926

سوال_پنجگانہ نمازوں میں، سنن فرائض،نوافل، مؤکدہ اور غیر مؤکدہ رکعات کی تعداد کتنی ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے تفصیل کے ساتھ بیان کریں!

سلسلہ سوال و جواب نمبر-304″
سوال_پنجگانہ نمازوں میں، سنن فرائض،نوافل، مؤکدہ اور غیر مؤکدہ رکعات کی تعداد کتنی ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے تفصیل کے ساتھ بیان کریں!

Published Date: 13-11-2019

جواب:
الحمدللہ:

*نمازِ پنجگانہ کی رکعات کی صحیح تعداد کے متعلق عام طور پر مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، جیسے کوئی عشاء کی نماز کی 17 رکعات کہتا ہے تو کوئی 7، اور پھر ان رکعات کے مؤکدہ اور غیر مؤکدہ، سنت اور نوافل کے تعین کا مسئلہ بھی زیر بحث رہتاہے، اس سلسلہ میں ہم قارئین کے فائدہ کے لیے نمازِ پنجگانہ کے مؤکدہ اور غیرمؤکدہ نوافل اور فرائض کی صحیح تعداد کو دلائل کے ساتھ پیش کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ*

*فرض،واجب،سنت،نفل،مؤکدہ اور غیر مؤکدہ کی وضاحت*

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ فرض،واجب،سنت نفل،موکدہ غیر مؤکدہ کی یہ ترتیب و اصطلاح بعد کے فقھاء کی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں ایسی کوئی اصطلاحات رائج نا تھیں، اسی طرح قرآن وحدیث میں جو فرض واجب یا سنت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ موجودہ دور کے اصطلاحی معنوں میں قطعاً نہیں ہیں، بلکہ موقع محل کے مطابق طے ہوگا کہ وہ دلائل شریعت میں کن معانی میں مستعمل ہیں، جیسے آجکل ہم سنت اس چیز کو کہتے ہیں جسے چھوڑنے پر گناہ نا ہو، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی ایسی چیزوں کے بارے فرمایا کہ وہ سنت ہیں، مگر ان کا مقام فرض کا ہے، جیسے آپ نے فرمایا میری سنت کو لازم کو پکڑو، اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔۔ان احادیث میں سنت کا لفظ فرض و واجب کے لیے استعمال ہوا ہے، جسکو چھوڑنا گناہ ہے، اس لیے موجودہ اصطلاحات کو قرآن و احادیث والی اصطلاحات سے نا ملایا جائے،

📚جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لفظ (السنة) :. فإنه في اللغة الطريقة وهذا يشمل كل ما كان عليه الرسول صلى الله عليه وسلم من الهدى والنور فرضا كان أو نفلا وأما اصطلاحا فهو خاص بما ليس فرضا من هديه صلى الله عليه وسلم فلا يجوز أن يفسر بهذا المعنى الاصطلاحي لفظ (السنة) الذي ورد في بعض الأحاديث الكريمة كقوله صلى الله عليه وسلم: “. . . وعليكم بسنتي. . . ” وقوله صلى الله عليه وسلم “. . . فمن رغب عن سنتي فليس مني،
ترجمہ:
لفظ ”سنت” یہ لغت میں طریقہ کو کہاجاتاہے اوریہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرطریقہ اور ہر رہنمائی کوعام ہے خواہ وہ فرض ہو یا نفل ، لیکن جدیداصطلاح میں ”سنت” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف اس طریقہ کے لئے خاص ہے جوفرض نہ ہو،لہٰذا یہ قطعا درست نہیں کہ بعض احادیث میں وارد لفظ ”سنت” سے بھی یہی اصطلاحی معنی مراد لئے جائیں جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث :((۔۔۔اورمیری سنت کو لازم پکڑو۔)) یا یہ حدیث :
((۔۔۔جومیری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔۔۔۔۔))
(تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد: ص: 44)

اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ اصطلاحات بذات خود کوئی دین کا حصہ نہیں بنائی گئیں، بلکہ دین کو سمجھنے کے لیے صرف وسائل بنائے گئے، جیسے ترجمہ،تفسیر، فلیکس، بینرز اجتماعات، وغیرہ ۔۔۔!
کہ ان سے عبادات کے احکامات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے،ایسے ہی ان اصطلاحات سے مقصد شریعت کے احکامات کو سمجھنے کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے،

___________&__________

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف،

نماز میں یا تو فرض رکعات ہوتی ہیں یا نفل، اور پھر نوافل میں کچھ مؤکدہ ہیں اور کچھ غیر مؤکدہ،

*فرض و واجب*
یاد رہے فرض اور واجب ایک ہی چیز ہے یعنی نماز کی جو رکعات لازم ہیں، جنکو چھوڑنا گناہ ہے انہیں فرض یا واجب کہتے ہیں،

*سنت، نفل*
سنن اور نوافل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، سنت کا لفظی معنی طریقہ ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کا طریقہ، اور نفل کا لفظی و شرعی معنی اضافی عبادت کا ہے، یعنی فرضی نماز کے علاوہ جتنی رکعات ہیں وہ سب نوافل میں آتی ہیں، سنت غیر مؤکدہ ہو یا سنت مؤکدہ ہو سب نفل ہی شمار ہوتے ہیں،

*مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق*
مؤکدہ کہتے ہیں تاکیدی حکم والی رکعات، یعنی فرضوں کے ساتھ جن نوافل کی تاکید کی گئی یا جن رکعات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت سے پڑھا وہ ہمارے ہاں سنت مؤکدہ کہلاتے ہیں،
اور جن نوافل کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیادہ تاکید نہیں فرمائی یا کبھی پڑھ لیتے اور کبھی چھوڑ دیتے تو ان نوافل کو ہمارے ہاں سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں،

*نماز میں فرائض کی تعداد*

جمعہ کے علاوہ ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد کل 17 ہے جو احادیث ِصحیحہ اور اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں،جسکی تفصیل آگے آ رہی ہے ان شاءاللہ

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
“فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ”
” پھر انھیں بتادو بے شک اللہ نے اُن پر اُن کے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-7372 )
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-19)

📚سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
“كَانَ أَوَّلَ مَا افْتُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ : رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ ، إِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّهَا كَانَتْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَمَّ اللهُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ أَرْبَعًا فِي الْحَضَرِ ، وَأَقَرَّ الصَّلَاةَ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ فِي السَّفَرِ ”
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے جو نماز فرض ہوئی وہ دو دو رکعتیں تھیں سوائے مغرب کے ،پس بے شک وہ تین(رکعتیں) تھیں۔پھر اللہ نے ظہر،عصر اورعشاء کو حضر(یعنی اپنے علاقے) میں چار رکعتیں پورا کردیا اور سفر میں نماز اپنے پہلے فرض پر ہی مقرر رہی،

(مسند أحمد |مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر-26338) حدیث حسن
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3935)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-685)

اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہیں:

1۔نمازِ فجر دو رکعتیں فرض ہے ۔
2۔نماز ظہر اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔
3۔نماز عصر اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔
4۔نماز مغرب تین رکعتیں فرض ہے۔
5۔نماز عشاء اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔

📚نیز ان رکعات مذکورہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
(دیکھئے مراتب الاجماع لابن حزم
(ص24۔25)
(کتاب توضیح الاحکام(ج1ص 408)

*نماز میں مؤکدہ نوافل کی تعداد*

اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپﷺ کی عادت اور معمول تھا یا پھر آپﷺسے ان کی تاکید و ترغیب بھی منقول ہے، ان کی تعداد کم ازکم 12 ہے،

📚 ان 12 نوافل کے بارے میں سیدہ اُمّ حبیبہؓ فرماتی ہیں:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا كہ جو شخص دن اور رات میں 12 رکعات پڑھ لے، اُن کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے۔‘
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : فَضْلُ السُّنَنِ الرَّاتِبَةِ قَبْلَ الْفَرَائِضِ وَبَعْدَهُنَّ، وَبَيَانُ عَدَدِهِنَّ، حدیث نمبر-728)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1250)

دوسری روایت میں وہ بیان کرتی ہیں،

📚«قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ : أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ ”
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جس نے رات اور دن میں 12 رکعت (نوافل) ادا کیے، جنت میں اس کے لئے گھر بنا دیا جاتا ہے: چار رکعت قبل از ظہر ، دو (ظہر کے) بعد میں، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز سے پہلے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-415)

__________&___________

*اب ہم تفصیل سے پنجگانہ نمازوں کی مکمل نفلی اور فرضی رکعات کا ذکر کریں گے ان شاءاللہ*

*نمازِ فجر*

زیادہ سے زیادہ تعداد رکعات : 4
(2 نفل + 2 فرض)

نوافل: 2 رکعت سنت مؤکدہ

📚اُمّ المومنین سیدہ حفصہؓ فرماتی ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، وَبَدَا الصُّبْحُ ؛ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ
’’کہ جب مؤذن اذان کہہ لیتا اور صبح صادق شرو ع ہو جاتی تو آپﷺ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، حدیث نمبر-723)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-618)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1145)

آپﷺ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پر ہمیشگی ثابت ہے،

📚حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں،
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعات صبح کی اذان و اقامت کے درمیان پڑھیں “وَلَمْ يَكُنْ يَدَعْهُمَا أَبَدًا”
اور آپ ان دو رکعات کو (حضر و سفر) میں کبھی نہیں چھوڑتے تھے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1159)

📚 اور سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ
’’بیشک نبی ﷺنوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔‘‘
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، حدیث نمبر-724)

فرائض: 2 رکعت فرض
📚سیدناابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ صبح کی نماز پڑھاتے:
’’وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَوْ إِحْدَاهُمَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ
’’ آپﷺ دو رکعتوں یا کسی ایک میں 60سے 100 تک آیات تلاوت فرماتے تھے‘‘
(صحیح بخاری حدیث نمبر-771)

_______&________

*نماز ظہر*
زیادہ سے زیادہ رکعات :12
(2یا 4 نفل+ 4 فرض+ 2 یا 4 نفل)

*ظہر کے فرائض سے پہلے 4 رکعت اور بعد میں 2 رکعت مؤکدہ ہیں، اور بعد میں مزید 2 رکعت غیر مؤکدہ ہیں*

📚سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں :
كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ،
’’آپ ﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آ کر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : جَوَازُ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا،حدیث نمبر-730)

📚سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں:
صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَسَجْدَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ،
’’میں نے نبیﷺ کے ساتھ دو رکعت نوافل ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔‘‘
(صحيح البخاري | بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ | بَابُ التَّطَوُّعِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ. حدیث نمبر-1172)

📚سیدہ اُمّ حبیبہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا ؛ حُرِّمَ عَلَى النَّارِ ”
’’جو شخص ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کرے، وہ آگ پر حرام ہو جائے گا۔‘‘
(سنن أبي داود | كِتَابُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : تَفْرِيعُ أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ، وَرَكَعَاتُ السُّنَّةِ
| بَابٌ : الْأَرْبَعُ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَبَعْدَهَا،
حدیث نمبر- 1269)

مذکورہ بالا روایات سے ظہر کے نوافل کے بارے میں پتہ چلا کہ ظہر کے فرضوں سے پہلے 2 رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں اور 4 رکعات بھی، اسی طرح ظہر کے فرضوں کے بعد 2 رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں اور 4 رکعت بھی،

*ظہر کے فرائض کی تعداد 4 ہے*

📚سیدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ فِي الْأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ۔۔۔۔!
’’بے شک نبیﷺظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے…الخ‘‘
(صحيح البخاري | كِتَابُ الْأَذَانِ | بَابٌ : يَقْرَأُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ،حدیث نمبر-776)

_________&___________

نماز عصر کی رکعات*
زیادہ سے زیادہ تعداد رکعات : 10
(4 نفل+ 4 فرض+ 2 نفل)

*فرائض سے پہلے 4 نوافل غیر مؤکدہ*

📚سیدنا علیؓ سے روایت ہے :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ،
’’نبی ﷺعصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
سنن الترمذي | أَبْوَابُ الصَّلَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ،حدیث نمبر-429)

*عصر کی فرضی رکعات 4 رکعت ہیں*

📚سیدنا ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے، فرماتے ہیں:
كُنَّا نَحْزِرُ قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ قَدْرَ قِرَاءَةِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى قَدْرِ قِيَامِهِ فِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ، وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ،
’’ہم رسول اللہﷺ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے…عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتا تھا۔‘‘
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ | بَابٌ : الْقِرَاءَةُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ،452)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-804)

*عصر کے فرضوں کے بعد 2 رکعات غیر مؤکدہ*

📚سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں:
مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ،
’’آپ ﷺ نے میرے پاس کبھی بھی عصر کے بعد دو رکعت نوافل پڑھنا ترک نہیں کیے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-591)

📚حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
مَا مِنْ يَوْمٍ يَأْتِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ
کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1279)

__________&___________

*ظہر اور عصر کے نوافل کو دو دو کر کے پڑھنا*

📚سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں:
وَصَلَّى أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ،
’’اور نبی کریمﷺ نے ظہر سے پہلے چار رکعت نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعت نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپﷺ نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔‘‘
(سنن ترمذی حدیث نمبر-598،599)

*یاد رہے کہ ظہر اور عصر سے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعت کر کے پڑھنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے*

____________&_______

*نماز مغرب*
زیادہ سے زیادہ تعداد رکعات: 7
(2 نفل+ 3 فرض+ 2 نفل)

*مغرب کے فرائض سے پہلے 2 رکعت نوافل غیر مؤکدہ*

📚سیدنا عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ “. قَالَ فِي الثَّالِثَةِ :
” لِمَنْ شَاءَ “كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً
کہ مغرب کے فرض سے پہلے ( سنت کی دو رکعتیں ) پڑھا کرو۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ اسے لازمی سمجھ بیٹھیں،
(صحيح البخاري | بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ | بَابُ الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، حدیث نمبر-1183)

📚مرثد بن عبداللہ یزنی بیان کرتے ہیں کہ میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا
أَلَا أُعْجِبُكَ مِنْ أَبِي تَمِيمٍ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ. فَقَالَ عُقْبَةُ : إِنَّا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قُلْتُ : فَمَا يَمْنَعُكَ الْآنَ ؟ قَالَ : الشُّغْلُ.
آپ کو ابوتمیم عبداللہ بن مالک پر تعجب نہیں آیا؟ کہ وہ مغرب کی نماز فرض سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں؟ اس پر عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دنیا کی مصروفیت کی وجہ سے،
صحيح البخاري | بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ | بَابُ الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، حدیث نمبر-1184)

📚انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ ابْتَدَرُوا السَّوَارِيَ ، فَيَرْكَعُونَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ الْغَرِيبَ لَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ فَيَحْسِبُ أَنَّ الصَّلَاةَ قَدْ صُلِّيَتْ مِنْ كَثْرَةِ مَنْ يُصَلِّيهِمَا.
ہم مدینہ میں تھے جب مؤذن مغر ب کی اذان کہہ دیتا تو لوگ ستونوں کی طرف تیزی سے بڑھتے اور دو رکعتیں پڑھتے حتیٰ کہ کوئی اجنبی آدمی مسجد میں داخل ہوتا تو وہ لوگوں کو کثرت سے نوافل پڑھتے دیکھ کر سمجھتا کہ جماعت ہو چکی ہے،
صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ،حدیث نمبر-837)

*مغرب کے فرائض 3 رکعت ہیں*

📚سیدناعبد اللہ بن عمر سے ایک مروی ایک روایت کا ٹکڑا ہے:
’’وَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ،
’’رسول اللہﷺ نے مغرب کی تین رکعت پڑھائیں۔
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْحَجُّ. | بَابٌ : الْإِفَاضَةُ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ.حدیث نمبر-1288)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1931)

*مغرب کے فرائض کے بعد 2 نوافل مؤکدہ*

📚سیدہ عائشہؓ نبیﷺ کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ،
’’آپ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : جَوَازُ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا،حدیث نمبر-1251)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1931)

___________&__________

*نماز عشاء*
زیادہ سے زیادہ تعداد رکعات: 10
(2نفل + 4 فرض + 2 یا 4 نفل)

*عشاء کی فرضی نماز سے پہلے چار رکعات نوافل کا ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ملتا، ہاں البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومی احادیث کے تحت 2 رکعت غیر مؤکدہ پڑھ سکتے ہیں،*

📚حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ ”
ہر دو اذانوں کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذانوں (یعنی اذان اور اقامت) کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان ایک نماز ہے، جو (پڑھنا) چاہے اس کے لیے( ہے)
(سنن النسائي | كِتَابُ الْأَذَانِ | الصَّلَاةُ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ،/اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھنے کا بیان/حدیث نمبر-681)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-624)

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاإِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ،
جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ | بَابٌ : إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، حدیث نمبر-444)

ان دونوں احادیث میں ہر فرض نماز سے پہلے نفل نماز کی ترغیب دلائی گئی ہے، لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔

*عشاء کے فرائض کی تعداد 4 ہے*

📚سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ (جنکی کنیت ابو اسحاق تھی) سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے؟
تو آپ نے جواب دیا:
أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأُخِفُّ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، قَالَ : ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ،
’’اللہ کی قسم! میں اُنہیں نبیﷺ کی نماز کی طرح ہی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل کوتاہی نہ کرتا تھا۔ میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکاکرتا ۔ سیدناعمر فرمانے لگے:اے ابو اسحٰق !تمہارے بارے میں میرا یہی گمان تھا۔‘‘
(صحيح البخاري | كِتَابُ الْأَذَانِ |بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ،حدیث نمبر-755)

*عشاء کے فرضوں کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 2 نفل مؤکدہ اور 2 نفل غیر مؤکدہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے*

📚سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں:
صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔وَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ
’’میں نے نبیﷺکے ساتھ . . . عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی،
(صحيح البخاري | بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ|بَابُ التَّطَوُّعِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ،حدیث نمبر-1172)

📚سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:’’میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں ایک رات گزاری:
فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ۔۔۔۔!
’’پس آپﷺ نے عشا کی نماز پڑھائی، پھر گھر آئے اور چار رکعت نوافل ادا کئے اور سو گئے‘‘
(صحيح البخاري | كِتَابُ الْأَذَانِ | بَابٌ : يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ بِحِذَائِهِ سَوَاءً، حدیث نمبر-697)

_____________&___________

📚نوٹ:
نماز وتر عشاء کی نماز کا حصہ نہیں، وتر ایک الگ نماز ہے، نماز وتر کی اہمیت، رکعات ،طریقہ وغیرہ کی مکمل تفصیل کے لیے دیکھیں
(( سلسلہ نمبر-172 اور 177 ))

📚فرضی نمازوں میں نوافل رکعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا مؤکدہ سنتوں کو چھوڑنے والا گناہگار ہو گا یا نہیں؟ نیز کیا صرف فرض پڑھنے سے نماز ہو جائے گی؟
(تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-231)

📚نماز جمعہ کی فرض اور نفل رکعات کی تفصیل کے لیے دیکھیں،
(( سلسلہ نمبر-165))

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں