1,255

سوال- شیطانی وسوسوں کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا گندے وسوسوں اور خیالوں کا بھی انسان کو گناہ ملتا ہے؟ اور اگر نماز کے دوران گندے خیالات آئیں تو کیا نماز باطل ہو جائے گی؟ نیز دوران نماز اور عام حالات میں ان وسوسوں کے پیدا ہونے کی وجوہات اور ان سے بچنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-295″
سوال- شیطانی وسوسوں کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا گندے وسوسوں اور خیالوں کا بھی انسان کو گناہ ملتا ہے؟ اور اگر نماز کے دوران گندے خیالات آئیں تو کیا نماز باطل ہو جائے گی؟ نیز دوران نماز اور عام حالات میں ان وسوسوں کے پیدا ہونے کی وجوہات اور ان سے بچنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

Published Date: 9-10-2019

جواب:
الحمد للہ:

*موجودہ دورمیں منتشر بیماریوں میں وسوسہ بہت ہی خطرناک بیماری اور بڑی آفت ہے ، وسوسہ برے ‏خیالات ( اور شکوک وشبہات )کا نام ہے جسے شیطان انسان کے دل میں ڈالتا رہتاہے ، یہ وسوسہ کبھی عقیدہ کے ‏متعلق ہوتا ہے مثال کے طور پر یہ خیال آنا کہ کیا اللہ موجود ہے ؟ اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ کبھی عبادات جیسے صلاة ‏اور طہارت میں شک کے طور پر ہوتا ہے ،توکبھی موہوم بیماریوں سے خوف اور ان کے بارے میں فکرمندی کے متعلق ‏ہوتا ہے ، تو کبھی بیوی کے بارے میں ہوتا ہے آیا وہ پاک دامن ہے یا نہیں ؟ مذکورہ سارے شکوک وشبہات، اللہ ‏رب العالمین کے ساتھ بد گمانی کے سوا کچھ نہیں۔بعض کمزور دل انسانوں پر وسوسوں کا اس قدر تسلُّط ہوتا ہے کہ وہ تنگی و بے چینی، حسرت و ندامت اور خوف ‏و دہشت کی وجہ سے خودکشی پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں،*

یہ وسوسے کبھی اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر ہوتے ہیں

📚جیسا کہ ‏ارشاد ربانی ہے
” وَمَنْ أعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہُ مَعِیْشَةً ضَنْکاً ” “اور جو میری یاد سے روگردانی ‏کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی”
( سورہ طہ آئیت نمبر : 124)

تو کبھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے تاکہ اس کے ‏گناہوں کی مغفرت اور برائیوں کا کفارہ ہوجائے ،

📚 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلّم کا ارشاد ہے: “مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ ‏مِنْ نَصَبٍ وَّلَاوَصَبٍ وَّلَاہَمٍّ وَّلَاحُزْنٍ وًَّلَاأذیً وَّلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَةِ یُشَاکُہَا اِلَّا کَفَّرَ اللَّہُ بِہَا مِنْ ‏خَطَایَاہُ ” “مُسلمان کو کوئی تکلیف وپریشانی ، بیماری ، فکرو غم ، اورمصیبت نہیں لاحق ہوتی یہاں تک کہ جو کانٹا اسے ‏چبھتا ہے مگر اللہ ان کے ذریعہ اس کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ”
( صحیح بخاری حدیث نمبر-5642)

لہذا خیالات انسان کا حصہ ہیں،انسان ہونے کے ناطے خیالات آئیں گے ، اور یہ خیالات برے بھی ہوسکتے ہیں ان سے بچنا مشکل بھی ہے ، اس لئے اللہ تعالی نے اس مشکل کو ہم سے معاف کر دیا ہے،

کیونکہ یہ انسانی طاقت سے باہر کی چیز ہے البتہ اپنے خیالات کو اچھا بناسکتے ہیں ۔برے خیالات اصل میں ہمارے برے کردار کا نتیجہ ہیں ،اگر ہم نیک کام کریں گے تو خیالات بھی نیک ہوں گے ۔ تو اچھے خیالات پیدا کرنے کے لئے برائی کو ترک کرنا پڑے گا اور اچھائی کو اپنانا ہوگا،

