682

سوال_مصیبتوں اور وبائی امراض جیسے کرونا وائرس وغیرہ سے بچنے کیلئے شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ نیز ایسی کونسی مسنون دعائیں اور اعمال ہیں جو کہ وبائی امراض اور مصیبتوں سے بچاؤ کے لیے مفید ہیں ؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-326″
سوال_مصیبتوں اور وبائی امراض جیسے کرونا وائرس وغیرہ سے بچنے کیلئے شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ نیز ایسی کونسی مسنون دعائیں اور اعمال ہیں جو کہ وبائی امراض اور مصیبتوں سے بچاؤ کے لیے مفید ہیں ؟

Published Date: 26-3-2020

جواب:
الحمد للہ:

*دین اسلام ایک کامل دین ہے، جو نا صرف عقیدہ اور عبادات کے بارے بتلاتا ہے بلکہ زندگی گزارنے کے تمام اصولوں پر ہماری رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا تجارت ہو ،وہ تعلیم ہو یا روزگار ہو، وہ ملازمت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا معیشت، وہ بیماری ہو یا علاج ہو، حتی کہ انسان کی پیدائش سے لیکر اسکے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے تک اور پھر زندگی گزارنے سے لیکر قبر میں جانے تک اور قبر کی برزخی زندگی سے لیکر جنت/جہنم کی ہمیشہ والی زندگی تک ہر ایک عمل پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے،*

📚جیسا کہ ابو ذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
لَقَدْ تَرَكَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُحَرِّكُ طَائِرٌ جَنَاحَيْهِ فِي السَّمَاءِ إِلَّا أَذْكَرَنَا مِنْهُ عِلْمًا.
بیشک ہمیں رسول صلی اللہ علییہ وسلم نے چھوڑا تو آسمان میں اگر کوئی پرندہ بھی اپنا پر ہلاتا ہے تو اس کا بھی علم ہمیں دے کر گئے،
(مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ | حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حدیث نمبر-21361)
(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند ٢١٣٦١ • حسن)
(دیکھیں مجمع الزوائد ( 8 / 263 ) ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اسے طبرانی نے روایت کیا اورمحمدبن عبداللہ بن یزيد المقری جو کہ ثقہ ہے کے علاوہ اس کے رجال صحیح ہيں)

*سبحان اللہ یعنی شریعت ہماری ہر ایک معاملے میں رہنمائی کرتی ہے،اور رہنمائی بھی ایسی کرتی ہے کہ دنیا جہاں میں جدید ترین ٹیکنالوجی بھی اس دین اسلام کی ہدایات کی محتاج رہتی ہے،ایسے ہی وبائی بیماریوں کے بارے بھی شریعت ہماری بہت اچھےسے رہنمائی کرتی ہے،*
_______&__________________

اول_
*احتیاطی تدابیر*

جیسا کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس یہ کہتی ہے کہ وبائی بیماریوں پر قابو پانے کیلے سب سے پہلی اور ضروری چیز احتیاط ہے،یہی بات صاحب شریعت نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے فرما دی تھی، کہ بیماریوں سے بچنے کیلئے احتیاط برتو،

📚 ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا،
لَا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ”
ترجمہ: کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5771)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2221)

📚ایک دوسری حدیث میں رسول ﷺ نے فرمایا کہ:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ
ترجمہ: جذامی (یعنی کوڑھ والے) شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو”
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 5707)

📚سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
لَا تُدِیْمُوْا اِلَی الَمَجْذُوْمِیْنَ النَّظْرَ
جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالا کرو۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3543)

*یہی نہیں بلکہ جذامی کی بیماری کے جراثیموں سے بچنے کے لئے حضور اکرم ﷺ نے ان سے ایک نیزہ کے فاصلہ سے بات چیت کرنے کی تاکید فرمائی ہے*

📚حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
“لَا تُدِيمُوا النَّظَرَ إِلَى الْمُجَذَّمِينَ، وَ إِذَا كَلَّمْتُمُوهُمْ فَلْيَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ قِيدُ رُمْحٍ
ترجمہ : جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے
(مسند احمد حدیث نمبر-581)
🚫(یہ حدیث ضعیف ہے،)

*یہ شائید اس لئے کہ جب آدمی بات کرتا ہے تو اس کے منہ سے تھوک کے چھینٹے نکلتے ہیں جس میں بیماری کے کافی جراثیم موجود ہوتے ہیں یہ جب مخاطب کے اوپر پڑیں گے تو مخاطب کو بھی بیماری میں مبتلا کر سکتے ہیں،البتہ مسند احمد والی روایت ضعیف ہے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود کا عمل ایک حدیث میں موجود ہے،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مریض سے قربت پسند نہیں کی، بلکہ دور سے ہی اسے واپس بھیج دیا*

📚امام مسلم رحمہ اللہ نے عمرو بن الشريد سے بيان كيا ہے وہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ:
” قبيلہ ثقيف كے وفد ميں ايك شخص جذام كا مريض تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو پيغام بھيجا كہ
” إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ ”
تم ہم سے بيعت كر چكے ہو لہذا واپس چلے جاؤ ”
(صحيح مسلم حديث نمبر2231 )

*یعنی جو جذام کا مریض بیعت کرنے آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دور سے ہی واپس بھیج دیا کہ بس بیعت ہو گئی واپس چلے جاؤ، تا کہ اسکی بیماری کے اسباب سے محفوظ رہا جائے، یعنی احتیاط اختیار کی وہ قریب آئے گا تو عین مممکن ہے اسکی بیماری ہمیں بیمار کرنے کا سبب نا بن جائے،*

*اور پھر صرف بیمار شخص سے دور رہنے کا نہیں بلکہ بعض متعدی بیماری والے علاقوں کی طرف سفر کرنے سے بھی منع کیا گیا کہ جہاں کوئی وبا پھیل چکی ہو*

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا
ترجمہ:
کہ جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5728)

*یہی بات آج کی سائنس کہتی ہے،کہ طاعون، کرونا وائرس اور اس طرح کی دوسری وبائی امراض سے بچنے کیلے سب زیادہ احتیاط ضروری ہے کہ وبا والے علاقوں میں نا جائیں اور جہاں وبا پھیل چکی ہو وہاں سے نکلیں بھی نا،اور اس طرح کے متعدی امراض والے شخص سے دور رہا جائے، جس قدر ممکن ہو احتیاط برتی جائے، اس طرح اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے،*

_____________&__________

دوم_
*مسنون دعاؤں/اذکار کا اہتمام*

بیماریوں اور پریشانیوں سے بچنے کیلے حسب عادت بہت سے عامل حضرات من گھڑت وظیفے چلے لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں،اور لوگ بھی ڈر مصیبت اور خوف کیوجہ سے ان غیر مسنون چلوں پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں،حالانکہ ہمیں ان غیر مسنون وظائف کی ضرورت نہیں، کیونکہ سنت مطہرہ میں ایسی بہت سی احادیث ہیں جو مسلمان کو ایسے مسنون اذکار اور دعاؤں پر پابندی کی ترغیب دلاتی ہیں جو انسان کو تکالیف، نقصان اور ہر قسم کی منفی سرگرمی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، ان دعاؤں کے عموم میں مختلف قسم کی تمام بیماریاں اور وبائی امراض شامل ہیں، ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

📚عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص بھی کہے:
بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے]
جس نے یہ دعا صبح کے وقت تین بار پڑھی تو شام تک اسے کوئی بھی ناگہانی آفت نہیں پہنچے گی ۔”
(سنن ابو داود حدیث نمبر-5088)

📚سنن ترمذی میں اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں: جو شخص بھی یہ کلمات
بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
[ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے]
صبح اور روزانہ شام کے وقت کہتا ہے تو کوئی بھی چیز اسے نقصان نہیں پہنچاتی۔”
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3388)

📚سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: “اللہ کے رسول! مجھے رات کو بچھو کے کاٹنے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی” تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(اگر تم شام کے وقت کہہ دیتے کہ:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ [ترجمہ: میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اس کی تمام تر مخلوقات کے شر سے]
تو تمہیں وہ نقصان نہ پہنچاتا)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2709)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-3899)

📒علامہ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تمام مخلوقات کے ہر قسم کے شر سے تحفظ اور عافیت پانے کے ساتھ ساتھ پر امن رہنے کے لیے انسان اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ صبح اور شام تین تین بار اللہ تعالی سے مانگے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ جو شخص بھی صبح کے وقت تین بار ان الفاظ کو پڑھے تو اس کو شام تک کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچاتی، اور جو شخص شام کے وقت پڑھ لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی۔
تو قرآن و سنت سے ثابت یہ تمام اذکار ہر قسم کی برائی، شر اور تکلیف سے تحفظ کا باعث ہیں۔
اس لیے ہر مومن مرد اور عورت کو ان اذکار کی مقررہ اوقات میں پابندی کرنی چاہیے، نیز انہیں پڑھتے ہوئے اللہ تعالی پر مکمل اعتماد ہو اور قلبی طور پر مطمئن بھی ہو کہ اللہ تعالی ہی ہر چیز کو قائم رکھے ہوئے ہے، وہی ہر چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے، اور ہر چیز پر قادر بھی ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی پروردگار ہے، اسی کے ہاتھ میں نفع و نقصان کا کامل اختیار ہے، اور وہی ہر چیز کا مالک ہے۔”
(فتاوى الشیخ ابن باز 3 / 454 ، 455 )

📚عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ہم ایک شدید اندھیری اور بارش والی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تلاش کرنے کے لیے نکلے کہ آپ ہمیں نماز پڑھا دیں تو ہم نے آپ کو تلاش کر لیا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ملتے ہی کہا: (کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟) تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کہو) تو میں نے کچھ نہ کہا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا: (کہو) میں نے پھر بھی کچھ نہیں کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری بار فرمایا: (کہو) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول میں کیا کہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(تم صبح اور شام کے وقت کہا کرو:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور اس کے ساتھ سورت الفلق اور سور،ة الناس تین تین بار پڑھا کرو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی۔)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3575)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-5082)

📚اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح یا شام کے وقت ان کلمات کی پابندی کیا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي،
[ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت طلب کرتا ہوں ۔ یا اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا، اور اہل خانہ سمیت اپنی املاک کے متعلق بھی معافی اور عافیت کا درخواست گزار ہوں ۔ یا اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔ اور مجھے میرے خدشات و خطرات سے امن عطا فرما ۔ یا اللہ ! میرے آگے ، میرے پیچھے ، میرے دائیں ، میرے بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں
(سنن ابو داود حدیث نمبر-5074)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3871)
شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح ابو دواد میں صحیح قرار دیا ہے۔”

📒الشیخ ابو الحسن مبارکپوری رحمہ اللہ اس دعا کی شرح میں کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ یعنی مطلب یہ ہے کہ: دینی امور میں آزمائشوں اور دنیاوی سختیوں سے سلامتی اور تحفظ کا طلب گار ہوں۔ اس کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیماری اور وبا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تیسرا معنی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ: اللہ تعالی ان بیماریوں میں مبتلا نہ کرے، اور اگر کر بھی دے تو اس پر صبر کرنے اور اللہ کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنے کی توفیق دے۔ لفظ ” الْعَافِيَةَ ” عربی زبان میں فعل ” عَافَى” کا مصدر ہےیا اسم ہے، اس کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب القاموس کہتے ہیں کہ: “عافیت: اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے تحفظ کو کہتے ہیں،
چنانچہ عربی جملہ: عَافَاهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْمَكْرُوْهِ عَفَاءً وَمُعَافَاةً وَعَافِيَةً اس وقت کہا جاتا ہے جب اللہ تعالی کسی بندے کو بیماریوں، بلاؤں اور تکالیف سے بچا لے، اس کا معنی عربی لفظ: “أَعْفَاهُ” جیسا ہے۔”
نیز اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ کا مطلب ہے: یا اللہ میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور ان سے در گزر کا مطالبہ کرتا ہوں۔
وَالْعَافِيَةَ یعنی عیوب سے پاکی۔
” فِي دِينِي وَدُنْيَايَ “یعنی دینی اور دنیاوی تمام امور میں ” ختم شد
(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ” ( 8 / 139 )

📚سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں عموماً یہ الفاظ شامل ہوتے تھے کہ:
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ
[ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے تیری نعمتوں کے زوال، تیری جانب سے عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2739)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-1545)

📒مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
“حدیث میں مذکور: وَتَحَوُّلِ کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کسی دوسری چیز سے جدا ہو جائے ؛ گویا کہ یہاں پر ہمیشہ کی عافیت اللہ تعالی سے مانگی گئی ہے، اور ہمیشہ کی عافیت کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی بیماری اور تکلیفیں نہ پہنچیں۔” ختم شد
(” فيض القدير 2 / 140 )

📒سنن ابو داود کے شارح علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حدیث میں وَتَحَوُّلِ العَافِيَة کا مطلب یہ ہے کہ: صحت بیماری میں بدل جائے اور دولت غربت سے بدل جائے۔” ختم شد
( عون المعبود شرح سنن أبي داود 4/283 )

📚سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَيِّئْ الْأَسْقَامِ
[ترجمہ: اے اللہ ! میں برص، پاگل پن ، کوڑھ اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں،
(مسند احمد: حدیث نمبر-13004)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-1554)
(سنن نسائی حدیث نمبر-5493)
البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

📒اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر بیماریوں سے پناہ نہیں مانگی؛ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ بیماریوں کی تکلیف کم ہوتی ہے لیکن اس بیماری پر صبر کی بدولت ملنے والا اجر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور وہ بیماریاں دائمی بھی نہیں ہوتیں بلکہ عارضی ہوتی ہیں، جیسے کہ بخار، سر درد، اور آنکھ درد وغیرہ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائمی بیماریوں سے پناہ مانگی ہے؛ کیونکہ انسان دائمی بیماری سے خود بھی تنگ آ جاتا ہے، اور دوست احباب بھی متنفر سے ہو جاتے ہیں، لوگ بات چیت اور علاج معالجے کے لیے بھی نہیں آتےاور انسان خود اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے۔”

(علامہ طیبی کی گفتگو عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ابو داود کی شرح “عون المعبود” میں ذکر کی ہے۔)

📚عبد الرحمن بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے کہتے ہیں کہ ابو جان! میں آپ کو ہر صبح یہ دعا پڑھتے ہوئے سنتا ہوں
» اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي، اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِي، اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ،
اے اللہ! تو میرے جسم کو عافیت نصیب کر، اے اللہ! تو میرے کان کو عافیت عطا کر، اے اللہ! تو میری نگاہ کو عافیت سے نواز دے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں،

آپ اسے تین مرتبہ دہراتے ہیں جب صبح کرتے ہیں اور تین مرتبہ جب شام کرتے ہیں؟،
تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی دعا کرتے ہوئے سنا ہے، اور مجھے پسند ہے کہ میں آپ کا مسنون طریقہ اپناؤں۔
(مسند احمد حدیث نمبر-20430)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-5090)
حكم الحديث: إسناده حسن في المتابعات والشواهد

*مذکورہ تمام مسنون دعائیں اور انکے علاوہ مزید صبح شام کے مسنون اذکار اور دعائیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں انکو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، تو ان شاءاللہ بہت سی بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہیں گے*

______________&___________________

سوم_
*گناہوں سے توبہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل*

احتیاطی تدابیر اور مسنون دعاؤں کے ساتھ ساتھ تیسرا کام یہ کریں کہ ان گناہوں سے توبہ کی جائے جو ان بیماریوں کا سبب بنتے ہیں،ان گناہوں سے سچی توبہ کر کے معاشرے میں امر بالمعروف و نہی المنکر کا کام کیا جائے یعنی لوگوں کو بھی ان گناہوں سے روکا جائے اور نیکی کی دعوت دی جائے تا کہ معاشرے سے ان گناہوں کا خاتمہ ہو جن کی وجہ سے یہ مصیبتیں،بیماریاں نازل ہوتی ہیں،

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی قوم میں اعلانیہ فحش ( فسق و فجور اور زناکاری ) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے,
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-4019)
اس سند میں خالد بن یزید ضعیف راوی ہے مگر دوسرے طرق سے یہ روایت حسن ہے
دیکھیں،
(مستدرک الحاکم حدیث نمبر-8623)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الصحيحة 106 • له طرق كلها ضعيفة إلا طريق الحاكم حسن الإسناد فهو العمدة )

📚تفسیر القرآن الکریم – سورۃ نمبر 8
الأنفال آیت نمبر 25
وَاتَّقُوۡا فِتۡنَةً لَّا تُصِيۡبَنَّ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡكُمۡ خَآصَّةً‌ ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ۞
ترجمہ:
اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا اور جان لو کہ بیشک اللہ بہت سخت سزا والا ہے۔

تفسیر:
وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا :
اس آئیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر ہمہ گیر عذاب بھیج دیتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

📚رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے گا، پھر تم اس سے دعا کرو گے مگر وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ “
[مسند احمد،حدیث نمبر23301)
وحسنہ شعیب أرنؤوط،

یعنی نیک لوگوں کے عمل میں سستی اختیار کرنے سے گنہگار بالکل ہی عمل چھوڑ بیٹھیں گے، تو رسم بد پھیلے گی، اس کا وبال سب پر پڑے گا۔

ایسا ایک تاریخی واقعہ بھی ملتا ہے،

📒ابن کثیر روایت کرتے ھیں کہ سن ٤٧٨ ہجری میں شام، عراق اور حجاز کے علاقوں میں طاعون کی وباء پھیلی. اس میں لوگوں کو سخت بخار ہونے سے انسان تو انسان بے شمار چوپائے اور یہاں تک کہ جنگلی جانور بھی ہلاک ہو گئے۔ بیماری کے ساتھ ساتھ دودھ اور گوشت کی صورت میں غذا کی شدید قلت ہوگئی. اس وباء کے ساتھ تیز گرم ہوائیں اور طوفان بھی آیا جس کی وجہ سے بے شمار درخت جڑوں سے ہی اکھڑ گئے. لوگوں کو ایسے محسوس ھوا کہ جیسے قیامت آ گئی ہو.
اس وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کیلئے اس وقت کے عباسی خلیفہ “المقتدی باامراللہ” نے حکم جاری کیا کہ :
“سب لوگ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم کریں اور گناہ سے روکیں.”
پھر ساز کے تمام آلات اور شراب کی تمام بوتلوں کو توڑ دیا گیا اور ریاست میں موجود تمام علی الا علان بدکاری کرنے والوں کو جلا وطن کر دیا گیا. ان اعمال کو اختیار کرتے ہی بیماری ازخود ختم ہو گئی.
حوالہ کتاب :
(البدایہ والنہایہ، ١٣ج/ص٢١٦)

*یہ ایک تاریخی واقعہ ہے،اسکی سند کا تو علم نہیں کہ صحیح ہے یا نہیں، لیکن اس میں جس بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے وہ حدیث سے ثابت ہے کہ چونکہ طاعون، اور کرونا وائرس جیسی وبائی بیماریاں بے حیائی اور فحاشی کے سبب سے پھیلتی ہیں جیسا کہ اوپر حدیث سے ثابت ہے، تو جب ان اسباب کو ختم کیا جائے جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کر کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل کیا جائے تو یقیناً ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے،*

__________&____________

چہارم_

*دواؤں سے بیماری کا علاج*

جس طرح آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام نے بیماری سے بچنے کے اسباب اختیار فرمائے، یعنی احتیاط اور دعائیں،اذکار وغیرہ اسی طرح آپ نے بیماری میں علاج بھی اختیار فرمایا ہے، یہ نہیں کہ بس تقدیر سمجھ کر انسان بیماری کا علاج ہی نا کروائے، کیونکہ جس طرح بیماری ایک تقدیر ہے اسی طرح اس کا علاج کرانا بھی تقدیر ہے،

جیساکہ ایک روایت میں آتا ہے:

📚 ایک بدو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ:”يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا نَتَدَاوَى”
یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم علاج کرایا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“نَعَمْ ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً””
ہاں! اے اللہ کے بندو علاج کرواؤ، کیوں کہ اللہ نے ہر بیماری کا لازماً علاج بھی پیدا کیا ہے۔
( مسند احمد حدیث نمبر- 18454)
صحیح

*یعنی احتیاط، دعاؤں اور گناہوں سے پرہیز کے باوجود اگر کسی کو کوئی بیماری لگ جائے تو پھر اسکا علاج کروائیں، یہ دوا لینا اور علاج کروانا بھی سنت ہے،*

_____________&____________

*اوپر ذکر کردہ یہ چاروں اعمال یا انکے علاوہ کوئی اور مسنون عمل ہو تو وہ بھی کر سکتے ہیں، مگر غیر مسنون طریقے جیسے آجکل اذانوں کا سلسلہ چلا ہوا، یا کوئی نماز توبہ کی جماعتیں کروا رہا اجتماع کی صورت میں، کوئی خوابوں کہانیوں کے وظیفے بتا رہا۔۔۔تو خدارا ایسے اعمال سے پرہیز کریں جو سنت سے ثابت نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دکھ سکھ میں جو طریقہ اپنایا ہے ہمیں بھی اسی سکھ دکھ میں ویسا ہی طریقہ اپنانا چاہیے نا کہ اپنی مرضی سے کسی حدیث کو کہیں فٹ کر لیں اور کسی کو کہیں اور پھر کہیں جی کہ حرج کیا ہے، بھائی سب سے بڑا حرج ہی یہ ہے کہ ہم نے سنت طریقہ کو چھوڑ دیا*

*اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں قرآن وحدیث کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور بدعات سے یمیشہ بچنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📒سوال:کیا انسان پر آنے والی مصیبتیں/بیماریاں اللہ کی طرف سے عذاب ہوتی ہیں؟ اور اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت/بیماری اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلئے ہے؟

((( دیکھیں آئیندہ سلسلہ نمبر-327 )))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://web.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں