحیح بخاری،العمل فی الصلوۃ:1217)
(فتح الباری ج3،ص96)

📒علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور اہل علم کا یہی موقف بیان کیا ہے کہ دورانِ نماز اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
(نیل الاوطار،ص363،ج2)

آخر میں ہم سلام کہنے والوں کو بھی یہ نصیحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ کڑک کر سلام کہنے کی بجائے نہایت شائستگی کے ساتھ آہستہ آواز میں سلام کہیں تاکہ دیگر نمازیوں کے لیے تشویش کا باعث نہ ہو۔

📒چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے درج ذیل جواب دیا:
“اگر کوئی نمازی اشارے سے سلام کا جواب اچھے طریقے سے دے سکتا ہے تو اسے سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تھے اور آپ اشارہ سے اس کا جواب بھی دیتے تھے لیکن اگر وہ اچھے طریقے سے جواب نہیں دے سکتا بلکہ خدشہ ہے کہ وہ بول پڑے گا تو اسے اس حال سے دوچار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی یا اسے سلام کا جواب دینے کا فریضہ ترک کرنا پڑے گا۔
(مجموع الفتاویٰ،ص625،ج22)

اس اندیشہ کے پیشِ نظر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نمازی کو سلام کہنا پسند نہیں کرتے تھے،

📚عن ابی سفیان،قال؛ سمعت جابر ارضی رضی اللّہ عنہ یقول: ما أحبّ أن أسلّم علی الرّجل ، و ھو یصلّی ،و لو سلّم علّی لرد د تّ علیہ۔
ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے سید نا جابر بن عبد اللّہ الانصاری رضی اللّہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، میں نمازی پر سلام کہنا پسند نہیں کرتا، لیکن اگر اس نے مجھے سلام کہہ دیا تو میں اس کا جواب لوٹاوں گا۔”
( شرح معانی الآ ثا ر للطحا وی ١/٤٥٧،اسنادہ حسن)

📒بہرحال زیر بحث مسئلہ میں افراط و تفریط سے اجتناب کرنا چاہئے، اگر کوئی شخص کسی نمازی کو سلام کہنا چاہتا ہے تو آہستگی کے ساتھ سلام کہہ دے تاکہ اس کا خشوع متاثر نہ ہو اور دورانِ نماز اس کا جواب اشارہ سے دے یا اسے سلام پھیرنے تک مؤخر کر کے بعد از فراغت جواب سلام کہہ دے۔ اس مسئلہ کے متعلق علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ،ص360،ج1)

*ان تمام واضح ، صریح اور صحیح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا جا سکتا ہے۔ خواہ تمام لوگ نماز میں مصروف ہوں یا تلاوت میں، اور نماز پڑھنے والے اشارہ سے جواب دے سکتے ہیں اور نماز کے دوران بول کر وعلیکم السلام کہنا منسوخ ہو چکا ہے*

*اس حوالے سے چند ایک ضعیف روایات*

📚سأل سلیمان بن موسی عطا ٔ: اسأ لت جابرا عن الرّجل یسلّم علیک ،و انت تصلّی فقال: لا ترد علیہ حتی تقضی صلاتک ؟ فقال: نعم! 
” سلیمان بن موسی بن عطأ بن ابی رباح سے سوال کیا کہ آپ نے سید نا جابر رضی اللّہ عنہ سے ایسے انسان کے بارے میں پوچھا ہے ،جو حالت نماز میں آپ پر سلام کہے اور سیدنا جابر رضی اللّہ عنہ نے یہ فرمایا  تھا کہ اس پر سلام مت کہو،یہاں تک کہ نماز پوری کر لو؟اس پر عطأ بن ابی ریاح رحمہ اللہ نے فرمایا،ہاں! ( میں نے سوال کیا تھا اور انہوں نے یہ جواب دیا تھا۔ )
( شرح معانی الآثار للطحا وی ١/٤٥٧)۔

📒تبصرہ
لیکن یہ روایت ” ضعیف”  ہے ،اس کے ایک راوی علی بن زید کے بارے میں امام ابن یونس مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تکلمو فیہ۔ محدثین نے اس بارے میں کلام (جرح) کی ہے۔”
(لسان المیزان لابن حجر ٣/٣٣٠)

اس  جرح کے برعکس اس بارے میں کوئی ”توثیق” ثابت نہیں ہے، اور پھر صحیح مسلم و دیگر روایات کے بھی خلاف ہے یہ اثر،

📚سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّہ  صلی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا :
من اشارۃ فی الصلاتھ اشارۃ تفہم عنہ، فلیعد لھا۔
جو آدمی اپنی نماز میں ایسا اشارہ کرے،جو اس کی طرف سمجھ لیا جائے وہ اپنی نماز دہرائے۔ ”
(سنن ابی دائود ٩٤٤،سنن الدارقطنی: ٢/٨٣،شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٣  )

📒تبصرہ
یہ حدیث ”ضعیف” ہے، اس میں محمد بن اسحاق ( حسن الحدیث ،ثقہ الجمہور) مشہور ”مد لس” ہیں،جو کہ بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں ملی، پھر یہ ”صحیح” احادیث کے خلاف بھی ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دوران نماز سلام کا جواب اشارے سے دینا اور چند دیگر معاملات کیلئے اشارہ کرنا بھی ثابت ہے،

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے “سوال_کیا مسجد میں داخل ہونے والا شخص سلام کہہ سکتا ہے۔۔؟خصوصاً جب لوگ نماز یا قرآن پڑھ رہے ہوں۔۔۔؟

  1. حضرت امیر معاویہؓ نے رومی بادشاہ کے جواب میں لکھا:اُورُومی کتے!ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاؤ،اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رخ کیا تو علیؓ کے لشکر کا پہلا سپاہی جو تمہارے مقابلے کے لئے نکلے گا وہ معاویہ ہوگا
    حوالہ بتا دیں شکریہ

    1. رومیوں نے جب دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ گرم ہے تو انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت امیر معاویہ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور ان کو خط لکھا کہ ہم علی کے مقابلے میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں ، تمہارا پیغام ملنے کی دیر ہے ہم اپنا لشکر تمہاری مدد کے لئے فورا روانہ کر دیں گے۔
      حضرت امیر معاویہ نے رومی بادشاہ کے جواب میں لکھا:
      او روی کتے! ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاؤ،اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رخ کیا تو علی کے لشکر کا پہلا سپاہی جو تمہارے مقابلے کے لئے نکلے گا وہ معاویہ ہوگا.

      (البداية والنهاية ج ١١ص٤٠٠)

اپنا تبصرہ بھیجیں