*اور اللہ تعالی کا ہمارے اوپر کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ مالک ہمارے برے خیالات پر مواخذہ نہیں کرتا جب تک کہ ہم برائی کا ارتکاب نہ کر لیں لیکن اگر خیالات اچھے ہوں ،انہیں عملی جامہ نہ بھی پہناسکیں تو بھی اللہ کی طرف سے اس پہ ہمارے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں*

📚 عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : (( إن اللہ تجاوز عن أمتي ما وسوست بہ صدورھا مالم تعمل بہ أو تتکلم))
(سیدنا) ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر فرمایا ہے جو سینوں میں پیدا ہوتے ہیں ، جب تک لوگ ان پر عمل نہ کریں یا زبانی اظہار نہ کریں۔ (صحیح البخاری: حدیث نمبر-2528)

📒طیبی شارح مشکوٰۃ کے کلام کاخلاصہ یہ ہے کہ وسوسے کی دو قسمیں ہیں:

اول:جو بغیر اختیار کے خودبخود دل میں پیدا ہوجاتا ہے جس میں آدمی کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا ۔ یہ وسوسہ تمام شریعتوں میں قابلِ معافی ہے۔

دوم: اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعتِ محمدیہ میں اس وقت تک قابلِ معافی ہے جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کردے

📚اور ایک دوسری روایت میں حضرت
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
يقول اللهُ : إذا أراد عبدي أن يعمل سيئةً فلا تكتُبوها عليه حتى يعملَها ، فإن عملَها فاكتبوها بمثلِها ، وإن تركها من أجلي فاكتبوها له حسنةً ، وإذا أراد أن يعملَ حسنةً فلم يعملْها فاكتبوها له حسنةً ، فإن عملَها فاكتبوها له بعشرِ أمثالِها إلى سبعمائةِ ضِعفٍ
ترجمہ :
اللہ تعالی (فرشتوں سے ) فرماتا ہے کہ : جب میرا کوئی بندہ برائی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے اس کے خلاف اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس سے سرزد نہ ہوجائے ۔ اگر وہ اس برائی کا ارتکاب کرلے تو اسے ایک ہی( گناہ ) لکھو ۔ اور اگر اس نے اسے میری خاطر چھوڑ دیا تو اس اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو ، اور جب وہ نیکی کرنے کا ارادہ کرے لیکن اسے نہ کر سکے تو اس کے حصے میں ایک نیکی لکھ دو، پھر اگر وہ وہ نیکی کرلے تو اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک لکھو ۔
(صحیح بخاری : حدیث نمبر_7501)

📚اسی طرح ایک اور حدیث میں مذکور ہے ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن أبي أمامة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن صاحب الشمال ليرفع القلم ست ساعات عن العبد المسلم المخطئ ، فإن ندم واستغفر الله منها ألقاها ، وإلا كتبت واحدة
(رواه الطبراني في المعجم الكبير 8 / 158 ) .
ترجمہ :: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ بائیں طرف والا (فرشتہ )غلطی کرنے والے مسلمان سے چھ گھنٹے تک قلم اٹھائے رکھتا ہے تو اگر وہ اپنے کئے پر نادم ہو اور اللہ تعالی سے استغفار کرے اسے ختم کر دیتا ہے اگر نہ کرے تو ایک گناہ لکھتا ہے ۔
٭ اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع ( 2/212) میں صحیح کہا ہے ۔

*یہ تو خیالات کا معاملہ ہے جو کبھی برائی کے اثر سے دل میں اچھے خیالات پیدا ہوتے ہیں تو کبھی اچھائی کی وجہ سے اچھے خیالات ،اور کبھی یونہی دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی نے ہم سے برے خیالات کو معاف کردیا ہے ۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے اچھے یا برے کوئی خیال پیدا ہوجائے تو ذہن اس طرف مرکوز نہ کریں بلکہ نماز کی طرف ذہن ہو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گاجیساکہ نماز کے دوران نبی ﷺ کے دل میں خیال پیدا ہوگیا تھا*

📚عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا :
صَلَّيْتُ وراءَ النبيِّ صلى الله عليه وسلم بالمدينةِ العصرَ ، فسلَّمَ ثم قام مُسْرِعًا ، فتخطَّى رقابَ الناسِ ، إلى بعضِ حُجَرِ نسائِه ، ففَزِعَ الناسُ مِن سرعتِه ! فخرَجَ عليهم ، فرأى أنهم عَجِبوا مِن سُرْعَتِه ، فقال : ذَكَرْتُ شيئًا مِن تِبْرٍ عندَنا ، فكَرِهْتُ أن يَحْبِسَني ، فأمرتُ بقِسْمَتِه
ترجمہ: میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تیزی کی وجہ سے گھبرا گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا ( تقسیم کرنے سے ) بچ گیا تھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔
(صحيح البخاري: حدیث نمبر_851)

*یہ دھیان رہے کہ شیطانی وسوسے سے نماز باطل نہیں ہوتی ، نماز اپنی جگہ درست ہے ،بھلے جیسے بھی خیالات آتے رہیں، اس لئے اس وسوسے سے پریشان ہوکر نماز چھوڑ دینا بہرصورت غلط ہے کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور اسے قائم کئے بغیر ہم مسلمان نہیں ہوسکتے*

📚سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ صحابہ تشریف لائے اور آپ سے پوچھا:
إنَّا نَجِدُ في أنفُسِنا ما يتعاظَمُ أحدُنا أن يتَكَلَّمَ بِهِ . قالَ: وقَد وجدتُموهُ ؟ قالوا: نعَم، قالَ: ذاكَ صَريحُ الإيمانِ
ترجمہ: ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں محسوس کرتے ہیں جنھیں ہم بیان کرنا بہت بڑا (گناہ یا غلط کام) سمجھتے ہیں۔آپ نے فرمایا: کیا تم نے ایسا محسوس کرلیا ہے ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں!آپ نے فرمایا:
یہ صریح ایمان ہے،
( صحيح مسلم: حدیث نمبر_132)

📒امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےلکھتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (یہی صریح ایمان ہے ) اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ان وسوسوں کی کلام نہ کرنا اور انہیں زبان پر نہ لانا اور اسے برا جاننا یہی صریح ایمان ہے،

بے شک اسے بہت برا سمجھنا اور اس کو زبان پر لانے سے خوف زدہ ہونا چہ جائکہ اس کا اعتقاد رکھنا تو یہ حالت اس کی ہوتی ہے جس کا ایمان کامل اور محقق ہو اور اس سے شکوک و شبہات ختم ہو چکے ہوں،

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ :شیطان وسوسے اسے ڈالتا ہے جس کے گمراہ کرنے سے وہ عاجز آچکا ہو تو اسے وسوسے میں ڈالتا ہے تا کہ وہ اپنے عاجز آنے کا بدلہ چکا سکے اور کافر کو تو جس طرح چاہے اور اس سے کھیلتا پھرے اور اسے وسوسے نہیں ڈالتا کیونکہ وہ جو چاہتا ہے اس کے ساتھ کرتا ہے ۔

اور اس بناء پر حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ وسوسے کا سبب خالص ایمان ہے یا پھر وسوسہ خالص ایمان کی نشانی ہے

*اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ وسوسہ کی وجہ سے نماز درست ہے ، اور ان وسوسوں پر انسان پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دل میں وسوسہ پیدا ہونے کی وجہ سے بے چین ہونا اور اس وسوسہ سے نفرت کرنا ایمان کا حصہ ہے،*

📚اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“بسا اوقات انسان کے دماغ میں وسوسے اور افکار آتے رہتے ہیں، خصوصاً عقیدہ توحید اور ایمان سے متعلق تو کیا مسلمان کا ان افکار پر بھی مواخذہ ہو گا؟”

اس پر انہوں نے جواب دیا کہ:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کیلیے دل میں آنے والے خیالات کو معاف کر دیا ہے، جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے یا انہیں زبان پر نہ لایا جائے) متفق علیہ

اور صحابہ کرام سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے دلوں میں آنے والے وسوسوں کے بارے میں پوچھا ، جن میں سوال میں مذکور امور بھی تھے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہی صریح ایمان ہے) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (لوگ سوالات کرتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا: یہ تو اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ چنانچہ اگر کسی کے دل میں یہ بات آئے تو کہہ دے: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا) متفق علیہ

ایک اور روایت میں کچھ یوں الفاظ ہیں کہ: (اللہ سے پناہ مانگے اور ایسے سوالات کو ذہن سے جھٹک دے) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔” ختم شد
(“تحفة الإخوان بأجوبة مهمة تتعلق بأركان الإسلام ” سوال نمبر: 10)

*چنانچہ شیطان کے وسوسوں کے پیچھے لگ کر عبادت مت ترک کریں کہ ذہن میں حرام امور کے متعلق خیالات آتے ہیں تو اس لیے نماز ہی چھوڑ دی جائے، یہ غلط ہوگا، بلکہ آپ اپنی نماز جاری رکھیں، چاہے آپ کے ذہن میں کسی بھی قسم کا خیال آئے، آپ اپنی نماز جاری رکھیں آپ کو دوبارہ دہرانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم دوران نماز ایسے خیالات کو جھٹکتا رہے، ان شاء اللہ یہ خیالات ختم ہو جائیں گے۔*

__________&___________

*نماز اور عام حالات میں شیطانی وسوسوں کا علاج*

شیطانی وسوسے لوگوں کے لئے بیحد پریشان کن ہیں خاص طور سے نمازی حضرات کے لئے ۔ وضو سے ہی یہ وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ناک میں پانی ڈالا کہ نہیں ، کبھی عدم کلی کا خیال پیدا ہوتا ہے تو کبھی عدم مسح کا۔ اس سے زیادہ مسئلہ نماز کے دوران پیش آتا ہے خاص طور سے سجدہ کے متعلق ایک مرتبہ کیا کہ دو مرتبہ ، سورہ فاتحہ پڑھی کہ نہیں ، تین رکعات ہوئی کہ چار رکعات ۔ اس قسم کے وسوسے کی وجہ سے انسان نماز میں ہی الجھ جاتا ہے ، کچھ لوگ اس الجھن اور نماز میں اکثر گندے خیالات آنے کی وجہ سے نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں ،اسلام نے ہمیں ہرمشکل کا حل بتلایا ہے ۔ اس لئے الجھن کے سبب نماز چھوڑدینا کسی طور پر جائز نہیں ہے

۔ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کی رو سے چند امور پیش کرتا ہوں جو ہمارے لئے ممدومعاون ہوں گے

(1) اگر وضو میں کسی عضو کے دھونے یا نہ دھونے کا خیال آئے تو اس عضو کو دیکھ لیں اگر وہ گیلا ہے تو نہ دھونے کا خیال دل سے نکال دیں ۔ اور کلی ، ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق نہ دھونے کا خیال ہوتو یہ بھی دل سے نکال دیں ۔اگر ناک اور کلی سے متعلق اکثر ایسا خیال آئے تو ایک نصیحت یہ کروں گا کہ جب کلی کریں تو منہ کو تھوڑا حرکت دے کر اور ہلکی آواز کے ساتھ کلی کریں ، اسی طرح ناک میں پانی ڈالتےاور صاف کرتے وقت ہلکی آواز کے ساتھ ناک کریں تاکہ بعد میں بھی آپ کو کلی کرنے اور ناک صاف کرنے کا احساس رہے ، اس طرح یہ وسوسہ ختم ہوجائے گا ۔ ان شاء اللہ

(2) نماز میں وسوسہ پیدا ہوکہ سورہ فاتحہ میں نے پڑھی کہ نہیں تو ایک مرتبہ مزید فاتحہ پڑھ لیں کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ نے فاتحہ نہ پڑھی ہو لیکن اگر ہمیشہ نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کا خیال پیدا ہو تو یہ یقینا شیطان کی طرف سے ہے جو آپ کو نماز سے غافل کردینا چاہتا ہے ۔یہی چیز اور کوئی ذکر یا دعا پڑھنے یا نہ پڑھنے کے متعلق منطبق کرسکتے ہیں،

(3) اگر آپ کے دل میں ایک سجدہ کم کرنے ، یا ایک رکعت کم یا زیادہ کرنے کا خیال آرہاہے تو یہ شک کا معاملہ ہے ۔ یہاں یقین پر اعتماد کرتے ہوئے صرف ایک ہی سجدہ شمار کریں اور ایک سجدہ مزید کریں۔آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو بھی کرلیں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا معاملہ اکثر ہوتا ہے تو ہلکی تیزآواز کے ساتھ تکبیرکہا کریں حتی کہ سجدہ میں جاتے ہوئے بھی تاکہ آپ کو معلوم ہوکہ میں ابھی ایک سجدہ کرلیا ہوں اب دوسرا کرنا ہے ۔

(4) کسی کو اکثر پہلے قعدہ کے متعلق شک ہوجاتا ہے کہ قعدہ کیا کہ نہیں ؟۔ اگر شک ہوجائے تو آخر میں سجدہ سہو کرلے کیونکہ قعدہ اولی واجب ہے اگر چھوٹ جائے تو سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے سے وجوب کی تلافی ہوجائے گی ۔

(5) نماز میں ان ہی مذکورہ چیزوں کا وسوسہ زیادہ تر پیدا ہوتا ہے ۔ اگر یہ وسوسے ہمیشہ آیا کریں ، یعنی ہرنماز میں ہمیشہ اس قسم کا شبہ پیدا ہو تو یقینا یہ شیطان کی طرف سے ہے جو انسان کو نماز سے غافل کردینا چاہتا ہے بلکہ اس طرح نماز سے ہی دور کرنا چاہتا ہے،

_______&_______

*شیطانی وسوسوں سے بچنے کا مسنون طریقہ*

📒پہلا طریقہ:

اکثر لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر انہیں نماز کی لذت نہیں محسوس ہوتی ،اور وہ شیطانی وسوسوں کا شکار رہتے ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نماز میں اللہ کا تصور کرنے کی بجائے ادھر ادھر دھیان رکھتے ہیں جبکہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ اس طرح نماز پڑھیں گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں ، اگر اللہ کو نہیں دیکھ سکتے تو یہ تصور کریں وہ ہمیں دیکھ رہا ہے

📚جیساکہ حدیث جبریل میں مذکور ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ
يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا الْإِحْسَانُ ؟ قَالَ : الْإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ،
اے اللہ کے رسول احسان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ،اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو یہ تصور کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-4777)

احسان کی یہ صفت پیدا کرنے کے لئے اولا ضروری یہ ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے ذکر و دعا کا معنی و مفہوم معلوم ہو،
تا کہ اذکار کو معنوی تصور کے ساتھ اللہ کو ناظر جانتے ہوئے عبادت کریں ۔
اور یہ بھی ضروری ہے کہ عبادت میں اخلاص پیدا کیا جائے اور اخلاص ختم کرنے والے امور سے بچا جائے یعنی عبادت خالص اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ہو اس میں دنیاوی کوئی غرض ومنفعت شامل نہ ہو۔اور پھر عبادت میں خشوع وخضوع پیدا کریں تو ان شاء اللہ ہمیں عبادت کی لذت محسوس ہوگی ، شیطانی وسوسے اور اس کی تدابیر سے بھی بچ سکیں گے ، اور ہماری عبادت اللہ کے یہاں مقبول ہوگی،

📒دوسرا طریقہ
نماز میں وسوسے آئیں تو اللہ کی پناہ طلب کریں اور بائیں جانب تین مرتبہ ہلکاسا تھوکیں،

📚أنَّ عثمانَ بن أبي العاصِ أتى النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ . إنَّ الشيطانَ قد حال بيني وبين صلاتي وقراءَتي . يُلَبِّسُها عليَّ . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ” ذاك شيطانٌ يُقالُ له خَنزَبٌ . فإذا أحسستَه فتعوَّذْ بالله منه . واتفُل على يسارِك ثلاثًا ” فقال : ففعلتُ ذلك فأذْهَبَه اللهُ عني
(صحيح مسلم: حدیث نمبر _2203)
ترجمہ:
عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرے اور میری نماز کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا اور میری قرأت کو مجھ پر خلط ملط کر دیتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ شیطان ہے اسے خنزب کہتے ہیں جب آپ محسوس کریں تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں اور بائیں طرف تین دفعہ تھوکیں تو صحابی کہتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو اللہ تعالی نے یہ وسوسے ختم کر دئے۔

📒تیسرا طریقہ

ایک حدیث میں وسوسے کے وقت آمنت باللہ ورسلہ کہنے کی دلیل ملتی ہے

📚عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ أحدَكم يأتيه الشيطانُ فيقول : من خلقَك ؟ فيقول اللهُ ، فيقول : فمن خلق اللهُ ؟ فإذا وجد أحدُكم ذلك فلْيقْرأْ آمنتُ باللهِ و رُسُلِه ، فإنَّ ذلك يَذهَبُ عنه
( السلسلة الصحيحة:116)
ترجمہ:
تم میں کسی کے پاس شیطان آتا اور اسے کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالی نے تو شیطان کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے تو جب تم میں سے کوئی اس طرح کی بات پائے تو یہ پڑھے ( آمنت باللہ ورسلہ ) میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پس اس سے وسوسہ ختم کر دے گا،

📒چوتھا طریقہ
وسوسوں کے علاج کیلیے مفید ترین ذریعہ یہ بھی ہے کہ جب بھی وسوسہ آئے تو وسوسہ بالکل ختم ہو جانے تک اپنا ذہن کسی اور جانب متوجہ کر دے،

📚ابن حجر مکی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ: کیا وسوسوں کے علاج کیلیے کوئی دوا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
“اس کی ایک بہترین دوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ وسوسے سے ذہن کو مکمل طور پر کسی اور جانب مصروف کر دیں، چاہے دل میں کچھ بھی خیالات آئیں؛ کیونکہ جب انسان وسوسوں کی جانب توجہ نہیں کرتا تو وسوسے کو ذہن میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملتا، بلکہ کچھ ہی دیر میں وسوسہ ہوا ہو جاتا ہے، یہ بہت ہی مجرب نسخہ ہے، بہت سے لوگ اس کو اپنا کر کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص وسوسوں کے پیچھے لگ جائے اور وسوسوں کے مطابق عمل کرنے لگے تو پھر وسوسے تسلسل کے ساتھ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور انسان کو پاگل بنا دیتے ہیں، بلکہ پاگلوں سے برا حشر کر دیتے ہیں، ہم نے وسوسوں میں ملوث بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ وسوسوں کے پیچھے لگے اور ان وسوسوں پر کان دھرے تو وسوسوں نے انہیں شیطان تک پہنچا دیا” ختم شد
“الفتاوى الفقهية الكبرى” (1/149)

📒 پانچواں طریقہ:
وسوسوں کی بیماری میں مبتلا آپ بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ صبح اور شام کے اذکار میں سستی کا شکار ہوتے ہیں، وہ سوتے وقت، گھر سے باہر جاتے اور واپس آتے وقت، کھانے پینے کے اوقات میں شرعی اذکار کا اہتمام نہیں کرتے، اس طرح شیطان ان پر مزید حاوی ہو جاتا ہے، شیطان انسان کو برے خیالات اور تصورات میں جکڑ دیتا ہے، تا کہ انسان زیادہ سے زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو اور تکلیف میں رہے، اس لیے شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے باقی عبادت کے ساتھ ساتھ صبح شام کے اذکار ضرور کریں، جن میں اکثریت ایسی دعاؤں کی ہے کہ انسان اللہ کی پناہ مانگتا ہے شیطان مردود کے شر سے،
لہٰذا بُرے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہر وقت کتاب و سنت پر عمل اور اذکارِ صحیحہ و کلماتِ طیبہ میں مصروف رہنا چاہئے ۔

حدیث میں آتا ہے کہ

📚 قال رسول اللہ ﷺ : یأتی الشیطان أحدکم فیقول: من خلق کذا؟ من خلق کذا؟ حتٰی یقول: من خلق ربٔک؟ فإذا بلغہ فلیستعذ باللہ و لینتہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔“
( صحیح بخاری: حدیث نمبر- 3274)

دلوں میں برے وسوسے ڈالنے والا شیطان ہے،برے خیالات سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ آدمی اعوذ باللہ پڑھے ، استغفار کرے اور دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف طاری کرے۔

📒چھٹا طریقہ
جماعت کے دوران صفوں کو ملانا، کہ صفیں درمیان سے خالی نہ ہوں، بلکہ متصل ہوں،

📚عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (صفیں سیدھی کرو، اپنے کندھوں کو برابر کر لو، خالی جگہ پر کرو، اور اپنے بھائیوں کیلیے نرمی اپناؤ، شیطان کیلیے خالی جگہ مت چھوڑو، صف ملانے والے کو اللہ تعالی ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالی توڑ دیتا ہے۔)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-666)
اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔

جب خالی جگہ چھوڑیں گے ،صف نہیں ملائیں گے تو شیطان صفوں میں داخل ہو کر وسوسے ڈالے گا ،نماز خراب کرے گا ، اور آج اسی وجہ سے لوگ وسوسوں کا شکار بھی زیادہ ہیں کہ صفوں میں مل کر نہیں کھڑے ہوتے،

_______&____________

*نماز میں خیالات اور وسوسے آنے کی وجوہات*

آخر پر ہم اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہیں گے کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم کسی بھی ایسے کام سے باز رہیں جن کی وجہ سے نماز یا عام حالات میں برے خیالات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: بعض لوگ حیا باختہ فلمیں دیکھتے ہیں، یا تصویریں دیکھتے ہیں جو ذہن میں رچ بس جاتی ہیں اور پھر اپنا کام دکھاتی ہیں۔اگر آپ ایسی کسی چیز میں مبتلا ہیں ، اور آپ انہیں ناپسند بھی کرتے ہیں، تو اس سے اپنا پیچھا چھڑائیں، یا اگر عورت کے دل میں تھوڑ ی بہت خاوند کی ضرورت اور رغبت ہو یا خاوند کو اپنی بیوی کی رغبت ہو، یا کسی بھوکے کو کھانے کی حاجت ہو تو اسے چاہیے کہ اگر نماز کا وقت ادا کرنے میں ابھی فرصت ہے تو پھر پہلے اپنی ضرورت پوری کر لیں، اور بعد میں نماز ادا کریں،

جیسا کہ نبی کریمﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
📚«إِذَا قُدِّمَ العَشَاءُ، فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلاَةَ المَغْرِبِ، وَلاَ تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ»
(صحيح البخاري الاذان باب اذا حضر الطعام واقيمت الصلاةحديث 672)
(وصحيح مسلم المساجد باب كراهية الصلاة بحضرة الطعام… الخ حديث 557)
ترجمہ:
’’جب شام كاكھانا سامنے رکھ دیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھاؤ اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے عجلت نہ کرو۔‘‘

یعنی جب شام کا کھانا تیار ہو، انسان کو کھانے کی طلب بھی ہو تو وہ نماز کے لیے جانے سے پہلے کھانا کھا لے کیونکہ جب نماز سے پہلے کھانا تیار ہو جائے تو انسان کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگی جس کی وجہ سے نماز میں کمی واقع ہوگی،

📚 لہٰذا نبیﷺ نے فرمایا:
«لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ»
(صحیح مسلم المساجد باب کراهة الصلاة بحضرة الطعام..الخ حديث 560)
ترجمہ:
’’کھانے کی موجودگی میں نماز نہیں ہوتی اورنہ اس وقت جب اسے بول براز کا تقاضا ہو‘‘
یعنی جب انسان کو کھانے یا پیشاب وغیرہ کی حاجت ہو گی تو وہ نماز میں اسی کے بارے سوچتا رہے گا، لہذا نماز کے وقت سے پہلے اپنے معاملات سے فارغ ہو جائے،

📚 وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ :
مِنْ فِقْهِ الْمَرْءِ إِقْبَالُهُ عَلَى حَاجَتِهِ حَتَّى يُقْبِلَ عَلَى صَلَاتِهِ وَقَلْبُهُ فَارِغٌ.
چنانچہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
“انسان کی دانشمندی کی علامت ہے کہ اپنی ضروریات پوری کرے تا کہ نماز میں دھیان اچھی طرح رہے اور دل بھی مکمل طور پر نماز کیلیے فارغ ہو ”
(صحيح البخاري | كِتَابُ الْأَذَانِ | بَابٌ : إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ.)
(اس اثر کو مروزی نے تعظيم قدر الصلاة (134) میں روایت کیا ہے اور امام بخاری نے اسے اپنی صحیح بخاری میں معلق طور پر ذکر کیا ہے)

*ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کیلیے عمل کی توفیق اور راہ راست کے دعا گو ہیں، کہ اللہ ہم سب کو ہدایت کے رستے پر چلائے اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں