1,388

سوال-منت/نذر میں کیا فرق ہے؟ اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کس صورت میں نذر ماننا جائز ہے اور کس صورت میں ناجائز۔۔؟ کیا منت ماننے سے تقدیر کے فیصلے بدل جاتے ہیں؟ نیز نذر پوری نا کرنے کا کفارہ کیا ہے؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-300″
سوال-منت/نذر میں کیا فرق ہے؟ اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کس صورت میں نذر ماننا جائز ہے اور کس صورت میں ناجائز۔۔؟ کیا منت ماننے سے تقدیر کے فیصلے بدل جاتے ہیں؟ نیز نذر پوری نا کرنے کا کفارہ کیا ہے؟

Published Date: 23-10-2019

جواب :
الحمد للہ:

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ منت اور نذر میں کوئی فرق نہیں،ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، نذر عربی زبان کا لفظ ہے جسے اردو/ پنجابی میں ہم منت بھی کہتے ہیں،

نذر کے لغوی معنی “لازم کرنے”کے ہیں جبکہ شرعی معنی” کسی عاقل ،بالغ اور مختار شخص کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے اوپر کسی کام کو لازم کرنے”کے ہیں۔
نذر عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے لہٰذا غیر اللہ کے لیے نذر ماننا جائز نہیں، جس شخص نے غیر اللہ کے لیے مثلاً: کسی قبر فرشتے نبی ولی کے لیے نذر مانی تو اس نے شرک کی ایسی قسم کا ارتکاب کیا جو دین اسلام سے خارج کرنے والی ہے کیونکہ اس نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے جو لوگ اولیاء صالحین کی قبروں کے نام پر کچھ دینے کی نذر مانتے ہیں شرک اکبر کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ توبہ کریں اور اس کبیرہ گنا سے بچیں اور اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم سے بچ جائیں۔

*نذر کی تعریف*

📚اصفہانى رحمہ اللہ تعالى ” مفردات الفاظ القرآن ” ميں لكھتے ہيں:
نذر يہ ہے كہ: آپ كسى كام كے ہونے كى بنا پر وہ چيز واجب اور لازم كر ليں جو آپ پر واجب نہيں تھى.
فرمان بارى تعالى ہے:
(تم کہنا)يقينا ميں نے اللہ رحمن كے ليے روزے كى نذر مانى ہے(سورہ مريم_ 26 )
(مفردات الفاظ القرآن صفحہ 797 )

لہذٰا نذر يہ ہے كہ مكلف شخص اپنے آپ پر وہ چيز لازم كرلے جو اس پر لازم نہيں تھى، چاہے وہ منجز ہو يا معلق،

كتاب اللہ ميں نذر كو مدح كى مد ميں بھى بيان كيا گيا ہے یعنی نذر ماننے والوں کی تعریف بھی کی گئی یے،

📚اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے مومن بندوں كے متعلق فرمايا ہے:

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ يَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ كَاۡسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوۡرًا‌ۚ‏ ۞عَيۡنًا يَّشۡرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ يُفَجِّرُوۡنَهَا تَفۡجِيۡرًا ۞ يُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَيَخَافُوۡنَ يَوۡمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسۡتَطِيۡرًا‏ ۞
بلا شبہ نيک و صالح لوگ وہ جام پئيں گےجس كى آميزش كافور ہے، جو ايک چشمہ ہے، جس ميں سے اللہ كے بندے نوش كريں گے، اس كى نہريں نكال كر لے جائيں گے ( جدھر چاہيں )، (وہ نیک بندے) جو نذر پورى كرتے ہيں اور اس دن سے ڈرتے ہيں جس كى برائى چاروں طرف پھيل جانے والى ہے ،
(سورہ الدھر آئیت نمبر،5٫6٫7)

تو اللہ سبحانہ و تعالى نے ان نیک بندوں كا روز قيامت كى ہولناكيوں سے ڈرانا اور نذروں كو پورا كرنا ان كى نجات اور كاميابى اور جنت ميں داخلے كا سبب بنايا ہے،

____________&_________

*نذر کی شرعی حیثیت*

جائز نذر كو پورا كرنا واجب ہے،

📚 كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ثُمَّ لۡيَـقۡضُوۡا تَفَثَهُمۡ وَلۡيُوۡفُوۡا نُذُوۡرَهُمۡ وَلۡيَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَيۡتِ الۡعَتِيۡقِ ۞
ترجمہ:
پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا خوب طواف کریں۔
(سورہ الحج آیت نمبر 29)

تفسیر:یعنی حج کے ارکان پورا کرنے کے بعد اگر کسی نے کوئی منت مانی ہو کہ میں طواف میں اتنے چکر اضافی لگاؤں گا یا اتنی قربانیاں کروں گا یا اتنے نفل پڑھوں گا تو وہ اپنی نذر پوری کرے،

📒امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى اس آئیت کی تفسیر میں كہتے ہيں:
يہاں حکم وجوب كے ليے ہے یعنی نذر کو پورا کرنا واجب ہے،

________&_________

*ایک طرف تو یہاں نذر کو پورا کرنا واجب کہا گیا ہے،جب کہ کئی احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نذر ماننے كى كراہت كا بيان بھی ملتا ہے*

جیسا کہ:

📚سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ:
“نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّذْرِ وَقَالَ إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنْ الْبَخِيلِ ”
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر تقدیر کو نہیں بدلتی البتہ اس کے ذریعے سے بخیل شخص سے کچھ مال نکلوایا جاتا ہے،
(صحیح البخاری القدر باب القاء العبد النذر الی القدر حدیث6608)
(صحیح مسلم النذر باب النھی عن النذرو انہ لا یرد شینا حدیث 1639)

📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اللہ تعالیٰ کہتا ہے: )
لَا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ الْقَدَرَ بِشَيْءٍ لَمْ أَكُنْ قَدَّرْتُهُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ يُلْقِيهِ النَّذْرُ الْقَدَرَ قَدَّرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏يُسْتَخْرَجُ مِنَ الْبَخِيلِ، ‏‏‏‏‏‏يُؤْتِي عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُؤْتِي مِنْ قَبْلُ
نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے ( یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6694)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3288)

*اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ قرآن میں ایک طرف تو نذر پورى كرنے کو واجب کہا گیا ہے اور نذر پوری کرنے والوں كى تعريف کی گئی تو پھر اس سے منع كيسے كر ديا گيا؟*

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:
جس نذر كى تعريف اور مدح كى گئى ہے وہ اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ہے، جو كسى چيز کے ساتھ مشروط نہ ہو جسے انسان سستى و كاہلى كو دور کرنے اور اللہ تعالى كى نعمت كا شكر ادا كرنے كے ليے اپنے اوپر محمول كرے،

یعنی اسکا ذاتی مفاد والا کوئی کام نا ہو بس ویسے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے نذر مان لے کہ میں اللہ کی رضا کے لیے اتنے روزے رکھوں گا، اتنے نوافل پڑھوں گا اتنا صدقہ کروں گا، بس مقصد اللہ کی رضا ہو،

*اور شریعت میں جس نذر سے منع كيا گيا ہے اسکے کئی اسباب ہیں*

1- جن ميں سے ايک نذر تو وہ ہے جو بطور معاوضہ ہو يعنى نذر ماننے والا اطاعت و فرمانبردارى كو كسى كام كے حصول يا كسى چيز كے دور ہونے پر مشروط كر دے،
یعنی اس طرح نذر مانے كہ اگر میرا وہ فلاں کام ہو گیا تو میں اتنے نفل پڑھوں گا یا اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا صدقہ کروں گا ،لیکن اگر میرا وہ کام نا ہوا تو پھر میں يہ نیکی نہیں کروں گا،
اور یہ نذر ماننى ممنوع ہے،

2_ہو سکتا ہے ایسی نذر سے منع كرنے ميں حكمت يہ ہو كہ:
كہ جب اس پر وہ كام حتمى اور واجب و لازم ہو جائے گا یعنی اگر اسکا مطلوبہ کام ہو جائے اور اس پر وہ روزے یا نفل واجب ہو جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ نذر ماننے والا شخص نذر کے اس نیکی كے كام كو خود پر بوجھ سمجھ كر مکمل کرے، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے جب معاوضہ پہلے مل جائے تو انسان وہ کام دل سے نہیں کرتا،

3_جب نذر ماننے والے شخص نے اطاعت كرنے كى نذر اس شرط پر مانى كہ اگر اس كا مطلوبہ كام ہو جائے تو وہ يہ اطاعت كرے گا، تو اس طرح يہ اس كے معاوضہ اور بدلہ ہوا جو اس كام كے كرنے والے كى نيت ميں قدح ہے. كيونكہ اگر اس كے مريض كو شفايابى حاصل نہ ہو تو وہ شفايابى پر معلق كردہ صدقہ نہيں كرے گا، اور يہ بخل كى حالت ميں ہے، كيونكہ وہ اپنے مال سے صدقہ و خیرات بغير عوض كے نہيں نكالتا،

4_اسی طرح بعض لوگوں كا جاہلى اعتقاد ہوتا ہے كہ نذر مطلوبہ چيز كے حصول كا باعث بنتى ہے، يا يہ كہ اللہ تعالى نذر كے عوض ميں نذر ماننے والے كا مطلوبہ كام پورا كرديتا ہے.

5_اور بعض لوگوں كا ايک اور جاہلی اعتقاد ہے كہ نذر تقدير كو بدلتى ہے، يا انہيں جلد نفع دينے كا باعث بنتى ہے، اور ان سے نقصان اور تکلیف كو دور كرتى ہے،

*لہٰذا ان خدشات كى بنا پر شریعت نے نذر سے منع كرديا كہ كہيں جہالت کی بنا پر لوگ ايسا ہى اعتقاد نہ ركھنا شروع كرديں، اور اس طرح كے اعتقاد كى خطرناكى پر متنبہ كرنے كے ليے اس سے منع كر ديا گيا تا كہ عقيدہ كى سلامتى رہے*

__________&______________

*اور جب کوئی شخص نذر مان لیتا ہے تو اس پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے، اگر وہ نذر نیکی و بھلائی کی ہے یعنی اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ہو مثلا: نماز، روزہ ، عمرہ، حج، صلہ رحمى، اعتكاف، جہاد، امربالمعروف اور نہى عن المنكر:مثلا كوئى شخص يہ كہے كہ:ميں اللہ كے ليے اتنے روزے ركھوں گا، يا اتنا صدقہ كرونگا، يا يہ كہے كہ: اللہ كے ليے ميرے ذمہ ہے كہ ميں اس برس حج كرونگا، يا ميں مسجد حرام ميں دو ركعت ادا كرونگا، ان نعمتوں كے شكرانہ كے طور پر جو اللہ تعالى نےميرے مريض كو شفايابى دے كر كى ہيں،يا وہ نذر مشروط ہو يعنى اگر اس كا كوئى كام ہو جائے تو وہ فلاں نيك كام كرے گا، مثلا وہ كہے: اگر ميرا غائب شخص آگيا يا اللہ تعالى نے مجھے ميرے دشمن سے محفوظ ركھا تو ميرے ذمہ اتنے روزے يا اتنا صدقہ تو ایسی نذر پوری کرے گا اور اگر نذر پوری نا کر سکے تو نذر توڑنے کا کفارہ ادا کرے گا،لیکن اگر اس نے کسی گناہ کی نذر مانی ہو ہو تو وہ اپنی نذر پوری نہیں کرے گا بلکہ اس کے عوض کفارہ ادا کرے گا*

*نذر کی کچھ اقسام اور انکا حکم*

1۔*نذر مطلق*
مثلاًکوئی شخص کسی کام کانام لیے بغیر کہے۔”میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مانی۔”ایسے شخص پر کفارہ قسم لازم آتا ہے خواہ مشروط ہو یا غیر مشروط ،

📚چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
“كفَّارة النذر إذا لم يُسمِّ كفارة اليمين”
“جب نذر میں کسی کام کا نام نہ لیا جائے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔
(صحیح مسلم النذر باب فی کفارہ النذر حدیث: 1645)
(جامع الترمذی النذور باب فی کفارۃ اذا لم یسم حدیث 1528۔واللفظ لہ۔)

📒امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام مالک اور بہت ساروں نے بلكہ اكثر نے ـ اسے نذر مطلق پر محمول كيا ہے، جيسا كہ كوئى كہے: مجھ پر نذر ہے،
( شرح مسلم للنووى ( 11 / 104 )

_______&___________

2۔ *نذر غضب*
مثلاً کوئی کہے:”اگر میں نے تجھ سے کلام کیا یا مجھے تیرے بارے میں خبر نہ ملی یا اگر فلاں خبر صحیح ثابت ہوئی یا فلاں خبر جھوٹ ثابت ہوئی تو میں حج کروں گا یا غلام لونڈی آزاد کروں گا ۔”اس قسم میں نذر ماننے والے کو اختیار ہےکہ وہ نذر کو پورا کرے یا اس کا کفارہ ادا کرے،

📚چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔
” لا نذر في غضب ، وكفارته كفارة يمين”
“غصے کی حالت میں مانی ہوئی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ۔ اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔
(مسند احمد 4ص/ص433) ضعیف
(ارواء الغلیل 8/211۔حدیث 2587)
(الألباني ضعيف النسائي ٣٨٥٥ • ضعيف)

________&_____

3۔ *نذر مباح*
مثلاً کسی نے نذر مانی کہ وہ ایسا کپڑا پہنے گا یا اپنےفلاں جانور پر سوار ہوگا۔اس قسم میں بھی اسے اختیار ہے چاہے تو نذر پوری کرے اور چاہے تو کفارہ ادا کردے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ نذر مباح ماننے والے پر کفارہ لازم نہیں آتا ،

📚جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو ایک آدمی کو کھڑا دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا:یہ ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں اور سائے میں نہیں آئے گا کسی سے بات نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مروه فليتكلم، وليستظل، وليقعد، وليتم صومه”
“اسے حکم دو کہ بات چیت کرے سائے میں آئے بیٹھ جائے اور روزہ پورا کرے۔”
(صحیح البخاری الا یمان باب النذر فیما لایملک وفی معصیۃ حدیث، 6704)

________&_______

4- *نذر معصیت*
مثلاً ایسی نذر جس میں شریعت اسلامی کے کسی حکم کی مخالفت ہو مثلاً: شراب پینے کی نذر ایام حیض یا یوم نحر(عید والے دن)میں روزہ رکھنے کی نذر۔ اس قسم کی نذر کو پورا کرنا ہر گز جائز نہیں ،
لہذا جب مسلمان شخص كوئى نذر مانے اور اسے يہ علم ہو جائے كہ اس كى نذر صحيح نص جس ميں امر يا نہى ہے كے متصادم ہے تو اسے اس نذر كو پورا كرنے سے باز رہنا چاہيے، اور اس كے بدلے اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا چاہيے

📚حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ،
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ “.
” جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر مانى تو وہ اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور جس نے اللہ كى نافرمانى كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى نہ كرے ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 6696)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3289)

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَمِينَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ
صرف ان چیزوں میں نذر جائز ہے جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہو اور قسم ( قطع رحمی ) ناتا توڑنے کے لیے جائز نہیں ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3273)

📚 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ
” معصيت و نافرمانى كى نذر ميں كوئى وفا نہيں اور نا اس میں جس کا آدمی مالک نہیں،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : النَّذْرُ | بَابٌ : لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ ،حدیث نمبر-1641)

📚زياد بن جبير بيان كرتے ہيں كہ ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ تھا تو ايك شخص نے ان سے سوال كيا كہ ميں نے نذر مانى ہے كہ پورى زندگى ہر منگل يا ہر بدھ كو روزہ ركھوں گا اور يہ دن عيد الاضحى كے دن كے موافق ہو گيا ہے؟
تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: اللہ تعالى نے ہميں نذر پورى كرنے كا حكم ديا ہے، اور عيد والے دن ہميں روزہ ركھنے سے منع كيا گيا ہے، تو اس شخص نے دوبارہ يہى سوال كيا اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے يہى جواب ديا، اس سے زيادہ كچھ نہ كہا
(صحيح بخارى حديث نمبر_6706)

📚اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے زياد بن جبير رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے منى ميں چلتے ہوئے سوال كيا:
ميں نے نذر مانى ہے كہ ہر منگل يا ہر بدھ كو روزہ ركھوں گا، اور يہ دن عيد الاضحى كے موافق آگيا ہے، آپ كيا كہتے ہيں؟
تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا: اللہ تعالى كا حكم ہے كہ نذر پورى كرو، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الاضحى كے دن روزہ ركھنے سے منع فرمايا ہے، يا يہ كہا: ہميں عيد قربان كے دن روزہ ركھنے سے منع كيا گيا ہے.
راوى كہتے ہيں: اس شخص نے خيال كيا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے سنا نہيں، تو اس نے كہا: ميں نے ہر منگل يا بدھ كو روزہ ركھنے كى نذر مانى ہے، اور يہ دن عيد قربان كے موافق آگيا ہے؟
تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: اللہ تعالى كا تو حكم ہے كہ نذر پورى كى جائے، اور ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہے، يا فرمايا ہميں عيد قربان كا روزہ ركھنے سے منع كيا گيا ہے.
راوى كہتے ہيں: اس سے زيادہ كچھ نہيں كہا حتى كہ پہاڑ كے ساتھ ٹيک لگا لى.
(مسند احمد حدیث نمبر-6235)

📒حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس پر اجماع ہو چكا ہے كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن نفلى يا نذر كا روزہ ركھنا جائز نہيں ہے،
_________&______

5۔ *نذر تبرر*
یعنی جائز کام کرنے کی نذر ماننا جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔ مثلاً: نماز، روزے، حج وغیرہ کی نذر ماننا۔ وہ مطلق ہو مثلاً:میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نماز ادا کروں گا یا روزے رکھوں گا۔ یا کسی شرط کے ساتھ ہو مثلاً: کوئی کہے اگر اللہ تعالیٰ نے میرے فلاں مریض کو شفادی تو اتنی رقم اللہ کے راستے میں دوں گا یا اتنی تعداد میں نوافل ادا کروں گا۔ اگر شرط پوری ہو جائے تو نذر کو پورا کرنا لازم ہے،

📚 کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ”
“جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو وہ اس کی اطاعت کرے،
(صحیح البخاری الایمان باب النذرفی الطاعۃ حدیث:6696)

📚اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“يُوفُونَ بِالنَّذْرِ”
“جو نذریں پوری کرتے ہیں۔”
(سورہ الدھر-7)

📚اور فرمان باری تعالیٰ ہے:
“وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ”
“اور وہ اپنی نذریں پوری کریں۔”
(سورہ الحج_ 29)

_________&_______

6- *فقہائے کرام نے نذر کے انعقاد کے لیے ایک شرط یہ بھی عائد کی ہے کہ نذر ماننے والا عاقل بالغ اور مختار ہو*

📚 کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
“رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثلاثة: عن الصَّبِى حَتَّى يَبْلُغَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ”
“تین اشخاص مرفوع القلم ہیں۔سویا ہوا حتی کہ بیدار ہو جائے چھوٹا بچہ حتی کہ بالغ ہو جائے اور مجنون حتی کہ عقل مند ہو جائے۔”
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-2041)

______&_____

7- *اگر کافر شخص نے بھی کسی جائز کام کی نذر مانی ہو تو وہ درست ہو گی لیکن اس کو پورا کرنا تب لازم ہو گا جب وہ مسلمان ہوگا*

📚 سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے عہد جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ بیت اللہ میں ایک رات کے لیے اعتکاف بیٹھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“أَوْفِ بِنَذْرِكَ” “اپنی نذر کو پورا کرو۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2032)

_______&_______

8- *غیر شرعی یا خود کو مشقت میں ڈالنے والی نظر پوری نہیں کی جائے گی بلکہ اسکے عوض بھی قسم کا کفارہ ادا کیا جائے گا*

📚ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحاک نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں“۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3314)

📚ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بہن نے پیدل حج کرنے کے لیے جانے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا ( یعنی اس مشقت کا کوئی ثواب نہ دے گا ) اسے چاہیئے کہ وہ سوار ہو کر حج کرے اور (نذر توڑنے کے بدلے )قسم کا کفارہ دیدے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3295)

______&_____

9- *اور اگر کوئی شخص نذر مان لے اور کسی وجہ سے اپنی نذر کو پورا نا کر سکے تو نذر پوری نا کرنے پر قسم کا کفارہ ادا کرے گا*

اور اگر كسى شخص نے اطاعت كى نذر مانى اور پھر ايسے حالات پيدا ہو گئے جس نے اسے نذر پورى كرنے سے عاجز كر ديا:

مثلا كسى شخص نے نذر مانى كے وہ ايک ماہ كے روزے ركھے گا، يا حج يا عمرہ كرے گا ليكن وہ بيمار ہو گيا اور اس بنا پر روزے نہ ركھ سكا، يا حج اور عمرہ نہ كر سكا، يا اس نے صدقہ كرنے كى نذر مانى ليكن وہ فقر سے دوچار ہو گيا جس كى بنا پر نذر پورى كرنے سے قاصر رہا، تو اس حالت ميں نذر قسم كے كفارہ ميں بدل جائے گى،

📚عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كَفَّارَةُ النَّذْرِ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ “.
”نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : النَّذْرُ | بَابٌ : فِي كَفَّارَةِ النَّذْرِ،حدیث نمبر-1645)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3323)

📚ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں كہ:
مَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَمْ يُسَمِّهِ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا فِي مَعْصِيَةٍ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَا يُطِيقُهُ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا أَطَاقَهُ فَلْيَفِ بِهِ ”
جو شخص غیر نامزد نذر مانے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جو کسی گناہ کی نذر مانے تو اس کا ( بھی ) کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے پوری کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے وہ پوری کر سکتا ہو تو وہ اسے پوری کرے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3322)
(امام ابو داؤد کہتے ہیں وکیع وغیرہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید ( بن ابوہند ) سے ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوفاً روایت کیا ہے)

📚اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب انسان اللہ تعالى كى اطاعت كرنے كى نذر ماننے كا قصد كرے تو اسے وہ نذر پورى كرنا ہو گى، ليكن اگر وہ اللہ تعالى كے ليے مانى نذر كو پورا نہيں كرتا تو اكثر سلف كے ہاں اس پر قسم كا كفارہ ہے،
(ديكھيں: مجموع الفتاوى_33 / 49 )

____________&____________

*نذر پوری نا کرنے میں قسم کا کفارہ دینا پڑے گا جو کہ یہ ہے*

📚اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ
أَوْ كِسْوَتُهُمْ
أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ
فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ }

ترجمہ: قسم (نذر) توڑنے کا کفارہ

1_دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ، اوسط درجے کا، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ،
2_یا ان (دس مسکینوں ) کو کپڑا (لباس پہنانا) دینا ہے،
3_یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے ،
4_اور جو ان کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو ، اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ۔ “
(سورہ المائدہ،آئیت نمبر_89)

__________&______

*مختصر خلاصہ سلسلہ یہ ہے کہ جائز نذر بھی نہیں ماننی چاہیے*

کیونکہ:

(1) یہ نذر کبھی مطلق ہوتی ہے جیسے میں یہ نذر مانتا ہوں کہ روزانہ پچاس رکعت نفل پڑھوں گا یا میں اللہ تعالٰی سے یہ عہد کرتا ہوں کہ ہر ماہ دس دن کا روزہ رکھوں گا ، شرعی طور پر ایسی نذر ماننا پسندیدہ اگرچہ نہیں ہے لیکن اگر نذر مان لٰی گئی تو اس کا پورا کرنا فرض و واجب ہے یہ نذر ناپسندیدہ اس لئے ہے کہ بندے نے اپنے اوپر ایک ایسی چیز کو واجب کرلیا جو اس پر شرعی طور پر واجب نہیں تھی اور بہت ممکن ہے کہ اس کی ادائیگی سے عاجز آجائے ،

(2) نذر کی ایک صورت یہ ہے کہ کبھی کسی سبب کے ساتھ معلق کی جاتی ہے ، جیسے اگر میرا بچہ شفایاب ہوگیا تو اللہ کے لئے ایک بکرہ ذبح کروں گا ، یہ نذر پہلی صورت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا : ” نذر نہ مانو اس لئے کہ نذر تقدیر سے کسی چیز کو دور نہیں کرتی ، سوا اسکے کہ نذر کی وجہ سے بخیل کچھ مال خرچ کردیتا ہے ” ۔ {بخاری ومسلم }

یعنی گویا یہ شخص اللہ کی راہ میں اسی وقت خرچ کرے گا جب اس کا کسی قسم کا فائدہ ہوگا اوراگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو اللہ تعالی کے راستے پر خرچ نہ کرے گا ، البتہ اس کا بھی پورا کرنا ضروری اور واجب ہے ۔

(3) نذر کی ایک صورت وہ ہوتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی نذر مانتا ہے ، جیسے کوئی یہ کہے :میرا یہ کام ہوجائے تو فلاں مزار پر چراغ جلاوں گا یا چادر چڑھاؤں گا ، یا کسی سے ناراض ہوکر اس سے بات نہ کرنے کی نذر مان لے ، اس نذر کا حکم یہ ہے اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس نذر کا پورا کرنا کفر وشرک تک پہنچا دیتا ہے ، البتہ اس نذر کو توڑنے کی وجہ سے اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ‘‘ کسی گناہ کے کام کی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ ،قسم کا کفارہ ہے ’’{سنن ابو داود ، الترمذی }
یعنی اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام کی نذر مانتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس نذر کو پورا نہ کرے بلکہ اسے توڑ دے اور قسم کا کفارہ ادا کرے ،

(4)ہمارے ہاں ایک یہ بھی رجحان پایا جاتا ہے کہ لوگ جب بیمار ہوتے ہیں، یا کسی مصیبت میں ہوتے ہیں تو نذر مانتے ہیں اس وقت ان کا خیال ہوتا ہے کہ نذر ماننے سے یہ کام ہو جائے گا ، خدا نخواستہ اگر وہ کام پورا ہو گیا تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ نذر ماننے کی وجہ سے ایسا ہواہے، حالانکہ کوئی کام پورا ہونے ، یا کسی کے صحتیاب ہونے یا پریشانی ٹلنے میں نذر کا کوئی دخل نہیں ۔ ہر آفت اور ہر پریشانی اللہ کی طرف سے ہے اور وہی تن تنہا ٹالنے والا ہے،

___________&_________

*اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہمیں نذر نہیں ماننی چاہیے، بلکہ اسکے برعکس اللہ سے دعا کرنی چاہیے، بے شک وہ مالک ہمارے تمام مسائل دعا سے حل کر سکتا ہے۔ یہ نذر ماننے سے کہیں بہتر ہے، اور پھر نذر ماننے کے بعد اکثر لوگ کوتاہی سے کام لیتے ہیں جو کہ بہت ہی بری بات ہے*

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4657)

*اور جو نذر پوری نا کرے اور وعدہ خلافی کرے اللہ کے ساتھ۔۔۔تو اسکے بارے قرآن کا فیصلہ*

📚اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ( 75 )
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیک کاروں میں ہو جائیں گے۔
فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ( 76 )
لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کرکے پھر بیٹھے
فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( 77 )
تو اللہ نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس میں وہ اللہ کے روبرو حاضر ہوں گے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
(سورہ التوبہ آئیت نمبر-75٫76٫77)

اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دین اسکو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین، ثم آمین..!

__________&__________

(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں