994

سوال_موسیقی کی کونسی صورت جائز ہے؟کیا اسلام میں دف، طبلہ یا ڈھول وغیرہ کے ساتھ نعت،قوالی یا گانا گانا جائز ہے؟ قرآن وحدیث سے وضاحت کریں!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-303″
سوال_موسیقی کی کونسی صورت جائز ہے؟کیا اسلام میں دف، طبلہ یا ڈھول وغیرہ کے ساتھ نعت،قوالی یا گانا گانا جائز ہے؟ قرآن وحدیث سے وضاحت کریں!

Published Date: 06-11-2019

جواب:
الحمدللہ:

*غامدی جیسے منکر حدیث لوگوں نے احادیث کو توڑ مروڑ کر بہت سے شرعی احکامات کا غلط مفہوم مسلمانوں میں پھیلا دیا ہے، انہیں میں سے ایک دف والی موسیقی بھی ہے، کئی مسلمان نا صرف اس دف کو جائز کہتے ہیں بلکہ کچھ اسے سنت بھی سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں ہر طرح کی موسیقی حرام ہے وہ دف ہو یا بانسری، وہ طبلہ ہو یا ڈھول وغیرہ*

📚جیسا کہ امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے، کہ
” لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ،وَالْحَرِيرَ، وَالْخَمْرَ، وَالْمَعَازِفَ،
” ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے ”
(صحیح بخاری حدیث نمبر5590)

تو يہ حديث ہر قسم كے موسيقى كے آلات كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور ان آلات ميں دف بھى شامل ہے،

📚عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
“إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْخَمْرَ وَالْمَيْسِرَ وَالْكُوبَةَ ” وَهُوَ الطَّبْلُ وَقَالَ : ” كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ ”
“یقیناً اللہ تعالیٰ نےتم پر شراب اورجوا،اور طبلہ حرام کیا ہے اور فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔”
(الألباني السلسلة الصحيحة،2425 • إسناده صحيح رجاله ثقات)
(الألباني صحيح الجامع1748 • صحيح )
(مسند احمد حدیث نمبر-2476)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-3696)
(سنن بیہقی 10ج/ص221)
تحفۃ الاشراف 5ج/ص197)
(طبرانی کبیر 12ج/ص101،102)
(دارقطنیٰ 3ج/ص7)

📚اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
الدُّفُّ حرامٌ، والمعازفُ حرامٌ، والكُوبةُ حرامٌ، والمزمارُ حرامٌ
” دف حرام ہے، اور گانے بجانے والے آلات حرام ہيں، اور طبل يعنى ڈھول حرام ہے، اور بانسرى حرام ہے ”
(سنن الکبریٰ للبیہقی_ 10ج/ص376/حدیث نمبر_21000)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، تحريم آلات الطرب ٩٢ • إسناده صحيح إن كان أبو هاشم هو السنجاري )
(الطبراني«المعجم الأوسط»7388)

((موسیقی کی حرمت پر مکمل تفصیل کے لیے دیکھیں سابقہ سلسلہ نمبر-302))

________&___________

*ليكن موسیقی کی اس عمومی حرمت میں سے کچھ خاص صورتیں مستثنیٰ ہیں، جیسے مردوں کے لیے مکمل طور پر ریشم حرام ہے مگر دو چار انگلی کے برابر ریشمی کپڑا استعمال کرنا جائز ہے، جیسے مردوں کے لیے ہر طرح کا سونا پہننا حرام ہے،مگر طبی نقطہ نظر سے جسم کا کوئی عضو کٹ جائے تو وہ سونے کا لگوا سکتے جیسے دانت، کان یا ناک وغیرہ، ٹھیک اسی طرح موسیقی ہر قسم کی حرام ہے مگر اس میں چند ایک صورتوں میں شرعی طور پر کچھ ہلکی پھلکی موسیقی جس میں خرابی نا ہو اس کا جواز ملتا ہے*

جیسا کہ:

1_عيد كے موقع پر.

2_شادى بياہ كے موقع پر.

3_ لمبے سفر سے واپس آنے والے شخص كى آمد كے موقع پر.

اس كے دلائل يہ ہيں:

📚عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ابوبكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے پاس آئے تو اس وقت دو لڑكياں منى كے ايام ميں دف بجا رہى تھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كپڑا اوڑھ كر ليٹے ہوئے تھے، چنانچہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان دونوں لڑكيوں كو ڈانٹا اور منع كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چہرہ سے كپڑا اتارا اور فرمانے لگے:
” اے ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو يہ عيد كے دن ہيں، اور يہ منى كے ايام ہيں ”
(صحيح بخارى حديث نمبر _ 944 )
(صحيح مسلم حديث نمبر_892 )

📚 ربيع بنت معوذ بن عفراء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميرى شادى كے موقع پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم آئے اور تيرى طرح ہى ميرے بستر پر بيٹھ گئے، تو ہمارى چھوٹى بچيوں نے دف بجانا شروع كر دى اور بدر كے موقع پر قتل ہونے والے ميرے بزرگوں كا مرثيہ پڑھتے ہوئے ايك بچى كہنے لگى:
اور ہم ميں وہ نبى ہے جو كل كى بات كا علم ركھتا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
” يہ بات نہ كہو، بلكہ اس سے پہلے جو باتيں كہہ رہى تھى وہ كہتى رہو ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 4852 )

📚بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك معركہ ميں گئے اور جب واپس آئے تو ايك سياہ رنگ كى بچى آ كر كہنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے نذر مانى تھى كہ اگر آپ كو اللہ تعالى نے صحيح ركھا تو ميں آپ كے سامنے دف بجاؤنگى اور اشعار گاؤنگى،
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
” اگر تم نے نذر مانى تھى تو پھر دف بجا لو، وگرنہ نہيں ”
تو وہ دف بجانے لگى، اور اسى اثناء ميں ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ وہاں آ گئے اور وہ دف بجا رہى تھى، اور پھر على رضى اللہ تعالى عنہ آ گئے تو وہ ابھى دف بجا رہى تھى، اور پھر عثمان رضى اللہ تعالى عنہ بھى آ گئے تو وہ دف بجاتى رہى، اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ داخل ہوئے تو اس نے دف اپنے سرين كے نيچے چھپا كر اس كے اوپر بيٹھ گئى.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
” اے عمر بلا شبہ شيطان تجھ سے خوفزدہ رہتا اور ڈرتا ہے، ميں بيٹھا ہوا تھا اور يہ بچى دف بجاتى رہى، اور ابوبكر رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو يہ دف بجاتى رہى، اور پھر على آئے تو بھى بجاتى رہى، اور پھر عثمان آئے تو بھى بجاتى رہى، اے عمر جب تم آئے تو اس نے دف ركھ دى ”
(سنن ترمذى حديث نمبر_3690 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2913 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے،

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی کے علماء کرام فرماتے ہیں کہ تو يہ احاديث ان تين مواقع پر دف بجانے كے جواز پر دلالت كرتى ہيں، اور اس كے علاوہ كسى اور موقع پر دف بجانے كا حكم اپنے اصل يعنى حرمت پر ہى قائم رہے گا، اور بعض علماء كرام نے اس ميں توسيع كرتے ہوئے بچے كى ولادت اور ختنہ كے موقع پر دف بجانا جائز قرار ديا ہے، اور كچھ اور علماء نے اس ميں اور وسعت كرتے ہوئے كہا ہے كہ جو بھى كسى خوشى كا موقع ہو اس ميں دف بجانى جائز ہے، مثلا مريض كى شفايابى كے موقع وغيرہ پر۔۔۔۔!
(ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ 38 / 169)

ليكن بہتر يہى ہے كہ اسى پر اقتصار كيا جائے جو نص يعنى احاديث ميں آيا ہے، اس كے علاوہ كسى اور موقع پر دف نہ بجائى جائے،

*اور پھر صحيح بات يہى ہے كہ صرف عورتيں ہى دف بجا سكتى ہيں، اور مردوں ميں سے اگر كوئى شخص دف بجاتا ہے تو اس نے عورتوں كے سات مشابہت كى، اور يہ كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے*

📚شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
دين اسلام ميں جو چيز ضرورى اور لازمى معلوم ہوتى ہے اس ميں يہ شامل ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے كسى بھى صالح شخص اور امت كے عبادت گزار اور زاہد افراد كو اس بات كى اجازت نہيں دى كہ وہ جمع ہو كر تاليوں كى گونج ميں يا پھر بانسرى وغيرہ يا دف بجا كر كوئى اشعار اور نظم سنيں اور سنائيں.

اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى اجازت نہيں دى كہ وہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور كتاب اللہ الحكيم كو چھوڑ كر كسى اور طريقہ كى اتباع كريں، نہ تو باطن ميں اور نہ ہى ظاہر ميں، نہ كسى خاص شخص كو اور نہ ہى كسى عام شخص كو اس بات كى اجازت ہے.

ليكن شادى كے موقع پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ كھيل كود اور گانے كى اجازت دى ہے، جس طرح كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو شادى بياہ كے موقع پر دف بجانے كى اجازت دى، ليكن مرد حضرات نہ تو دف بجا سكتے ہيں، اور نہ ہى تالياں بجا سكتے ہيں، بلكہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” عورتوں كے ليے تالي بجانا، اور مرد كے ليے سبحان اللہ كہنا ہے ”
اور ايك دوسرى حديث ميں فرمان نبوى ہے:
” مردوں سے مشابہت كرنے والى عورتوں پر لعنت ہے، اور عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں پر بھى لعنت ہے ”
اور جب گانا اور دف اور تالى بجانا عورتوں كے كام ميں شامل ہے تو مردوں ميں سے ايسا كام كرنے والے شخص كو علماء كرام مخنث اور ہيجڑے اور گويوں ( بھانڈ ) كا نام ديتے تھے، اور علماء كرام كى كلام ميں يہ چيز مشہور ہے.
(ديكھيں: مجموع الفتاوى 11 / 565 – 566 )

📚اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قوى احاديث ميں عورتوں كو اس كى اجازت ہے، اس ليے عورتوں سے مشابہت كى عمومى نہى اور ممانعت كى بنا پر ان كے ساتھ مردوں كو نہيں ملايا جا سكتا ”
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 226 )

📚اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” دف بجانے كى اجازت صرف عورتوں كے ليے خاص ہے، ليكن مردوں كے ليے دف استعمال كرنى جائز نہيں، نہ تو مرد اسے شادى كے موقع پر استعمال كر سكتے ہيں، اور نہ ہى كسى اور موقع پر، بلكہ مردوں كے ليے تو اللہ تعالى نے لڑائى كے آلات كو سيكھنا مشروع كيا ہے، مثلا نشانہ بازى، اور گھڑ سوارى، اور دوڑ وغيرہ ”
(ماخوذ از: مجلۃ الجامعۃ الاسلاميۃ المدينۃ النبويۃ عدد نمبر ( 3 ) سال دوم محرم ( 1390 ھـ ) صفحہ نمبر ( 185 – 186 )

📚اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
” رہا شادى كا مسئلہ تو اس ميں دف كے ساتھ عام اشعار گانے مشروع ہيں جن ميں حرام كى دعوت نہ ہو، اور نہ ہى كسى حرام كام كى مدح سرائى كى گئى ہو، اور پھر يہ رات كے حصہ ميں صرف خاص كر عورتوں كے ليے ہو اس ميں عورتيں ہى يہ اشعار پڑھيں، نكاح كے اعلان اور نكاح و سفاح و زنا ميں فرق كرنے كے ليے، جيسا كہ صحيح احاديث ميں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے ”

(ماخوذ از: التبرج و خطرہ
( كتاب: بےپردگى اور اس كے خطرات)

📚 شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” معازف ہى وہ گانے ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دى تھى كہ آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو شراب و زنا اور ريشم كى طرح اسے بھى حلال كر لينگے، يہ حديث علامات نبوت ميں شامل ہوتى ہے، كيونكہ يہ سب كچھ واقع ہو چكا ہے، اور يہ حديث جس طرح شراب، اور زنا اور ريشم كو حلال كرنے والے كى مذمت پر دلالت كرتى ہے، اسى طرح اس كى حرمت اور اسے حلال كرنے والے كى مذمت پر بھى دلالت كرتى ہے.

گانے بجانے، اور آلات لہو سے اجتناب كرنے والى آيات و احاديث بہت زيادہ ہيں، اور جو شخص يہ گمان ركھتا ہے كہ اللہ تعالى نے گانا بجانا اور آلات موسيقى مباح كيے ہيں اس نے جھوٹ بولا ہے، اور عظيم قسم كى برائى كا مرتكب ہوا ہے، اللہ تعالى ہميں شيطان اور خواہشات كى اطاعت سے محفوظ ركھے.

اور اس سے بھى بڑا اور قبيح جرم تو اسے مباح كہنا ہے، اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ اللہ تعالى اور اپنے دين سے جہالت ہے، بلكہ يہ تو اللہ تعالى اور اس كى شريعت پر جھوٹ بولنے كى جسارت و جرات ہے.

صرف شادى بياہ كے موقع پر دف بجانى جائز ہے، اور يہ بھى صرف عورتوں كے ليے خاص ہے كہ وہ آپس ميں دف بجا سكتى ہيں، تا كہ نكاح كا اعلان ہ اور سفاح اور نكاح كے مابين تميز ہو سكے.

اور عورتوں كا آپس ميں دف بجا كر شادى بياہ كے موقع پر گانے ميں كوئى حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں برائى و منكر پر ابھارا نہ گيا ہو، اور نہ ہى عشق و غرام كے كلمات ہوں، اور يہ كسى واجب اور فرض كام سے روكنے كا باعث نہ ہو، اور اس ميں مرد شامل نہ ہوں، بلكہ صرف عورتيں ہى سنيں، اور نہ ہى اعلانيہ اور اونچى آواز ميں ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہو، اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہى برا كام كر رہے ہيں، كيونكہ ايسا كرنا مسلمان پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے، اور شادى بياہ وغيرہ موقع پر عورتوں كے ليے دف كے علاوہ كوئى اور موسيقى كے آلات استعمال كرنا جائز نہيں، مثلا بانسرى گٹار، سارنگى وغيرہ، بلكہ يہ برائى ہے، صرف انہيں دف بجانے كى اجازت ہے.

ليكن مردوں كے ليے دف وغيرہ ميں سے كوئى بھى چيز استعمال كرنى جائز نہيں، نہ تو شادى بياہ كے موقع پر اور نہ ہى كسى اور موقع پر، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو مردوں كے ليے لڑائى كے آلات اور ہنر سيكھنے مشروع كيے ہيں كہ وہ تير اندازى اور گھڑ سوارى اور مقابلہ بازى كريں اور اس كے علاوہ جنگ ميں استعمال ہونے والے دوسرے آلات مثلا ٹينك ہوائى جہاز اور توپ اور مشين گن اور بم وغيرہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں معاون ثابت ہوں.

(ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 3 / 423 – 424 )

📚اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” يہ علم ميں ركھيں كہ قرون ثلاثہ الاولى جو سب سے افضل تھے اس ميں نہ تو سرزمين حجاز ميں اور نہ ہى شام اور يمن ميں اور نہ مصر اور مغرب ميں، اور نہ ہى عراق و خراسان كے علاقوں ميں اہل دين، اور تقوى و زہد اور پارسا و عبادت گزار لوگ اس طرح كى محفل سماع ميں شريك اور جمع ہوتے تھے جہاں تالياں اور شور شرابہ ہوتا، نہ تو وہاں دف بجائى جاتى اور نہ ہى تالى اور سارنگى اور بانسرى، بلكہ يہ سب كچھ دوسرى صدى كے آخر ميں بدعت ايجادى كى گئى، اور جب آئمہ اربعہ نے اسے ديكھا تو اس كا انكار كيا اور اس سے روكا ” اھـ
(ديكھيں: مجموع الفتاوى11 / 569 )

📒سعودی فتاویٰ کمیٹی کے علماء حرام موسیقی میں سے جو استثناء ہے اسکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
جس چيز كا استنثاء حق ہے وہ صرف دف ہے ـ اور دف بھى وہ جس ميں كوئى كڑا اور چھلا وغيرہ نہ لگا ہو ـ اور پھر يہ دف شادى بياہ اور عيد كے موقع پر بجائى جائے، اور صرف عورتيں ہى استعمال كريں اس پر صحيح دلائل ملتے ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى وغيرہ كے موقع پر لہو كى ايك قسم كى رخصت دى ہے، كہ صرف عورتيں شادى بياہ كے موقع پر دف بجا سكتى ہيں، ليكن مرد حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نہ تو دف بجاتے تھے، اور نہ ہى ہاتھ سے تالى، بلكہ صحيح بخارى ميں ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے، اور سبحان اللہ كہنا مردوں كے ليے ”

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں كے ساتھ مشابہت كرنے والى عورتوں اور عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں پر لعنت فرمائى ہے ”

اور جب گانا اور دف بجانا عورتوں كا عمل تھا، تو سلف رحمہ اللہ مردوں ميں سے ايسا كام كرنے والوں كو مخنث اور ہيجڑا كے نام سے موسوم كرتے تھے، اور گانے والے مردوں كو ہيجڑے كا نام ديتے تھے، ـ آج كے ہمارے اس دور ميں يہ تو بہت زيادہ ہو چكے ہيں ـ اور سلف رحمہ اللہ كى كلام ميں يہ مشہور ہے، اس باب ميں سب سے مشہور حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ہے، جس ميں وہ بيان كرتى ہيں:

عيد كے ايام ميں ان كے والد ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے گھر آئے تو ان كے پاس انصار كى دو چھوٹى بچياں وہ اشعار گا رہى تھيں جو انصار نے يوم بعاث كے موقع پر كہے تھے ـ اور شائد كوئى عقل مند شخص اس كا ادراك كرے كہ لوگ جنگ ميں كيا كہا كرتے تھے ـ تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر ميں شيطان كى سر اور مزمار ميں سے ايك سر ؟

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ ان دونوں بچيوں سے پھير كر دوسرى طرف ديوار كى جانب كيا ہوا تھا ـ اس ليے بعض علماء كا كہنا ہے، ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے كسى شخص كو ڈانٹنے اور اس پر انكار كرنے والے نہيں تھے، ليكن انہوں نے يہ خيال اور گمان كيا كہ جو كچھ ہو رہا ہے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم نہيں ہے، اگر علم ہوتا تو ايسا نہ ہوتا،
واللہ اعلم ـ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے:
اے ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى اہل اسلام كى عيد يہ ہے ”
تو اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام كى عادت ميں يہ چيز شامل نہ تھى، اسى ليے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے شيطان كى آواز اور مزمار قرار ديا ـ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس نام كو برقرار ركھا، اور اس سے انكار اور منع نہ كيا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمايا تھا:
” انہيں رہنے دو اور كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى عيد يہ ہے ”
تو اس ميں اشارہ كيا كہ اس كے مباح ہونے كا سبب عيد كا وقت ہونا ہے، تو اس سے يہ سمجھ آتى ہے كہ عيد كے علاوہ باقى ايام ميں يہ حرام ہے، ليكن دوسرى احاديث ميں اس سے شادى بياہ كا موقع مستثنى كيا گيا ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب ” تحريم الآت الطرب ” ميں اس كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
” اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے موقع پر بچيوں كو اس كى اجازت دى ہے، جيسا كہ حديث ميں ہے ”
تا كہ مشركوں كو علم ہو جائے كہ ہمارے دين ميں وسعت ہے ”
اور ان بچيوں كے قصہ والى حديث ميں يہ نہيں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كان لگا كر سنا تھا، كيونكہ نيكى كا دينا، اور برائى سے منع كرنے كا تعلق تو استماع يعنى كان لگا كر سننے سے ہے، نا كہ صرف سماع اور كان ميں پڑنے كے متعلق، جيسا كہ ديكھنے ميں ہے، كيونكہ اس كا تعلق بھى قصدا ديكھنے سے ہے، نہ كہ جو بغير كسى ارادہ و قصد كے ہو ”

تو اس سے يہ ظاہر ہوا كہ يہ صرف عورتوں كے ليے ہے، حتى كہ امام ابو عبيد رحمہ اللہ نے تو دف كى تعريف كرتے ہوئے يہ كہا ہے:
” دف وہ ہے جو عورتيں بجائيں ”
(ديكھيں: غريب الحديث 3 ج/ ص64 )

📚اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہر وہ كلام جو اللہ تعالى كى اطاعت كے بغير ہو، اور ہر وہ آواز جو بانسرى يا دف يا ڈھول وغيرہ كى ہو وہ شيطان كى آواز ہے ” انتہى.

(ديكھيں: اغاثۃ اللھفان 1 / 252 )

📒اور ابن جوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بھى اس وقت چھوٹى عمر كى تھيں، اور بلوغت كے بعد ان سے بھى گانے بجانے كى مذمت ہى ثابت ہے، ان كے بھانجے قاسم بن محمد گانے بجانے كى مذمت كيا كرتے تھے، اور اسے سننے سے منع كيا كرتے تھے، اور انہوں نے علم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حاصل كيا تھا ”
(ديكھيں: تلبيس ابليس_ 229)

📒اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” صوفيوں نے اس باب والى حديث سے گانے بجانے كے آلات اور آلات كے بغير محفل سماع سننے اور منعقد كرنے پر استدلال كيا ہے، اس كے رد كے ليے اسى باب كى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث ہى كافى ہے جس ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى صريح موجود ہے كہ ” وہ دونوں بچياں گانے بجانے والى نہ تھيں ”
تو ان دونوں سے معنى كے اعتبار سے اس كى نفى ہو گئى جو الفاظ سے ثابت كيا گيا ہے… تو اصل ( يعنى حديث ) كے مخالف ہونے كى وجہ سے اسے نص ميں وارد وقت اور كيفيت اور قلت پر ہى مقتصر ركھا جائيگا، واللہ اعلم ”
(ديكھيں: فتح البارى2 / 442 – 443 )

_________&&_________

*چند ایک باطل استدلال*

اوپر ذکر کردہ بچیوں کی دف اور اشعار والی روایات سے کچھ لوگوں نے ناجائز استدلال کیا ہے،

*جیسے کہ بعض افراد نے جنگ ميں ڈھول كو مستثنى كيا ہے، اور بعض معاصرين حضرات نے اس سے فوجی بينڈ اور موسيقى کا بھی جواز نکال لیا ہے،*

حالانكہ یہ بالکل جائز نہیں،

پہلى وجہ:
يہ حرمت والى احاديث كو بلا كسى مخصص كے خاص كرنا ہے، صرف ايك رائے اور استحسان ہے، اور يہ باطل ہے.

دوسرى:
جنگ كى حالت ميں مسلمانوں پر فرض تو يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنے دلوں و جان كے ساتھ اپنے پروردگار كے طرف متوجہ ہوں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
وہ آپ سے غنيمتوں كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ غنيمت اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ليے ہے، تو تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور آپس ميں اصلاح كرو ”

اور موسيقى كا استعمال تو انہيں خراب كريگا، اور انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے دور كريگا.

تيسرى:
موسيقى كا استعمال كفار كى عادت ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے ان سے مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں، اور خاص كر اس ميں جو اللہ تعالى نے حرام كيے ہيں، اور يہ حرمت عمومى ہے، مثلا موسيقى وغيرہ ”

(ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 )

______&________

*اور بعض افراد نے مسجد نبوى شريف ميں حبشيوں كے كھيل والى حديث سے گانے بجانے كى اباحت پر استدلال كيا ہے*

امام بخارى رحمہ نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں يہ باب باندھا ہے: ” عيد كے روز نيزہ بازى اور ڈھال استعمال كرنے كا باب ”

📚امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس ميں آلات حرب كے ساتھ مسجد ميں كھيلنے كا جواز پايا جاتا ہے، اور اس كے ساتھ ان اسباب كو بھى ملحق كيا جائيگا جو جھاد ميں ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں،
(ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.)

________&______

*اور بعض لوگوں نے نعتوں، قوالیوں کے ساتھ موسیقی کو جائز قرار دے دیا ہے*

حالانکہ یہ بھی حرام ہے ، موسیقی تلاوت کے ساتھ ہو یا نعت یا قوالی ہر صورت ناجائز ہی رہے گی،
شائید آج ہماری قوم کے لیے ہی رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ :
📚کچھ لوگ ہونگے جو کیف و سرور میں مست ہو کر قرآن کو گانا بجانا بنالیں گے، لوگ ایسے شخص کو آگے کریں گے جو نہ تو فقیہہ ہوگا اور نہ عالم وہ صرف اس لئے اسے آگے کریں گے تاکہ وہ انہیں (قرآن مجید) گا کر سنائے،
(الألباني السلسلة الصحيحة-979صحيح)

آج یقیناً یہی صورتحال ہے، کہ جو جتنا زیادہ قرآن گا کر پڑھتا ہے اتنا زیادہ اسکو پسند کیا جاتا ہے، نعتوں قوالیوں میں سر لگائے جاتے ہیں، پیسے بنائے جاتے ہیں بھلے دین بگڑے یا ایمان جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کسی کو،

*سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال پوچھا گیا کہ*

📚سوال

كيا اسلامى نظميں آلات موسيقى كے ساتھ سننى جائز ہيں، آپ سے گزارش ہے كہ كتاب و سنت پر مشتمل جواب سے نوازيں ؟

جواب از فتاویٰ کمیٹی:
الحمدللہ:

ان نظموں اور ترانوں كا جنہيں اسلامى نظموں اور ترانوں كا نام ديا جاتا ہے، اور ان ميں موسيقى بھى ہوتى ہے، تو اس پر اس نام كا اطلاق اسے مشروع نہيں كرتا، بلكہ حقيقت ميں يہ موسيقى اور گانا ہى ہے، اور اسے اسلامى نظميں اور ترانے كہنا جھوٹ اور بہتان ہے، اور يہ گانے كا بدل نہيں ہو سكتے، تو ہمارے ليے يہ جائز نہيں كہ ہم خبيث چيز كو خبيث چيز سے بدل ليں، بلكہ ہم تو اچھى اور پاكيزہ چيز كو خبيث اور گندى كى جگہ لائينگے، اور انہيں اسلامى سمجھ كر سننا اور اس سے عبادت كى نيت كرنا بدعت شمار ہو گى جس كى اللہ نے اجازت نہيں دى!

اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت كى دعا كرتے ہيں،

مزيد تفصيل كے ليے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں:
(تلبيس ابليس- 237 )
(المدخل ابن حجاج 3 / 109 )
(الامر بالاتباع والہنى عن الابتداع للسيوطى ( 99 ) ذم الملاہى ابن ابى الدنيا.
الاعلام بان العزف حرام ابو بكر جزائرى.
تنزيہ الشريعۃ عن الاغانى الخليعۃ
تحريم آلات الطرب للالبانى.
واللہ اعلم .
(ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد)

*سعودی فتاویٰ کمیٹی کی طرف سے ایک اور فتویٰ ملاحظہ فرمائیں*

📚سوال

جب عیسائيوں کودین اسلام کے لیے جمع کیا جاۓ توکیا انہيں موسیقی سے بھری دینی نظموں سے جمع کرکے دعوت دی جاسکتی ہے ؟ اور کیا ایک ایسی دینی گروپ بنایا جاسکتا ہے جودینی اشعار اورنظمیں موسیقی کے ساتھ تیار اوراختیار کرے ؟

جواب از فتاویٰ کمیٹی:
الحمد للہ :
میرے خیال میں اس طرح کا کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کے ذمہ یہ ہے کہ وہ عیسائیوں کو مباح اورجائز کام اور وسائل کے ساتھ دعوت دیں مثلا تجوید و ترتیل کے ساتھ قرآن مجید سنا کر یا پھر بلیغ اورموثر قسم کی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کانوں میں ڈالی جائيں
اور اسی طرح مفید اور موثرقسم کے ترانے اورنظمیں بغیر کسی موسیقی کے سنائيں جائیں ، اور اسی طرح واضح قسم کے وہ دلائل جومحاسن اسلام پردلالت کرتے ہوں اوراسلامی تعلمیات اوراھداف کواجاگر کرتے ہوں جن سے یہ علم ہوتا ہو کہ دین فطرت اور بشریت کی اصلاح صرف اور صرف اسلام قبول کرنے میں ہی ہے ۔
توجوشخص گانے بجانے کے علاوہ کسی اورچيزکے ساتھ جمع نہيں ہوتا اورقبول نہیں کرتا اس میں کوئ بھلائ اورخیر نہيں ، اوراس کے بارہ میں یہ خیال نہیں کرنا چاہيۓ کہ وہ بات کو تسلیم کرتے ہوۓ قبول اسلام کی طرف آۓ گا ۔
واللہ تعالی اعلم ۔ .
(ماخذ: شیخ ابن جبرین کے فتاوی پرمشتمل کتاب : اللؤلؤ المکین ص ( 28 ) سے لیا گیا)

________&_________

*لہٰذا اس تمام کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر طرح کی موسیقی حرام ہے، وہ دف ہو یا پیانو، یا گٹار یا طبلہ یا سارنگی یا ڈھول ہر طرح کی موسیقی حرام ہے، مگر اس عمومی حرمت میں بچیوں اور عورتوں وغیرہ کے لیے اچھے اشعار اور ترانوں کے ساتھ چند ایک مواقع جیسے شادی عید یا جہاد کے سفر سے واپسی وغیرہ پر ہلکا پھلکا دف بجانا جائز ہے،لیکن اس جواز کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دف والی ہلکی پھلکی موسیقی کو بھی پسند نہیں فرمایا،جیسا کہ اوپر احادیث میں صاف نظر آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچیوں وغیرہ کی خوشی کے لیے اجازت تو دی مگر خود اسکو پسند نہیں کیا*

*لیکن ان خاص صورتوں کے علاوہ عام دنوں میں مردوں، عورتوں کا موسیقی کی محفلیں منعقد کرنا اور گانا گانا یا نعتوں، قوالیوں کے ساتھ ساز اور دف وغیرہ بجانا اور سننا ہرگز جائز نہیں*

اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دین اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین..!!

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں