1,270

سوال_کیا قبروں کو پکا بنانا،ان پر قبے/مزار بنانا اور نام وغیرہ کی تختیاں لگانا جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-21″
سوال_کیا قبروں کو پکا بنانا،ان پر قبے/مزار بنانا اور نام وغیرہ کی تختیاں لگانا جائز ہے؟
Published Date: 3-1-2018

جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!!!

*قبروں کو پکا کرنا، ایک بالشت سے اونچا کرنا،یا اوپر قبے مزار بنانا ہرگز جائز نہیں*

📚جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ. 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
قبر پر چونا گچ کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے،
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز-970)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3225)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1052)

📚علی رضی الله عنہ نے ابوالھیاج اسدی سے کہا:
أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ
میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہا ہوں جس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا: تم جو بھی ابھری قبر دیکھو، اسے برابر کئے بغیر اور جو بھی مجسمہ،(بت،تصویر) دیکھو، اسے مسمار کئے بغیر نہ چھوڑنا،
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،969)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3218)
(سنن نسائی،حدیث نمبر-2042)
(سن ترمذی،حدیث نمبر1049)

📚ثمامہ بن شفی کہتے ہیں،
كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِرُودِسَ مِنْ أَرْضِ الرُّومِ، فَتُوُفِّيَ صَاحِبٌ لَنَا، فَأَمَرَ فَضَالَةُ بِقَبْرِهِ فَسُوِّيَ، ثُمَّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِتَسْوِيَتِهَا. 
ہم سر زمین روم میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہاں ہمارا ایک ساتھی انتقال کر گیا تو فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس کی قبر کھودنے کا حکم دیا، پھر (انکو دفن کرنے کے بعد قبر ) برابر کر دی گئی، پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپﷺ اسے برابر کر دینے کا حکم دیتے تھے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3219)
(سنن نسائی،حدیث نمبر-2041)

قبر ’‘ برابر ’‘ ۔یا۔ ’‘ ہموار ’‘ کردینے سے مرادسطح زمین سے ہموار کردینا نہیں ،کیونکہ اس طرح تو قبر پاوں کے نیچے روندی جائے گی ،
برابر ۔۔کردینے سے مراد دوسری شرعی حد کے مطابق بنی قبروں کے ۔۔برابر ۔ کرنا ہے ۔

📒قال النووي رحمه الله في شرح مسلم : ” فِيهِ أَنَّ السُّنَّة أَنَّ الْقَبْر لَا يُرْفَع عَلَى الْأَرْض رَفْعًا كَثِيرًا , وَلَا يُسَنَّم , بَلْ يُرْفَع نَحْو شِبْر وَيُسَطَّح , وَهَذَا مَذْهَب الشَّافِعِيّ وَمَنْ وَافَقَهُ , وَنَقَلَ الْقَاضِي عِيَاض عَنْ أَكْثَر الْعُلَمَاء أَنَّ الْأَفْضَل عِنْدهمْ تَسْنِيمهَا وَهُوَ مَذْهَب مَالِك ” انتهى .
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: قبر زمين سے زيادہ اونچى نہيں كى جائيگى، اور نہ ہى كوہان كى شكل ميں بنائى جائيگى، بلكہ ايك بالشت اونچى اور برابر بنائى جائيگى، امام شافعى اور اس كى موافقت كرنے والوں كا مسلك يہى ہے، اور قاضى عياض نے اكثر علماء سے نقل كيا ہے كہ: ان كے ہاں افضل يہى ہے كہ قبر كوہان جيسى بنائى جائے، جو كہ امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك ہے ” انتہى.

📒وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله في “القول المفيد شرح كتاب التوحيد” : 
” قوله : ( ولا قبرا مشرفا ) : عاليا . 
قوله : ( إلا سويته ) . له معنيان : 
الأول : أي سويته بما حوله من القبور . 
الثاني : جعلته حسنا على ما تقتضيه الشريعة ، قال تعالى : ( الذي خلق فسوى ) ( الأعلى : 2 ) أي : سوى خلقه أحسن ما يكون ، وهذا أحسن ، والمعنيان متقاربان . 
یعنی شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ ” القول المفيد شرح كتاب التوحيد ” ميں كہتے ہيں:
” قولہ: ” اور نہ ہى كوئى اونچى قبر ” يعنى بلند قبر.
قولہ ” مگر اسے برابر كر دو ” اس كے دو معنى ہيں:
پہلا:
اسے اس كے ارد گرد والى قبروں كے برابر كر دو.
دوسرا:
تو اسے اس طرح صحيح درست كر دے جو شريعت كا تقاضا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ وہ جس نے پيدا فرمايا اور اسے صحيح سالم بنايا ﴾الاعلى ( 2 ).
يعنى: اس كى خلقت كو اچھى اور صحيح سالم شكل ميں بنايا، اور يہ ا حسن ہے، اور يہ دونوں معنے متقارب اور ايك دوسرے كے قريب ہيں.

📚جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا، وہ اٹھا نہ سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر ( راوی ) کہتے ہیں: مطلب نے کہا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مجھ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کی سفیدی جس وقت کہ آپ نے اسے کھولا دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اٹھا کر ان کے سر کے قریب رکھا اور فرمایا: میں اسے اپنے بھائی کی قبر کی پہچان کے لیے لگا رہا ہوں، میرے خاندان کا جو مرے گا میں اسے انہیں کے آس پاس میں دفن کروں گا،
(سنن ابو داؤد٬حدیث نمبر-3206)

*یعنی قبر کی پہچان کے لیے کوئی پتھر وغیرہ قبر کے پاس رکھ سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں!!*

📚نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبْنَى عَلَى الْقَبْرِ، أَوْ يُزَادَ عَلَيْهِ، أَوْ يُجَصَّصَ» زَادَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى: «أَوْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ہے ”یا اس پر لکھا جائے( یعنی آپ نے قبر پر لکھنے سے بھی منع فرمایا)
(سنن نسائی،حدیث نمبر-2029)

*سطح زمین سے صرف ایک بالشت قبر کو  بلند کیا جائے، اس سے زیادہ نہ ہو،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک ایسی ہی تھی*

📚چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قبر کو سطح زمین سے ایک بالشت بلند کیا جائے گا، تا کہ معلوم ہو کہ یہ قبر ہے، اس سے قبر کا احترام ہوگا، اور میت کیلئے دعائے رحمت کی جائے گی۔۔۔”انتہی
(المغنی “2/190)

اور “الموسوعة الفقهية ” (11/342)میں اسی بات پر فقہائے کرام کا اتفاق نقل کیا گیا ہے،

📒مفتی اعظم  شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“ہر صاحب استطاعت کیلئے ضروری ہے کہ وہ قبروں پر بنی ہوئی مساجد، گنبد، اور عمارتوں کو ہٹانے میں اپنا کردار ادا کرے، اور قبروں کو ایسے ہی کھلا رہنے دیا جائے جیسے بقیع کے قبرستان میں عہد نبوی میں اور ہمارے دور میں کھلی ہوئی ہیں، کہ قبریں کھلے آسمان تلے ہیں، ان پر کوئی مسجد، حجرہ، گنبد وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارت ، انہیں عبادت گاہ ، اور قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ عمل اہل قبور کے بارے میں غلو کاذریعہ ہے، جس سے خدشہ ہے کہ انکی اللہ کے ساتھ عبادت کی جائے گی۔
اسی طرح قبروں پر پیسوں، جانوروں، اور کپڑوں کی شکل میں نذرانے نہیں دئے جا سکتے، قبر پر مجاور یا خادم بھی نہیں رکھا جائے گا،لیکن قبرستان کی بیرونی جانب پوری دیوار بنائی جائے، تا کہ قبرستان کی بے حرمتی نہ ہو، اور جانور قبرستان میں داخل نہ ہوسکیں ، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے “اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا، 

(“فتاوى نور على الدرب” (1 / 271-272)
(مجموع فتاوى ابن باز” (13 / 244-245)

📒شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“قبرستان فوت شدگان کا علاقہ ہے، زندہ افراد وہاں نہیں رہتے کہ وہاں پر زیب و زیبائش کا کام کیا جائے، اور سیمنٹ پر مرثیے لکھے جائیں، قبرستان فوت شدگان کا علاقہ ہے، اس لئے قبرستان کو اسی حالت میں رکھا جائے جس حالت میں موجود ہے، تا کہ قبرستان کے پاس سے گزرنے والے لوگ نصیحت حاصل کریں، اور صحیح حدیث میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا کرتا تھا، اب زیارت کیلئے جایا کرو، بلاشبہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے)
اور اگر ہم نے لوگوں کیلئے قبروں کو پختہ بنانے، اور ان پر کتابت کرنے کی اجازت دے دی تو ان قبروں پر بھی فخر شروع ہوجائے گا، اور قبرستان زندہ افراد کیلئے نصیحت کی جگہ نہیں رہے گی، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے، اور اس پر عمارت کھڑی کرنے، قبر پر کتابت، اور قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معامالات سے منع فرمایا دیا جو قبروں کے بارے میں غلو کا سبب بن سکتے تھے، اسی طرح ایسے معاملات سے بھی منع فرمایا جن میں اہل قبور کی اہانت تھی، اس لئے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا “انتہی
(فتاوى نور على الدرب” (196 / 34)

*ان تمام احادیث اور فتاویٰ جات سے پتہ چلا کہ قبر کو پکا بنانا،اسکو چونا یا رنگ کروانا،اس پر نام،تاریخ یا قرآنی آیات کی تختی لگانا، سب ناجائز کام ہیں،*

*اور اس پر عمارت،مزار،قبہ بنانا اس سے بھی بڑا ناجائز عمل ہے، کیونکہ یہ مشرکین کا طریقہ تھا اور اس سے شرک کا دروازہ کھلتا ہے،*

*بلکہ شریعت اسلامیہ نے پکی قبروں،مزاروں کو توڑنے،گرانے کا حکم دیا ہے،*

*اور اسکی زندہ مثال سعودیہ ہے جہاں محمد بن عبدالوہاب کے دور میں پکی قبریں اور مزار گرائے گئے تو آج وہاں شرک کا نام و نشان تک نہیں رہا*

*اگر قبروں کو پکا بنانا اور ان پر مزار بنانے جائز ہوتے تو صحابہ کرام آپﷺ کی قبر کو سونے کا بناتے ،مگر آپ کی قبر مبارک کچی بنائی گئی جو آج بھی کچی ہے اور جنت البقیع میں صحابہ کرام کی قبریں بھی کچی ہیں،اور کوئی مزار نہیں بنایا گیا،*

*اور موجودہ روضہ رسول کی ابتدا بھی آپﷺ کی وفات کے تقریباً 650 سال بعد  ایک بادشاہ نے لکڑی سے رکھی جس میں وقتاً فوقتاً آنے والے بادشاہوں نے تبدیلی کی اور آخر پر ترک حکومت نے 18ویں صدی میں یہ سبز گنبد بنایا،*

*کہتے ہیں جی کہ یہ لوگوں کی جہالت ہے جو شرک کرتے، ہم تو نہیں کہتے وہ یہ کام کریں،*

*بھائی جب آپ نے انکی تربیت ایسی کی،انکو شرک کا اڈا بنا کر دے دیا اور پھر کوئی وہاں منع کرنے والا نہیں،کوئی سمجھانے والا نہیں تو کم علم والے تو مرضی کا کام کریں گے درباروں ساتھ، جب کہ علماء کہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی ہمہ وقت اصلاح کریں*

*ان مزاروں، قبوں نے خدا کی قسم مسلمانوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے، اور خاص کر جو آج کل کے گدی نشین ہیں ،جنکی ذمہ داری تھی لوگوں کی اصلاح وہ اپنی جیب بھر کر بلا روک ٹوک ہر شرکیہ کام کرنے کی اجازت دے رہے لوگوں کو..!!!* 😢

*یاد رہے شرک وہ گناہ ہے جو پچھلی ساری نیکیاں بھی برباد کر دیتا ہے،*

*اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے ،آمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں