900

سوال-کیا رمضان میں فوت ہونے والوں کو جنت کی بشارت ملی ہے؟ کہ جو شخص رمضان میں فوت ہو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-336″
سوال-کیا رمضان میں فوت ہونے والوں کو جنت کی بشارت ملی ہے؟ کہ جو شخص رمضان میں فوت ہو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے؟

Published Date:17-05-2020

جواب :
الحمدللہ:

*رمضان کے فضائل کے حوالے سے بہت سی من گھڑت باتوں کی طرح ایک یہ بات بھی لوگوں میں مشہور ہے کہ رمضان میں فوت ہونے والے سیدھے جنت میں جاتے ہیں،ان سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جاتا،*

*جبکہ یہ بات کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور ایسے تمام دلائل کمزور اور من گھڑت ہیں*

آئیے ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں،

📚پہلی دلیل
حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کہ نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: ”جسکو رَمَضان کے اختِتام کے وَقت موت آئی وہ جنّت میں داخِل ہوگا اور جسکی موت عَرَفہ کے دن (یعنی ٩ ذُوالحجّۃُ الحرام ) کے خَتْم ہوتے وَقت آئی وہ بھی جنّت میں داخِل ہوگااور جسکی موت صَدَقہ دینے کی حالت میں آئی وہ بھی داخِلِ جنّت ہوگا۔ ”
(حِلْیۃُ ا لْاولیَاء ،ج٥،ص٢٦،حدیث٦١٨٧)

🚫تبصرہ
یہ روایت مکمل سند کے ساتھ یہ ہے،

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا عبدالله بن محمد ثنا ابن سعيد الواسطي ثنا محمد بن حرب الواسطي ثنا نصر بن حماد ثنا همام ثنا محمد بن جحادة عن طلحة بن مصرف قال سمعت خيثمة بن عبدالرحمن يحدث عن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من وافق موته عند انقضاء رمضان دخل الجنة ومن وافق موته عند انقضاء عرفة دخل الجنة ومن وافق موته عند انقضاء صدقة دخل الجنة غريب من حديث طلحة لم نكتبه إلا من حديث نصر عن همام
[حلية الأولياء 5/ 23]۔

*یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ”نصر بن حماد بن عجلان” ہے اور یہ متروک ہے*

📒امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
متروك الحديث
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 470]۔

بلکہ بعض محدثین نے تو اسے کذاب کہاہے چنانچہ:

📒امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
كذاب
[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 300 واسنادہ صحیح]۔

📚دوسری دلیل
اُمُّ الْمُؤ منین سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ ہے: ”جس کا روزہ کی حالت میں اِنْتِقال ہوا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسکو قِیامت تک کے روزوں کا ثواب عطا فرماتا ہے۔”
(الفردوس بماثورالخطاب ،ج٣،ص٥٠٤،حدیث٥٥٥٧)

🚫تبصرہ
یہ روایت مکمل سند کے ساتھ کچھ اس طرح ہے،

📒امام أبو منصور الديلمي رحمه الله (المتوفى558)نے کہا:
أخبرناه الامام والدي رحمه الله، أخبرناعبدالملک بن عبدالغفاربن البصري، حدثنا بشري الفاتني، أخبرنا عمربن محمدبن سيف، حدثناالحسن بن علي بن الحسن القطان،حدثنا محمدبن عبدالله بن بشر أبوالفضل، حدثنا اسماعيل بن بشربن خالد الهلالي، حدثنا عمروبن الحصين،حدثناأرطاة بن أرطاة عن هشام بن عروه عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من مات صائما أوجب الله له الصيام إلى يوم القيامة
[ بحوالہ فردوس الأخبار رقم 9567]۔

*یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ’’عمرو بن الحصين‘‘ ہے اور یہ متروک ہے*

📒حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عمرو بن الحصين العقيلي بضم أوله البصري ثم الجزري متروك
[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5012]۔

📚تیسری دلیل
حضرت سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ،”یہ رمضان تمہارے پاس آگیا ہے ،اس میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جا تے ہیں اور جہنَّم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ،محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفِرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفِرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی ؟
(مجمع الزوائد ،ج ٣ ،ص ٣٤٥،حدیث ٤٧٨٨ )

🚫تبصرہ
اس روایت کی مکمل سند متن یہ ہے،

📒امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: «هَذَا رَمَضَانُ قَدْ جَاءَ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، بُعْدًا لِمَرْءٍ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، إِذَا لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِيهِ فَمَتَى؟!».
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى الرَّقَاشِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ.
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 3/ 143]

ایک جگہ پر یہ ہے،

📒امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمَرْزُبَانِ الْأَدَمِيُّ، نَا نُوحُ بْنُ أَنَسٍ الْمُقْرِئُ الرَّازِيُّ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عِيسَى الرَّقَاشِيِّ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هَذَا رَمَضَانُ قَدْ جَاءَ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ وَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، إِذَا لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِيهِ فَمَتَى؟»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ ”
[المعجم الأوسط للطبراني: 7/ 323]۔

*یہ روایت بھی ضعیف ہے،*

📒امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے بعد خود اس کی سند کے ایک راوی
’’الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى الرَّقَاشِيُّ،‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اور دوسری بات اس میں رمضان میں فوت ہونے والے کے لئے مغفرت کی بات نہیں ہے

*واضح رہے کہ شیطان کے قید ہونے والی بات دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے*

📚چوتھی دلیل
جو خوش نصیب مُسلمان ماہِ رَمَضان میں اِنْتِقال کرتا ہے اُس کو سوالاتِ قَبْر سے اَمان مِل جاتی ، عذابِ قَبرسے بچ جاتا اور جنّت کا حَقدار قرار پاتا ہے۔چُنانچِہ حضراتِ مُحَدِّثین کِرام رحمَہم اللّٰہُ المبین کاقَول ہے، ”جو مؤمِن اِس مہینے میں مرتا ہے وہ سیدھا جَنّت میں جاتا ہے،گویا اُس کے لئے دوزخ کا دروازہ بند ہے۔ ”
(انیسُ الواعِظِین ،ص٢٥)

🚫تبصرہ
محدثین کی طرف یہ قول غلط منسوب کیا گیا ہے انیس الواعظین معلوم نہیں کس کی کتاب ہے اس نام کی کتاب ایک شیعہ کی بھی ہے اگر اسی کتاب سے یہ منقول ہے تو اہل تشیع کی کتب کا کوئی اعتبار نہیں ۔
مزید یہ کہ یہ بات بے دلیل ہے۔

*خلاصہ کلام یہ کہ رمضان میں وفات پانے والے کی فضیلت سے متعلق ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے۔ نہ تو پیش کردہ احادیث میں سے کوئی صحیح ہے اور نہ ہی اس سلسلے کی دیگر روایات میں سے کوئی صحیح ہے*

_________&_________

📒سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ

سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جب رمضان آ جائے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے) تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص رمضان میں فوت ہو گا وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائے گا؟

📚جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ

الحمد للہ:

“نہیں معاملہ ایسے نہیں ہے، اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جنت کے دروازے نیکیاں کرنے والوں کو مزید سرگرم رکھنے کیلیے کھول دئیے جاتے ہیں، تا کہ ان کے لیے جنت میں داخلہ ممکن ہو، اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ؛ کیونکہ اہل ایمان گناہ سے دور ہوتے ہیں اور تا کہ اہل ایمان ان دروازوں سے داخل نہ ہوں۔ اور اس کا معنی یہ بالکل نہیں ہے کہ جو بھی رمضان میں فوت ہو گا وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گا۔ جنت میں بغیر حساب کے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ وہ لوگ ہیں جو دم کا مطالبہ نہیں کرتے، اپنے جسموں پر داغ نہیں لگواتے، وہ فال نہیں نکالتے اور وہ اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں) اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام کام بھی کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان پر واجب کیے ہیں” ختم شد

(فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ
ماخوذ از: فتاوی اسلامیہ: (2/162)

*اللہ پاک صحیح معنوں میں دین اسلام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین*

(((واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)))

📚کہا جاتا ہےکہ جب کوئی آدمی جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن فوت ہوجائے تو اللہ عزوجل اس سے قیامت تک کا عذاب ہٹا لیتا ہے، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ اور صحیح حدیث سے ثابت ہے؟

((جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-264))

📲اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📝آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📖سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.یا آفیشل ویب سائٹ سے تلاش کریں،

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل فیس بک پیج

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں