590

سوال_ سوشل میڈیا پر ایک روایت گردش کر رہی ہے کہ قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔۔! کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ مکمل تخریج بیان کریں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-270”
سوال_ سوشل میڈیا پر ایک روایت گردش کر رہی ہے کہ قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔۔! کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ مکمل تخریج بیان کریں؟

Published Date 28-7-2019

جواب:
الحمدللہ:

*سوال میں ذکر کردہ حدیث کہ ”قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی قربانی کرنے والے کے گناہوں کی مغفرت ہو جاتی۔۔یہ روایت تین طرح کے طرق سے مروی ہے مگر تینوں کے تینوں طرق ضعیف اور موضوع ہیں،جنکا ضعف بتلائے بغیر آگے پھیلانا یا بیان کرنا گناہ ہے اور یہ گناہ کرنے/ پھیلانے میں عبقری نامی پیج سر فہرست ہے جو اپنی پبلسٹی اور بزنس کے لیے من گھڑت وظائف،اور کمپیوٹرائزڈ عبادات شئیر کرتا رہتا ہے۔۔اللہ انہیں ہدائیت دے آمین*

اوپر ذکر کردہ روایات کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں!!

پہلی روائیت

📚امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فَاطِمَةُ، قُومِي فَاشْهَدِي أُضْحِيَّتَكِ، فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ، وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ عِمْرَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً، فَأَهْلُ ذَاكَ أَنْتُمْ، أَوْلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم کھڑی ہو اور اپنی قربانی (کے جانور) کا مشاہدہ کرو کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے تمہارے گناہ جو تم نے کئے ہیں معاف ہو جائیں گے اور تم یہ کہو ”بیشک میری صلاۃ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے“ عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آپ اور آپکی آل کے لئے خاص ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے.
تخریج:
(معجم الکبیر للطبرانی: ١٨/٢٣٩، )
(معجم الاوسط للطبرانی: ٣/٦٩ (٢٥٠٩)
( الدعاء للطبرانی: ١/١٢٤٤ (٩٤٧)،
( مسند الرویانی: ١/١٣٤ (١٣٨)،
(مستدرک حاکم: ٤/٣٤٨ (٧٦٠٤)،
(سنن الکبریٰ للبیہقی: ١٩/٣٢٦ (١٩١٩١)
( شعب الایمان للبیہقی: ٩/٤٥٢ (٦٩٥٧)
(فضائل الاوقات للبیہقی، صفحہ: ١٠٨ (حدیث: ٢٥٥) (الکامل لابن عدی: ٨/٢٦٧)

*اس حدیث کا مدار ابو حمزة الثُّمالی پر ہے اور وہ سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں منفرد ہیں. ابو حمزة الثُّمالی کا نام ثابت بن ابی صفیہ دینار الثُّمالی ہے جو کہ ضعیف الحدیث ہے*

🚫امام الذهبي (٧٤٨ هـ) المهذب ٨/٣٨٦٩ • میں کہتے ہیں إسناده واهٍ (یعنی اسکی سند بہت زیادہ کمزور ہے،

🚫علامہ الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ٢٠-٤ • میں فرماتے ہیں ،
فيه أبو حمزة الثمالي وهو ضعيف

🚫الذهبي (٧٤٨ هـ)، المهذب ٤/١٩٩٨ • فيه ثابت بن أبي صفية أبو حمزة الثمالي ضعيف جداً، وسعيد عن عمران منقطع و يروى عن عمرو بن قيس عن عطية العوفي أحد الضعفاء – عن أبي سعيد الخدري مرفوعاً نحوه

🚫امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعيف الحديث ليس بشيء

🚫اسی طرح یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ليس بشيء

🚫امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعیف. ومرۃ: متروك

🚫امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بثقة

(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
سؤالات البرقانی للدارقطنی: ٢٠،)
( الضعفاء والمتروکین للنسائی: ٦٩، )
(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: ١/١٥٨) (تہذیب الکمال للمزی: ٤/٣٥٧، )
(تہذیب التہذیب لابن ججر: ١/٢٦٤،)
( میزان الاعتدال للذہبی: ١/٣٦٣)

*اسی طرح ابو حمزة الثُّمالی سے روایت کرنے والے دوسرے راوی نضر بن اسماعیل البجلی بھی ضعیف راوی ہیں*

🚫یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ليس بشيء

🚫نسائی اور ابو زرعہ رحمہما اللہ کہتے ہیں: ليس بالقوى

(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
(میزان الاعتدال للذہبی: ٤/٢٥٥،)
( تہذیب الکمال للمزی: ٢٩/٣٧٢،)
( تہذیب التہذیب لابن حجر: ٤/٢٢١،)
( تقریب التہذیب لابن حجر: ٧١٣٠)

*لہٰذا یہ حدیث ابو حمزة الثُّمالی اور نضر بن اسماعیل البجلی کی وجہ سے ضعیف ہے*

🚫تنبیہ: امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اگرچہ صحیح کہا ہے لیکن یہاں ان سے سہو ہوا ہے. اسی لئے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب کیا ہے، کہتے ہیں:
فيه أبو حمزة الثُّمالي، وهو ضعيف جدا
ترجمہ: اس کی سند میں ابو حمزة الثُّمالی ہے جو کہ سخت ضعیف ہے.

________&&&&_________

*اس حدیث کے دو شواہد بھی ہیں، ان میں سے ایک حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور دوسری علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے لیکن دونوں احادیث سخت ضعیف ہیں بلکہ ان میں سے ایک (یعنی حدیث علی) موضوع ہے جنکی تفصیل آگے آ رہی ہے*

_______&__________

دوسری روایت

📚حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – لِفَاطِمَةَ (عَلَيْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ): قُومِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا يُغْفَرُ لَكِ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبُكَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ خَاصَّةً أَوْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟، قَالَ: بَلْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً
ترجمہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم اپنی قربانی (کے جانور) کے پاس کھڑی ہو جاؤ اور اسکا مشاہدہ کرو (یعنی قربان ہوتے ہوئے دیکھو) کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے. فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہم اہل بیت لئے خاص ہے یا ہمارے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ یہ ہمارے اور عام مسلمانوں کے لئے ہے.

(اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نےمستدرک حاکم: ٤/٣٤٨ (٧٦٠٥) میں) (ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے علل الحدیث: ٤/٤٩٥ میں)
(اور امام عقیلی رحمہ اللہ نےالضعفاء الکبیر: ٢/٣٧ میں) «داود بن عبد الحميد عن عمرو بن قيس الملائي عن عطية عن أبي سعيد الخدري رضي اللّه عنه» کے طریق سے نقل کیا ہے

🚫اس سند میں دو علتیں ہیں:

1_ عطیہ یہ ابن سعد الکوفی ہے اور یہ ضعیف راوی ہے.
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
(تہذیب الکمال للمزی: ٢٠/١٤٥،)
( سیر اعلام النبلاء للذہبی: ٥/٣٢٥،)
( میزان الاعتدال للذہبی: ٣/٧٩،)
( تہذیب التہذیب لابن حجر: ٣/١١٤)

2_ داؤد بن عبدالحمید.
ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حديثه يدل على ضعفه

🚫عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روى عن عمرو بن قيس الملائي أحاديث لا يتابع عليها، منها: عن الملائي عن عطيةعن أبي سعيد يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الضعيفة ٦٨٢٨ • ضعيف

🚫ابن الملقن (٧٥٠ هـ)، البدر المنير ٩/٣١٣ • ضعيف

(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
میزان الاعتدال للذہبی: ٢/١١،)
( المغنی فی الضعفاء للذہبی: ١/٣١٩، )
(لسان المیزان لابن حجر: ٣/٤٠٣)

🚫امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے والد محترم ابو حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حدیث منکر ہے.
(علل الحدیث لابن ابی حاتم: ٤/٤٩٥)

*لہٰذا یہ حدیث اس سند سے سخت ضعیف ہے*

______&_______

تیسری روایت

📚حدیث علی رضی اللہ عنہ:
[عن علي بن أبي طالب:] يا فاطِمةَ ! قُومِي فاشْهَدِي أُضْحِيَتَكِ؛ فإِنَّ لكِ بِأوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ من دَمِها مَغفِرةً لِكُلِّ ذَنْبٍ، أما إِنَّه يُجاءُ بِدَمِها ولِحْمِها فيُوضَعُ في مِيزانِكَ سَبعِينَ ضِعفًا فقال أبو سَعيدٍ: يا رسولَ اللهِ ! هذا لِآلِ مُحمدٍ خاصَّةً؛ فإِنَّهمْ أهْلٌ لِما خُصُّوا به من الخَيرِ، أو لِآلِ مُحمدٍ ولِلمُسلِمينَ عامَّةً؟
قال: لِآلِ مُحمدٍ خاصَّةً، ولِلمسلِمينَ عامَّةً
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا اے فاطمہ تو اپنی قربانی کے پاس حاضر رہ، بے شک اسکے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، بے شک وہ لایا جائے گا(قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ اور رکھا جائے گا تمہارے میزان میں ستر گنا (بڑھا کر)ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آل محمد کے لیے خاص ہے بے شک وہ اسکے اہل ہیں جو انکو خصوصیت ملی ہے خیر کے ساتھ،
یا یہ آل محمد اور عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ آل محمد کا خاصہ بھی ہے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے،

(اس کو عبد بن حمید نے اپنی مسند (المنتخب): ١/١١٩ ٧٨) میں) ( امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن الکبریٰ: ١٩/٣٢٦ (١٩١٩٠) میں( اور امام ابو قاسم اصبہانی رحمہ اللہ نے الترغیب والترھیب: ١/٢٤١ (٣٥٥) میں «سعيد بن زيد أخي حماد بن زيد عن عمرو بن خالد عن محمد بن علي عن آبائه عن علي رضي اللّه عنه»کے طریق سے مرفوعا بیان کیا ہے)

🚫یہ حدیث اس سند سے موضوع ہے.کیونکہ اس میں ایک راوی عمرو بن خالد (ابو خالد القرشی) ہے. اس پر سخت جرح کی گی ہے. کئی محدثین نے اسے کذاب کہا ہے.
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
(تہذیب التہذیب لابن حجر: ٣/٢٦٧، )
(تہذیب الکمال للمزی: ٢١/٦٠٣)

🚫امام الذهبي (٧٤٨ هـ) المهذب ٨/٣٨٦٨ •
میں فرماتے ہیں، کہ
فيه عمرو كذاب ( اس میں عمرو کذاب راوی ہے

🚫علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو منکر کہا ہے.
(ضعیف الترغیب: ٦٧٤)

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)،
(السلسلة الضعيفة ٦٨٢٩ • موضوع )

*لہذا قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے مغفرت والی تینوں روایات ہی صحیح سند سے ثابت نہیں*

(مآخذ محدث فورم / تحقیق و تخریج از عمر اثری )

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📚سوشل میڈیا پر احادیث کو بغیر تحقیق کے آگے شئیر کرنا اور علماء کا جھوٹی روایات بیان کرنا شرعی طور پر کیسا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-242))

📚قربانی کے مسائل کے بارے پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں