619

سوال_حجر اسود کی تاریخی اور شرعی شرعی حیثیت بیان کریں؟ کیا طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دینا لازم ہے؟ اور اگر کوئی بوسہ نا دے سکے تو وہ کیا کرے؟ نیز حجر اسود کو بوسہ دینے کی کیا حکمت ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-301”
سوال_حجر اسود کی تاریخی اور شرعی شرعی حیثیت بیان کریں؟ کیا طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دینا لازم ہے؟ اور اگر کوئی بوسہ نا دے سکے تو وہ کیا کرے؟ نیز حجر اسود کو بوسہ دینے کی کیا حکمت ہے؟

Published Date: 28-10-2019

جواب:
الحمد للہ:

*حجر اسود اس پتھر کو کہتے ہیں جو کعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں باہر کی جانب منسوب ہے اور اس کا ارد گرد چاندی سے گھیرا ہوا ہے ، اور یہ طواف کے ابتدا کرنے کی جگہ ہے اور یہ پتھر زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند ہے،اللہ تعالی نے جب حجر اسود جنت سے اتارا تھا تو یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اور پھر اولاد آدم کی خطاؤں اور گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ، اور روز قیامت حجر اسود آئے گا تو اس کی دو آنکھیں ہونگی ان سے دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے بولے گا اورجس نے بھی اسے حق کے ساتھ استلام کیا(چھوا) اس کی گواہی دے گا ، اوراسے چھونا یا اس کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے،چاہے وہ طواف حج کا ہو یا عمرہ کا یا نفلی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجر اسود کا بوسہ لیا تھا اور ان کی اتباع میں امت محمدیہ بھی اس کا بوسہ لیتی ہے ، اگربوسہ نہ لیا جاسکے تواسے ہاتھ یا کسی چيز سے چھوکراسے چوما جائے ، اور اگر اس سے بھی عاجز ہوتو اپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اور اللہ اکبر کہے ، لیکن کسی کو دھکے وغیرہ نا دے اور حجر اسود کوچھونے سے گناہ مٹتے ہیں*

*حجراسود کی اہمیت و فضیلت کے دلائل درج ذیل ہیں*

1 – *حجراسود اللہ تعالی نے زمین پرجنت سے اتارا ہے*

📚ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ
حجراسود جنت میں سے( آیا) ہے،
(سنن نسائی حدیث نمبر_ 2935 )

2 – *حجراسود دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا جسے اولاد آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیا ہے*

📚ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَ هُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ
”حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر_ 877 )
(مسنداحمد حدیث نمبر_ 2792 )
(اورابن خزيمہ نے صحیح ابن خزيمہ ( 4 / 219 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری ( 3 / 462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے،

📒شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مرقاۃ میں کہتے ہیں کہ : یعنی بنی آدم کے چھونےکی بنا پر ان کے گناہوں کے سبب سے سیاہ ہوگیا ، اور ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ اس حدیث کوحقیقت پرمحمول کیا جاۓ ، جبکہ اس میں نہ تو عقل اور نہ ہی نقل مانع ہے ۔
(دیکھیں تحفۃ الاحوذی_3 / 525 )

📒حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اوپرگزری ہوئ حدیث پربعض ملحدین نے اعتراض کرتے ہوۓ کہا ہے کہ مشرکوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کیسے کردیا اورمؤحدین کی اطاعات نے اسے سفید کیوں نہیں کیا ؟
جواب میں وہ کہا جاتا ہے جوابن قتیبہ رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے :
اگراللہ تعالی چاہتا تواس طرح ہوجاتا ، اللہ تعالی نے یہ طریقہ اورعادت بنائی ہے کہ سیاہ رنگ ہوجاتا ہے اور اس کے برعکس نہيں ہوسکتا ۔

📒اور محب الطبری کا کہنا ہے کہ :
سیاہ رنگ میں اہل بصیرت کے لیے عبرت ہے وہ اس طرح کہ اگر گناہ سخت قسم کے پتھر پر اثرانداز ہوکر اسے سیاہ کرسکتے ہیں تودل پران کی اثرہونا زيادہ سخت اورشدید ہوگا ۔
( فتح الباری _3ج /ص 463 )

3 – *حجراسود روز قیامت ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حق کے ساتھ استلام کیا*

📚ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارہ میں فرمایا :
وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ .
اللہ کی قسم اللہ تعالی اسے قیامت کو لاۓ گا تواس کی دو آنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اور زبان ہو گی جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا،
(سنن ترمذي حدیث نمبر_961 )
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر _2944 )
امام ترمذی نے اس حدیث کوحسن کہا ہے اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری ( 3 /462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے،

4 – *حجراسود کا استلام یا بوسہ یا اس کی طرف اشارہ کرنا*

یہ ایسا کام ہے جوطواف کے ابتدا میں ہی کیا جاتا ہے چاہے وہ طوا ف حج میں ہو یا عمرہ میں یا پھر نفلی طواف کیا جارہا ہو ،

📚جابر بن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ : أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اور پھر اس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار میں آرام سے چلے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1218)

5_ *حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ*

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور امت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اسے چومتی ہے،

📚عابس بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ ، فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ،
عمر رضي اللہ تعالی عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے بوسہ دے کر کہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تو نفع دے سکتا اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 1597)
(صحیح مسلم حدیث نمبر _1270)

📚سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ ، فَقَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ ، قَالَ : قُلْتُ : أَرَأَيْتَ إِنْ زُحِمْتُ ، أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ ، قَالَ : اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ،
ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر اسود کے بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کو بوسہ دیتے دیکھا ہے۔“ اس پر اس شخص نے کہا اگر ہجوم ہو جائے اور میں عاجز ہو جاؤں تو کیا کروں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ”اس( اگر مگر) کو یمن میں جا کر رکھو ، میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس کو بوسہ دیتے تھے۔“
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1611)

6 – *اگر اس کا بوسہ نہ لیا جا ‎سکے تو اپنے ہاتھ یا کسی اورچيز سے استلام(چھو کر) کے اسے چوما جاسکتا ہے*

📚نافع رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَبَّلَ يَدَهُ، وَقَالَ : مَا تَرَكْتُهُ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ،
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما نے حجر اسود کا استلام کیا اور پھر اپنے ہاتھ کو چوما ، اور فرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا،
(صحیح مسلم حدیث نمبر1268)

📚ابوطفیل رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَيَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ مَعَهُ، وَيُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ.
میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کر رہےتھے اور حجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر_1275 )
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1879)
المحجن :
اس چھڑی کوکہتے ہیں جو ایک طرف سے ٹیڑھی ہو،

7 – *اگر کوئی استلام یعنی ہاتھ سے چھونے سے بھی عاجز ہو تو اشارہ کرے اور اللہ اکبر کہے*

📚ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ،
طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالبيت عَلَى بَعِيرٍ ، كُلَّمَا أَتَى الرُّكْنَ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ كَانَ عِنْدَهُ وَكَبَّرَ،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر طواف کیا تو جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_1613)

8 – *حجر اسود کو چھونا گناہوں کا کفارہ ہے*

📚عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ
ابن عمر رضی الله عنہما حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا، (یعنی زیادہ ٹائم لگاتے انکو چھونے میں)تو میں نے پوچھا:
ابوعبدالرحمٰن! آپ دونوں رکن پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟
تو انہوں نے کہا: اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
إِنَّ مَسْحَهُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا،
”ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے
(سنن ترمذی حدیث نمبر_ 959 )
(امام ترمذی نے اسے حسن اور امام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے،

9_ *اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہيں کہ وہ حجر اسود کے قریب کسی دوسرے مسلمان کو دھکے مارکر تکلیف پہنچائے*

📚 اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارہ میں فرمایا ہے :
کہ وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے بھی اس کا حقیقی استلام کیا،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-961)

لہٰذا جس نے بھی اس کا استلام کیا وہ کسی کوایذاء نہ دے،

_______&____________

📒سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا حجر اسود کو بوسہ دینے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے برکت حاصل کریں؟

جواب از سعودی فتاویٰ کمیٹی:

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

“طواف کی حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہتے ہوئے بیان فرما دی کہ: ((بیشک بیت اللہ کا طواف ، صفا اور مروہ کی سعی اور جمرات کو کنکریاں مارنا اللہ کا ذکر کرنے کے لئے مقرر کیے گئے ہیں)) تو بیت اللہ کے ارد گرد چکر لگا کر طواف کرنے والا دل سے اللہ کی تعظیم کرتا ہے اور اس طرح وہ بھی اللہ کا ذکر کرنے والا بن جاتا ہے، چنانچہ طواف کرنے والے کا پیدل چلنا، حجر اسود کو بوسہ دینا یا استلام کرنا، رکن یمانی کا استلام ، اور حجر اسود کی جانب اشارہ بھی اللہ کا ذکر ہے؛ کیونکہ یہ بھی اللہ کی عبادت میں شامل ہے، ذکر کا عمومی معنی دیکھا جائے تو اللہ کی تمام تر عبادات اللہ کا ذکر ہیں، چنانچہ زبان سے ادا ہونے والی تکبیر، ذکر اور دعا وغیرہ کے متعلق تو واضح ہے کہ یہ اللہ کا ذکر ہے، جبکہ حجر اسود کو بوسہ دینا بھی عبادت ہے وہ اس طرح کہ انسان اس سیاہ پتھر کو بوسہ صرف اسی لیے دیتا ہے کہ یہ بھی اللہ کی بندگی اور تعظیم ہے، اسی طرح بوسہ دے کر انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع بھی کرتا ہے، جیسے کہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جس وقت انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا: “میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا”
جبکہ کچھ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حجر اسود کو بوسہ دینے کی وجہ حصول برکت ہے، تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے یہ نظریہ باطل ہو گا۔
اور کچھ زندیق قسم کے لوگ یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف بھی ایسے ہی ہے جیسے ولیوں کی قبروں کا طواف کیا جاتا ہے اور یہ بت پرستی میں آتا ہے، تو یہ بات اپنی زندیقیت اور الحاد کی وجہ سے کرتے ہیں؛ کیونکہ اہل ایمان بیت اللہ کا طواف صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے، اور جو کام اللہ کے حکم سے ہو تو وہ کام عبادت ہوتا ہے۔
آپ یہی دیکھ لیں کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا شرک اکبر ہے، لیکن جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کریں تو یہ سجدہ تو آدم کو تھا لیکن عبادت اللہ کی تھی، اس صورت میں سجدہ نہ کرنا کفر تصور ہوا۔
اس لیے بیت اللہ کا طواف جلیل القدر عبادت ہے، یہ حج کا رکن بھی ہے اور حج اسلام کا ایک رکن ہے، یہی وجہ ہے کہ جب مطاف میں زیادہ رش نہ ہو تو طواف کرنے والے کے دل میں خاص لذت اور اللہ کا قرب محسوس ہوتا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ طواف کی شان اور فضیلت بہت اعلی ہے۔ واللہ المستعان” ختم شد

(فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ
“فتاوى العقيدة”ص 28، 29)

___________&_____________

*حجر اسود کے بارے مشہور چند ضعیف روایات*

🚫1_ پہلی روایت کہ حجر اسود آنسو بہانے کی جگہ ہے،

اس کے بارہ میں ایک حدیث ابن ماجہ میں مروی ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، ہم اسے ذیل میں ذکر کرتےہيں :

📒ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ

اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَيْهِ عَلَيْهِ يَبْكِي طَوِيلًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الْتَفَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ يَا عُمَرُ:‏‏‏‏ هَاهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کی جانب رخ کیا اوراپنے ہونٹ مبارک حجراسود پررکھے اوربہت دیرتک روتے رہے ، پھر وہ پیچھے متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ رو رہے ہيں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

اے عمر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) یہاں پرآنسو بہائے جاتے ہیں،
( دیکھیں ابن ماجہ حدیث نمبر-2945 )

🚫سند میں راوی محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے،
اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل میں اسے بہت ہی زيادہ ضعیف قرار دیا ہے ۔ اھـ (دیکھیں: ارواء الغلیل حدیث نمبر ( 1111 )

🚫2_دوسری روائیت:
[عن جابر بن عبدالله:] الحجَرُ الأسوَدُ يمينُ اللَّهِ في الأرضِ يصافحُ بِها عبادَهُ
زمین میں حجر اسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے، وہ اسکے ساتھ اپنے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے،
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الضعيفة223 • منكر •)
( أخرجه الخطيب في «تاريخ بغداد» (٦/٣٢٦)،
(وابن الجوزي في «العلل المتناهية » (٢/ ٨٥) ”

یہ روائیت باطل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، علامہ البانی نے منکر کہا ہے،

📒ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے العلل المتناھیۃ میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہيں ۔
(دیکھیں : العلل المتناھیۃ لابن الجوزی
( 2 / 575 ) اورتلخیص العلل للذھبی صفحہ نمبر ( 191 )

📒اور ابن العربی کہتے ہيں :
یہ حدیث باطل ہے اس کی طرف التفات بھی نہيں کیا جاسکتا،

📒شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ روایت کی گئي ہے جو ثابت ہی نہيں ہوتی ، تواس بنا پراس کے معنی میں غور وخوض کرنے کی کوئي ضرورت ہی نہيں رہتی،
(دیکھیں:مجموع الفتاوی الکبری ( 6 / 397 )

🚫3_ لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ حجراسود پانی پر تیرتا ہے اور آگ سے گرم نہيں ہوتا اور اسکے پاس دعا قبول ہوتی ہے ،
📒سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،
یہ باتیں ایسی اشیاء میں شامل ہیں جن کا سنت نبویہ میں ثبوت نہیں ملتا اور اس کی کوئي اصل نہيں،
(الاسلام سوال جواب/ سوال 45643)

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں